تحریر : فواد خان
NA-8قومی اسمبلی کا وہ حلقہ جو پورے پاکستان میں انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اور ہرالیکشن میں اس حلقے کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی ہے۔ہر الیکشن میں اس حلقہ پرہر نیا امیداوار اپنی قسمت آزماتا ہے۔اور پورے پاکستان میں توجہ کا مرکز بنتا ہے۔مثال کے طور پرسیف اللہ برادران وغیر۔ہ اس حلقے کے سینے میں اتنی وسعت ہے کہ ہر کسی کو سمانے میں حرج محسوس نہیں کرتا ۔لیکن اس حلقے کے باسی جوکہ فکری اور نظریاتی طور اسلام پسند اور دین دوست ہیں۔جسمیں تقریبا رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 233458 ہے۔یہ حلقہ چونکہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے تو تھوڑی سی اسکی تاریخی پس منظر بھی پیش کرتا چلوں۔1997 تک چونکہ یہ حلقہ NA26 کہلاتا تھا جس میں دیر لوئر بھی شامل تھا ۔1988میں اس سیٹ پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد حنیف خان نے کامیابی حاصل کی تھی اور دوسری پوزیشن پر عوامی نیشنل پارٹی کے عبدالرحمن آئے تھے۔1993میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار احمدحسن خان نے کامیابی حاصل کی تھی اور دوسرے پوزیشن پہ جماعت اسلامی کے امیدوار مولنا گوہر رحمٰن آئے تھے۔1997میں یہ سیٹ الحاج محمد خان پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی اورپاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ھمایون خان نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔2002میں مولنا عنایت الرحمن صاحب متحدہ مجلس عمل سے یہ سیٹ 37000 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔لعل خان پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نے
دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔2008میں لعل خان پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار 34472 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔اور قومی وطن پارٹی کے امیدوار نثار خان دوسرے پوزیشن پہ آئے تھے ۔2013کے عام انتخابات میں جنید اکبر خان امیدوار پاکستان تحریک انصاف 51268ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔او جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار جناب حافظ سعید صاحب نے 22249ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ حلقہ اکثر انتہائی اہمیت کا حامل رہ چکا ہے اس بار 2018 میں اس نے اسوقت اہمیت حاصل کی جب متحدہ مجلس عمل خیبرپختونخواکے صدر مولانا گل نصیب خان صاحب بطور امیدوار اس میدان میں کود پڑے اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہوئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام نے اس حلقہ سے کاعذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔جس سے اس حلقے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ۔الحمداللہ بلدیاتی انتخابات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے اوردوسرے سابقہ ممبر قومی اسمبلی کی ناقص کارکردگی اور جیسے اس سیٹ کی یہ روایت رہی ہے کہ سیٹ کو ہمیشہ دوسری پوزیشن والا ہی جیتا ہےتواس بار یہ سیٹ
مولانا گل نصیب خان صاحب کی شکل میں متحدہ مجلس عمل کو ہی ملے گی۔( ان شاءاللہ)

مالاکنڈ کے قومی حلقہ میں بھی سیاسی دنگل سجنے کو تیار
Facebook Comments