تحریر : غلام نبی
جس وقت قسطنطنیہ محمد فاتح کی یلغار کے نیچے تھا۔ محمد فاتح کی فوجیں داخل ہو رہی تھیں۔ اس وقت وہاں کے علماء اور دانشوروں کے درمیان اس پر بحث ہو رہی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جو روٹی کھائی تھی عشائے ربانی میں وہ پتیری تھی یا خمیری۔ اس پر بڑی متکلمانہ بحثیں اور بڑی بڑی نکتہ سنجیاں ہو رہی تھیں۔ اور سلطان فاتح کی فوجیں یلغار کر کے قسطنطنیہ میں داخل ہو رہی تھیں۔۔۔
امت مسلمہ کو جتنا نقصان اندرونی اختلافات و مناقشات نے پہنچایا ہے اتنا نقصان کفار نے نہیں پہنچایا۔۔ اس لیے اتفاق میں برکت جبکہ انتشار میں ہلاکت ہے۔۔ آج ایک بار پھر ملک عزیز میں مذہبی جماعتوں نے تمام مسلکی تعصبات سے بالا تر ہو کر ایک جھنڈے کے نیچے اور ایک نشان کے تحت الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔ مذہبی جماعتوں کی بقا صرف اتحاد میں ہے۔ مذہبی ووٹ بینک جب یکجا ہو تو پارلیمنٹ میں تیسری یا چوتھی بڑی قوت بن سکتا ہے۔پاکستان کے اسلامی تشخص اور آئین کی اسلامی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اتفاق کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اجتماعی قوت سے ہی بے دین قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔۔ایم ایم اے کی بحالی کے بعد سب سے بڑے خطرے کی گھنٹی تحریک انصاف کے لیے بجی ہے۔ تحریک انصاف کا کے پی کے سے صفایا ہو جائے گا۔ اور ایم ایم اے حکومت بنا سکے گی۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی ایم ایم اے ایک بڑی قوت ہو گی۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا شورش زدہ علاقے ہیں۔ ان صوبوں میں مذہب کی جڑیں مضبوط ہیں۔ عالمی قوتوں نے گریٹ گیم کے لیے ان ہی صوبوں کا انتخاب کیا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے ان صوبوں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ خطہ کی صورتحال بھی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی بھی اس خطے کے بارے میں واضح ہو چکی ہے۔ داعش کی موجودگی اور شام کی صورتحال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ان تمام
حالات و واقعات کا شدید تقاضہ تھا کہ مذہبی جماعتیں مل کر ان حالات کا مقابلہ کریں۔ اس گھمبیر صورتحال سے اجتماعی جدوجہد کے ذریعہ ہی نکلا جا سکتا ہے۔۔ اس لیے ایم ایم اے کی بحالی مذہب پرستوں کے لیے ایک کرن کی امید ثابت ہوئی ہے۔ ہم ایم ایم اے کے تمام قائدین کو ایک پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ یہ اتحاد کامیابی کا زینہ ثابت ہواور محکوموں اور مظلوموں کی للکار ثابت ہو۔
ایم ایم اے بحالی
Facebook Comments