پاکستانی عوام کے نام

تحریر : فواد خان
 بچپن میں برصغیر پاک وہند کی جغرافیائی اہمیت بچوں کے دلوں میں بسانے کے لئے  دلیل کے طور پر یہ بات کہی جاتی تھی کہ انگریز اسے  سونے کی چیڑیا سے تعبیر کیا کرتے تھے ۔یہ بات ھم بچپن میں  معاشرتی علوم اور دیگر تاریخی کتابوں میں  پڑھ چکے ھیں
 کہ برصغیر سونے کی چڑیا ھے اور بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق وجہ یہ بیان کی جاتی تھی ک  برصغیر  زمین کا وہ خطہ ھے جہاں  چار  موسم ،پہاڑ ، ندیاں ،سمندراور  دریا ہیں و غیرہ وغیرہ…برصغیر کو   سونے کی چڑیا ثابت کرنے کے لئے یہ وجوہات بھی کافی اہم ہوسکتی ہیں   اور بچوں کے فہم کے مطابق بھی ..لیکن اب جبکہ بچپنہ گذر چکا لڑکپن کو بھی الوداع کہہ چکے اور عملی زندگی میں قدم رکھا اور خالص سیاسی ماحول میں شب وروز گذرنے لگے ، جمعیت علماء کی زیرک قیادت کی خدمت میں حاضری نصیب ہوئی ، مولانا فضل الرحمان صاحب کی تقاریر سننے کا موقع ملا ، اپنے اکابر کے تذکرے اور کارہائے نمایاں سننے کو ملے   تو کچھ کچھ  اندازہ ہونے لگا ہے انگریز نے   برصغیر کو  سونے کی چیڑیا کہہ کر کوئی مبالغہ نہیں کیا   ہاں یہ الگ بات ہے کہ یہ سونے کی چڑیا موسم ، پہاڑوں اور ندیوں نالوں کی وجہ سے بھی ہے لیکن اس سے زیادہ عمل دخل اس میں اس کے جغرافیہ کا بھی ہے …
انگریز  اپنے آپکو عقل مند قوموں میں شمار کرتی ھے۔۔۔اور شائد کسی درجے تک ھو بھی ۔۔۔انہوں نے اس خطے کو ھندوستان اور پاکستان میں ویسے تقسیم نہیں کیا بلکہ   سو سال پہلے سے منصوبہ کرنے والی اس قوم کو معلوم تھا کہ یہ خطہ جغرافیائی ،سیاسی ،معاشی اور دفاعی لحاظ سے کتنی اھمیت کا حامل ھے..اسی لئے سامراجی قوتوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی کہ پاکستان میں حکومت  ھماری مرضی اور خواھش کے مطابق ہو اور انکی یہ خواہش پوری بھی ہوتی رہی ہیں
لیکن اس ملک خدادا میں ایک طبقہ ایسا ھے جس نے اس ملک کے قیام اور ھندوستان کے تقسیم کی مخالفت کی تھی اور اسوقت اسکی سیاسی اور مذھبی تقاضہ بھی یہی تھا کہ اسکی مخالفت کی جائے۔۔۔لیکن جب بر صغیر پاک وہند پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوا اور اسلام کے نام پر پاکستان معرض وجود میں آیا اور بلند بانگ دعوں کے باوجود یہ ملک آئین ودستور سے محروم رہا ، جمہوریت سے محروم رہا تو اسے دستور اور آئین دینے کے لئے ایک طبقہ جد وجہد کرتا رہا اسی طبقے کا ایک سرخیل جس کو اس ملک کی حفاظت اور اسکے جابر سامراجی اور طاغوتی قوتوں کی مخالفت گھوٹی میں پلائی گئی ھے۔۔۔جو ازل سے ان قوتوں کے سازشوں اور مکاریوں کا ذکر ھر خاص و عام مجلس میں کرتا چلا آرھا ھے۔۔۔لیکن مجال ھے کہ ان قوتوں پر کوئی اثر ھو ۔۔۔۔
اور سازش کی نشاندھی بھی ایسی چاھے ملک کے خلاف ھو یا پھر دین و شعائر اللہ کے خلاف وہ سچ ثابت ھوکررھتی ھے۔۔۔۔
اسمبلی میں اپنے چھوٹے حجم کے باوجود بھی دلیل اور منطق ایسی کہ ا سکا توڑ کسی کے پاس  نہیں ھوتا۔اس کے باوجود  ان پر الزامات کے انبار لگائے جاتے ھیں۔۔۔۔
انکو تنگ نظر اور بسم اللہ کے گنبد میں بند تصوکیا جاتا ہے ۔۔
مگر ہماری قیادت نے جہد مسلسل جاری رکھی اور  گذشتہ تیس برس سے مسلسل چیخ رھا ھے کہ آپ لوگ غلط سمت جارھے ہیں ۔آپکی خارجہ پالیسی ٹھیک نہیں۔آپکے ھاں طاقت کا استعمال غلط انداز سے ھورھا ھے۔۔آپکی معاشی بحالی اس انداز سے ٹھیک نہیں ھوگی۔آپکا نظام تعلیم کا انداز محفوظ نہیں۔آپکی صحت کو بہتر بنانے کا طریقہ ٹھیک نہیں۔آپکے خزانے کی تقسیم مساوات پہ مبنی نہیں۔آپکے رویوں  میں انصاف نہیں ۔۔۔۔۔اگر ستر سالوں میں  یہ سیاستدان  اس ملک کو درست سمت لے جانے میں ناکام  رھے ۔۔۔۔
اب عوام کو روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر سوچنا ہوگا روٹی کپڑے کے نعروں کی حقیقت سمجھنا ہوگی … پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتیں آزما چکے ،سرداروں، نوابوں اور خانوں کی طرز حکمرانی دیکھ چکے عوام کو ایک موقع اب ایم ایم اے کو دینا ہو گا ، مذہبی جماعتوں کو آزمانا ہوگا اور انکے پیغام ، منشور اور وژن کو سننا ہوگا وگرنہ غریب غربت کی چکی میں پستا رہے گا  ، مظلوم ظالم کی چنگل سے کبھی آزاد نہ ہوپائے گا اور رہا اسلام …. اس کے ساتھ بےرحمانہ سلوک میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا

Facebook Comments