تحریر :مفتی محمد عمران اسلام آباد
مملکت پاکستان کا نظام درست ہے یا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
اگر تبدیلی کی ضرورت ہے تو مذیبی طبقات کیسی تبدیلی لائے اس پورے نظام کو اکھاڑنے کے لیے اور خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنے کے لیے اس ایٹمی مسلح فوج اور اداروں کے خلاف ہتھیار اٹھائے؟
اگر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو ایسے میں ملک خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوگا؟
یقینا ہوگا ملک معاشی اور عسکری لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا اور بھارت امریکا وغیرہ کے لیے آسان ہدف بنے گا۔
اب دوسرا راستہ ہے کہ مذہبی قوتیں فقط دعوت پر اکتفاء کریں زمام اقتدار مکمل انہی سیکولر کرپٹ مغرب پرست افراد کو سونپ دیں ایسے میں جب نشرواشاعت کے تمام ذرائع اور اختیارات ان کے ہاتھ میں ہونگے تو مذہبی طبقات کی یہ دعوت کس حد تک مؤثر ہوگی؟
لازما گھر گھر گلی گلی میڈیا کے ذریعے حکومتی سپورٹ میں موج میلہ ناچ گانا ہوگا اور ہم فقط انا للہ اور استغفر اللہ پڑھتے رہیں گے۔
اب تیسرا راستہ ہے کہ مذہبی طبقات جمہوری ٹولز اپنائے اور چوک چوراہوں پر دھرنے دیں تو تواگر اس کے پیچھے کوئی تیسری قوت کارفرما نہ ہو تو اس کے تلخ تجربات بھی قوم کے سامنے ہیں۔
اب چوتھا راستہ یہ بنتا ہے کہ مذہبی طبقات مکمل اتحاد کے ساتھ آگے بڑھیں ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ لیں تعلیمی اداروں میں داخل ہو عسکری اداروں میں شامل ہو اور ملکی آئین کے دائرے میں رہ کر آئینی وقانونی اداروں میں پہنچیں اور ملک کو نظریہ پاکستان پر استوار کریں اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات کی روشنی میں آئینی و قانونی خرابیوں کو درست کریں اور ایک مستحکم وخوشحال اسلامی فلاحی ریاست کو تشکیل دیں۔
اب اس راستے میں بھی کافی دشواریاں ہیں لیکن ہمارے خیال میں ملک کے اندرونی اور بین الاقوامی معروضی حالات کو دیکھا جائے تو منزل تک پہنچنے کا قابل عمل ومؤثر راستہ یہی ہے
متحدہ مجلس عمل ملک میں موجود مختلف مکاتب فکر (اہل حدیث دیوبندی بریلوی، شیعہ ، مودودی) کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ اس اتحاد نے ملک میں تبدیلی کے لیے چوتھے راستے کا انتخاب کیا ہے، مجلس عمل سابقہ تجربات اور نئے پروگرام کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
ملکی ۔۔۔۔۔سطح پر ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ، بنیادی دینی وفنی علوم کی مفت فراہمی، اختصاصی علوم میں مستحق طلباء کے ساتھ تعاون، سائنسی علوم کی تشکیل نو، علاج معالجہ کی بہتر سہولیات، اور شفا خانوں کی تعمیر وتوسیع ملک سے سود کا خاتمہ، اسلامی اصولوں کے موافق طریق اقتصاد کو فروغ، کاشت کاروں کے لیے سہولیات کی فراہمی، نوجوانوں کو مناسب شرح کے ساتھ حتی الوسع روزگار کی فراہمی، اسلامی اصولوں کے موافق سیاسی نظام کی بتدریج تشکیل، کرپشن ، بد عنوانی کے خلاف مہم، ملک میں امن وامان کی بحالی، غیروں کی عطا کردہ جنگ سے گلو خلاصی، ناراض پشتون ، بلوچ اور ویگر طبقات کو ان کے حقوق کی سپردگی۔
اور بین الاقوامی۔۔۔۔ سطح پر دیگر اقوام کے ساتھ برابری کے سطح پر تعلقات سازی، نئے تجارتی معاہدات، عالمی امن کی بحالی کی کاوشیں، مسلم امہ کی ترجمانی اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جدوجہد جیسے منصوبے مجلس عمل کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اخلاص نیت کے ساتھ اس ملک کی تعمیر وترقی اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے متحد ہوجائے ، یہ بات تسلیم ہے کہ متحدہ مجلس عمل میں موجود مذہبی عمائدین وقائدین اور کارکنان انسان ہیں ان سے انسان ہونے کے ناطے بشری کمزوریاں سرزد ہوسکتی ہیں کوئی معصوم نہیں ہے لیکن الحمد للہ دیگر سیاست دانوں کی طرح فکری مغلوبیت اور کرپشن میں ملوث نہیں ہیں ان سے کئی جہتوں سے یہ زیادہ تنفیذ احکام کے مستحق ہیں۔
ہمیں ان کی کمزوریاں تلاش نہیں کرنی چاہیے بلکہ نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کے توافق کو مد نظر رکھ کر ہمیں ان کا دست وبازو بننا چاہیے۔
لہذا متحدہ مجلس عمل میری جماعت نہیں بلکہ ہم سب کی جماعت ہے یہ ہر اس پاکستانی کی جماعت ہے جو اس ملک کو اسلامی اصول کی رہنمائی میں ترقی کے راہ پر ڈالنا چاہتا ہے۔
اب تک ہم صحیح معنوں میں متحد نہیں ہوئے ہیں تو اسی وجہ سے ہم ا س ملک میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکے ہیں ، آئیں کہ اب ملکر اس مشن کو آگے لیکر چلتے ہیں ۔
مایوس بیٹھنا اور فقط حالات پر رونا دھونا مسائل کا حل نہیں۔ آئیں کہ اپنے عمل سے اس ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بناتے ہیں۔
یہ وقت ہے بدلنے کا کہ حالات ہر وقت ایک جیسے نہیں ہوتے، ابھی یہ قافلہ کنونشن سینٹر سے چلا ہے اگلا پڑاؤ 13 مئی کو مینار پاکستان پر ہے سو آپ بھی ان لاکھوں انسانوں کے ساتھ آئیں کہ ہم وہاں پر آپ کا انتظار کریں گے ۔ ہم بنائیں گے مستحکم اسلامی فلاحی پاکستان