تحریر : مفتی خالد شریف
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جا بجا انسانیت کی آزمائش و ابتلا ء کو خوف اورمعاشی تنگی کی صورت میں بیان فرمایا ہے۔ اس بنیاد پر امن اور معیشت کو قوموں اور ملکوں کی ترقی اور تنزلی کا معیار قرار دیا جاسکتا ہے اور بطور قوم ہمیں امن اور بہتر معیشت کی تلاش کر کے ایک فطری معاشرے کی داغ بیل ڈالنے کے لئے جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔
امن وامان اور معیشت کسی ایک قوم ، ملک ، مذہب اور مسلکی تفریق سے بالا ترہوکرہر انسان کی ضرورت ہے ،اسی لئے اللہ کریم نے یہ دو انعامات ساری انسانیت کے لئے مقرر کئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بہتر معیشت کس نظام سے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام سے ،سوشلزم سے یا اسلامی نظام معیشت سے ؟ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ظاہر ہے اسلامی نظام معیشت کو ہی بہتر قرار دیا جاسکتا ہے کہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم دو الگ الگ انتہائیں ہیں، اس اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے لئے پاکستان ،بلکہ عالمی سطح پر بھی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کی طویل جدوجہد ہے،عدلیہ کے فورم پرحتی المقدور کوشش کے بعد اب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مختلف طبقہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں شعور وآگاہی بیدار کر رہے ہیں اور گذشتہ بدھ کوحضرت مفتی صاحب کے زیرسرپرستی اسلام آباد میں علماء اور پارلیمنٹرین کی الگ الگ مجالس منعقد ہوئیں جن میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اس مجلس میں جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن صاحب نے معیشت کی اہمیت و ضرورت اورحضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر اس حوالے سے بھر پور کردار ادا کرنے کا اعلان کیا اور اس علمی بحث کو پارلیمنٹرین اور عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے اپنی خدمات بھی پیش کیں۔چنانچہ اس سے اگلے روز 22 فروری کو سرگودھا میں عوامی اجتماع میں اس حوالے سے مفید گفتگو کی اور امید ہے کہ ان شا ء اللہ یہ اکابر اس طرف مزید متوجہ ہوں تو حالات میں بہتری آسکتی ہے۔
امن وامان بھی ایک نعمت ہے اور بدقسمتی سے اہل پاکستان اس نعمت سے محروم ہیں۔مذہبی طبقہ اس حوالے سے آزمائش میں ہے مولانا فضل الرحمن صاحب خود بھی دہشت گردی کا شکار رہے ہیں لیکن مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں اپنے طبقے کو اس کنویں میں گرنے سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ امن وامان کے حوالے سے مذہبی قیادت متحد و متفق اوریکسو ہے اور دہشت گردی پر واضح موقف اختیار کیا ہے جو قابل صدتحسین ہے۔
عالمی طاقتیں اس وقت ترقی پذیر ممالک میں معیشت اور امن وامان کو خراب کرنے کے درپے ہیں تاکہ یہ ممالک معاشی طورپر کمزور ہو ںاور امن وامان خراب سے خراب تر ہوجائے ،اوریوں ثالثی اور قیام امن کے بہانے یہ طاقتیں بالادست رہیں۔
پاکستان میں انتخابات قریب ہیں اوربظاہریہی لگ رہاہے کہ عام انتخابات کابروقت انعقاد ہوگا۔ان انتخابات میں کامیاب وہی طبقہ ہوگا جو حالات کا ادراک کر کے عوام کے سامنے بہتر انداز میں اپنامضبوط موقف پیش کرکے ان کا اعتماد حاصل کر پائے گا۔
اس حوالے سے مولانا صاحب نے امن وامان اور بہتر معیشت کو اپنا منشور قرار دیا ہے اور یہ منشور انبیاء کرام کا منشور ہے جو کسی مسلک اور مذہب کی بھلائی کے لئے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لئے ہے قرآن کریم میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر مشکلات اور آزمائشوں کا ذکر ہے اور ان آزمائشوں سے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد جب منصب امامت کا پیش کیا گیا تو اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو خواہشات کا اظہار کیا ایک خواہش امن کی کی اور دوسری خواہش بہتر معیشت کی کی … جبکہ اس سے قبل وہ کفر وشرک کے خلاف برسر بیکار رہے تاہم امامت کا اعلان ہوتے ہی ترجیحات بدل گئیں …
بلاشبہ اس وقت یہ نعمتیں ہم سے چھن گئیں ہیں ہر پاکستانی کو اس حوالے سے جدوجہد کی ضرورت ہے مذہبی قیادت کو بھی اس کا بجا طور پر احساس ہے. اور احساس کے ساتھ مذہبی طبقے کو ایک خاص مسلک اور مکتبہ فکر کےساتھ نتھی کرنے کے بے سروپا پروپیگنڈے کے توڑ اوردین اسلام کی عالمگیریت کا اظہار بھی ہے جمعیت علماء نے اس حوالے سے بھر پور کردار ادا کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا وہ قابل تحسین ہے
امن اور معیشت ۔ ۔ ۔انسان کی بنیادی ضروریات
Facebook Comments