جے ٹی آئی کا مشن۔۔۔ نسل نو کی تربیت

تحریر : مفتی محمد عمران
نوجوان کسی بھی معاشرے کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جو سماج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے بھر پور ہوتا ہے دنیا میں جتنے انقلابات آئے ہیں اس میں نوجوان کا رول سب سےزیادہ ہے ۔ چونکہ نوجوانان مستقبل کے معمار ہوتے ہیں اور انہی نے تمام ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہونا ہوتا ہیں اس لیے ان کی تعلیم وتربیت اہم ترین فریضہ ہے ۔ یہ تعلیم وتربیت تین مراحل میں ہوتی ہے، اول گھر، دوم سماج، سوم جامعات۔ بچہ سب سے پہلے والدین اور گھر کے افراد سے شعوری ولا شعوری تعلیم وتربیت پاتا ہے، دوسرے درجہ میں وہ گھر سے باہر گلی ومحلے میں جب قدم رکھتا ہے تو دوست واحباب اور معاشرے کے رویے اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تیسرے درجہ میں وہ جب کسی مکتب واسکول اور جامعہ میں پہنچتا ہے تو معلم اس کو اپنے قول وفعل سے تعلیم دیتا ہے۔ تب جاکر وہ میدان عمل میں وہ داخل ہوتا ہے اور ذمہ داریوں کو نبھاتا ہے۔ ہم چونکہ دور زوال سے گزر رہے ہیں اگر ہم اپنے ماحول پر نگاہ ڈالیں تو صورتحال سامنے آتی ہے کہ اول تو شرح خواندگی کم ہے جس کی وجہ سے اکثر والدین ناخواندہ ہیں یا اگر خواندہ ہیں تو معاشی مجبوریوں یا اعلی معیار زندگی کی دوڑ نے ان کو اتنا مصروف رکھا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں ۔ پھر اس مادہ پرستانہ ماحول سے جو سماج بنتا ہے وہ اس بچہ ونوجوان کو مسلسل یہی پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ اصل کامیابی مادہ کا حصول ہے اور اس کے لیے جس قسم کی چالاکی دھوکہ دہی کی جاسکتی ہے وہ جائز ہے اور اس مادہ پرستانہ ماحول سے جو اخلاقی تنزلی پیدا ہوتی ہے وہ ہمارے پورے معاشرے سمیت ان نونہالان پر اثر انداز ہوتی ہے۔
تیسرے نمبر پر جو معاصر جامعات ہیں وہاں پر گو عصری فنون کا تعارف تو پڑھایا جاتا ہے لیکن فکری ونظریاتی تربیت وہاں ناپید ہے، اسی طرح جو دینی مدارس ہیں وہاں علوم عربیہ تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن نظریاتی تربیت وہاں بھی نہیں ہے۔ یہی وجوہات ہیں کہ مدارس کا نوجوان شدت پسندی اور جذباتیت کا شکار ہور ہا ہے اور کالج کا نوجوان اخلاقی بے راہ روی کا شکار بنتاہے اور فکری لحاظ سے مغرب کے سامنے مایع بنتا جارہا ہے۔ اسی حالات کو مد نظر رکھ کر جمعیت علمائے اسلام نے نوجوانوں کی فکری وسیاسی تربیت کے لیے جمعیت طلبائے اسلام قائم کی ہے ، تاکہ مسٹر وملا کے فرنگی گمراہ کن تقسیم کو ختم کیا جاسکے اور مدرسہ اور اسکول کے طلباء کو ایک پیج پر جمع کیا جاسکے اور انکی باہم منافرت کو، باہمی اخوت میں بدلا جاسکے، اسلامی خطوط پر ان کی فکر ی ونظریاتی تربیت ہوسکے۔
ماضی کی تاریخ اگر ہم مطالعہ کریں تو بعض جہات میں اس تنظیم نے بہترین خدمات پیش کیے ہے اس تنظیم نے سینکڑوں نوجوانوں کی فکری وسیاسی تربیت کی ہے چنانچہ مولانا فضل الرحمن اسی شجر کا میوہ ہے اور الحمد اللہ موصوف جمعیت علماء کی بہترین اندازمیں قیادت فرما رہے ہیں۔ اب چونکہ ایک طرف جذباتیت اور دوسری طرف مغرب سے مرعوبیت کا چیلنج در پیش ہے بلکہ اس دور میں تو نوجوانوں کو سیکولر ازم اور لبرل ازم سے ہوتے ہوئے فکری الحاد کا بھی سامنا ہے اس لیے اس دور میں جمعیت طلباء کی از حد اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔
صوبائی سطح پر یہ جماعت اب بھی قائم ہے لیکن مرکزی قیادت سے محروم ہے اور اس کی وجہ بھی شاید ماضی میں ذیلی جماعت کا مرکزی جماعت سے مضبوط ارتباط کا فقدان تھا۔خیر کل kpk کے ذمہ داران نے ایک بہترین پروگرام کا انعقاد کیا تھا، جس کو دیکھ کر دل مسرور ہوا، اس پر وہ صد تبریک کے مستحق ہیں۔ اللہ کریں باقی صوبوں کے ذمہ داران بھی اسی نوعیت کے پروگرامز منعقد کراسکیں۔
جمعیت طلباء کے حوالے سے ہنگامی طور پر ان کاموں کی طرف توجہ کرنی چاہیے کہ وہ ہر صوبہ ہر ضلع ہر تحصیل اور ہر یونٹ کی سطح پر معلمین کا انتخاب کرے اور ہفتہ وار درس اور مجلس مذاکرہ کا انتظام کرے، اور اپنا سابقہ لٹریچر ہر یونٹ کی سطح تک پہنچائے، مطالعہ اور دروس کا سلسلہ تیز کرے ماہانہ بنیاد پر تربیتی ورکشاپس رکھوائے ، نوجوانوں میں تقریر وتحریر کے مہارات پیدا کرے، ان کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو سوشل میڈیا کے درست استعمال سے واقف کرائے، قصبہ قصبہ ، دہات اور شہروں میں داعیوں کی ٹیمیں تشکیل دے اور امت کے نسل نو تک اسلام کا معتدل اور متناسب پیغام پہنچائے۔باقی عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تبدیلی اور اضافات کی ضرورت ہے جس پر مرکزی جماعت اور ذیلی جماعت کے ذمہ داران کو باہم بیٹھنا چاہیے تاکہ فوری طور پر اس پر عمل در آمد ممکن ہوسکے۔ چونکہ جمعیت علماء کا میدان فقط انتخابی سیاست نہیں بلکہ ہمہ جہت انقلاب ہے، اس کے لیے مکاتب ، رسائل ، شعبہ دعاۃ وغیرہ کا انتظام بھی ہے اس حوالے سے بھی باہمی غور فکر کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments