تحریر : خالد شریف
میڈیا میں مختلف نادہندہ سیاستدانوں کی ایک فہرست گردش میں ہے جس میں بہت سارے ناموں کے ساتھ مولانا صاحب کا نام بھی شامل ہے.خبر پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ مولانا صاحب نے سوئی نادرن کے کروڑوں اربوں روپے کے نادہندہ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے جے یو آئی پشاور سیکٹریٹ کے سوئی گیس کے دس ہزار بقایا جات ہیں جسکی ادائیگی کی آخری تاریخ 14جون ہے اور بغیر جرمانہ کے بل ادا کیا گیا ہے…..مولانا صاحب کے بارے ایسے سیکنڈ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں لیکن ان سکینڈلز سے کبھی مرا چوہا بھی نہیں نکلا بس حسد، بغض اور سطحیت کی ایک بھڑاس ہوتی ہے جو ایسے سیکنڈلز کا باعث بنتی ہے پچھلے دنوں ہمارے انصاف (تحریک انصاف) کے سب سے بڑے منصب پر فائز چیف جسٹس صاحب نے بھی ایک ایسا ہی نوٹس مولانا صاحب کو جاری کیا تھا کہ مولانا صاحب نے سرکاری منصب ختم ہونے کے بعد پروٹوکول اپنے پاس رکھا ہے جبکہ وہ پروٹوکول نہیں سیکورٹی تھی جو نوٹس دینے سے ایک روز قبل ہی واپس کردی گئی تھی لیکن پھر بھی چیف صاحب نے ضرورت سے زیادہ کمنٹس دے کر اپنی ذہنیت آشکارا کی جس کا بھر پور جواب مولانا صاحب دے چکے اور بھر پور جواب دیاجب اعلی عدلیہ کے چیف صاحب کے نوٹسز اور تحقیقات اتنی کمزور بنیادوں پر ہوگی تو ایک رپورٹر اور کسی سرکاری ادارے کے کلرک سے کیا گلہ کیا جاسکتا ہے…. ویسے مولانا صاحب کے طرز سیاست کو دیکھیں تو ایسے کمزور سیکنڈلز بنانے والوں کی مایوسی اور شکست پر افسوس ہوتا ہے زیادہ دور نہیں جاتے حالیہ مہینوں میں دو بڑے اور اہم واقعات پر مولانا صاحب نے جو موقف اختیار کیا اس کے بعد ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کا غم و غصہ اور پھر ایسی رپورٹس عوام کے سامنے لانا کوئی انہونی نہیں ایک واقعہ تو فاٹا انضمام کا ہے جب اداروں نے ڈنڈے کے زور پر تمام سیاسی جماعتوں کو انضمام کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا لیکن جے یو آئی نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی اور جو موقف اختیار کیا اس سے انضمام کے نقصانات اور کمزور فیصلے کو قوم کے سامنے واضح ہوتے جارہے ہیں ظاہر اپنے کو طاقتور سمجھنے والوں کے لئے جے یو آئی کا یہ موقف کبھی ہضم نہیں ہوگا اور جب ہاضمہ خراب ہو تو ایسی بدبودار سیکنڈلز سامنے آتے رہیں گےدوسرا واقعہ چئیرمین سینٹ کے انتخابات کے موقع پر اداروں کے لاڈلے امیدوار کی حمایت تھی اس موقع پر پی پی ایسی جمہوریت کی چمپئن جماعت بھی کمزور فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی لیکن جے یو آئی نے اس موقع پر بھی اداروں کے مخالف صفوں میں کھڑے ہوکر ایسی ہی کردار کشی اور بہتان تراشی کا سامنا کرنے کو ترجیح دیاب چونکہ انتخابات قریب ہیں اسلئے ایسی چیزیں سامنے آتی رہیں گی لیکن جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے مارشل لاء اگر کوئی ایسی کمزوری سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں اور جنرل شاہد عزیز کو پیسوں سے بھرا بریف کیس واپس کیا جا چکا ہے تب اخبار کی رپورٹیں اور یہ چھوٹے چھوٹے الزامات ان اداروں کی اپنے ہی منہ پر تھوکنے کے مترادف ہے اور کسی ادارے، شخص کو اس مکروہ فعل سے روکا بھی کیسے جا سکتا ہےاداروں کے بارے سنا ہے کہ بہت چھان بین کرتے ہیں عادات کو واچ کرتے ہیں طرز زندگی اور کمزوریوں کو دیکھ کر پھر اسی طرح کا رویہ رکھتے ہیں لیکن مولانا صاحب بارے یہ ادارے بالکل ہی غلط ڈگر پر ہیں مولانا صاحب بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اگر تین خود کش حملے انکے قدموں میں لغزش نہیں لا سکے تو کسی اور ہتھکنڈے سے انکو ڈرایا نہیں جاسکتاپھر مولانا صاحب بہت عام سی زندگی گذارتے ہیں جہاں عیش وعشرت بہت دور دور تک نظر نہیں آتی ایسی زندگی گذارنے والا کیونکر اپنی عزت داؤ پر لگائے گااور سب سے اہم یہ کہ اپنے کارکنوں کے بیچ رہنے والا قائد ہے کم سے مولانا صاحب کے کارکن کسی ایسی رپورٹس کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے اسی لئے ہم کارکن علی الاعلان کہتے ہیں کہ ماضی کے ایسے سیکنڈل بھی اور آئندہ کے بھی جوتے کے نوک پر…. تو ان الزامات کی حقیقت بس یہی ہے کہ بدنام کرنے کی سازش کے سوا کچھ نہیں اور حیثیت یہ ہے کہ ہم ان الزامات کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے
……………………………………………
جے یو آئی پشاور سیکرٹریٹ کے بل کا عکس