شاہین تیری پروازسےجلتاہےزمانہ

تحریر :حافظ نصیر احمد احرار

مولانا فضل الرحمن کی کردار کشی کرنے والوں پر تو کبھی ترس آنے لگتا ہے۔ بےچارے خود ساختہ الزامات کا سہارا لیکر کردار کشی تو کر لیتے ہیں لیکن الزامات کے ثبوت اور شواہد پیش کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کی طرف سے چاں چاں کی آوازوں کے سوا کچھ سننے کو نہیں ملتا۔گذشتہ دو روز سے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیں،فرضی کہانیوں اور من گھڑت افسانوں کو بیان کیا جارہا ہے لیکن سر تا پا پوری توانائی لگانے کے باوجود دلیل،ثبوت یا گواہ نام کی چیز کسی کے ہاتھ نہیں لگ رہی۔یہ سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ مولانا کی سیاسی و مذہبی زندگی انہیں نشیب و فراز سے عبارت رہی ہے۔

مولانا کی سیاسی و مذہبی زندگی کا المیہ یہ رہا ہے کہ نہ تو ان جیسی ذہانت و زکاوت اور سنجیدگی کسی ہم عصر میں پائی جاتی ہے اور نہ ان جیسا تدبر و فہم ان کے ہم عصروں کے حصے میں آیا ہے بلکہ میرے نزدیک تو مولانا اس معاملے میں کم نصیب رہے ہیں کہ ان کو سیاسی و مذہبی میدان میں عمومی طور پر کوئی ایسا مخالف و ناقد بھی نہیں مل سکا جو حقیقی معنوں میں “نسلی” ہی ہوتا۔

مولانا کے ناقدین و مخالفین کی فہرست بنا کر جائزہ لے لیں ۔۔۔۔ آپ حیران رہ جائیں گے۔

نقد و جرح کرنے والے یا تو وہ مذہبی عناصر ہوں گے جن کی کل متاع فرقہ واریت کا جنون، مسلکی تعصب اور جاہلانہ طرز عمل ہو گا۔یہ عام طور پر اس گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو متعارف تو مذہب سے ہیں لیکن کنویں کے مینڈک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور اگر ان میں سے کوئی بندہ عملا کسی ادارے سے وابستہ بھی ہے تو اوقات اس کی یہ ہو گی کہ اپنی مسجد کی نماز کا وقت،کمیٹی صدر کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں کر سکتا،لیکن خواہش یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن سیاست اس کی مرضی سے کریں۔

مخالفین کا دوسرا گروہ سیاسیات یا میڈیا سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی عمومی حالت یہ ہے کہ جب بھی مولانا سیاسی فضا میں اونچی اڑان بھرتے ہیں یہ طبقہ چیخ و پکار کرتے ہوئے اپنے سر میں خاک ڈالنے لگتا ہے۔پھر کبھی جھوٹے الزام تراشتے ہیں اور کبھی مغلظات بک کر اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں۔لیکن آج تک ان کا کوئی الزام سچ ثابت ہو سکا ہے اور نہ ہی ان کی آہ و بکا سے مولانا کی پرواز میں کوئی کوتاہی آئی ہے۔

اب حال ہی میں دیکھ لیں!

ایک طرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس اہم دور میں غیر سیاسی قوتوں کے سامنے مولانا کی غیر معمولی استقامت ہے اور دوسری طرف ایم ایم اے کی صورت میں پاکستان کے تمام مذہبی طبقات کے متفقہ قائد بننے سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر مولانا کا شخصی وقار اور ان کا سیاسی کردار جس طرح نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے اس سے مولانا کے مخالف سیاسی بونے اور فرقہ پرست چمونے کافی اچھل کود کر رہے ہیں۔کوئی اپنے تکفیری پیمانوں میں مولانا کا ایمان ماپ رہا ہے اور کوئی الزام تراشی کی غلاظت اگل کر خود ہی چاٹنے میں مصروف ہے۔

لیکن حقیقت آشکار ہے اور رہے گی!

دونوں گروہ ہمیشہ کی طرح رسوائی اور ذلت کی سیاہی اپنے منہ پر مل رہے ہیں۔۔۔۔۔رہے مولانا۔۔۔ تو بفضل الہی ہمیشہ کی طرح مولانا اپنی کامیابیوں کا سفر جاری رکھیں گے۔ ان شاء اللہ

Facebook Comments