تحریر : غلام نبی
یہ ستمبر 2002 کی بات ہے۔۔ میں ایک دوست کے میڈیکل میں بیٹھا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔۔ دوست کے ساتھ میڈیکل میں گپ شپ کرنا روز کا معمول تھا۔۔ سیاسی حالات ان دنوں گرم تھے۔ الیکشن قریب تھے۔ گیارہ ستمبر گزرے ایک سال ہونے کو تھا۔ افغانستان میں جنگ شروع تھی۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے اتحاد قائم کیا تھا۔۔ مذہبی جماعتیں ایک نشان پر الیکشن میں حصہ لے رہی تھیں۔۔ ہم گپ شپ میں مصروف تھے کہ ایک نوجوان میڈیکل میں داخل ہوا۔ اور تیزی سے ایک کاغذ پھنک کر چل پڑا۔۔ جب ہم نے وہ کاغذ اٹھایا اور اسے پڑھا تو اس کا عنوان تھا
“متحدہ مجلس عمل کو ووٹ دینا حرام ہے”
اس عنوان کے نیچے دس بارہ نکات عنوان کو صحیح ثابت کرنے پر دئیے گے تھے۔۔۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ مجلس عمل ایک غیر اسلامی اتحاد ہے۔ کیونکہ اس میں شیعہ حضرات بھی شامل ہیں۔ اس لیے علماء کے نزدیک ایم ایم اے کو ووٹ دینا حرام ہے۔۔۔وغیرہ ذالک۔۔
یہ پفلٹ سپاہ صحابہ والے تقسیم کر رہے تھے۔۔ تاکہ ایم ایم اے کو کامیابی حاصل نہ ہو۔۔ لیکن الحمد اللہ الیکشن ہوئے اور ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہبی جماعتوں کو بڑی اکثریت حاصل ہوئی۔۔ فرقہ پرست جماعتوں کے تمام ہربے ناکام ہوئے۔۔۔ ان دنوں مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ایم ایم اے کی بھر پور حمایت کی تھی۔ جبکہ مشائخ کے سرخیل حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمتہ اللہ کی دعائیں ایم ایم اے کے ساتھ تھیں۔۔۔ ان حضرات کی تائید کے بعد انتشار پسند ٹولے کی کون سنتا۔۔۔
اب چونکہ ایک بار پھر ایم ایم اے کا احیاء ہو چکا ہے۔۔ تو فرقہ پرست اپنے بلوں سے باہر آ کر چھیڑ چھانی کر رہے ہیں۔۔۔ انتشار و فساد پھیلانے کی کوشش میں لگے ہیں۔۔ کیونکہ ان کا کام ہی اختلاف کو ہوا دینا ہے۔۔ اتفاق کی نفی کرنا ہے۔۔ انہیں سنجیدہ سیاست سے الرجی ہے۔۔ جن کے لیے یہ کام کرتے ہیں وہ کبھی نہیں چاہتے کہ مذہبی جماعتیں اور مسالک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔۔ لہذا جن کے یہ نوکر ہیں ان کا کام ہی افتراق کو ہوا دینا ہے۔۔۔ ان کی تنقید سے پریشانی کی ضرورت نہیں۔۔
مولانا محمد احمد لدھیانوی نے ہنگو میں مولانا فضل الرحمن صاحب پر جو تنقید کی ہے اس سے جمعیت کے کارکنوں کو پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔جو نظریاتی کارکن ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ جمعیت مسالک سے بالاتر ہو کر سیاست کرتی ہے۔۔ قائد جمعیت تمام مسالک کے نمائندہ ہیں۔ جمعیت علماء نے کبھی فرقہ پرستی نہیں کی۔ نہ ہی فرقہ پرستوں کا ساتھ دیا ہے۔۔ میرا شکوہ ان کارکنوں سے ہے جو یہ رٹ لگائے نہیں تھکتے کہ یہ بھی ہمارے ہیں۔۔ سب اکابر قابل احترام ہیں۔۔ بھائی یہ کبھی بھی ہمارے نہیں ہو سکتے۔۔ یہ فرقہ پرست ہیں۔ انتشار ان کا موٹو ہے۔ فساد ان کا منشور ہے۔۔ کفر کے نعرے لگانا ان کا دستور یے۔۔ نہ یہ علماء دیو بند کے نمائندے ہیں اور نہ کبھی علماء کے اجماع نے انہیں اپنا تسلیم کیا ہے۔۔ یہ اتنے تنہا ہو چکے ہیں کہ کوئی ان سے ملنے کو تیار نہیں۔۔ ان کے ساتھ بیٹھنا اپنے کو مشکوک بنانا ہے۔۔ یہ ریاستی اداروں کی ضرورت ہیں۔۔ صرف مذموم مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔۔ امت کو انہوں نے نقصان پہنچایا ہے۔۔۔ ان کی کوکھ سے ایسے افراد نے جنم لیا ہے جنہوں نے سینکڑوں مظلوم افراد کو قتل کیا ہے۔۔۔۔
احمد لدھیانوی کے حالیہ بیان کو میں خادم رضوی اور عمران خان کے بیانیہ کے ساتھ جوڑتا ہوں۔۔ سب جانتے ہیں کہ ختم نبوت کے مسئلہ کو نواز شریف کے خلاف کس نے کیش کیا۔ خادم حسین رضوی کس کے لیے استعمال ہوا۔ عمران خان گزشتہ پانچ سالوں سے کس کی زبان بول رہا ہے۔۔ اور نواز شریف کو سائیڈ کرنے میں کون ملوث ہے۔۔ نواز شریف کی جنگ کن قوتوں کے ساتھ ہے۔۔ اب ان حالات کو جو جانتا ہو سمجھتا ہو وہ آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ احمد لدھیانوی کا بیان کس تناظر میں دلوایا گیا ہے۔۔۔ان قوتوں کو ہر گز یہ پسند نہیں کہ نواز شریف کے ساتھ مولانا جمہوریت کا ساتھ دے۔۔۔
لہذا۔۔ ان طفلانہ، سطحیانہ اور بچگانہ بیانات پر رد عمل دکھانے کی ضرورت نہیں۔ اپنا کام جاری رکھیں۔۔ مثبت کردار ادا کریں۔۔ اتفاق کی فضا برقرار رکھیں۔۔ انشاء اللہ آنے والا وقت مجلس عمل کا ہو گا۔۔۔ کیونکہ آج بھی علماء و مشائخ کی تائید صرف مجلس عمل کو حاصل ہے فرقہ پرستوں کو نہیں ۔۔۔۔ ہمارا سفر 2002 سے 2018 تک امن کا سفر جاری ہے ۔۔ ہم کامیابی حاصل کرتے جا رہے ہیں جبکہ ہمارے خلاف چھپ کر وار کرنے والے آج بھی چھپ کر ہی پیٹ میں خنجر گھوپنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ 2002 میں بھی ہم کامیاب ہوئے تھے اور وہ ناکام۔۔ انشاء اللہ 2018 میں بھی ہم کامیاب ہوں گے اور وہ ناکام