تحریر : مفتی محمد عمران
ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ انتہا درجے کی ذہنی مغلوبیت کا شکار ہے، چنانچہ کچھ تو ان میں مارٹن لوتھر کے نقش پا کی تلاش میں نکل کر عقلیت اور ریشنل ازم کے ترانے گانے لگے ہیں اور کچھ روسو اور پروفیسر ہارنیک کے نقش قدم پر چل کر تجدد کی راہ اختیار کیے ہوئے ہیں، جبکہ بعض رچرڈ ولیم چرچ کے راہ رو بنے ہیں جو ٹیکسٹ کی تعبیر وتشریح میں عرف وزمانہ کی رعایت سے بھی منکر نظر آتے ہیں۔ اور یہ تینوں طبقہ باہم سر پیکار ہے ۔
حالانکہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ مذہب اسلام کو مذہب عیسوی پر قیاس کرتے ہیں جو تحریفات کی وجہ سے الہامی ڈگر سے ہٹ گیا تھا، دین اسلام قرآن وسنت کی صورت میں امت کے پاس اپنی اصل شکل میں موجود ہے دین اسلام دین فطرت ہے اس میں عقل ونقل کا باہم تفاعل ہے، اور وہ باہم تفاعل حجة اللہ کی شکل میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس کی فہم سے قاصر ہے اس لیے وہ عقلیت نشے میں اور فرنگ کی تقلیدی روش میں اس راہ پر نکل پڑے ہیں جس نے مغرب کو بھی انتہائی ذہنی انتشار میں مبتلا کیا ہے۔
اس فکر ی ونظریاتی جنگ کی مختصر تاریخ کے لیے استاد محترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے جو تینوں تحریکوں کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ فرمایا ہے اور آخر میں ان کو نسخہ کیمیا کی طرف دعوت دی ہے ملاحظہ فرمائیں:
“عقلیت کی تحریک:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ زمانہ شروع ہوچکا تھا ، جس میں یورپ نے نشاة ثانیہ کے بعد سائنسی اور تکنیکی ترقی میں دنیا کے ہر خطے کو پیچھے چھوڑ دیا تھا ، یورپ کی وہ قومیں جو اب تک غاروں میں پڑی سو رہی تھی بیدار ہوئیں پادریوں اور پاپاؤں کی علم دشمنی اور بد عنوانیوں نے ان کے دل میں مذہب کی طرف سے شدید نفرت پیدا کردی ، مارٹن لوتھر نے پہلی بار کلیسا کے خلاف جنگ لڑنے اور بائبل کی تشریح وتعبیر میں اپنے اسلاف سے اختلاف کرنے کی جرات کی تھی، مگر جب یہ دروازہ ایک مرتبہ کھلا تو کھلتا چلا گیا ، لوتھر نے صرف بائبل کی تشریح وتعبیر کا اختیار اپنے ہاتھ میں لیا تھا مگر خود بائبل پر نکتہ چینی کی جرات اسے بھی نہ ہوئی تھی، لیکن اس کے بعد جو مفکرین عقلیت کا نعرہ لگا کر اٹھے ، انہوں نے اپنی تنقید میں بائبل کو بھی نہ بخشا، اور عیسائیت کے ا یک ایک عقیدے کو اپنی تنقید ، طعن وتشنیع بلکہ استہزاء وتمسخر کا نشانہ بنانے لگے۔
ان لوگوں کا نعرہ یہ تھا کہ مذہب کے ایک ایک مزعومے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا، اور ہر اس بات کو دریا برد کردیا جائے گا، جو ہماری عقل میں نہ آتی ہو، چاہے اس کے لیے کتنے ہی ایسے عقائد ونظریات کو خیر باد کہنا پڑے، جنہیں کلیسا عرصہ دراز سے تقدس کا لبادہ پہنا کر سینے سے لگائے چلا آرہا ہے ، یہ لوگ اپنے آپ کو عقلیت پسند اپنے زمانے کو عقلیت کا زمانہ کہتے تھے۔
ولیم شلنگ ورتھ (1644) اس طبقے کا سب سے بڑا لیڈر ہے، جس نے پہلی بار عقلیت کا نعرہ لگایا تھا، لارڈ ہر برٹ (1648) اور تھامس (1671) وغیرہ بھی اس گروہ کے امام سمجھے گئے ہیں۔
عقلیت کا نشہ جب چڑھنا شروع ہوا تو کوئی عقیدہ اس کی دست برد سے سلامت نہ رہا، یہاں تک کہ وولٹائر (1788) جیسے ملحد بھی پیدا ہوئے جنہوں نے سرے سے خدا کے وجود ہی میں شک وارتیاب کا بیج بودیا ، اور اس کے بعد کھلم کھلا خدا کا انکار کیا جانے لگا، ہمارے زمانے کا مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل اس طبقے کا آخری نمائندہ ہے۔
تجدد کی تحریک:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب کے ماننے والوں پر عقلیت کی تحریک کا رد عمل دو طرح ہوا، کچھ لوگ تو وہ تھے جنہوں نے عقلیت کی اس تحریک سے مرعوب ہوکر کچھ تبدیلیاں شروع کیں اس تحریک کو تجدد پسند کی تحریک کہا جاتا ہے ، ان لوگوں کا خیال تھا کہ مذہب بنیادی طور سے درست ہے مگر اس کی تشریع وتعبیر غلط طریقے سے کی جاتی رہی ہے ، بائبل میں اتنی لچک موجود ہے کہ اسے ہر زمانے کے انکشافات اور سائنٹفک تحقیقات کےمطابق بنایا جاسکتا ہے، اور اس مقصد کے لیے بائبل کے بعض غیر اہم حصوں کو ناقابل اعتبار بھی کہا جاسکتا ہیں اور اس کے متوارث الا ظ ومعانی کی قربانی بھی دی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر پل لین کے بابن کے مطابق اس طبقے کا سرگردہ مشہور فلسفی روسو تھا ہمارے قریبی زمانے میں پروفیسر ہارنیک اور رینان اس طبقے کے مشہور اور قابل نمائندے ہیں۔
احیاء کی تحریک:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقلیت کی تحریک کا دوسرا رد عمل اس کے بالکل برخلاف یہ ہوا کہ بعض مذہبی طبقوں میں خالص رومن کیتھولک مذہب کو از سر نو زندہ کرنے کی تحریک شروع ہوگئی یہ تحریک احیاء “مذہب قدیم” کی تحریک کہلاتی ہے۔ اس تحریک کے علم برداروں نے عقلیت پسندوں کےخلاف جنگ شروع کی ، اور کہا کہ عیسائیت وہی ہے جو ہمارے اسلاف نے سمجھی تھی، اور جس کا ذکر ان کی کونسلوں کے فیصلوں میں چلا آتا ہے، کلیسا کو پھر سب سے بڑا صاحب اقتدار ادارہ ہونا چاہیے اور کیتھولک عقائد میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ، یہ تحریک انیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوتی تھی، اور یہ وہ زمانہ ہے جبکہ مغرب کے لوگ مادیت کا پورا پورا تجربہ کرنے کے بعد اس کے دامن سے سینکڑوں گھاؤ لیکر لوٹ رہے تھے، مادی تہذیب نے مغربی زندگی میں جو زبردست بے چینی پیدا کردی تھی ، اس کی وجہ ایک بار پھر روح کی طرف توجہ دینے کا شعور تازہ ہورہا تھا، احیاء کی تحریک نے ایسے لوگوں کو سنبھالا اور وہ ایک مرتبہ پھر عیسائیت کے ان قدیم نظریات کی گود میں میں جاگرے جنہوں نے عیسائی دنیا کو تیرہویں اور چودہویں صدی میں تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا تھا۔ اس تحریک کے علم برداروں میں الیگزینڈر ناکس (1831) جان ہنری نیو من (1890) ہیوریل فراؤڈ (1836) رچرڈ ولیم چرچ (1890) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ عیسائی دنیا میں ہمارے زمانے تک یہ تینوں تحریکیں (تحریک عقلیت، تحریک، تجدد، تحریک احیاء) باہم برسر پیکار ہیں، اور تینوں کے نمائندے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
نسخہ کیمیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش انہیں کوئی بتاسکتا کہ تم افراد وتفریط کی جس دلدل میں گرفتار ہو، اس سے نجات کا راستہ عر ب کے خشک ریگ زاروں کے سوا کہیں اور نہیں ہے، زندگی کے بھٹکے ہوئی قافلوں نے ہمیشہ اپنی منزل کانشان وہیں سے حاصل کیا ہے۔
تم یورپ پرستی سے لیکر انکار خدا تک کے ہر مرحلے کو آزما چکے ہو، مگر ان میں کوئی تحریک تمہیں سلگتے ہوئے داغوں کے سوا کچھ نہیں دے سکی، اگر تمہیں سکون اور راحت کی تلاش ہے تو خدا کے لیے ایک بار کیمیا کے اس نسخے کو بھی آزما کر دیکھو جو آج سے چودہ سو سال پہلے فاران کی چوٹیوں سے جلودہ گر ہونے والا فارقلیط تمہیں دے کر گیا تھا، جسے دیکھ کر سلع کے بسنے والوں نے گیت گائے تھے اور قیدار کی بستیوں نے حمد کی تھی جس کے قدموں پر پتھر کے بت اوندھے گرے تھے “۔