مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف پروپیگنڈے کی حقیقت

تحریر : مفتی محمد عمران اسلام آباد
مولانا فضل الرحمن صاحب کی شخصیت گوناگوں صفات کی مالک ہے، عالم دین ہونے کے علاوہ ان کی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کی دنیا قائل ہے، ملکی وبین الاقوامی سطح پر ان کی رائے سنی جاتی ہے اور اس کا اعتبار کیا جاتا ہے، ان کو ماہر سیاست دان شمار کیا جاتا ہے، قوت استدلال اتنا پختہ کہ دشمن بھی معترف، ہمیشہ قوم اور ملک اور بین الاقوامی مفادات کی بات کی ہے، آئین ودستور کے حامی رہےہیں، ملک میں مارشل لاء جیسی قانون شکنی ہو یا لسانی تفرقات، مذہبی شدت پسندی ہو کہ سیاسی انتقام ہر موقع پر آئین دستور اور مفادات عامہ کا لحاظ رکھا ہے۔عالمی استعمار کے خلاف ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی استعماری قوتوں کے نشانہ پر ہے، ان قوتوں کی پروردہ جماعتوں نے ان کے خلاف طوفان بد تمیزی برپا کیا ہے، اور ملک میں آئین سے متجاوز ادارے بھی ان کے خلاف ہیں اس لیے ان کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے، دیگر سیاست دانوں کو جس طرح اخلاقی اور مالی کرپشن کی وجہ سے دبائے رکھا جاتا ہے ایسا حربہ مولانا پر کارگر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کو بد نام کرتے ہیں۔ حالانکہ ان اتہامات والزامات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اگر ان الزامات میں کوئی رتی بھر سچائی ہے تو اب تک کسی عدالت میں وہ ڈرامہ جو دیگر سیاست دانوں کے خلاف رچایا گیا وہ مولانا کے خلاف کیوں نہیں؟ اس سوال کا منطقی جواب یہی ہے کہ یہ محض افواہ گردی ہے اسی وجہ سے اب تک کسی کو عدالت میں جانے کی ہمت نہیں ہورہی ہےجب اور کچھ بھی نہ بن پایا تو یہ الزام سر تھوپ دیا کہ مولانا ہر حکومت میں شریک ہوتے ہے، تو اس الزام کی حقیقت سیاسی تاریخ سے وابستہ افراد پر کبھی پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ مولانا حکومت کا بھی حصہ رہے ہے اور اپوزیشن میں بھی رہےہیں، اگر بالفرض ہمیشہ اقتدار میں بھی رہے ہوتے تب بھی یہ کوئی اچھنبے کی بات نہ ہوتی کہ پاکستان کے اس کثیر الجماعت جمہوریت میں ہر جماعت جو بھی جوڑ توڑ کرتی ہے تو وہ اپنے منشور کو سامنے رکھ کر سیاسی داو پیچ استعمال کرتی ہے، اور ہر لیڈر نے دیکھنا ہوتا ہے کہ ہمارے اہداف حکومت میں رہ کر حاصل کیے جاسکتے ہیں یا حزب مخالف میں رہ کر ؟اس پر اگر کوئی اعتراض کرے کہ مولانا کرپٹ لوگوں کا ساتھ دے رہے ہے تو بتائیں کہ اس ملک میں جو جماعتیں الیکشن میں شامل ہیں ان میں دودھ کے دھلے کون ہیں؟ وہ فرشتہ صفت انسان کونسے ہیں؟ جن کے ساتھ ہر صورت میں اتحاد برقرار رکھا جائے۔ لازما ان دو بڑی جماعتوں میں سے ایک حزب اقتدار میں ہوگی اور ایک حزب اختلاف میں اب مولانا سیمت دیگر جماعتوں کے ممبران نے کسی ایک صف میں بیٹھنا ہوگا؟ تا وقتیکہ ملک میں تقوی اور للہیت عام ہو اور عوام پاک طینت لوگوں کو منتخب نہ کرے۔حالیہ دنوں میں مولانا پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کے ممبر ہے اور اس کے لیے وہ کوئی کردار ادا نہیں کرتے ہے اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مولانا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہے یہ ایک وفاقی کمیٹی ہے جو کشمیر کے حوالے سے پارلیمنٹ کو سفارشات اور تجاویز پیش کرتی ہے اور بس، پھر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان سفارشات اور معلومات کی روشنی میں کوئی پالیسی بنائے اور اس کے مطابق عالم اقوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھ سکے۔مولانا کی نگرانی میں یہ کمیٹی مکمل طورپر فعال ہے اور درجنوں سفارشات وتجاویز پیش کرچکی ہے، اب ان تجاویز ومعلومات پر پالیسی بنانا اور اس کو عام کرنا یا گوشہ ریکارڈ میں رکھنا حکومت کا کام ہے لہذا اس کی مسؤلیت مولانا پر قطعا نہیں آتی ہے۔ بلکہ مولانا صاحب اپنی حد سے بڑھ کر بحیثیت ایک لیڈر کے چوک چوراہے ، مسجد ومنبر، جلسہ واجتماع، میڈیا اور اخبارات میں ملکی وبین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مقدمہ عالمی قوانین کی روشنی میں اقوام عالم کے سامنے رکھتے آرہے ہیں۔اس پر ایک طویل ریکارڈ سامنے لایا جاسکتا ہے، لیکن فی الوقت خوف طوالت کی وجہ سے فقط نیشنل اسمبلی کے ان درجنوں پریس ریلیز میں سے ایک پریس ریلیز کا متن بطور سند پیش کرتے ہیں جس سے انصاف پسند قاری یہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مولانا نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس مقدمہ کو پیش کیا ہے جس سے مولانا پر اس اعتراض کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے ملاحظہ فرمائیں اور انصاف سے فیصلہ کیجئے۔نیشنل اسمبل سیکرٹریٹ نمبر 2(2) /2014-DG(KC)اسلام آباد، مورخہ 10 اپریل، 2017پریس ریلیزپانی کی تقسیم کے مسئلے کے حل میں ثالثی کے اصول کی طرح بھارت کو تنازعہ کشمیر کے سلسلہ میں بھی یہی اصول اپنا چاہیے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف احمد العثیمین سے ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا مؤقف مولانا فضل الرحمن چیئرمین خصوصی کشمیر کمیٹی کی اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف احمد العثیمین کی قیادت میں تین روزہ دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہے وفد سے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات کی جس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے وفد اور سیکر ٹری جنرل کا پرتپاک انداز میں استقبال کیا اور اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے کے اقدام کو سراہااو رانہیں مبارک باد پیش کی۔ چیئرمین خصوصی کشمیر کمیٹی نے سیکرٹری جنرل کو بین الاقوامی حالات کے تناظر میں خطے کے حالات اور پاکستان بھارت کے کشمیر کے متعلق معاملے کو تفصیل سے بیان کیا انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کے حوالے سے اپنا اپنا مؤقف رکھتے ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے اصولی مؤقف کو کسی تیسرے فریق کے ذریعے جانچ لیا جائے۔ یہ بات افسوس سے کی جاتی ہے کہ بھارت عرصہ سات دہائیوں سے کشمیر کے معاملے میں جامع مذاکرات سے فرار کی راہ اپناتا ہے اور جبر اور استبداد کے ذریعے کشمیری عوام پر قابض ہے یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہے۔چیئرمین کشمیر کمیٹی نے مزید کہا کہ خطے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کی بدولت دونوں ملکوں کے غریب عوام کے لیے ترقی کے بہت سے مواقع پیدا ہورہے ہیں لہذا بھارتی سیاسی قیادت اپنے عوام کے حقیقی نمائندے ہیں تو انہیں جنگ وجدل اور ایٹمی تباہی کی بجائے ترقی اور استحکام اور امن وسلامتی کا راستہ اپنانا ہوگا، اس سلسلہ میں بین الاقوامی برادری کو اپنی غیر ذمہ دارانہ روش کو خیر آباد کہہ دینا چاہیے اور اسلامی تعاون تنظیم کےملکوں کو بھی کشمیریوں کے حق کے لیے مؤثر آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ کشمیری مسلمان بھی آزادانہ زندگی بسر کرسکیں انہوں نے ہندوستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور گائے کے ذبیحہ کی پابندی پر بھی او آئی سی کے فورم پر آواز اٹھانے کی تلقین کی۔چیئرمین کشمیر کمیٹی نے آزاد وجموں وکشمیر میں اسلامی ترقیاتی بنک کی جانب سے تعلیم کے فروغ کے لیے دی جانے والی گراں قدر گرانٹ پر ان کا شکریہ ادا کیا اور اسے جاری رکھنے کی استدعا کی۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے سیکرٹری جنرل کو بتایا کہ پاکستان سے آزاد کشمیر کو CPEC سے متعلق منصوبوں میں شامل کیا ہے، اور مظفر آباد کو سڑک کے ذریعے شاہراہ ریشم سے ملانے کے لیے سڑک کی تعمیر کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے، اس کے علاوہ پن بجلی کے منصوبہ بھی روبہ عمل ہیں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی چیف منسٹر نے بھی سی پی ای سی میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے اس کے علاوہ ہمارے مشیر دفاع ناصر جنجوعہ نے بھی بھارتی قیادت کو سی پیک منصوبہ میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے جسے انہیں مثبت انداز میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔آخر میں چیئرمین کشمیر کمیٹی نے ایک بار پھر ان کا شکریہ ادا کیا اور آئندہ بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ امت مسلمہ کے مجموعی مسائل ومصائب پر تبادلہ خیال ہوتار ہے اور ان کے حل لیے کوششیں جاری رکھی جائیں۔ملاقات کے دوران اسلامی تنظیم کے وفد کے علاوہ وزارت خارجہ امور اور قومی اسمبلی کے سینئر افسران بھی موجود تھے۔

Facebook Comments