تحریر : حافظ نصیر احمد احرار
آپ کو مولانا فضل الرحمان کی شخصیت و کردار سے اختلاف ہے یا آپ ان کی سیاسی فکر کے ناقد ہیں۔ہم آپ کے اختلاف اور نقد کا احترام کرتے ہیں۔
آپ جمعیت علماء اسلام کی سیاسی حکمت عملی کے سخت مخالف ہیں یا اس کے عملی کردار کو بلکل نہیں مانتے۔ہم آپ کا یہ حق بھی تسلیم کرتے ہیں۔
پاکستان کے نظریاتی تشخص کی حفاظت،دینی اقدار کی سالمیت اور دیگر ملی و سیاسی معاملات میں جمعیت علماء اسلام کے کردار اور قائد جمعیت کی خدمات کو بھی آپ نہیں مانتے۔کوئی بات نہیں۔
لیکن مجھے اتنی بات کہنے کا حق دیجئے!
1857 کی ہنگامہ آرائی اور 1918 کی ریشمی رومال تحریک کے بعد اس خطے کے مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان جس زمانے میں ہوا ہے وہ نائن الیون کا دور ہے۔تاریخ کا ہر طالب علم اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ نائن الیون کا واقعہ اس خطے کے مسلمانوں کے لئے 1857 کے خونی دور سے کم ہلاکت خیز نہیں ہے۔جان و مال اور عزت و آبرو کی جیسی قربانی 1857 کے مسلمانوں نے دی تھی۔۔۔ نائن الیون کے دور کی خون آشام راتیں ہمیں 1857 کا زمانہ یاد دلا دیتی ہیں۔پانی پت کا میدان،شاملی کی جنگ،کالے پانی کی جیل،مالٹا کی قید،درختوں پر لٹکتی لاشیں اور توپ کے گولوں سے اڑتے جسموں کے ٹکرے اسی دور کی یادگاریں ہیں۔جب حافظ ضامن رح جیسے شہید اور شیخ الہند رح جیسے قیدی تاریخ میں امر ہو گئے تھے۔ ایسی ہی کچھ المناک یادیں نائن الیون کے دور سے بھی جڑی ہیں۔
یہ ہمارے اکابر کی تاریخ ہے اور ہم سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ہم نے گذشتہ ڈیڑھ صدی کے طویل عرصے میں باہمی اختلافات کے وقوع اور تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرنے کے باوجود 1857 کے ہنگامہ خیز دور اور 1918 کی تحریک حریت کو اپنا قابل فخر اثاثہ سمجھ کر آج تک سنبھال رکھا ہے۔ہم کسی بھی صورت لازوال قربانیوں کی اس تاریخ سے دستبراد ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
تفصیلات کو چھوڑ کر نتائج کی طرف آئیے!
1857 کے ہلاکت خیز طوفان کے بعد اکابر نے مسلح جہد ترک کر کے تعلیم و تعلم کا راستہ اختیار کیا اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی۔1918 کی تحریک کے بار آور نہ ہونے پر اکابر نے عسکریت کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا اور جمعیت علماء قائم کر لی۔یاد رہے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد اور جمعیت علماء کا قیام انہیں اکابر کا فیصلہ تھا جو 1857 کی مسلح جنگ اور 1918 کی عسکری تحریک کے روح رواں تھے۔حکمت عملی کی تبدیلی سے حاصل یہ ہوا کہ سب کچھ بچ گیا۔ڈاڑھی،پگڑی،مسجد،مدرسہ۔دینی روایات اور اسلامی تہذیب وغیرہ جو آج ہماری پہچان ہے اور ہم اس کے نگہبان بن کر مانتے ہیں کہ ہمارے اکابر نے بروقت اور درست فیصلے کئے تھے۔
آج مولانا فضل الرحمن نے کونسا جرم کیا ہے۔
یہی کہ ۔۔۔ اکابر کے نقش پا پر چلتے ہوئے نائن الیون کی ہنگامہ آرائی کے بعد دینی طبقات کو تشدد سے روک کر تعلیم و تعلم کی محفوظ راہ دی ہے اور عسکری عفریت پر میدان سیاست کو ترجیح دی ہے۔مولانا فضل الرحمان کا کمال یہی ہے کہ وہ جذبات سے مغلوب ہو کر یا لالچ و خوف کا شکار بن کر اندھے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ حکمت و تدبر سے قدم اٹھاتے اور تاریخ سے رہنمائی لیتے ہیں۔اس لئے ہم علی وجہ البصیرت یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی حکمت عملی اکابرین دیوبند کی دو سو سالہ فکر کا تسلسل ہے۔
دور حاضر میں مولانا فضل الرحمن کی حکمت عملی کو بزدلانہ،منافقانہ اور مفاداتی سیاست کا طعنہ دیکر حسد و بغض کا اظہار کرنے والو!
تم حقیقت میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح،مولانا محمد قاسم نانوتوی رح،مولانا رشید احمد گنگوھی رح اور شیخ الہند مولانا محمود حسن رح کو گالی دے رہے ہو۔تاریخ کی اس الہامی مماثلت اور ناقابل تردید شواہد کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی شخصیت پر تبرا کرنے والو سب سے بڑے بزدل سب سے بڑے منافق اور مفاد پرست تم ہو۔
تاریخ گواہ بن رہی ہے!
ہم تمہارا محاسبہ کرتے رہیں گے۔ان شاء اللہ
آئیےتاریخ سےفیصلہ لیتے ہیں
Facebook Comments