میں کس جماعت کو ووٹ دوں !

تحریر : غلام نبی کوئٹہ
اگر آپ ووٹ دینے کے لیے کسی کنفیوژن کا شکار ہیں۔ آپ اس تذبذب میں مبتلا ہیں کہ کس جماعت کا انتخاب کیا جائے۔ کونسی پارٹی کرپشن سے پاک ہے۔ کونسی جماعت ملکی نظریے کی حفاظت بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ کس جماعت میں غریبوں کے لیے زیادہ سپیس ہے۔ اور آپ اس پریشانی کا حال چاہتے ہیں۔ تو اس تحریر کو بغور پڑھیں۔ شاید آپ کی مشکل آسان ہو جائے۔ آپ کا مائنڈ کلیئر ہو جائے۔ موجودہ الیکشن میں چار بڑی جماعتیں آمنے سامنے ہیں۔ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل۔ ان چار جماعتوں میں سے کسی جماعت نے مستقبل قریب میں ملکی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ اگلی سطریں ان چار جماعتوں کے گرد ہی گھومیں گی۔اب آپ ایک چھوٹی سی ریسرچ پڑھیں۔ ملک کے امیر ترین سیاسی اشرافیہ کا تعلق یا تو پیپلز پارٹی سے ہو گا یا نون لیگ سے اور یا تحریک انصاف سے۔ سب سے زیادہ غریب، نچلے طبقے اور مڈل کلاس کے لیڈر آپ کو مجلس عمل میں ملیں گے۔ اس دعوی کو جھٹلانا انتہائی مشکل ہے اور اس کی تصدیق کوئی بھی شخص بآسانی کر سکتا ہے۔ آپ صرف الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے گوشوارے دیکھ لیں۔ ہر جماعت کے دس مرکزی عہدیداروں کے اثاثہ جات کی چھان پھٹک کریں۔ آپ کو دس منٹ کے اندر اندر معلوم ہو جائے گا کہ ایلیٹ کلاس، زمیندار اور جاگیردا ر وغیرہ پیپلز پارٹی، نون لیگ اور تحریک انصاف میں ہوں گے جبکہ ایم ایم اے کے مرکزی قائدین کے اثاثہ جات ملا کر بھی چند کروڈ نہیں بنتے۔ ایک عام پاکستانی بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ میں ووٹ غریب پرور لوگوں کو دوں یا پھر غریبوں کا خون چوسنے والی اشرافیہ کو۔ آپ اخلاقی اور مالی کرپشن میں ملوث افراد کا ایک چارٹ بنائیں۔ ان افراد کا جن کے سکینڈلز میڈیا پر آئے روز آتے رہتے ہیں۔ یا پھر جن کے کیسز ماضی میں عدالتوں میں رہے یا اس وقت تک چل رہے ہیں۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرانگی نہیں ہونی چاہئے کہ ایسے افراد کا تعلق بھی ان تین جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون یا پھر تحریک انصاف سے ہی ہو گا۔ہاں یہ اضافہ کرتا چلوں کہ اخلاقی گرواہٹ اور بد عنوانی میں تحریک انصاف کا نمبر آپ کو سب سے اوپر ملے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم ایم اے کے لیڈرز کا نام اس فہرست سے بھی آوٹ نظر آئے گا۔ اس بات کی تصدیق کے لیے بھی کسی لمبے چوڑے حساب کتاب کی ضرورت نہیں۔ بس سمپل این آر او اور پاناما میں موجود افراد کا نام چیک کر لیں۔ آپ کو متحدہ مجلس عمل کے ایک آدمی کا نام بھی ان لسٹوں میں نظر نہیں آئے گا۔ اب اس حقیقت کا انکار کون ذی شعور کر سکتا ہے۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ووٹ کا حق صرف ایک ایم اے کا بنتا ہے۔ اب آتے ہیں سیاسی سمجھ بوجھ، بالغ نظری، سنجیدگی کی طرف۔ اس نقطہ کے لیے ہم چاروں جماعتوں کے قائدین کا موازنہ کرتے ہیں۔ اس کے لیے چار مسائل کوسلیکٹ کرتے ہیں۔کشمیر ایشو، خارجہ پالیسی، ہمسایوں کے ساتھ تعلقات اور فاٹا ایشو۔ آپ یو ٹیوب کھولیں۔ عمران خان، آصف علی زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے تین تین انٹرویوز ان ایشوز پر سنیں۔ اور پھر خود فیصلہ کریں کہ سب سے زیادہ زیرک، بلند سوچ، اعلی دلائل کس لیڈر کے پاس ہیں۔ کون ان مسائل کو اچھا طریقے سے سمجھتا اور سلجھا سکتا ہے؟ آپ کو بڑا تعجب ہو گا کہ ان چاروں لیڈرزمیں جو ملکی مسائل کو سب سے بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے اور ان کا حل پیش کر سکتا ہے وہ مولانا فضل الرحمٰن ہو گا۔ شرط یہ ہے کہ آپ نے غیر جاندار ہو کر ان حضرات کو سنا ہو تب تو آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے۔ ان میں بعض قائدین تو مولانا کے شاگرد نظر آئیں گے۔ اب جب ایک جماعت کے پاس اتنے بڑے قد کاٹھ کا لیڈر ہو تو ووٹ اس جماعت کا حق نہیں بنتا کیا؟آخر میں آتے ہیں مقصود اصلی کی طرف۔یعنی نظریہ پاکستان کی طرف۔پاکستان کا حقیقی مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ ہمارا آئین ہمیں اسلامی قانون سازی کا پابند کرتا ہے۔لیکن افسوس پچھتر سالوں سے اس ملک میں اسلام کو مذاق بنایا گیا اب کونسی جماعت پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے بڑا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کا مینیفسٹو پڑھ لیں۔ بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہو جائے گی۔ سوائے ایم ایم اے کے باقی تین جماعتوں کے منشور میں اسلامی قانون سازی کا ذکر بھی مشکل سے ملے گا یا جزوی طور پر ہو گا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی تو تین تین مرتبہ حکومتیں کر چکی ہیں۔ اسلام اور اسلامی پاکستان کے لیے انہوں نے ایک فیصد بھی کام نہیں کیا۔ رہ گئی پی ٹی آئی، تو پی ٹی آئی کی ساخت اور قیادت خو دیکھ کر ایک قاری یہ اندازہ بخوبی لگا سکتا ہے کہ ان کا اسلام سے کتنا رسمی سا تعلق ہے۔۔۔ ایسی جماعتیں اسلام کے لیے نہیں بلکہ اسلام مخالف کام کرنے میں بڑی چابک دستی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ یہ تجربات سے ثابت شدہ بات ہے
۔۔۔ خلاصہ کلام ۔۔۔ ووٹ کی حق دار جماعت
صرف ایم ایم اے ہے ۔۔۔ اب مرضی عوام کی

Facebook Comments