تحریر :ظفرالاسلام سیفی
متحدہ مجلس عمل بحال ہوگئی ہے ،مذہبی حلقوں کو جتنا جلد ممکن ہو اس دھارے میں آجانا چاہیے۔ہمیں پیش نظر رکھنا ہوگا کہ نفاذ اسلام ہی ہماری ریاست کا معیار، بلکہ مقصد تاسیس ہے، اس کیلئے اٹھنے والی کسی سنجیدہ تحریک وفکر کیساتھ وابستگی ہمارا اخلاقی ہی نہیں، دینی فریضہ بھی ہے۔ ایسے میں فکری ابہامات پیدا کرنے والے جس شریعت اور سیاسی مخالفین جس سماج واخلاق کا حوالہ دے رہے ہیں ،دیانتدارانہ طور پرارشاد فرمائیں کہ اس شریعت اور سماج میں خود ان کی حیثیت کیا ہوگی؟
دلدل میں سرتاپا دھنسے سماج کی سماعتوں سے رم جھم کرتی دھمک ٹکراتی ہے کہ متحدہ مجلس عمل بحال ہوچکی،قوم کو نئی سیاست کا جنم دن مبارک ہو ۔روشنیوں کے شہر کو جنم بھومی کا اعزاز حاصل ہوا ،قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن صدر جبکہ لیاقت بلوچ جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے ۔اپریل کے پہلے ہفتے میں وفاقی دارالحکومت میں منعقدہ افتتاحی کنونشن کارکناں کا لہو گرم کرے گا۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن ، امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق ودیگر قائدین متحدہ مجلس عمل نے نیوز کانفرنس میں پوری قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ :” ہم نئے عزم سے سفر کا آغاز کر نے جا رہے ہیں، دھرتی کو امن وخوشحالی کی ضرورت ہے ۔کوشش ہوگی کہ قوم کی توقعات پر پورا اترا جائے۔آئندہ انتخابات ایک پرچم کے سائے تلے ایک جھنڈے اور ایک نشان پہ لڑیں گے،ہم ہی ہیں جو عام شہریوں کے جذبات واحساسات کے ترجمان ہو سکتے ہیں ”
وہ جو کہتے تھے کہ چھ سیاسی ومذہبی جماعتوں اور ان کے مختلف اہداف کے تناظر میں اتحاد ہوگا نہ ایسی کوئی کاوش سنجیدہ رہ پائے گی۔اب شرمندہ شرمندہ سے لگ رہے ہیں ،جنہیں لگتا تھا کہ دل کے ارماں کو اشک بن کر چھلکنا ہی ہوگا، وہ انگشت بدنداں ہیں ۔متحدہ مجلس عمل نے بننا ہی تھا ،سو بن کر رہی ۔مگر یہاں چند سوالات ضرور ایسے ہیں جو معترضین کی ایسی متاع کل ہیں جن سے عوامی ماحول کو وہ اپنی جھپیٹ و آسیب میں لیے ہوئے ہیں اورجنہیں حل کرنا سماجی انشراح قلبی کے لیے ضروری ہے۔
بعض ” کرم فرما” بضد ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کے عنوان سے کسی بھی نئی کاوش کے آغاز سے قبل اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ ماضی میں ایم ایم اے کس لئے بنائی کیوں گئی تھی ؟ اس کے اہداف ومقاصدکیاتھے ،پھر ان اہداف کا حصول کس حدتک ممکن ہوا ؟اور یہ کہ اتحادکیوں اورکیسے ٹوٹا ؟
تواس حوالے سے گذارش ہے کہ اسلامی نظام کا نفاز ،قومی وحدت وخودمختاری،اقلیتوں اورمحروم طبقات کے حقوق ،دینی اقدار کا تحفظ اور عوامی مسائل کے منصفانہ حل میں مقدور بھر کاوشیں بروئے کار لانا ہی وہ منشور ،مقاصد اور اہداف ہیں، جن کیلئے متحدہ مجلس عمل معرض وجود میں آئی تھی اوراب بھی انہیں اہداف کے پیش نظربحال کی گئی ہے ۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ان مقاصد واہداف تک رسائی کس قدر ملی توعرض ہے کہ اس عنوان پر سب سے اہم پیش رفت ” حسبہ بل ” کے نام سے ٢٠٠٣ ء میں ہوئی، جسے ” سرحد اسمبلی ” سے متفقہ طور منظور کرواکرصوبے میں اسلامی نظم حکومت کی اہم پیش بندی سمجھا جارہا تھا۔وہ کرم فرما جنہیں متحدہ مجلس عمل کی سابقہ کارکردگی بابت جاننے کی بڑی بے تابی ہے، ان میں سے اکثر حسبہ بل کو ” مولویوں کے مارشل لاء ” اور ”طالبانائیزیشن ”سے تعبیرکر رہے تھے ۔یہ بل ایک ایسے محتسب ادارے کے قیام کی جانب قدم تھا جو سماج میں اسلامی تعلیمات واحکامات کے نفاذ دینی اقدار کے فروغ اورمعاشرتی بے راہ روی کے سدباب کے لیے آئینی طور پر عملی جہد ومساعی کیلئے سنگ میل تھا۔اس ضمن میں عوامی مقامات پر اسلامی اخلاقی اقدار کی پابندی کروانا، تبذیرو اسراف کی حوصلہ شکنی کرنا خصوصاً شادی بیاہ اور اس نوع کی سماجی رسومات میں جہیز سمیت دیگر بے اعتدالیوں کا سدباب کرنا،سود وشراب کی لعنت سے معاشی ومعاشرتی ماحول کو پاک کرنا، اسلامی شعائر ومقدسات کے ناموس کا تحفظ کرنا،اخلاقی اقدار واسلامی احکامات کی بجا آوری کی حوصلہ افزائی کرنا، غیرشرعی تعویذ گنڈے، دست شناسی ، جادوگری،”سورہ”جیسی مذموم رسومات، غیرت کے نام پر قتل مصنوعی گرانی، رشوت ستانی اور ناپ تول کی نگرانی کرنا جیسے اموربھی اسکے فرائض منصبی میں شامل تھے ۔
جنہیں دکھ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کر کچھ نہیں پائی، اسلامی نظم حیات کے عملی نفاذ کا راستہ روکنے والے اصل کردار وہی ہیں۔ حسبہ بل مسترد کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی چار دیواری میں ایک آمرکی ہدایت پر جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ،اہل نظر سے پوشیدہ ہے نہ کوئی اس سے لاعلم ۔کیا یہ سچ نہیں کہ جسٹس افتخار محمدچوہدری جن کے دامن پرپرویز مشرف کے ناجائز اقتدار کو جواز بخشنے ،ریفرنڈم مقدمے میں علانیہ جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور جنرل پرویزمشرف کی وردی بابت مقدمے کو غیر آئینی طور پرخارج کرنے جیسے دھبے لگے تھے ،انہوں نے پرویز مشرف کی جانب سے حسبہ بل سے متعلق محض رائے جاننے کیلئے دائرکردہ ریفرنس کے جواب میں بجائے رائے دینے کے ازخود گورنر کو حکم دے دیا کہ وہ حسبہ بل کا راستہ روکیں تو فرمائیے جناب!کہ اس تناظر میں ایم ایم اے کے مقاصد و اہداف تک رسائی بابت سوال بجائے خود مضحکہ نہیں تو کیا ہے ؟ آمر کی مخالفت اور موجودہ NFC ایوارڈ کی عدم موجودگی کے باوجود خیبر پختونخوا میں مفت تعلیم، ہسپتالوں میں مفت ایمرجنسی سہولیات کی فراہمی، بچیوں کے لیے تعلیمی وظائف کا اجراء ، پانچ مرلہ اور اس سے کم کے مکانات پر ٹیکس ختم کرنا، صوبے میں پانچ سالہ سرپلس بجٹ پیش کرنا، غیر سودی بنکاری کیلئے خیبر بنک کا قیام، وفاق سے بجلی کے منافع کا حصول، اسلامی و سماجی قانون سازی کے لیے حسبہ بل کی تیاری و منظوری، عام فرد کی آسانی کے لیے اردو کو سرکاری زبان قرار دینے سمیت لاتعداد فلاحی ،رفاہی وترقیاتی کاموںکے باوجودایم ایم اے کی کارکردگی سے متعلق سوال کرنے والے کسی سیارہ کی مخلوق لگتے ہیں جہاں کچھ ہورہا ہے، نہ ہونے کی خبر پہنچ پارہی ہے
متحدہ مجلس عمل اور سماجی ارتقاء۔۔۔جذبات نہیں دانشمندی درکار ہے
Facebook Comments