تحریر : حافظ نصیراحمد احرار
متحدہ مجلس عمل کے مخالفین کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ اہل تشیع کےنظریات و عقائد اور ان کے ساتھ قومی و ملی مقاصد کے لئے اتحاد کو خلط ملط کر رے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام کا نقطہ نظر اس معاملے میں دو ٹوک ہے کہ ہم نہ اہل تشیع کے نظریات کے پیرو کار ہیں اور نہ ہی ان کی بیان کردہ تعبیر دین کے پابند۔ عقائد و نظریات میں وہ اور ہم جدا تھے،جدا ہیں اور جدا رہیں گے،لیکن نظام اجتماعی کی تشکیل کا تقاضا اور میدان سیاست کی روایت یہ ہے کہ ہم عصر سیاسی لوگوں کے کفر و اسلام کو ماپنے کی بجائے ہمیشہ مشترکہ مقاصد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے تاکہ قومی یکجہتی کی فضا قائم کر کے ملک و قوم کی تعمیر کی جا سکے۔
اس لئے ہمارا اتحاد مختلف مکاتب فکر کے ساتھ مشترکہ قومی و ملی مقاصد کے لئے ہے،ہم اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ اللہ نے متحدہ مجلس عمل کو کامیابی دی تو اس ملک کا نظام قرآن و سنت کی اس تعبیر و تشریع کے مطابق ہو گا جو اہل سنت والجماعت (احناف) کے ہاں معتبر ہے اور ان شاء اللہ اہل تشیع نہ صرف اس نظام کو قبول کریں گے بلکہ اسی نظام کے عملا پیرو کار ہوں گے۔
یہ نکتہ نظر محض آج کی جمعیت علماء اسلام کا نہیں ہے بلکہ ہمارے اکابر کی سو سالہ سیاسی جہد کا حاصل یہی کچھ ہے اور اس معاملے میں برصغیر پاک و ہند کے ہر مستند و معتبر عالم دین کی یہی رائے رہی ہے،بلخصوص ہمارے اکابرین دیوبند نے اس نکتہ نظر کو قومی،ملی اور سیاسی مقاصد میں نہ صرف اختیار کیا ہے بلکہ عملی طور پوری استقامت سے اس پر کاربند رہے ہیں بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ جمہور امت کا تعامل بھی اس روایت پر شاہد ہے،جس کے لئے قرون اولی سے لیکر دور حاضر تک کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
جہاں تک بات ہے اہل تشیع کے متعلق مولانا حق نواز جھنگوی شہید رح کے انفرادی اسلوب اور ان کی قائم کردہ سپاہ صحابہ کے متشدد رویے کی ۔۔۔ تو ہماری رائے میں مولانا جھنگوی رح کی ذات اور ان کی جماعت کو الگ الگ نظر سے دیکھنا ہوگا۔
مولانا جھنگوی رح کا سپاہ صحابہ کے پلیٹ فارم سے اہل تشیع کے عقائد و نظریات کے رد میں جو انفرادی اسلوب و طریقہ کار رہا وہ اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مولانا جھنگوی رح بھی تمام تر اختلاف کے باوجود اہل تشیع سے قومی و سیاسی معاملات میں اتحاد کے قائل تھے۔انہوں نے عقیدے و مسلک کے اختلافات کو بنیاد بنا کر مشترکہ قومی و ملی مقاصد کو کبھی فراموش نہیں کیا تھا۔
مولانا جھنگوی رح کا یہ موقف علی وجہ البصیرت تھا اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سپاہ صحابہ جیسی متشدد و فرقہ پرست جماعت کے بانی و قائد ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ جمعیت علماء اسلام کے نہ صرف فعال رکن رہے بلکہ تادم آخر صوبہ پنجاب کے نائب امیر بھی رہے اور انہی مولانا فضل الرحمن کو ۔۔۔ جن کو آج مولانا جھنگوی رح کے بدنام زمانہ پیرو کار گالیاں دیتے نہیں تھکتے ۔۔۔اپنا قائد و رہنما تسلیم کرتے تھے۔اور یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جھنگ میں سپاہ صحابہ کی بھرپور علاقائی قوت و شناخت کے باوجود مولانا جھنگوی رح نے الیکشن سپاہ صحابہ یا کسی اور فورم سے نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کی ٹکٹ اور انتخابی نشان پر لڑا تھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اہل تشیع کے ساتھ عقیدے و نظریے کے اختلاف اور سیاسی و قومی مقاصد میں اتحاد جیسے معاملات میں توازن کو جس طرح مولانا جھنگوی نے قائم رکھا تھا ان کے بعد مزار جھنگوی رح کے مجاور بھی حسب ضرورت ملی یکہجتی کونسل،دفاع پاکستان و افغان کونسل، تنطیمات مدارس وغیرہ میں اسی پالیسی پر مستقل مزاجی سے کاربند رہے ہیں۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ یہ حکمت عملی ان مجاوروں کے ہاں قطعی حلال و پاک اور جمعیت علماء والوں کے لئے حرام و نجس ہو جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کی طرف سے اہل تشیع کے متعلق کافر کافر کا نعرہ نہ لگانے پر اعتراض کرنے والوں کے لئے عرض ہے کہ یہ سوال مولانا جھنگوی رح کے سامنے بھی آیا تھا کہ آپ کے قائد مولانا فضل الرحمن شیعہ کو کافر کیوں نہیں کہتے۔ ان کا خوبصورت اور بصیرت افروز جواب یہ تھا!
“تم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور تبلیغی جماعت کے قائدین سے شیعہ کو کافر کہلوا دو،میں اپنے قائد مولانا فضل الرحمن سے شیعہ کو کافر کہلوا دوں گا”
اتنی صراحت کے باوجود بھی اگر کوئی بندہ “میں نہ مانوں” کی ضد پر قائم ہے تو چلیں ایک لمحے کو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مولانا حق نواز جھنگوی شہید رح قومی و سیاسی مقاصد کے لئے اہل تشیع سے اتحاد کے کبھی قائل نہیں رہے بلکہ وہ ایسے ہر اتحاد کو گناہ و حرام سمجھتے تھے۔ تو پھر ایسے حضرات سے زیادہ نہیں دو سوال تو بنتے ہیں۔
1) مولانا حق نواز جھنگوی شہید رح نے اہل تشیع کے رد میں جو طریقہ کار اختیار کیا،قرون اولی سے لیکر آج تک اسلام کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں امت کے کسی معتبرعالم یا مستند فقیہ کے ہاں اس طرز عمل کی کوئی دلیل یا مثال ملتی ہے،جس کو جمہور امت نے شرف قبولیت کی سند دے دی ہو؟
2) اگر مولانا جھنگوی رح کا یہی نکتہ نظر تھا تو پھر وہ جمعیت علماء اسلام میں کیا کر رہے تھے۔ انہوں نے جمعیت علماء اسلام سے کنارہ کشی کیوں اختیار نہ کی اور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن سے لاتعلقی کا اعلان کیوں نہ کیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ مولانا حق نواز جھنگوی رح بھی آج کے فرقہ پرستوں کی طرح نظریہ ضرورت یا اوپر سے آنے والے کسی آڈر کا شکار ہو گئے تھے یا خدانخواستہ علامہ احمد لدھیانوی کی طرح ” تقیہ” کئے ہوئے تھے؟
علامہ احمد لدھیانوی کی گالم گلوچ برگیڈ کے پاس ان سوالات کے جوابات نہ تو پہلے تھے اور نہ ہی آج ہیں لیکن ان کی رویوں کو دیکھ کر میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ مولانا حق نواز جھنگوی رح اگر دنیا میں موجود ہوتے تو وہ آج بھی مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پرچم نبوی اٹھائے نظر آتے اور بدقسمتی سے اس غالی و متشدد گروہ کے سب و شتم کا سب سے زیادہ نشانہ بھی وہی بنتے۔
میرے یقین کی دلیل مولانا حق نواز جھنگوی رح کا وہ جرات مندانہ طرز عمل ہے ۔۔۔ جب اس شخص نے مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی رح جیسی متقی و عالی مقام شخصیت کی قیادت بھی قبول نہیں کی تھی ۔۔۔ تو پھر ان کے نزدیک آج کے اس “تکفیری دھواں” چھوڑنے والے جتھے کی کیا حیثیت ہوتی۔