تحریر :محمد عمران اسلام آباد
پاکستانی عوام کا مزاج فطرتا اسلام دوست اور روایت پسند واقع ہوا ہے ، ملک وملت کے لیے ان کی لا زوال قربانیاں صفحات تاریخ پر ثبت ہیں یہ ان کی اسلام دوستی ہی تھی کہ قطعہ ارضی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے لیے انہوں نے اپنے گھر بار ، کاروبار، دولت اراضیاں سب چھوڑ چھاڑ کر ہجرت کی، اور جب افغانستان پر روس نے حملہ کیا تو بے گھر وبے در قریبا پچاس لاکھ مسلمانوں کو اپنے گھر میں بسایا فلسفہ اخوت پر عمل کرکے انصار کی طرح خدمت کی، کاروبار کے مواقع فراہم کیے۔
جب ترکی میں زلزلہ آیا تو ان کی دل کھول کی امداد کی جب بنگال میں سیلاب آیا تو وہاں امداد کے لیے پہنچے ،جب برما پر ظلم ڈھایا گیا تو ان کی اعانت میں پیش پیش رہیں۔
لیکن بد قسمتی سے اس نیک خصلت مسلمان عوام پر جو طبقہ حکومت کرتے آرہا ہے وہ انتہائی بد دیانت کرپٹ اور مغربی غلامی میں گرفتار ہیں وہ اس ملک پر قابض ہیں، وہ اس ملک کو عوامی امنگوں پر چلنے نہیں دے رہا ہے۔ اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے اور مغربی آقاؤں سے مفادات حاصل کرنے لیے وہ ملک کو ڈی ٹریک کرچکا ہے۔
اگر ان غلام ذہنیت اشرافیہ سے کسی طرح یہ ملک آزاد ہوجائے تو پاکستانی عوام اسلامی اصول کے مطابق اس ریاست کو فلاحی ریاست بنانے میں لمحہ بھر دیر نہیں کرے گی۔
چنانچہ ملک میں جب بھی کرپشن کے خلاف مہم چلائی گئی ہے یا جب بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کا مسئلہ آیا ہے یا اسلامی نظام کی بات کی گئی ہے تو اس کو بھرپور عوامی پزیرائی ملی ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ میڈیا نے ان کو کوریج دینے کے بجائے ہمیشہ گنتے کے چند لبرل اور سیکولر افراد کو اسکرین پر مسلسل بٹھائے رکھا ہےجس کے ذریعے قوم کو مس گائیڈ کرنے کی سعی کی جاتی رہی ۔
دو ہزار ۲۰۰۲میں جب مذہبی طبقات نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے اتحاد قائم کیا تو دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے عالمی جبر کے باوجود عوامی حمایت سے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی ، اور الحمد للہ علی ذلک کہ انہوں نے مثالی حکومت کی تھی لیکن افسوس کہ اداروں نے ان کے خدمات کو دبائے رکھا۔
آج پھر نظریہ پاکستان کے حاملین اٹھے ہیں اور انہوں نے یہ عز م کررکھا ہیں کہ ملک کو نظریہ پاکستان پر استوار کریں گے۔ انہی دینی قوتوں نے سابقہ قابل فخر نام کے ساتھ دوبارہ اتحاد قائم کیا ہے ان کو دیکھ کر عوام میں ایک مرتبہ پھر پہلے سے کئی گنا زیادہ جوش وجذبہ نظر آرہا ہے ۔
اندازہ لگائیں کہ انتہائی شارٹ میسج پر متحدہ مجلس عمل کے قائدین اور ورکرز نے اسلام آباد میں توقع سے بڑھ کر کامیاب پروگرام کا انعقاد کیا اور پروگرام شروع ہوتے ہی کنونشن سینٹر کھچا کھچ بھر گیا تھا، ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ قائدین اور کارکنان کتاب کے نشان تلے جمع ہوگئے تھے ۔
کنونشن سے مولانا نور اللہ ، میاں مقصود احمد، علامہ عارف واحدی، مولانا عبد الغفور حیدری، مولانا راشد سومرو، علامہ ابتسام الہی ظہیر ، جناب لیاقت بلوچ، پیر اعجاز ہاشمی، علامہ ساجد نقوی، پروفیسر ساجد میر، محترم سراج الحق صاحب اور مولانا فضل الرحمن صاحب نے خطاب فرمایا ہر ایک مقرر نے نئے عزم وجذبہ ولولے کا اظہار کیا۔
محترم سراج الحق صاحب نے خطابت کے بے مثال جوہر دکھائے اور بلیغ انداز میں نظریہ پاکستان کو بیان کیا اور ایم ایم اے کے سابقہ کردار اور ملکی سیاست کو موضوع سخن بنایا اور متحدہ مجلس عمل کی پالیسیوں کی طرف اشارہ کیا۔
مولانا فضل الرحمن صاحب نے زیادہ تر ملکی اداروں کو مخاطب کیا، انہوں نے فرمایا کہ تحریک پاکستان نے ابھی تک صرف ایک ہی منزل حاصل کی ہے اور وہ پاکستان کاحصول ہے، افسوس کے ساتھ کہ ملک نے ابھی تک اسلامی تشخص حاصل نہیں کیا ہے، ملک پر مغرب غلام طبقہ بر سر اقتدار ہے، عالمی قوتیں ملک میں مذہبی سوچ کے حاملین کو اقتدار میں آنے کا راستہ نہیں دے رہی ہیں۔ چنانچہ جب میں نے 2002 میں وزیر اعظم کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو جنرل مشرف نے مجھے الیکشن نہ لڑنے کا کہا میں نے کہا کیا روکاوٹ ہے اس نے صاف صاف الفاظ میں کا کہ آپ کو امریکا اور مغرب قبول نہیں کرتا۔ مشرف نے کہا کہ جیسے آپ کہتے ہے کہ ہم غلام ہیں آزاد نہیں تو یہ حقیقت تسلیم کرلیں کہ ہم غلام ہیں میں نے کہا کہ ہمیں اسلام نے ڈٹ جانا سکھایا ہے، ہمیں ہمارے بڑوں نے آزادی کے لیے میدان میں نکلنا سکھایا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے لیے جو گروپ تشکیل دیا گیا ہے ان کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایاکہ ایجنسیوں کی مت مانو ہماری مانو آؤ ہمارے ساتھ تاکہ مل کر ہم اس ملک کے نظریاتی سرحدات کی حفاظت کرے ملک کی سلامتی کے لیے ساتھ چلیں۔
مولانا نے یہ پیغام دیا کہ ہمیں باوجود اہلیت کے آگے نہیں آنے دیا جارہا ہے ، اس پر ماضی شاہد ہے، کہ رشیا جو پاکستان کے خلاف انڈیا کا حامی تھا ، میں نے تین دن تک دلائل کی بنیاد پر پوری رشیا کو پھیر دیا تھا۔
اسی طرح چائنا اپنا اقتصادی پروگرام رکھتا تھا ان کو ایک ہفتے میں قائل کیا کہ آپ کا تجارتی منصوبہ تب مکمل ہوگا جب تجارت پاکستان کے راستے سے ہوگی آج الحمد اللہ ہم اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
آخر میں انہوں نے مسلمانوں کی بین الاقوامی حالات کی طرف حاضرین کی توجہ دلائی ، بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ حاضرین کے سامنے کھل کر بیان کیا۔
مولانا نے کارکنان کو ۱۳ مئی مینار پاکستان کے اجتماع کے لیے تحریک دی اور ملکی میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ ہم بتائیں گے کہ لاکھوں کا اجتماع کیا ہوتا ہے یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔ ان شاء اللہ ۔
مولانا کے بیان کے بعد تمام کارکنان کا حوصلہ ولولہ جذبہ دیدنی تھا، تمام کارکنان نے جس نظم وضبط کا مظاہرہ کیااس پر وہ صد تبریک کے مستحق ہیں۔
میڈیکل کیمپ ، مختلف پوائنٹس پر سبیلیں، مہمانان کے لیے موزون نشستیں، اجتماع کمیٹی کے ذمہ داران محمد کاشف صاحب اور ان کی ٹیم ، استقبالیہ میں زبیر صفدر اور ان کے احباب سیکورٹی میں قاری کرامت ساؤنڈ سسٹم کے ذمہ دار ضیاء احمد، پارکنگ کمیٹی ، اسٹالز کمیٹی ، خواص کمیٹی ، طعام کمیٹی ، میڈیکل کمیٹی، میڈیا کمیٹی صلاة کمیٹی، فراہمی آب کمیٹی خاص کر سوشل میڈیا کے احباب جنہوں نے فیس بک لائیو ٹویٹر ٹیلی گرام واٹس ایپ نشریات کی مہم چلائی عمر عباس صاحب، فدا عادل صاحب ، مدثر صاحب اور دیگر احباب جنہوں نے بھرپور محنت سے ٹویٹر کا سب سے ٹاپ ٹرینڈ چلایا۔
متحدہ مجلس عمل کا یہ سیل رواں اب مولانا فضل الرحمن صاحب کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے تمام ورکرز کو چاہیے کہ ملک میں حکومت عادلہ کے قیام کے لیے تک اب گھر پر نہ بیٹھیں۔