وزیر اعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد . . .اسباب ومحرکات

(ساربان کی ڈائری)
سیاسی عمل میں رولز آف گیم کے مطابق عملیت پسندی کا تقاضا ہوتاہے کہ ہر سیاسی سرگرمی میں اپنے موقف اور کردار کا تعین اس سرگرمی سے متعلق اپنے نفع ونقصان کی بنیاد پر کیا جائے۔ یہ ایک مسلمہ اور متفقہ اصول ہے جس پر سیاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز بلا استثناء عمل پیر اہوتے ہیں اور اسی تناظر میں ہر جماعت کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حکومت سازی کے مرحلے میں اپنے کارڈز اس انداز سے کھیلے کہ حکومتی اختیارات اور وسائل میں حصہ دار بنے ۔ عوام کی خدمت ہو یا پالیسی سازی اور قانون سازی پراثر انداز ہونے کی خواہش، اس کا راستہ حکومت میں اپنے حصے کے مطابق مقام حاصل کرنے سے ہو کر گزرتا ہے او ر اگرتمام تر کوشش کے باوجود کوئی پارٹی اپوزیشن کی حیثیت سے کردار ادا کرنے تک ہی محدود ہو جائے تب ان کیلئے آئیڈیل صورت یہ ہے کہ ان کے حلقہ نیابت کے ترقیاتی فنڈزاو ربیورو کریسی سے متعلق عوامی مسائل کے حل میں انہیں کم سے کم مشکلات اور رکاوٹیں در پیش ہوں ۔
بلوچستان میں 2013ء کے عام انتخابات کے بعد بننے والی صوبائی حکومت کی تشکیل سے پہلے جے یو آئی کے حوالے سے ایسی کوئی وجہ نہ تھی کہ اسے مخلوط حکومت میں شامل نہ کیا جاتا لیکن صوبائی حکومت میں حصہ دار جماعتوں میں پشتون قوم پرستی کی علمبردار پارٹی پشتونخواہ میپ ،جس کے پاس الیکشن میں عوامی مقبولیت کے اصل گراف کے برعکس مخصوص قوتوں کی نظر کرم کی وجہ سے غیر معمولی اورغیرمتوقع نشستیں آئی تھیں، ان کی سب سے پہلی شرط یہ تھا کہ جو بھی ہو جمعیة علماء اسلام کو بہرصورت حکومت سے دور رکھا جائے۔ مذکورہ پارٹی کی اس متعصبانہ ، سخت گیری کی وجہ یہ تھی کہ اس سے پہلے حکومت میں رہنے کی وجہ سے جمعیة علماء اسلام کے نمائندوں کی عوامی فلاح وبہبودکیلئے متعلقہ حلقہ ہائے انتخاب میںریکارڈ کارکردگی ، نوجوانوں کو روزگارکی فراہمی ترقیاتی منصوبوںکی وجہ سے مذکورہ پارٹی پر زمین تنگ ہورہی تھی اور عوام میں ان کے اس مسلسل پروپیگنڈے کا پول بھی کھل گیاکہ علماء سیاست کے اسراراور قرینوں سے ناآشنا ہیں،وہ کیا جانیں سیاست کے رموز؟ یوں جے یوآئی کو حکومت سے باہر کرنے کے بعد اپوزیشن ارکان کی حیثیت سے جمعیة کے منتخب ایم پی ایز کے ترقیاتی فنڈز بھی بلاجوازروک دیئے گئے ، جبکہ جے یو آئی کی جانب سے شروع کئے جانے والے مختلف اضلاع میں جاری منصوبوں کو معطل کر کے بیورکریسی کو پابند کیا گیا کہ جمعیة کے منتخب ارکان کیساتھ کسی بھی مسئلے میں کوئی تعاون نہ کیا جائے، یہ سلسلہ ساڑھے چار سال تک مسلسل جاری رکھا گیا یہاں تک کہ بعض علاقوں میں بہت پہلے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں روک دی گئیں ۔ اس صورتحال کی وجہ سے جے یو آئی جو کہ صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہے اور عوام کی اکثریت اپنے مسائل کے حل کیلئے جمعیة ہی کیطرف رجوع کرتے ہیں ،اس جماعت کے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سے لے کر ایم پی اے تک کو معمولی معمولی مسائل کے لئے ڈائریکٹ وزیر اعلیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوتاتھا، وزیر اعلیٰ خواہ ڈاکٹر عبدالمالک تھے یا سردار ثناء اللہ زہری اپنے ذاتی حیثیت میں جمعیةعلماء اسلا م کیلئے تمام تر نرم رویے اور احترام کے باوجود یہ عذر پیش کرتے کہ آپ کے مسائل حل کرنے کی صورت میں ہماری اتحادی جماعت ناراض ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ جے یو آئی کے علاوہ خود مخلوط حکومت میں شامل کئی وزراء کو بھی مذکورہ قوم پرست پارٹی کی وجہ سے مشکلات اور ناراضگی کے احساسات پید اہونے لگے ۔ان وزراء کے مطابق انہوںنے اپنے وزیر اعلیٰ کے سامنے متعدد بار اپنے تحفظات اٹھائے لیکن وزیر اعلیٰ کا جواب ان کے لئے بھی وہی تھا جو جمعیةعلماء کے لئے تھا ۔ ا سی تناظر میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے اپنے ارکان نے سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ ا س صورتحال کے مزید جاری رہنے سے نقصانات بڑھیں گے، لہٰذا وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے او رمتعصب قوم پرست پارٹی کی تنگ نظری اور بلیک میلنگ سے نجات حاصل کی جائے ۔
جمعیةعلماء اسلام تو روز اول سے حزب اختلاف میں تھی اس بناء پر وزیر اعلیٰ کو بچانے کیلئے جمعیة پر کوئی اخلاقی او ر سیاسی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی بلکہ اصولاً بھی ساڑھے چار سال تک مسلسل انتقامی کاروائیوں کی نشانہ بننے کے بعد جمعیة علماء اسلام کیلئے بھی بہتری اسی صورت میں تھی کہ حزب اقتدار کی تشکیل ایسی ہو جو جمعیةکیلئے کم سے کم نقصان دہ ہو۔ اپوزیشن کی حیثیت سے حکومتی اختیارات کی خواہش کوئی بھی جماعت نہیں کر سکتی لیکن ا پوزیشن کی حیثیت سے اپوزیشن جماعتوں کابھی ایک حد تک خیال رکھا جاتاہے یہ ایک سیاسی روایت اور پارلیمانی اخلاقیات کا حصہ ہے۔ اپوزیشن کو اس انداز میں دیوار سے لگانے کی کوشش کہ ان کو حاصل عوام کے تمام تر اعتماد اور مینڈیٹ کو یکسر نظر انداز کیا جائے، یہ وہ نئی ریت تھی جس کی داغ بیل بلوچستان میں مذکورہ قوم پرست پارٹی نے ڈالی تھی۔ اس بناء پر جمعیت نے یہ پالیسی اپنائی کہ وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد تحریک کی حمایت اس شرط پر کی جائے گی کہ مذکورہ قوم پرست پارٹی کو نئے سیٹ اپ میں حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا جبکہ خود جمعیةبھی اس مرحلے پر گورنمنٹ کا حصہ نہیں بنے گی اسلئے کہ اس صورت میں ساڑھے چار سال تک حکمرانی کرنے والی جماعتوں کی ناکامی اورعدم کارکردگی میں جمعیة حصہ دار نہیں بن سکتی ۔لہٰذا تحریک عدام اعتماد میں جمعیة نے مسلم لیگ (ن) کیساتھ یہ تعاون کیا کہ وزیر اعلیٰ کی تبدیلی میں انہیں اپنا تعاون فراہم کیا اور اسکے بدلے میں جمعیةنے انہیں اس پر آمادہ کیا کہ جمعیت کیلئے پریشانیاں پیدا کرنے والی (پشتون قوم پرست) پارٹی کونئی حکومت میں شامل نہ کیا جائے ۔
بلوچستان میں سرانجام پانے والے اس عمل کے حوالے سے مختلف اعتراضات اٹھائے گئے جن میں سب سے پہلا اعتراض یہ تھا کہ یہ ایک غیر جمہوری عمل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی سیاسی فعالیت جس کا پاکستان کا آئین مکمل جواز فراہم کرتا ہے، غیر جمہوری سرگرمی کیسے ہو گئی ؟ مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں کے ارکان نے انحراف کیا ہے تو یہ تو مذکورہ پارٹیوں کاہی مسئلہ ہے ،یہ ارکان اسمبلی کی رکنیت سے تو مستعفی نہیں ہوئے ، جسے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے مترادف سمجھا جائے بلکہ انہوںنے صرف اس وزیر اعلیٰ کو ہٹایا ہے جس کے حوالے سے انہیں شدید مشکلات رہی ہیں۔یہ اقدام اگر آئین کے منافی ہے تو اس کے حل کا فورم عدالت ہے۔ جن ممبران کو اخلاقیات کا درس دیا جارہا ہے انہیں شکوہ ہے کہ ساڑھے چار سال تک ان کی اپنی حکومت اور اپنی پارٹی نے ہی ان کے ساتھ اخلاقیات پر مبنی برتائو نہیں کیا، پشتونخوا میپ جو تحریک عدم اعتماد کو ایک غیر جمہوری عمل ثابت کرنے میں سب سے زیادہ تگ ودو کر رہی ہے خود ان کا اپنا کردار جمعیةعلماء اسلام کے حوالے سے اتنا مشکوک ہے کہ ان کی زبان سے جمہوریت کے احترام کا درس عجیب سا لگتا ہے ۔
2013ء میں بلوچستان میں منتخب آئینی حکومت کام کر رہی تھی ،تب صوبے کے وسائل کے حوالے سے کچھ معاملات پر وفاق کے ساتھ صوبائی حکومت کے اختلافات پید اہو گئے۔ یہ وہ دن تھے جب دہشت گردی کے واقعات زوروں پر تھے ، ہفتے دو ہفتے میں ملک میں کوئی نہ کوئی حادثہ معمول تھا۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری بھی ٹارگٹ تھی، ماضی میں بھی ان کو بارہا نشانہ بنایا گیا تھا ، لیکن 2013ء میں ہونے والے دہشت گردی کے ایک واقعہ نے کوئی غیر معمولی اہمیت اختیا رکر لی ،دھماکے میں مرنے والے لوگوں کی لاشیں روڈ پر رکھ کر مطالبہ کیا گیا کہ صوبائی حکومت برطرف کر دی جائے۔ سیاسی جماعتوں میں پشتونخواہ میپ جس کا اسمبلی میں ایک بھی رکن موجود نہیں تھا اس مطالبے کی حمایت میں میدان میں کود پڑی اور جمہوریت ، آئین کے تمام تر بلند و بانگ دعوئوں کے علی الرغم دہشت گردی کے مسئلے کا یہ حل تجویز کیا کہ صوبے میں گورنر راج نافذ کیا جائے معاملہ چونکہ بظاہر انسانی لاشوں کا تھا اس لئے پورے ملک کا میڈیا بھی ان کا ہم آواز ہوگیا۔ ا ن میں اتنا سادہ اور حالات سے بے خبر کوئی بھی نہ تھا جو دہشت گردی کے مسئلے کو طول و عرض سے ناواقف ہو ۔سبھی جانتے تھے کہ پورے خطے میں طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کسی ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ یا وزیر داخلہ کی دسترس سے کہیں زیادہ پھیلا ہوا اور گھمبیر مسئلہ ہے مگر اسکے باوجود طفلانہ معصومیت کے ساتھ اس پروپیگنڈے کو ہواد ی گئی کہ بلوچستان میں یہ سب کچھ وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کی نا اہلی کاشاخسانہ ہے اور نتیجةً صوبائی حکومت برطرف کر کے گورنرراج لگا دیا گیا ۔اب جمہوریت کی ڈھول پیٹنے والی پشتونخواہ میپ کو تو جوابدہ ہونا چاہئے کہ اسمبلی کے اندر سے (ان ہائوس) تبدیلی لانا زیادہ غیر جمہوری عمل ہے یا ایک منتخب حکومت کو منتخب اسمبلی سمیت گھر بھجواکر گورنرراج لگوانا جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے ؟ انہیں اس سوال کا تو اب جوابدہ ہونا چاہئے کہ گزشتہ دورحکومت میں اگر دہشت گردی کے واقعات صرف کوئٹہ میں پیش آرہے تھے او ر آپ کی نظر میںاس کی واحد وجہ صوبائی حکومت کی نااہلی تھی تو صوبائی حکومت کو گن پوائنٹ پر برطرف کرنے کے بعد کیا دہشت گردی کا سلسلہ رک گیاتھا ؟ انہیں عوام کو سمجھانا چاہئے کہ جب اسلم رئیسانی کی حکومت ہی دہشت گردی کے واقعات کی مجرم تھی تو اس حکومت کے چلے جانے کے بعد جب آپ کو غیر مرئی قوتوں کے دست شفقت کے طفیل حکومت مل گئی تواپنے ہی وضع کردہ اصول کے مطابق کیاتب بھی دہشت گردی کے واقعات کو نہ روکنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہی تھی یا پھرپیمانے بدل گئے کہ رئیسانی حکومت میں تو دہشت گردی مقامی مسئلہ تھا اور آپ کے اپنے دور حکومت میں یہ عالمی مسئلہ بن گیا ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پشتونخواہ میپ کی حمایت سے بننے والی صوبائی حکومت کے آغاز سے ہی چند ہفتے بعد کوئٹہ میں سردار بہادر ویمن یونیورسٹی کی طالبات کی بس کو نشانہ بنایا گیا، اسکے بعد اسی ہزارہ برادری پر جس کے تحفظ کیلئے پشتونخوا میپ نے گورنر راج لگوایا تھا پہلے سے زیادہ ہلاکت خیز حملے کئے گئے پشتونوں کو لسانی بنیاد پر بس سے اتار کر قتل کردیا گیا ،سول ہسپتال کوئٹہ میں ایک ہی حملے میں 65 وکلاء جاں بحق ہو گئے۔ لیکن ماضی میں صوبائی حکومت پر بدامنی کاالزام لگانے والی پارٹی کی اپنی صوبائی حکومت کیونکر ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوگئی ؟ اب اس کردار کیساتھ جب کوئی پارٹی دوسروں کوجمہوریت کے تقاضے سمجھانے پر بضد ہو تو اس کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ ان کے نزدیک کبھی تو غیر جمہوری طریقے کے ساتھ منتخب اسمبلی کی برطرفی بھی جمہوریت کو کمزور کرنیکا عمل نہیں ہوتا اور کبھی آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد اور ان ہائوس تبدیلی سے بھی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔
بلوچستان کی معاشرتی ساخت سے واقفیت رکھنے والے احباب کو علم ہے کہ یہاں پر سیاسی جماعتوں کے داخلی نظم و ضبط پر قبائلی معتبرین اور سرداروں کی ذاتی شناخت زیادہ حاوی ہے ن لیگ میں پھوٹنے والے انحراف کا سبب بھی یہی ہے ۔ جن لوگوں نے وزیر اعلیٰ کی وفاداری سے ہاتھ کھینچ لیا ان کی اکثریت ذاتی طو ر پر اپنی ایک شناخت اور حیثیت رکھتے ہیں میر ، وڈیرہ، نواب ا ور سردار اپنی ذاتی ترجیحات کی قیمت پر کبھی بھی جماعت کی غیر مشروط اطاعت نہیں کرتے ۔ پچھلے دور میں وزارت علیا پیپلزپارٹی کے پاس تھی لیکن موجودہ اسمبلی میں پی پی پی کا ایک بھی ایم پی اے موجود نہیں۔ موجودہ اسمبلی میں ن لیگ کے پاس وزیر اعلیٰ کا عہدہ رہا لیکن مستقبل میں ممکن ہے کہ ان کی پارٹی کی بھی وہ حالت ہو جو اب پیپلزپارٹی کی ہے۔ یہاںتک کہ میر غوث بخش بزنجو کی فکر کی وارث، مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی نظریاتی قوم پرستوں کی جماعت نیشنل پارٹی بھی بحیثیت جماعت پارٹی ڈسپلن برقرار نہ رکھ سکی اور تحریک عدم اعتماد میں ان کے تین ارکان نے پارٹی فیصلے کے برعکس ووٹ ڈالا۔یہ المیہ جمہوریت کا نہیں معاشرتی اسٹرکچر کا ہے اور عوام کے اندر حقیقی مقبولیت کی جڑیں نہ رکھنے والی جماعتیں جب صرف الیکٹ ایبلز کے سہارے مصنوعی اقتدار حاصل کرلیتی ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو اس وقتی عروج کے بعد لازماً زوال کا مرحلہ بھی جلد ہی ہی درپیش ہوتا ہے۔ لہٰذ اس مسئلے کا ہر گزیہ حل نہیں کہ ہر سیاسی نقل و حرکت پر ”جمہوریت کیخلاف سازش” کا لیبل چسپاں کیا جائے بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ براہ راست عوام تک رسائی حاصل کر کے ان کا اعتماد اور مینڈیٹ کو ہی اپنی اصل سیاسی طاقت تصور کیا جائے او ر حکومت سازی میں نام نہاد شخصیات پر انحصار کی بجائے قابل اعتماد سیاسی جماعتوں کیساتھ ہی شراکت اور اتحاد کے معاملات طے کئے جائیں۔ بلوچستان کی حالیہ تبدیلی کا اصل پس منظر بھی یہی ہے اور اس سے ہٹ کر دوسرے زاویوں سے ا س کو دیکھنے اور دکھانے کا عمل دراصل اپنی مصنوعی اکثریت کے راز پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے ۔

Facebook Comments