متحدہ مجلس عمل کے زیراہتمام قومی ورکرز کنونشن

تحریر : مفتی خالد شریف
عالمی او رقومی سطح پر جماعتیں افتراق اور انتشار کا شکار ہورہی ہیں ،نظریاتی جنگیں لڑنے والے خال خال ہیں ۔پاکستان میں انتخابات قریب ہیں ۔سیاسی جماعتوں میں اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے ایسے میں پاکستان کی سنجیدہ مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے بڑھ کر یہ بات خوشی اور اطمینان کی باعث ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکن حالات کی نزاکتو ں کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور نہ صرف سمجھ بوجھ رکھتے ہیں بلکہ درست اور فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں،اپنے فیصلے خود کرتے ہیں وگرنہ اکثر سیاسی جماعتیں اوپر سے آنے والے آرڈر پر عمل کر کے بھی خود کوآزاد سمجھتی ہیں متحدہ مجلس عمل کا تنظیمی ڈھانچہ کے پی کے علاوہ باقی صوبوں میں مکمل ہوچکا ہے اور اس اہم مرحلے کو حسن وخوبی سے مکمل کرنے کے بعد عوامی مہم کا باقاعدہ آغاز 2مئی کو جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں قومی ورکرز کنونشن منعقد کر کے کیا جارہا ہے راولپنڈی اسلام آبا د کے کارکن متحرک ہوچکے ہیں مختلف کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں جو تیزی سے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہیں مشاورتیں ہورہی ہیں اور ان شاء اللہ ایک بھر پور کنونشن سے عوامی مہم کا باقاعدہ آغاز ہو گا اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہونگے متحدہ مجلس عمل کا اگرچہ الیکشن میں مقابلہ دیگر سیاسی جماعتوں سے ہے پی پی پی ،پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ٹاکرا ہونا ہے لیکن اس مذہبی اور سیاسی اتحاد کو کچھ غیر سنجیدہ مذہبی جماعتوں کے ذریعے نقصان پہنچانے کی سازشیں شروع ہوچکی ہیں یہ وہ جماعتیں ہیں جو ہمیشہ اوپر والوںکے اشاروں پر چلتی رہی ہیں اپنا کوئی منشور اور وژن نہیں انتخابات کے قریب ان کو زندہ کردیا جاتا ہے اور مذہبی حلقے میں تشویش پھیلائی جاتی ہے انتخابات ہوتے ہی یہ جماعتیں اور انکی قیادتیں کبھی مولانا فضل الرحمان صاحب کے قریب نظر آئیں گی اور کبھی جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کے ساتھ ایک اسٹیج پر کھڑے نظر آئیں گی بہرحال ایم ایم اے قیادت کے لئے اپنے ووٹر کو ایسی غیر سنجیدہ جماعتوں سے بچانا ایک بڑا چیلنج ہوگا اور امید ہے کہ قیادت بخوبی اس چیلنج سے عہدہ برآ ں ہوگی انتخابات میں جانے سے قبل ایک موثر منشور قوم کے سامنے پیش کرنا ازحد ضروری ہے اور اس حوالے سے ایم ایم اے کی پوزیشن دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت بہت بہتر ہے جمہوریت پر بھی یقین رکھتی ہے ،اسلام کو پاکستان کامملکتی مذہب قرار دیتی ہے اور یہی قیام پاکستان کی اصل روح ہے اس منشور کے حوالے سے ماضی کی خدمات اور حال میں سختی سے کارفرما رہنا اور مستقبل میں انہی خطوط پر عمل پیرا رہنے کے حوالے سے عوام کو یقین دلانا ہے جس قدر عوام میں یہ شعور اجاگر کر لیا گیا فتح اسی نسبت سے قریب ہوتی جائے گی اور یہ شعور اجاگر کرنے کے لئے مروجہ تمام وسائل بروئے کار لانے ازحد ضروری ہیں ،29 مئی کو مینار پاکستان میں ایک جلسے کے لئے پی ٹی آئی نےاپنے تمام وسائل جھونک دئے ہیں ایم ایم اے کے پا س اگرچہ اس قدر وسائل نہ ہو تاہم ایم ایم اے کا کارکن گلی گلی اور محلے محلے میں موجود ہیں ،کارکن محنت کرکے بہتر نتائج دے سکتے ہیں اسی طرح سوشل میڈیا ایسا میدان ہے جس میں بہترین حکمت عملی سے کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے اور عوام میں اپنے منشور کے حوالے سے بیداری پیدا کی جاسکتی ہے متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو ایک اور حوالے سے بھی دیگر سیاسی قیادت میں امتیازی مقام حاصل ہے کہ اس کی قیادت اخلاقی اور مالی ہر قسم کی کرپشن سے پاک ہے اور اب جبکہ سیاستدان یا تو نااہل ہوتے جارہے ہیں یا کرپشن کے ہاتھوں مجبور ہو کر جماعتیں بدل رہے ہیں، ایم ایم اے اس حوالے سے یکسو ہے اس یکسوئی کا بھر پور فائدہ ہوگا بہر حال 2 مئی کے ورکرز کنونشن کا انتظار ہے متحدہ مجلس عمل کی قیادت آئندہ کا لائحہ عمل پیش کرنے جارہی ہے اپنے ورکر متحرک کر رہی ہے اس کے بعد مینار پاکستان کا جلسہ ہے تہذیبوں اور نظریات کی بنیاد پر جماعتوں کی تقسیم ہو تو پاکستان میں دو ہی جماعتیں نظر آئیں گی ایک وہ جو اسلام ، جمہوریت اور مشرقی اقدار کی حامل ہیں اس صف میں قوم کو صرف متحدہ مجلس عمل نظر آئے گی جبکہ دوسری صف ان کی ہے جو جمہوری تو ہیں لیکن مغربی تہذیب کی دلدادہ اور اسلام سے نا آشنا ۔۔۔۔فیصلہ عوام نےکرنا ہے کہ وہ کس صف میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن عوام کے سامنے70 سالہ ریکارڈ رکھنا لازمی ہے جسے دیکھ کر عوام کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ 70 اقتدار کن کے پاس رہا اور اس کے نتیجے میں ملک کا کیا حال کر دیا گیا ، اس صورتحال میں ایم ایم اے عوام سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ
ایک موقع انہیں بھی فراہم کیا جائے امید ہے عوام یہ موقع دینی جماعتوں کو ضرور فراہم کرے گی اور دینی جماعتیں عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گی۔

Facebook Comments