تحریر : حافظ محمد ابوبکر شیخ ،ڈپٹی ایڈیٹر الجمعیۃ
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچے کھچے پاکستان میں پہلی مرتبہ احتساب کا نعرہ ”ضیاء ”دور میں متعارف ہوا ۔ جنرل ضیاء ہی نے پیپلز پارٹی کو بھٹو سے پاک کر کے کام کی اجازت دینے کا تصور اجاگر کیا۔ کوثر نیازی کی پروگریسیو پیپلزپارٹی، ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ کاعطاء اللہ مینگل سے مل کر فیڈریشن کی بجائے کنفڈریشن بنانے کا مطالبہ بھی اس عہد میں اسی تناظر میں دیکھا گیا ۔ضیائی احتساب کی عملی شکل یہ تھی کہ بھٹو ز اورسیاسی قوتوں کو چھوڑ کرجو سیاستدان آمریت کی چھتری تلے آتاگیا وہ ”پاک ہوتا گیا”سیاسی قوتوں نے تحریک بحالی جمہوریت (MRD) کے نام سے آمر مطلق کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کا خوب مقابلہ کیا ۔ جمعیة علماء اسلام اس تحریک کا ہر اول دستہ تھی ، عوامی سطح پر صورت حال یہ بنی کہ جس سیاسی رہنما نے وفاداری تبدیل کی،وہ جذامی ٹھہرا۔ متبادل قیادت کی تیاری کے لئے79ء اور83ء میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے۔85ء کے غیر جماعتی ،غیر آئینی عام انتخابات بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھے،چنانچہ بحالی جمہوریت کیلئے متحرک سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات بائیکاٹ کیا ۔ان غیر جمہوری عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ کی تشکیل سے محمدخان جونیجو اور ان کی پارٹی کی حکومت بنی، جب وہ بھی آمرانہ سوچ کی تابع مہمل بننے کیلئے تیار نہ ہوئی تو آمر مطلق نے ناا ہلی ،بدعنوانی اورقرض خوری کے الزامات لگا کرمحمد خان جونیجوکو برطرف کردیا۔ جونیجو حکومت کی رخصتی کی بنیادی وجوہات کچھ اور تھیں ،مگر جنرل ضیاء نے قوم کے سامنے صریحًا جھوٹ بولا۔جونیجو حکومت کی برخاستگی اور نئے انتخابات کے درمیانی عرصہ میں جنرل ضیاء طیارے کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے ، قائم مقام صدر غلام اسحاق خان ،آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی ٹیم نے 88ء کے مجوزہ عام انتخابات اور بے نظیر بھٹو کواقتدار منتقلی کا عمل سرانجام دیا ۔تاہم اس دوران سیاسی قیادت کو بدنام کرانے، قومی قیادت کی جگہ نسلی، لسانی ،فرقہ وارانہ جماعتیں متعارف کروانے کی جستجو غیر مرئی قوتوں کی طرف سے جاری رکھی گئی ، حقیقی مذہبی سیاسی قیادت کو جنرل ضیاء دور میں پابند سلاسل رکھا گیا ۔صوبہ بدری، زبان بندی وغیرہ کے کالے قوانین سے انہیںدبانے کی کوشش کی گئی، ان کی جگہ فرقہ پرست گروہی مذہبی شخصیات پروان چڑھائی گئیں ۔ 88ء کے عام انتخابات کے بعد بننے والی پارلیمان اور حکومت محض 16ماہ ہی چل پائی تھی کہ اگست 1990ء میں آئین کی دفعہ 58/2-B کے تحت بدعنوانی کے الزامات لگاکر برخاست کردی گئی۔ بے نظیر اور ان کے رفقاء پر الزام تھا کہ وہ نااہل بدعنوان اور اقربا ء پرور ہیں ۔ چنانچہ اس کی آڑمیںسیاسی حکومت ،سیاسی قیادت ، سیاسی عمل کو شد و مد سے بدنام کرنے کے سوا کچھ نہ کیا گیا۔ ضرورت تھی کہ ان الزامات کوعدالت میں ثابت کر کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی ،مگر ایسا نہیں ہوا ۔صرف کرادر کشی کی گئی،اور یہی مقصودتھا۔ نئے انتخابات کے بعد پارلیمان کی تشکیل ہوئی، حکومتیں بنیں۔ ان کی بناوٹ اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لئے غیر مرئی ہاتھ رقوم خرچ کرتا رہا ، انتخابی طریقہ کار میں ہیر اپھیری کے ذریعے عوامی رائے کے علی الرغم نتائج برآمد کئے گئے۔یوں 90 ء کے انتخابات کے غیرحقیقی نتائج کی بناء پر قومی سیاسی قیادت کی جانب سے اسے انجینئرڈ الیکشن قرار دیا گیا۔ بعدا زاں عدالتوں میںثابت ہوا کہ بعض شخصیات نے اپنے دائرہ عمل سے تجاوز کیا اور 90ء کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوئیں ۔85ئ،88ء اور90ء کے انتخابات میں عوام کو گمراہ کرنے کیلئے صوبائیت اور علاقائیت کے نعرے ایجاد کرکے ان نعروں کی عملی تائید و حمایت کیلئے اقدامات کئے گئے، مزید یہ کہ بد عنوان قراردی گئی قیادت اور جماعت سے بے وفائی کرنے والے پاک و صاف اور محب وطن اور اہل ٹھہرے، غلام مصطفی جتوئی اور ان کی نیشنل پیپلز پارٹی متعارف ہوئی ،جبکہ مذہبی حوالے سے جمعیة علماء اسلام کی مخالف شخصیات کو اجاگر کیا گیا ۔ 90 ء کے انجینئرڈ انتخابات میںجو مصنوعی قیادت اقتدار کے ایوانوں میں مسلط کی گئی تھی ،اس سے بھی نبھائو نہ ہوسکا چنانچہ یہ حکومت بھی برخاست کردی گئی۔ الزامات کی نوعیت مختلف نہ تھی مگر عدلیہ نے داد رسی کرتے ہوئے پارلیمان اور حکومت بحال کر دیئے،تاہم یہ بحالی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ جس سیاسی قوت وشخصیت کو90ء میں بدعنوان نااہل اقرباپرور قرار دے کر گھر بھیجا گیا تھا، اس کے ساتھیوں کے سہارے93ء کی حکومت اور پارلیمان کی چھٹی کرادی گئی۔مستزاد یہ کہ بیساکھیاں فراہم کرنے والی قیادت اور جماعت بذریعہ انتخابات پھر اقتدار میں آگئے ۔93ء میں منتخب ہونے والوں کو 96ء میں نکال کر پھر 90ء والے رہنما اور جماعت لائے گئے۔ یعنی دو دو باریاں دونوں کی مکمل ہوئیں۔ ہر ایک نے بدنامی کمائی اور دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے اپنی سیاسی جماعت فراہم کی ۔تاا نکہ 12اکتوبر1999ء کوجنرل پرویزمشرف اقتدارپر قابض ہوگئے۔ جنرل مشرف نے جہاں وہ سب کچھ جو کبھی پردہ اخفاء میں ہوا کرتھا برسرعام کیا ،وہاں اعلیٰ عدالت سے بلامطالبہ تفویض شدہ اختیارات کو بروئے کار لا کر دو دو باریاں لینے والی قیادت کے لئے آئندہ کا راستہ بذریعہ قانون سازی بند کردیا۔
جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی سے وفادار (Patriots) تلاش کئے اورپگاڑہ مسلم لیگ سے جنم لینے والی نواز لیگ کی جگہ ”ہم خیالوں ” پر مشتمل ق لیگ کی تشکیل کروائی ۔حسب روایت یہاں بھی جس نے وفاداری فراہم نہیں کی وہ نا اہل اوربدعنوان ٹھہرا جو ساتھ مل گیا وہ پاک دامن کہلایا۔(”نئے پاکستان” کی تشکیل کے بعد) کل ملا کر پانچ مرتبہ منتخب وزرائے اعظم اوراسمبلیاںقبل از وقت برخاست کردی گئیں، موہوم سی امید لے کر ان اقدامات کو عدالتوں میں بھی چیلنج کیا جاتا رہا مگراولا توعدالتیں بروقت فیصلہ نہ دے پائیں اور ثانیا اگر ایک مرتبہ فیصلہ دیا بھی، تو عمل درآمد میں نقائص ہوئے ۔جنرل پرویزمشرف نے بلوچ رہنما ظفر اللہ جمالی اور سکہ بند مسلم لیگی گھرانے کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو بے ڈھنگے طور پر استعمال کیا اور امریکہ سے در آمد شدہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا کر کام چلایا ۔ وزرائے اعظم کی آمد و رفت کے اس تاریخی تسلسل کو دیکھا جائے تو جاننا چاہئے ایک فرد اور اس کی جماعت ایک وقت میں بدعنوان و نااہل، دوسرے وقت میں اہل اور ایماندارقراردینے کی اس مشق کے پیچھے کونسا جذبہ اور پالیسی کارفرماہے۔ حاصل کلام یہ کہ عدالتیں آمروں کی تابع فرمان رہ کر عوامی نمائندوں کیلئے تلخ اور پیچیدہ طریقہ کار وضع کرنے اور منتخب نمائندوں کے معاملات کوتاخیری حربوں کی نذرکرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ اس پس منظر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آئیے،عوامی نمائندگی سے متعلق آئین کی دفعہ62-63 کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے حالیہ مختصر فیصلے کا تحلیل وتجزیہ کریں: اس مختصر فیصلے میں آئین پاکستان کی شق 62-63 اور 63 اے کی بڑی واضح تشریح کی گئی ہے، مزید یہ کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 203 اور232بابت راہنمائی کی گئی ہے۔ اپنے فیصلے میں سب سے پہلے عدالت عظمیٰ نے لکھا ہے کہ 1973ء کا آئین پاکستان کائنات پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے ، باشندگان وطن ا س اصول کے تحت اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں ۔ ریاست منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنی قوت عمل میں لاتی ہے۔ ریاست کی اس قوت کے اصول” جمہوریت،آزادی ، برابری ، برداشت اور معاشی انصاف ”ہیں ، ان نمائندگان ( ریاست/ حکومت ، پارلیمان کو چلانے والوں) کیلئے لازمی ہے کہ وہ مذکورہ بالا اصولوں پرعمل پیرا ہوں۔”
عدالت نے آرٹیکل نمبر17 پر بحث کی ہے جس کے تحت ہر شہری کو انجمن سازی کا بنیادی حق حاصل ہے ، عدالت کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان ان تمام مذکورہ بالا حدود وقیود و اخلاق و اقدار پر عمل پیرائی کو لازم قرار دیتا ہے ۔دفعہ62-63پرمزید بحث کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ امور پارلیمان یا حکومت جن منتخب نمائندگان کے ذریعہ چلائے جائیں گے ،وہ نمائندگان اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل ہو ں، قانون کی حکمرانی ہی اصل بنیاد ہے ۔ ( من مرضی نہیں کرنی بلکہ قانون کی بالادستی کے تحت چلنا ہوگا)۔62-63 کے تحت ارکان پارلیمان کی اہلیت و نا اہلی ارکان کے ا نتخابات و دیگر کاروائی ان مذکورہ بالا قوانین کے تابع ہے ۔ ذیلی شق63-A کی روسے پارٹی سربراہ کی پوزیشن مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔ پارٹی سربراہ کے لئے 62-63 میں جو کچھ بتایا گیا ہے اس سے متصف ہونا ضروری ہے ۔مزید براں 63-A کے مقررہ معیار اہلیت پر بھی پورااترنا ہے ، یعنی پارٹی سربراہ کے لئے یہ اضافی شرط ہے کہ وہ 63-A کے معیارپر بھی پور ااترے۔عدالت عظمیٰ نے الیکشن ایکٹ 2017ء پر مختصر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ پارٹی سربراہ کو مختلف کاموں کی انجام دہی کی قوت عطا کرتا ہے ۔ مذکورہ ایکٹ کی دفعات 203اور232 کو آئین کے آرٹیکل 62-63 کے تحت ہی پڑھا اور سمجھا جائے۔ یہ فیصلہ بھی دیا جاتا ہے کہ کوئی شخص جو 62 کی اہلیت پر پورا نہ اترتا ہو اور 63 کے تحت نا اہل ہو وہ پارٹی سربراہ کے طور پر بھی نا اہل ہے ، اور اسے منع کیا جاتاہے کہ 63-A کے تحت حاصل شدہ اختیارات استعمال میں لائے اور یہ بھی کہ اس کی ناہلی کی مدت اس وقت تک رہے گی جب تک وہ ہے ( یہاں ایک بار پھر بات گول مول اور موخر رکھی گئی ہے )،لہٰذا(سابق وزیر اعظم کے ) تمام اقدامات، جاری کردہ ہدایات اور تمام دستاویزات جو بطور پارٹی سربراہ اپنی نااہلی28-7-2017کے بعد جاری کئے ،وہ ایسے ہیں جیسے کبھی دیئے ہی نہیں گئے ۔
یہ فیصلہ بظاہر خوش آئند اورعوامی مطالبے کا آئینہ دار محسوس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ سے 62-63 کی تشریح اور اطلاقی پہلو نمایاں نہیں تھے، عدالت عظمی نے ہزاروں مقدمات کی موجودگی کے باوجود یہ مقدمہ سنا ہے ، اور اس پر واضح فیصلہ صادر کیا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا عامة الناس کو اس فیصلے کی روشنی میں انصاف مل پائے گا یا پھر ویسا ہی ہو گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے ۔ چارد ن کے شور و غوغا کے بعدمعاملات وہیں کے وہیں رہیں گے، مقصود بس اتنا تھاکہ ایک شخص یا جماعت کو مطلوبہ مدت کیلئے دیوار سے لگا دیا جائے۔ شایدیہی وہ معاملے ہیں جن کے پیش نظرمعزز جج صاحب نے فرمایا تھا کہ: خدا کی قسم میرا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، سیاسی مقدمات کو ہاتھ لگانے کو بھی دل نہیں کرتا صرف چاہتا ہوں لوگوں کو بنیادی حقوق دیئے جائیں ” ا س قسمیہ بیان کے بعد بھی ہم تاریخی ریکارڈ کے لئے اپنا یہ خدشہ لکھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں جب عامة الناس عدالتوں سے رجوع کریں گے،تب پتہ چلے گا کہ حقیقت کیا ہے؟اس فیصلے کی روشنی میں منتخب نمائندگان پارلیمان کی اہلیت اور نا اہلی کے مقدمات کی اولا شنوائی ہی نہیں ہونی، ثانیا ًتھوڑی بہت ہو بھی گئی توحسب روایت فیصلے تاخیری حربوں کی نذر ہوجانے ہیں۔اور بفرض محال اگر اکا دکا فیصلے آبھی گئے، تب بھی اس پر عمل در آمد میں نقائص برقرار رہنے ہیں ۔یعنی انصاف ملتا ہوا اورہوتا ہوانظر نہیں آئے گا۔ بادی النظر میں محسوس یوں ہوتا ہے کہ یوں بالآخر یہ فیصلہ کلمة حق ارید بھا لباطل کا مصداق قرارپائے گا۔باشندگان وطن کا ایک حلقہ ماضی کے عدالتی فیصلوں اور بروقت نہ کئے گئے فیصلوں سے متعلق ایک رائے یہ رکھتا ہے کہ ان میں ایجنڈا بیرونی اور آلہ کار تقدس مآب مقامی ہوا کرتے تھے، بالفاظ دیگر پاکستان میں قوت اور اقتدار پر بالادستی ایسے عناصر کی رہی ہے جن کے اقدامات خارجی قوتوں کی ضرریات کے تابع مہمل ہو اکرتے ہیں،پہلے یہ مقامی آلہ کار وضع قطع ،بود و باش میں خاکی غلبے میں ہوتے تھے، اب سیاہ کوٹ پہنے ہوئے ہیں ۔
منتخب وزرائے اعظم سے آمروں اورعدالتوں کا سلوک
Facebook Comments