تحریر محمد عمران اسلام آباد
آج ایک عزیز دوست مفتی زاہد شاہ صاحب نے مجھے تنظیم اہل السنہ کے قائد محترم مولانا احمد لدھیانوی صاحب کی ایک ویڈیو ارسال کی جس میں موصوف قائد جمعیت علمائے اسلام کو نشانہ تنقید بنائے ہوئے ہے ۔ انہوں نے ایک ایم ایم اے کے سیاسی اتحاد کو ہدف تنقید بنایا اور دوم انتخابی اصلاحاتی بل میں حلف نامہ کی تبدیلی کے باوجود خاموشی اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
لہذا آج کی تحریر میں ہم ان تنقیدا ت کا جائزہ لیتے ہیں :
ایم ایم اے کا سیاسی اتحاد :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو اس وقت مدینہ میں مختلف قبائل آباد تھے جن میں یہودیوں کے قبائل بھی آباد تھے اور سیاسی نظم انہی قبائل کے سردار چلاتے تھے مرکزی حکومت کوئی نہیں تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے اور ان کو ایک مرکزی حکومت میں پرونے کے لیے ریاست کا سنتالیس دفعات پر مشتمل تحریری دستور مرتب کیا جس میں تمام باشندوں کے حقوق طے کیے اس سیاسی اتحاد کی برکت سے ریاست مدینہ ایک مستحکم ریاست ثابت ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کو آگے بڑھانے کا موقعہ میسر آیا۔
(تفصیل کے لیے الوثائق السیاسة دیکھیں)
اسلامی سیاسیات کے ماہر فن علماء ابو یعلی الفراء ، اور امام ماوردی سمیت متعدد علما نے ریاست مدینہ کے سیاسی اتحاد سے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ مسلم جماعت کفار سے سیاسی اتحاد قائم کرسکتی ہے۔ اور یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ اس کی نظیر ہمیں برصغیر ہندوستان میں بھی ملتی ہے کہ مسلمانان ہند نے انگریز کے خلاف مشترکہ ایجنڈے پر سیاسی اتحاد قائم کیا تھا اور وہ اتحاد نتیجہ خیز بھی ثابت ہوا تھا۔
جب یہ بات ثابت ہوئی کہ مشترکہ سیاسی ایجنڈے پر سیاسی اتحاد کفار کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور امت کے تعامل سے ثابت ہے تو ایسے میں پھر مسلم ریاست میں شیعہ سنی اہل حدیث وبریلوی مودودی کے سیاسی اتحاد کو ہدف تنقید بنانا انتہائی نامعقول سی بات ہے۔ بالفرض اگر شیعہ کو علی الاطلاق کافر بھی قرار دیا جائے تو پھر بھی ان کے ساتھ سیاسی اتحاد سے کوئی مانع نہیں۔
اور اگر ہم بنظر غائر دیکھے
(۱)تو ہم سب نے بشمول سپاہ صحابہ وشیعہ ریاستی آئین کو مانا ہیں جس نے ہمیں ایک سیاسی وحدت بنایا ہے، اور اسی سیاسی وحدت میں شیعہ سنی سب شریک ہیں۔
(۲) اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل میں ہم شیعہ سنی وحدت میں شریک عمل ہیں ۔
(۳)رؤیت ہلال کمیٹی کی وحدت شیعہ سنی مشترکہ نمائندگی پر مشتمل ہے۔
ماضی میں ملک کے معتبر وجید علما نے مختلف مواقع پر مشترکہ ایجنڈے پر اتحاد پر شیعہ سنی وحدت کی شکل میں جدوجہد کی ہیں چنانچہ ۱۹4۷ میں متفقہ طور پر قرار داد مقاصد ہو کہ ۱۹۵۱ میں متفقہ طور پر بائیس نکات یا پھر تحریک ختم نبوت میں شیعہ سنی اتحاد ۔ الغرض ۱۹۷۳ کے آئین کے مکمل بحالی اور اس میں خلاف شرع دفعات کی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں تطہیر کے مشترکہ ایجنٍڈ ے پر ایم ایم اے کے سیاسی اتحاد کو ہدف تنقید بنانا غیر معقول بات ہے۔
انتخابی اصلاحاتی بل میں حلف نامہ کی تبدیلی:
مولانا لدھیانوی صاحب نے ایک الزام یہ عائد کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب نے انتخابی اصلاحاتی بل میں ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامہ میں تبدیلی پر خاموشی اختیار کی تھی ۔ پہلے تو یہ سمجھیں کہ بل ختم نبوت کے عنوان سے نہیں تھا بلکہ انتخابی اصلاحات کے عنوان سے تھا اس میں حلف نامہ کو جو ہٹا دیا گیا تھا اور صرف اقرار رہ گیا تھا اس میں اس تبدیلی کا جیسے ہی پتہ چلا اس پر جمعیت علمائے اسلام کے سنیٹر حافظ حمداللہ صاحب نے نقد کیا تھا ، اور اس کے علاوہ مولانا صاحب نے اس پر رد عمل بھی دیا تھا وہ رد عمل آن د ریکارڈ موجود ہے چنانچہ اس رد عمل اور مذہبی طبقات کی جانب سے احتجاج پر بل میں سابقہ حلف نامہ بلفظہ واپس شامل کیا گیا تھا ۔
اس حلف نامہ اور سیون بی اور سیون سی کو ہٹا بھی دیا جاتا تب بھی شناختی کارڈ کے حلف نامہ اور الیکشن کمیشن کے اقرار نامہ میں جھوٹ کے واضح ہونے پر دفعہ 62 اور دفعہ 63 کے تحت کاروائی کی جاسکتی تھی اور قادیانی ممبر اسمبلی نہیں بن سکتا تھا۔ لیکن اس احتجاج کو ن لیگ کے خلاف نادیدہ قوتیں بطور سیاسی حربے کے استعمال کررہی تھی اس لیے اس حربہ کو توڑنے کے لیے بل میں حلف نامہ سابقہ پوزیشن پر بحال کیا گیا تھا۔
چنانچہ اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھ کر مولانا لدھیانوی صاحب کا یہ الزام بے بنیاد قرار پاتا ہے، مولانا موصوف کی خدمت میں عرض ہے کہ مذہبی طبقات کی تقویت کی کوشش فرمائیں ایسے تنقیدیں ملک وملت خاص کر مذہبی قوتوں کے لیے ہرگز فائدہ مند نہیں ہیں۔