تحریر:غلام نبی
پاکستان میں موجودہ سیاسی بھونچال، اداروں کے درمیان جنگ اور عدم توازن کوئی نئی بات نہیں۔ ہم ستر سالوں سے اس ملک میں عدم استحکام ہی دیکھ رہے ہیں۔۔ پاکستان بننے کی ابتداء سے آج تک یہاں سیاسی استحکام دیکھنے میں نہیں آیا۔ چالیس سال اس ملک پر فوجی حکرانی رہی ہے۔ جو سراسر غیر آئینی اور غیر دستوری تھی۔ باقی وقت لنگڑی لولی جمہوریت رہی ہے۔ یہاں کسی بھی جمہوری پارٹی کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا گیا۔۔ 2008 کے بعد جمہوری حکومتیں اپنی آئینی مدت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پوری کر رہی ہیں۔لیکن 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی عدالت نے ٹریپ کیے رکھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھجوایا۔ اور بالکل یہ ہی ڈرامہ نواز شریف کی حکومت کے ساتھ روا رکھا اور میاں صاحب کی بھی چھٹی کروا دی گئی۔۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ رہا ہے کہ جو حکومت سے باہر ہوتا یے وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی حکومت کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ مظبوط کرتا ہے۔ جس کی واضح مثال گیلانی حکومت میں نواز شریف کا کردار اور نواز شریف کی حکومت میں زرداری کا کردار۔۔ سب ایک دوسرے کو گرانے میں غیر جمہوری لوگوں کا ہاتھ مظبوط کرتے نظر آتے ہیں۔۔
ملکی تاریخ میں عدلیہ نے ہمیشہ جمہوری اور سیاسی لوگوں کے مفاد میں کام نہیں کیا۔۔ جمہوریت کو کمزور کرنے میں اپنا کردار بڑی ڈھٹائی سے ادا کیا ہے۔۔ فل الوقت یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلم لیگ نون کے خلاف عدلیہ جس ڈھٹائی سے صف آراء ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عدلیہ نے غیر جمہوری فورسز کا کام کتنا آسان کر دیا یے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے قانونی طریقے سے لیکن جمہوریت کے خلاف ہو رہا ہے۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود آج تک سیاستدان عوام میں وہ شعور کیوں پیدا نہیں کر سکے جس کی ضرورت تھی۔ کیا یہ سیاستدانوں کی کمزوری ہے یا ان قوتوں کی فتح ہے جو اس ملک میں ہمیشہ جمہوریت کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔۔
ملک میں استحکام پیدا کرنے اور آئیں و پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیا کرنا چاہئے۔ اور ان مسائل کا حل فوری ہے یا اس کے لیے عشروں پر محیط صبر آزما جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سرگودھا میں مولانا فضل الرحمن صاحب نے اپنی تقریر میں جمہوریت کی بالادستی اور آئیں کی سپرمیسی کے حل کے لیے ایک جملہ ارشاد فرمایا، میں اس جملہ کو یہاں نقل کرتا ہوں اور بعد میں اس کے مضمرات پر روشنی ڈالتا ہوں۔ مولانا صاحب نے کہا کہ
“نئی نسل کو تعلیم دو کہ ایسے اداروں کے خلاف جہاد کے لیے تیار ہو جاو جو ریاست کے خلاف غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں”۔
یہاں مولانا کی جہاد سے مراد آئینی اور جمہوری جدوجہد ہے۔میں مولانا کے اس جملہ کو کچھ اس طرح پیش کرنا چاہوں گا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں اور نئی نسل کی فکری تربیت میں یہ بات شامل کریں کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے کون لوگ ہیں۔ ملک میں جمہوریت کو کونسی قوتیں پنپنے نہیں دیتیں۔۔ ووٹ کے تقدس کو کون پامال کرتا ہے۔۔ ملکی مسائل کا حل سوائے مظبوط جمہوری نظام کے کسی اور نظام میں نہیں ہے۔۔ جمہوریت اور آئینی کی بالادستی کو رکوانے کے لیے سوائے عوام کے کوئی قوت کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ عوام ہی میں شعور کی بیداری سے ملک میں استحکام پیدا ہو گا۔ اداروں کے درمیان توازن برقرار رہے گا اور جمہوریت پروان چڑھے گی۔ اگر ہماری جمہوری پارٹیاں اپنے پارٹی ورکرز کی ان نکات پر تربیت کرتیں، اور اپنی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی بجائے عوام کو یہ باتیں سمجھانے میں لگاتیں، نوجوانوں کو صحیح جمہوری سوچ ٹرانسفر کرتیں تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔۔۔
ان خطوط پر محنت کر کے ہی اس ملک کو قائد اعظم کا پاکستان بنایا جا سکتا یے۔ اس کے لیے بڑی عرق ریزی اور دیدہ دلیری کی ضرورت ہے۔۔ نواز شریف کو چاہئے کہ وہ اس کام کے لیے ابتدائی قدم اٹھائیں۔۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھتے جائیں۔ شاید چالیس پچاس سالوں بعد ملک میں حقیقی جمہوریت ہو اور اس کا بانی نواز شریف ہو۔۔۔۔ لیکن یہ سفر تنہا ممکن نہیں۔ اپنے ہم خیال و ہم فکر جماعتوں اور لوگوں کو ساتھ لے کر ہی منزل مقصود تک پہنچا جا سکتا یے۔