(ساربان کی ڈائری)
پاکستان کی عدالتی تاریخ دراصل اس ملک کی سیاسی تاریخ بھی ہے۔ اور یہاں کی سیاست کی سرگزشت بھی ایک طرح سے عدالت کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔جہاںروز اول سے ہی عدالت سیاست کے خلاف مورچہ رہا ہے اور سیاست بھی عدالت کی آزادی اور اختیارات سلب کرنے کے لئے کمین گاہ ثابت ہوئی ہے۔ سیاست کو عدالت سے جتنے شکوے او ر شکایتیں رہی ہیں ،عدالت کو بھی اپنی حیثیت اور دائرہ کار کے حوالے سے سیاست سے اتنی ہی بے اطمینانی اور اضطراب رہا ہے۔ سیاستدانوں کا گلہ ہے کہ عدالت طاقتور حلقوں کی وکیل بن کر ان کے ساتھ سیاست کے ہاتھ پائوں باندھنے میں ان کی مدد کرتی ہے اور عدالت کا شکوہ ہے کہ سیاست خود جن مقتدرقوتوں کا سامنا کرنے سے گریزاں و پریشان ہے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر وار کرنا چاہتی ہے۔ عدالت کی شکایت ہے کہ سیاستدان خود ایل ایف او کے تحت حلف اٹھاتے ہیں اور عدالت کی پی سی او کے تحت حلف برداری پر معترض ہوتے ہیں ،جبکہ سیاست کو گلہ ہے کہ جب ا س کابوریا بستر گول کردیا جاتاہے تب عدالت ہی وہ واحد فورم ہوتا ہے جہاں سے آئین کی تعطیل اور عارضی آئینی ڈھانچے کے استرداد کا مزاحمتی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔
سیاست کا کہنا ہے کہ عدالت پرویز مشرف جیسے آمروں کو اقتدار سے معزولی کے بعد بھی ریلیف فراہم کر کے انہیں سزا سے بچاتی ہے اور عدالت کا موقف ہے کہ جس عجلت پسندی اورزمینی حقائق کے ادراک کے تحت آمروں کو محفوظ راستے کی فراہمی سیاست کی ضرورت ہے یہی ضرورت بلا کم و کاست عدالت کی بھی ہے۔ سیاست کو شکایت ہے کہ عدالت ہر آمرانہ دور میں آمر کے ساتھ بنا کر رکھتی ہے اور عدالت کا جواب ہے کہ ہر آمر کی حکومت کا حصہ بننے والے سیاست دان ہی ہوتے ہیں او رہر آمرکو کو ئی نہ کوئی” مسلم لیگ” بطور سیاسی بازو مہیا کرنے والے بھی سیاستدان ہی ہوتے ہیں۔عدالت ، سیاست کی مالی کرپشن کو اس کی کمزوری سمجھتی ہے، اور سیاست عدالت کی اخلاقی ابتری کو مسئلہ سمجھتی ہے ۔ عدالت کا دعویٰ ہے کہ جب تک سیاست اپنے کردار کی شفافیت کو یقینی نہیں بناتی اس وقت تک وہ غیر جمہوری قوتوں کی دراندازی کا جواز ختم نہیں کر سکتی اور ان کے تسلط کا راستہ روک نہیں سکتی۔
سیاست کا کہنا ہے کہ جب تک عدالت مخصوص ، محدود اور Selected انصاف کے تصور کو ختم نہیں کرتی اس وقت تک سیاست کا امیج ، تاثر اور حیثیت مجروح اور متاثر ہوتی رہے گی ۔ سیاست کا کہنا ہے کہ ایوان سیاست کی دیواریں پھلانگنے پر عدالت نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور عدالت کا کہنا ہے کہ طاقت کے نشے میںخود سیاست نے بھی ایوان عدل کی دیواریں پھلانگی ہیں ۔ سیاست کوفخر ہے کہ اس نے ملک کے بے شمار مزاحمتی لیڈر او ر سیاسی کارکن دیئے ہیں جبکہ عدالت کو ناز ہے کہ اس نے درجنوں ایسے ججز پیدا کئے ہیں جنہوںنے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر گھر جانے کو ترجیح دی ہے۔ سیاست کا موقف ہے کہ عدالت سیاستدانوں کیخلاف جو ڈیشنل مارشل لاء نافذ کرتی آرہی ہے اور عدالت کہنا ہے کہ سیاستدان اپنے سیاسی حیثیت کے بل بوتے پر عدالتی استثناء حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں۔
سیاست کا کہنا ہے کہ عدالت ادارہ جاتی احتساب سے گریزاں ہے اور عدالت کا موقف ہے کہ سیاست ایک فرد واحد کے احتساب کوسیاست اور جمہوریت کے خلاف نقب زنی باور کراتی ہے۔ سیاست بضد ہے کہ احتساب ہو تو سب کا ہو، عدالت کا جواب ہے کہ انتخاب ہو تو صرف شفاف لوگوں کاہو۔سیاست کا کہنا ہے کہ انتخاب کی شفافیت میں ڈنڈی ماری جاتی ہے، عدالت کا موقف ہے کہ شفاف لوگ منتخب ہونے کے لئے پیش ہی نہیں کئے جاتے۔ سیاست کا اصرار ہے کہ انتخاب اور احتساب دونوں عوام کا کام ہے بلکہ انتخاب ہی احتساب ہے، عدالت کا موقف ہے کہ عوام کے سامنے پیش ہونے والوں میں سے شفافیت کے تقاضوں کو پور انہ کرنے والوں کو میدان سے باہر نکالنا اس کا فریضہ ہے ۔ عدالت کو شکوہ ہے کہ سیاستدانوں کاکردار قابل گرفت ہے اور سیاست کا کہنا ہے کہ دراصل عدالت کے فیصلے قابل گرفت ہیں ۔ سیاست کوعدالتٍ کی ترجیحات پر اعتراض ہے اورعدالت سیاست کے رجحانات پر معترض ہے۔ سیاست کو عدالت کی دیانت مشکوک لگتی ہے اور عدالت کو سیاست کی شفافیت۔ سیاست عدالت کو آزاد نہیں سمجھتا او رعدالت سیاست کی برہمی کو ہی اپنی آزاد ہونے کی دلیل گردانتی ہے ۔
سیاست اور عدالت کی یہ کشمکش پاکستان کی سیاسی تاریخ اور عدالتی سرگزشت کا ایک مستقل عنوان ہے اور اس کے اسباب بھی بہت سے ہیں۔ سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک کے برعکس پاکستان میں آج تک عملی طور پر یہ بات طے نہیں کی جاسکی ہے کہ واقعتا ملک میں اقتدار و اختیار کا حق اسی طبقے کے پاس ہے جس طبقے کو آئینی طور پر اور اصولا ًیہ حق سونپا گیا ہے۔ عوام کے منتخب اداروں اور جماعتوں کے پاس موجود اس اصولی حق کو ہمیشہ کبھی برہنہ و عریاں انداز میں غارت کیا گیا ہے او رکبھی پردے کے پیچھے رہ کر خفیہ اقدامات اور نظر نادیدہ ہاتھوں کے ذریعے انہیں اس حق سے محروم کیا جارہا ہے اوراس مقصد کیلئے سب سے ضروری اور بنیادی چیزیہ ہے کہ سیاست اور سیاست دانوں کو عوام کی نظروں میں احساس ذمہ داری سے عاری ، ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے اور ملکی انتظام و انصرام چلانے کیلئے نا اہل او ربے صلاحیت ثابت کیا جائے ۔اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے ہمیشہ تین مختلف محاذوں سے گولہ باری کی جاتی رہی ہے۔
پہلا طریقہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو میڈیا میں بلا وجہ او ر بغیر کسی دلیل و ثبوت کے مسلسل بدعنوان اور کرپٹ پیش کیا جائے ۔ چونکہ صحافیوں کا ایک حلقہ ہمیشہ ایسا موجود رہا ہے جو حکومت پر تنقید کا حق استعمال کرتے ہوئے الزام تراشی اور دشنام طرازی میں مصروف رہتا ہے، انہیں ملک میں جو بھی مسئلہ نظر آتا ہے ان کے نزدیک اس مسئلے کی وجہ حکومت کی نااہلی ہی ہوتی ہے ۔ وہ اس حقیقت کو مستقل نظر انداز کئے رکھتے ہیںکہ ہر ملک میں کچھ معاملات اور مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس ملک کی موقعیت، وسائل اور دوسرے موثرات کی وجہ سے طبعی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی سیکنڈ نیوین ملک ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کو معیار بنا کر مسائل اور مشکلات کا کسی دوسرے ملک کے ساتھ موازنہ شروع کردیں تو اس حساب سے امریکہ بھی ان کے مقابلے میں کئی حوالوں سے عقب ماندہ نظر آئے گا۔ مگر اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہوگی کہ امریکہ کے حکومتی ڈھانچے میں ایسی کمزوریاں اور نقائص ہیں جس کی وجہ سے یہ مسائل امریکہ میں تو موجود ہیں اور سیکنڈے نیویا ممالک میں موجود نہیں۔
اسی طرح اگر آپ کسی ترقی یافتہ اورترقی پذیر ملک کے نظام احتساب کو اٹھائیں اور کسی پسماندہ ایشائی ملک میں اس کے موازنے کا اطلاق شروع کردیں تو ایک دو نہیں درجنوں پہلوئوں سے یہاں آپ کو خامیاں نظر آئیں گی لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ اس ایشائی ملک کی جو موجودہ حکومت ہے اس کی بے عملی اور بدعملی ہی ان ساری خرابیوں کی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح حکومت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شعبہ ہو، اس میں دوسرے ترقی یافتہ ملک کے انہی شعبوں کے بہ نسبت کئی قسم کی ابتری اور بدحالی محسوس ہوگی ۔
پاکستان میں حکومت اور سیاستدانوں پر ہونے والی تنقید میں میڈیا کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ دنیا کے آئیڈیل ممالک کی مثالیں اٹھا اٹھا کر یہاں کے اہل سیاست کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتاہے۔ بطور مثال ملک کے ایک معتبر اخبار کے معتبر کالم نگار رؤف کلاسرہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف سب سے زیادہ سٹوریاں انہوںنے بریک کی ہیں ،موصوف کی ہر تحریر سیاستدانوں پر تبرا بازی کا مرقع ہو تی ہے اور آج جب یہ سطور لکھے جار ہے ہیں تو اس صحافی کے آج شائع ہونے والے کالم نے راقم کی توجہ کھینچ لی ،
کلاسراصاحب کچھ دوسرے صحافیوں کے ہمراہ دبئی گئے ہیں ، ان کے اس سفر کا مقصد دبئی میں جاری پی ایس ایل کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہونا ہے ، لیکن کالم انہوں نے اس سفر کے حوالے سے بھی سیاست پر تنقید کے تناظر میں ہی لکھا ہے۔ انہوںنے دنیا کی چند ایک اہم سیاحتی مقامات میں شمار ہونے والے اس شہر کی ترقی اور روشنیوں و رنگینیوں کو دیکھ کر اپنے کالم میں مصرعہ باندھا ہے کہ” اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ لوگ خود پاکستان کے بڑے شہروں کو دبئی جیسا بنانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟”اور پھر اسی کالم میں اپنے ہمسفر ایک بڑے صحافی محمد مالک کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ محمد مالک نے دبئی سے اپنے چینل کیلئے ایک ٹاک شو کاسٹ کی ۔بقول رئوف کلاسرا ، محمد مالک نے بھی اپنی اس ٹاک شو میں سوال اٹھایا ہے کہ: ”یہ سب کچھ دبئی میں ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ ” اس قسم کے سوال یہاں کے میڈیا کی اکثر تحریروں اور تجزیوں میں روزانہ اٹھائے جاتے ہیں ۔ بظاہر یہ بڑے درددل اور غمگساری پر مبنی بھی ہوتے ہیںاور ان تحریروں اور تقریروں کو پڑھ ،سن کر اپنے حکمرانوں کے خلاف غصے اور اشتعال کے جذبات بھی بڑی آسانی سے فروغ پاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراضات اور الزامات کیا واقعی بجا بھی ہوتے ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے موازنوں اور تجزیوں میںبنیادی حقائق کو نظر انداز کردیا جاتاہے، جزو کو کل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کل کو بہت محدود شکل میں پیش کردیا جاتاہے ۔ معیشت ، وسائل ، حکومتی پالیسیوں وغیرہ کے باہمی تعلق کو سمجھنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ترقی اور گورننس کتنے عوامل اور موثرات کی پابند ہوتی ہے ، کئی خاص مراحل سے گزرنے اور کئی خاص قسم کے حالتوں کے پیدا ہوجانے کے بعد ترقی وجود میں آتی ہے لیکن ہمارے دانشور، اہل صحافت ان تمام پہلوئوں سے صرف نظر کر کے ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کرنے کیلئے ہر مسئلے کا ذمہ دارحکومت اور پھر صرف ہر موجودہ حکومت کو گردانتے ہیں۔ اس رجحان کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ جب تمام برائیوں کا مرکز و محور کسی خاص طبقے کو ثابت کیا جاتاہے تو معاشرے کے دیگرتمام طبقات میں اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اور اپنے کردار کے موثر ہونے سے مایوسی پیدا ہو جاتی ہے۔
صحافت کے بعد دوسرا محاذ عدالت کا ہے۔ عدالت کے زمرے میں صرف باقاعدہ عدالتیں ہی نہیں بلکہ تحقیق و تفتیش اور احتساب کے ذمہ دار تمام دوسرے ادارے بھی آتے ہیں ، ان فورمز پر ایک تسلسل کے ساتھ صرف اہل سیاست پر توجہ کا ارتکاز موجود رہتا ہے ۔ ہر وقت ہماری عدالتوں میں کسی نہ کسی سیاستدان کا ٹرائل چلتا رہتا ہے ، ہر ہفتہ دو ہفتے بعد اخبارات میں ایسی خبریں ضرور چھاپ دی جاتی ہیں جن میں کسی سیاستدان ،کسی موجودہ یا سابق وزیر کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات شروع ہو جانے کی نوید دی جاتی ہے۔ اس سوال کو کوئی درخور اعتنا ء نہیں سمجھتا کہ ان تحقیقات اور عدالتی ٹرائلز میں سے کتنوں میں سیاستدان واقعی کرپٹ ثابت بھی ہوئے ہیں ۔ لیکن جب یہ چیزیں مسلسل خبروں کا حصہ بنتی ہیں اور لوگوں میں زیر بحث رہتی ہیں تو سیاستدانوں کے کردار کے حوالے سے ایک مجموعی تاثر قائم ہو جاتاہے اور وہ تاثر یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت کرپشن اور خزانہ لوٹنے میں ملوث ہے۔ حالانکہ اگر ان میں سے کسی مقدمے میں حقیقت موجود ہو تب بھی اس حقیقت کے ضمیمے کے طور پر یہ بھی ایک حقیقت ہوتی ہے کہ کرپشن کی ہر واردات میں آغاز سے انجام اور اوپر سے نیچے تک ایک پوری Chain ہوتی ہے ۔
کرپشن ہر گز ایک ا نفرادی اور محدود عمل کی صورت میں ممکن نہیں ہوتی، لیکن ان سارے کل پرزوں کو نظر انداز کر دیا جاتاہے اور صرف سیاستدانوں کو مرکزی رول دیا جاتاہے ۔یہاں تک کہ خود عدالتی نظام اس نہج پر تشکیل دیا گیا ہے کہ ججز اگر کرپشن میں بھی ملوث ہو تو ا س کا اوپن ٹرائل نہیں ہوتا بلکہ عدالت کی ایک ادارہ جاتی نوع کی کاروائی خفیہ طور پرسر انجام دی جاتی ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی جاتی ہے کہ عدالت کی ساکھ عوام کی نظروں میں متاثر نہ ہو۔جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جس طرح ایک سیاستدان کو کرپشن کے صرف الزام میں عدالت کی جانب سے چور ڈاکو وغیرہ القاب سے نوازا جاتاہے اورکرپشن کے الزامات لگنے کے بعد سیاستدان کو سیاستدان سمجھا نہیں جاتا تو پھر ایک جج ، صحافی اور جرنیل پر اس اصول کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا ؟جج کو کرپٹ ہونے کے باوجود ”آنربیل” سمجھنا کیوں ضروری ہوتاہے ؟
تیسرا طبقہ جو سیاست کو گندہ کھیل بنانے اورپھر گندہ کھیل ثابت کرنے پر مامور ہوتاہے، یہ خود سیاستدانوں کی شکل میں چند ”مہرے ”ہوتے ہیں، پاکستان میں موجودہ سیاسی لیڈروں کی صف میں ا زقسم عمران و شیخ رشید یہ ڈیوٹی نبھا رہے ہیں ۔
ملک میں اس وقت احتساب اور صداقت و امانت کی سربلندی کے تناظر میں ہونیوالی عدالتی کاروائیوں ، تحقیقات ، فیصلوں اور معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے پیدا ہونے والے خدشات و تحفظات اس پس منظر میں پیدا ہورہے ہیں کہ ایک خاص زاوئیے سے یہ عمل آگے بڑھ رہاہے اور اس کے کچھ ا نتہائی اہم اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ مسئلہ اگر ایک کرپٹ سیاستدان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا ہوتاتو اس وجہ سے کسی تشویش کی بھی چنداں ضرورت نہ ہوتی ۔ یہاں ماضی میںسیاستدان سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالے گئے ہیں،ان کیخلاف درجنوں مقدمات قائم ہوئے ہیں، انہیں جلا وطن کیاگیا ہے لیکن ان تمام واقعات کی وجہ سے اس قسم کی حساسیت پیدا نہیں ہوئی جیسا کہ موجودہ احتسابی عمل کے حوالے سے سامنے آرہی ہے۔
اس تشویش کی وجہ انتہائی سادہ اور بہت واضح ہے۔ ہم اس ملک کی تاریخ میں یہ منظر بھی دیکھ چکے ہیں کہ جب عوامی اکثریت رکھنے والی لیڈر شپ اور جماعت کو اقتدار کے حق سے محروم کردیا گیا تو اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک صورت میں سامنے آیا۔ میاں نواز شریف اس وقت پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں ، ان کو نہ صرف منتخب ایوان میں عددی اکثریت حاصل ہے بلکہ ان کے اجتماعات میں عوام کی شرکت بھی قابل ملاحظہ ہوتی ہے ۔ اس سطح کی مقبول ترین لیڈر شپ کے خلاف جب کمزور بنیادوں پر غیر مقبول فیصلے کئے جانے لگیں اور پھر ایک تواتر کے ساتھ ایسے اقدامات سامنے آرہے ہوں جن کی وجہ سے خود اس لیڈر اور ان کے حامی عوام میں یہ تاثر پیدا ہو کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے زیادہ ایک ایجنڈے کے تحت انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ تو اس صورتحال کے بارے میں صرف متاثرہ فریق ہی نہیں بلکہ ہر دور اندیش حلقے میں اضطراب کا پیدا ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔صرف یہ نہیں بلکہ اس کے علاوہ یہ بھی تصور پایا جاتاہے کہ عمران خان کی صورت میں دوسرے عناصر کو ریلیف اور سہولت بھی دی جاتی ہے اور انہیں اپنے ہم پلہ حریف سے نجات حاصل کرنے کا فائدہ بھی پہنچایا جارہا ہے ۔ ملک میں جاری کشمکش کے حوالے سے یہ وہ بنیادیں ہیں جن کی وجہ سے سیاسی ماحول میںبے چینی اور اضطراب میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، یہاں تک کہ منتخب پارلیمان میں اس سوال کو زیر بحث لانے پر بھی غور و خوض ہو رہا ہے کہ حاکمیت کے جائز آئینی حق کو دوسرے مسند نشینوں کی دست برد سے محفوظ بنانے کے لئے کیا راستہ اختیار کر نا چاہئے ۔ اگر قومی مفاداور ملک کی اجتماعی مصلحت کو مد نظر رکھا جائے تو درحقیقت اسی کشمکش کو نقطہ اختتام دینے کے حوالے سے غور وفکر کی ضرورت صرف سیاستدانوں اور منتخب پارلیمنٹ کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ وہ تمام سٹیک ہولڈر ز جو پاکستان کی سیاست میں ظاہری اور پس پردہ کردار اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں ان سب کو ان معاملات کی بڑھتی ہوئی نزاکت کا ادارک کر کے ان ارتعاشات کا تسلسل توڑنے کے لئے آگے آنا چاہئے جن کی وجہ سے ملک کی سیاست و معیشت ہی نہیں بلکہ ریاست کے مختلف ستونوں اور قومی اداروں کے درمیان اعتماد کا شدید بحران پیدا ہورہا ہے۔
عدالت نے جس طرح زمینی حقائق کے احساس کی بنیاد پر ماضی میں ایسے اقدامات کی تائید کی ہے جن کو آج وہ خود بھی آئینی اعتبا ر سے ناقابل قبول سمجھتی ہے ،ایسے مواقع پر چشم پوشی او ردرگزر سے کام لیا ہے جہاں پر آئین و قانون کے تقاضے ہر گز خاموش نہیں ہوتے تھے ، تو اب بھی انہیں سیاستدانوں اور بالخصوص مقبول سیاستدانوں کے ساتھ انتہائی معمولی نوعیت کے الزامات و امور پر معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ایک شخص یا ایک خاندان کے خلاف کوئی بھی قانونی کاروائی محض اس سے وجہ ترک نہیں کی جاسکتی کہ چونکہ وہ عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں لہٰذا انہیں قانون کے اطلاق سے مطلق استثناء ملنا چاہئے ۔لیکن اس کاروائی کی جب اپنی بنیادہی انتہائی کمزور او ر عوام کیلئے غیر مقبول ہو یا پھر سزا کا حجم جرم کے حجم سے بہت زیادہ محسوس ہو رہا ہو تو اس صورت میں یقینا پہلے سے موجود مقبولیت او ر عصبیت کی وجہ سے دارڑیں بھی بہت بڑی اور بہت گہری پیداہو جاتی ہیں اور یہی وہ وجوہات ہیں جو ملک میں اس وقت تشویش اور پریشانی کا باعث بھی بن رہی ہیں اور تمام سٹیک ہولڈرز سے گہری بصارت کے ساتھ اس بحران کا جائزہ لے کر اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لاکر اس سے نکلنے کے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کا تقاضا کرتی ہیں

عدالتی ایکٹوازم۔۔۔زمینی حقائق کےادراک کی ضرورت
Facebook Comments