تاریخ کے ترازو میں

 تحریر : غلام نبی
برصغیر کی ہزار سالہ تاریخ میں سید احمد شہید رحمہ اللہ کی اصلاحی، جہادی اور سیاسی تحریک کی نظیر نہیں ملتی۔۔ آپ کی کرشماتی شخصیت نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک انقلابی جذبہ بیدار کیا۔ لاکھوں لوگوں کی اصلاح ہوئی جبکہ ہزاروں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ بدعات و رسومات سے توبہ و تائب ہوئے۔ ایک اندازہ کے مطابق سید احمد شہید رحمہ اللہ کے ہاتھ پر چالیس ہزار کفار نے اسلام قبول کیا اور تیس لاکھ افراد نے بیعت توبہ کی۔آپ کے صرف ایک خلیفہ مولانا کرامت اللہ کے ہاتھ پر دو کروڑ آدمیوں کو ہدایت ملی۔۔ سید صاحب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ تھے۔ برصغیر کا ہر علمی خاندان اپنی نسبت سید احمد شہید رحمہ اللہ کی طرف کرنا اپنے لیے سعادت اور فخر کا ذریعہ سمجھتا ہے۔سید صاحب کی تحریک جہاد میں حضرت حاجی عبدالرحیم  صاحب شہید ولایتی رحمہ اللہ ( دادا پیر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ ) اور شاہ نصیر الدین صاحب دہلوی ( سابق پیر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ر۔ح ) اور بہت سے حضرات شریک ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ جام شہادت نوش کیا۔اگر پاکستان میں کسی جماعت کا شجرہ تاریخی اور جماعتی طور پر تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ سے ملتا ہے تو وہ جماعت جمعیت علماء اسلام ہے۔ تقسیم کے بعد 1953 میں جمعیت علماء کی بنیاد جن اکابر نے ڈالی اگر ان کا علمی و تحریکی نسب معلوم کیا جائے تو چند واسطوں کے بعد  وہ سب کے سب تحریک سید احمد شہید سے منسلک نظر آتے ہیں۔۔ بحیثیت جماعتی کارکن کے ہمیں یہ علم ہونا اشد ضروری ہے کہ تحریک سید احمد شہید کا مقصد کیا تھا۔ جمعیت علماء کی موجودہ سیاست اور سید صاحب کے طریقہ کار میں کتنی مماثلت پائی جاتی ہے۔ کیا جمعیت کا کام ان اکابر کی نہج پر ہے جن کے ہم نام لیوا ہیں۔۔ ان سب باتوں کو جاننے اور سمجھتے کے لیے ہم شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی کتاب “نقش حیات”  کی مدد لیتے ہیں۔ مولانا مدنی رحمہ اللہ کی شخصیت سے بڑھ کر جماعتی کارکنوں کے لیے کوئی شخصیت سیاسی معملات میں حجت نہیں ہو سکتی۔ مدنی صاحب رحمتہ اللہ نے اپنی کتاب میں تحریک سید احمد شہید کا خلاصہ کچھ ہوں بیان کیا ہے
:-1۔ آپ (سید صاحب) انگریزوں کو ” بیگانگان بعید الوطن” اور پردیسی سمجھتے تھے اور ان کے استیلاء و تغلب سے تنگ آ کر ان سے لڑنے کا عزم رکھتے تھے۔
2۔ آپ ہندوستان کو اپنا ملک اور وطن سمجھتے تھے۔
3۔ جہاد سے آپ کا مقصد خود اپنی حکومت قائم کرنا ہر گز نہیں تھا بلکہ دین رب العالمین کی خدمت تھا۔
4۔ ہندوں سے اختلاف مذہب کی بنا پر آپ کو پر خاش تو کیا ہوتی آپ کمپنی کے ہاتھوں مظلومیت  و پامالی میں ہندو مسلمان دونوں کو یکساں شریک جانتے تھے اور جہاد سے آپ کی غرض دونوں کو ہی اجنبی اقتدار کی مصیبت سے نجات دلانا تھا۔
5۔ کامیاب ہونے کے بعد ہندوستان میں ملکی حکومت کا نقشہ کیا ہو گا اس کا فیصلہ آپ طالبین  مناصب ریاست و سیاست  پر چھوڑتے ہیں مگر ہندوں کو یہ اطمینان ضرور دلاتے ہیں کہ وہ سید صاحب کی کوششوں کو اپنی ریاست کی بنیاد کے مستحکم ہونے کا باعث سمجھیں اور پھر سید صاحب کا ہندو ریاستوں کو مدد اور شراکت جنگ کی دعوت دینا اور اپنے توپ خانہ کا افسر ” راجہ رام راجپوت” کو مقرر کرنا خود اس کی دلیل ہے کہ آپ ہندوں کو اپنا محکوم نہیں بلکہ شریک حکومت بنانا چاہتے تھے۔
6۔ بے شک سید صاحب جگہ جگہ اعلاء کلمتہ اللہ اور دین رب العلمین کی خدمت کا ذکر کرنے اور اسی کو اپنی مساعی کا محرک بتاتے ہیں لیکن آپ یہ خوب سمجھتے تھے کہ اعلاء کلمتہ اللہ کا ذریعہ صرف یہ ہی نہیں ہے کہ ایک ” فرقہ وار گورنمنٹ” قائم کی جائے  اور خود حاکم بن کر دوسرے برادران وطن کو اپنا محکوم بنایا جائے۔ بلکہ اس کا سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ہے کہ برادران وطن کو سیاسی اقتدار میں اپنا شریک کر کے اسلامی فضائل اخلاق سے ان کے دلوں کو فتح کیا جائے۔ اقلیت اور اکثریت کے مسلہ کی کوئی پیچیدگی  آپ کے ذہن میں نہیں تھی۔
7۔ اس تحریک میں فرقہ واریت اور مذہبی تنگدلی کا نام نہ تھا۔ بلکہ تمام ہندوستان اور اس کے باشندوں کو بدیشی مظالم سے جو کہ تمام ملک کو برباد کر رہے تھے نجات دلانا تھا۔
8۔ اس تحریک میں غیر مسلموں کو بھی شریک کیا گیا تھا۔
9۔ سکھوں سے جنگ فرقہ واریت کی بنا پر نہیں تھی بلکہ اس بنا پر تھی کہ وہ انگریزوں کے حلیف اور مددگار تھے۔
10۔ اس تحریک کا مقصد دنیاوی مفاد، ملک گیری، خود غرضی، عہدوں اور منصوبوں کا حاصل کرنا کسی قوم کو غلام بنانا ان کی دولت اور ذرائع کو ہتھیانا ہر گز نہیں تھا۔
11۔ یہ تحریک شخصی یا کسی فرقہ کی حکومت فسطائیت کے رد عمل میں نہیں لائی گئی تھی بلکہ ” حقیقی جمہوریت” اس کا مطمح نظر تھا۔”یہ ہے تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا مقصد اور طریقہ کار مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے الفاظ میں۔۔
اب آپ خود جائزہ لیں کہ اس تحریک میں کتنی جامعیت، سنجیدگی اور وسعت پائی جاتی تھی۔ فی زمانہ مملکت خداداد پاکستان میں سید احمد شہید رحمہ اللہ کی تحریک کا حقیقی وارث جمعیت علماء کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا ۔ جذباتیت اور فرقہ واریت سے پاک تحریک جمعیت علماء کے علاوہ اس ملک میں کسی اور مذہبی سیاسی جماعت میں نظر آئے گی۔ اس لیے مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ ہمیشہ فرمایا کرتے ہیں کہ میں کسی ایک فرقہ کا نمائیندہ نہیں میں پاکستان میں تمام مکاتب فکر کا نمائندہ ہوں۔ قائد جمعیت اکثر یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں پارلیمنٹ میں دیوبند کا نمائندہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کی نمائندگی کر رہا ہوں اور پاکستان کے تمام مذہبی طبقات کی آواز ہوں۔ یہ خاصیت جمعیت علماء کو ورثہ میں ملی ہے۔ جمعیت علماء کی پختہ سوچ اور کامیاب سیاست موروثی خصوصیات کی حامل ہے جو اکابر سے سینہ بہ سینہ منتقل ہو رہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے کبھی فرقہ پرست سیاست نہیں کی اور یہ درس ہمیں سید احمد شہید رحمہ اللہ کی تحریک سے ملا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے جب کبھی ضرورت پڑی تمام فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے اور کبھی مذہبی تعصب کی سیاست نہیں کی۔ یہ بھی ہمیں اکابر نے سکھایا ہے۔ جمعیت علماء کے افراد نے دنیاوی مفادات کی سیاست نہیں کی اس لیے انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود قائد جمعیت کا اپنا ذاتی ایک کمرہ بھی اسلام آباد لاہور یا کراچی میں نہیں لندن تو دور کی بات ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے پارلیمنٹرین کی اکثریت بوریہ نشین اور درویش صفت افراد کی حامل رہی ہے۔۔
اور اکثر پارلیمنٹرین غریب ہی منتخب ہوئے اور بعد میں بھی غربت کی زندگی گزار چکے ہیں۔تو کیا جمعیت علماء اسلام پاکستان میں تحریک سید احمد شہید کی حقیقی وارث نہیں؟

Facebook Comments