قندوز حملہ ۔ ۔ ۔آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

تحریر :محمدسفیان بہاولپور
قندوز مدرسہ ہاشمیہ پر حملہ، 101 طالبانِ عُلومِ نبوت کی شہادت پر روئے تو کون روئے؟ ہمیں مولانا فضل الرحمان کے درد بھرے الفاظ یاد آرہے ہیں “آپکے اسکول پر حملہ ہوتا ہے ہم آپ کےساتھ روتے ہیں مگر ہمارے مدرسہ پر حملہ ہوا تو ہمارے ساتھ کون رویا؟ کوئی تو بنے ہمدرد ہمارا جو ہماری اشک شوئی کرے، ہماری ڈھارس بندھائے اور ہمارے زخمی اَنگ اَنگ پر مرہم رکھے.” (برموقع سانحہ APS)

فرانسیسی شہریوں پر دھماکے ہوئے تو مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا “ہمیں آپ کا غم ہے لیکن آج جب پورا یورپ چِلا رہا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے اسی طرح آپ نے ہمارے غم کا خون کیا تھا، بھگتو اب روتے کیوں ہو؟ رو تو ہم رہے ہیں.”

باجوڑ ایجنسی کے مدرسہ میں علی الصبح امریکی ڈرون حملہ ہوا، سینکڑوں طالبانِ عُلومِ نبوت کی حالت نماز میں شہادت ہوئی مگر کسی کی زبان بولی نہ لب ہلے.

ہنگو مدرسہ پر امریکی ڈرون ہوا، سینکڑوں درس و تدریسِ قرآن و حدیث میں مصروف طالبان علوم نبویہ کی شہادت واقع ہوئی کسی کی آہ نکلی نہ کسی نے چیخ و پکار کی.

محض ایک طالبان کمانڈر کی موجودگی کے شبہ میں قندوز مدرسہ پر حملہ دراصل علم، طالبعلم اور مدرسہ پر حملہ ہے، 101 طالبانِ عُلومِ نبوت کی شہادت پر انسانیت کے علمبردار مگر کردار میں اولادِ قابیل کیوں خاموش ہیں؟ آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟
عجب قحط پڑا اب کے سال اشکوں کا
کہ آنکھ تر نہ ہوئی خون سے نہا کر بھی

آپ کا غم ہمارا غم مگر ہمارا غم کس کا غم؟ اس لئے ہم کہیں گے آپ اپنی اداؤں پر غور کریں، ہماری گفتار، ہمارا کردار اور ہماری تاریخ ہیں لیکن آپکی تاریخ خونِ انسانیت سے بھرپور ہے، آپ اپنی خونی تاریخ کو ہمارے مظلوم آنسو سے دھو رہے ہو لیکن ہمارے آنسو بھی خون کے آنسو ہیں، ظالم اور مظلوم کا خون ایک نہیں ہوسکتا، آج فرق نہ کیا گیا تو تاریخ ضرور فرق کرے گی، اگر تاریخ نے انصاف نہ کیا تو خونِ مظلوم کی گواہی خود خون ظالم چیخ چیخ کر دے گا.

Facebook Comments