مینار پاکستان … آپ کا منتظر

تحریر : خالد شریف
سیاسی اور جمہوری جد وجہد کے اس دور میں ووٹ،
 میڈیا ، جلسے ،جلوس اور مظاہرے ہی طاقت اور قوت  کے اظہارکے ذرائع ہیں  اطمینان کی بات مگر  یہ ہے کہ ان ذرائع کوعلامہ شبیر عثمانی، مفکر اسلام مفتی محمود ، مجاہد ملت مولانا غلام غوث ہزاروی ، شیخ الحدیث مولاناعبد الحق ، مولانا عبد اللہ درخواستی ،مولانا محمد یوسف بنوری ، مولانا حسن جان شہید ،مولانا عبدالکریم بیر شریف ، مولانا تاج محمود امروٹی سمیت درجنوں اکابرین استعمال کیا اور سینکڑوں اکابرین کا ان اکابر پر اعتماد رہا .اورسروے ہو تو نفع نقصان میں جمہوری جدوجہد کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں اور نقصانات ہیں بھی تو اس کی بنیادی وجہ افرادی قوت کی کمی ہے کمی نہیں بلکہ افراد کی عدم دلچسپی ہے کیونکہ جمہوریت کے راستے لڑی  جانے والی اس جنگ میں افراد تولے جاتے ہیں موقف نہیں ، موقف وہی مضبوط ٹھہرتا ہے جسے افرادی قوت میسر ہو .. دنیا کے جن جن ممالک میں اسلام پسندوں نے طاقت اور قوت حاصل کی ہے اور جن پر ہم بجا طور پر فخر کرتے ہیں انہیں یہ قوت انکے افراد نے میسر کی ہے وگرنہ موقف اور کردار میں ہماری قیادت کسی طور ان سے کم نہیں .. ہم ترکی کے اردگان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد پر فخر کرتے ہیں دونوں ہی ووٹ کے طاقت سے برسراقتدار آئے اور اپنے مذہب و قوم دونوں کے فائدے کا سبب بنے ، آج کے مدرسے کا مدرس ، مسجد کا امام وخطیب ، مسند حدیث کا شیخ ، مبلغ اور داعی ، میدان جہاد کا شہسوار اردگان اور مہاتیر کے کارہائے نمایاں کا ذکر کرتے ہیں انکی فتح پر تہنیتی پیغامات بھیجتے ہیں ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں لیکن اسی شیخ ، مدرس ، مجاہد ، امام اور داعی کو اسی نہج پر جدوجہد کی دعوت دی جائے تو اسے سیاست ، جمہوریت ، ووٹ ، پارلیمنٹ شجر ممنوعہ نظر آنے لگتا ہے دراں حالیکہ پاکستان کی مذہبی قیادت کا موقف ،کردار اور نہج ترکی اور ملائیشیا کی مذہبی قیادت سے کسی صورت کمتر نہیں بلکہ تہذیب وثقافت کو بھی شامل کیا جائے تو بدرجہا بہتر ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کا مضبوط موقف اور شفاف کردار ہار جاتا ہے یہاں اسلامی تہذیب شکست خوردہ کہلاتی ہے وجہ اور کچھ نہیں صرف اسلام پسندوں کا اس جمہوری و سیاسی نہج بارے تذبذب ہے اور یہ تذبذب کس نے پیدا کیا کیوں پیدا ہوا …. آ جامعہ دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ جب پاکستان بن چکا تو مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کو مدرسہ بنانے کا خیال نہ آیا اسلئے کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اب پاکستان بن چکا ہے اور چونکہ اسلام کے نام پر بنا ہے لہذا حکومت خود ہی مدارس کا انتظام کرے گی اور مقصود چونکہ علوم دینیہ کی اشاعت وتدریج ہے وہ مقصود ان مدارس سے بھی حاصل ہوجائے گا لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا حکومت کی توجہ نہ ہی ہونی تھی اور نہ ہوئی تب جاکر مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے نانکواڑہ میں ایک ، مدرسے کی بنیاد رکھی جو آج جامعہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم ہے …
دوسری مثال لیتے ہیں اور اتفاق سے اس مثال کا تعلق بھی مادر علمی دارالعلوم کراچی سے ہے …معیشت جس کا تعلق موجودہ دور میں بنک سے ہے اور ان تمام بنکوں کی بنیاد سودی نظام پر ہے ایک مسلمان کے لئے ان بنکوں سے لین دین باوجود ضرورت کے دل پر  بوجھ ہوتا تھا اور حکومت تمام تروسائل کے باوجود سودی نظام سے پاک بینکنگ نظام لانے کے لئے کسی طور آمادہ نہیں تھی   لیکن شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور سودی نظام کے متبادل اسلامی اصول تجارت پر مبنی  غیر سودی بنکوں کی قیام کی کوششیں شروع کردی اور الحمد للہ کامیابی کی طرف قدم بڑھنے لگے
سوال یہ ہے کہ اگر ان دینی مدارس کے قیام کی ضرورت بھی ریاست اور حکومت نے محسوس نہیں، غیر سودی بنکوں کے قیام کی ضرورت بھی بنکوں نے محسوس نہیں  کی تو اسلامی قوانین اور احکامات ، اسلامی تہذیب کے تحفظ کی ضرورت کیونکر ریاست محسوس کرے گی …
الحمد للہ ہمارے بڑوں بزرگوں نے اس ضرورت کو بھی محسوس کیا ، بروقت کیا اور طویل عرصہ گذرنے کے باوجود موقف اور کردار پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا لیکن یہ مضبوط موقف اور شفاف کردار فتح حاصل نہیں کر رہے ؟وجہ صرف اور صرف افراد کی عدم دلچسپی ہے
… لیکن دلچسپی لینے کے مواقع تاحال میسر ہیں ، جلسے جلوس ہورہےہیں ، الیکشن ہونے ہیں اسلام پسند اپنی قوت  کا اظہار کر سکتے ہیں اور اظہار کرنا ضروری ہے …13 مئی مینار پاکستان تمام دینی قوتوں کے اتحاد کی طاقت وقوت کے اظہار کا دن ہے …یہ صرف ایک جلسہ نہیں ، گفت وشنید کا ایک پلیٹ فارم نہیں بلکہ تہذیبوں کی جنگ میں ترازو کا ایک پلڑا ہے یہ پلڑا اسلامی تہذیب کے ماننے والوں کا ہے اور یہ تب ہی بھاری ہوگا جب ہماری شرکت اس میں جوق در جوق ہوگی …. اس موقع کو گنوانا نہیں ہے اسے ہر حال میں اپنی قوت کے اظہار کا ذریعہ بنانا ہے ..یاد رکھیں 13 مئی …مینار پاکستان آپ کا منتظر ہے

Facebook Comments