جمعیت علماء اسلام . . . اکابر کا عظیم ورثہ

(مولانا محمد فیاض خان سواتی مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خود ی کیا ہے ؟ خدائی…
جمعیت علماء اسلام پاکستان کی وہ واحدمذہبی اورسیاسی جماعت ہے جو نہ صرف سب سے قدیم بلکہ کارکردگی لحاظ سے بھی سب سے فائق ہے ۔ عوام الناس ہو ں یا علماء و طلباء یا پارلیمنٹ ہر مقام پر اس کی ایک نمایاں حیثیت رہی ہے اور اسی جماعت کو قیام پاکستان کے بعد تاہنوز یہ شرف عظیم بھی حاصل ہے کہ پاکستان کے جمہور علماء کرام اس جماعت میں شامل اور مؤید رہے ہیں ،
ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
میں نے جب شعور کی زندگی میں قدم رکھا تو اس وقت پاکستان میں ہر طرف جمعیة علماء اسلام ہی کا طوطی بولتا تھا ، اکابرین جمعیة کا ہمارے ہاں کثرت سے آنا جانالگا رہتا تھا اور پھر میرے والد ماجد مفسر قرآن، حضرت مولانا عبدالحمید سواتی نور اللہ مرقدہ ، فاضل دیو بند و بانی جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ سے تمام اکابرین جمعیت اہم ملکی ، قومی ، سیاسی ، مذہبی و مسلکی امور میں مشورہ کیلئے آتے رہتے تھے۔جماعت کے پروگرام بھی ہمارے ہاں ہی کثرت سے ہوا کرتے تھے ۔ والد ماجد فرمایا کرتے تھے کہ: جماعت صرف جمعیت علماء اسلام ہی ہے” اس لئے بچپن سے ہی اس جماعت سے ذہنی وابستگی ہو گئی تھی ، او ر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راسخ ہو گئی او راب یہی خواہش ہے کہ تادم واپسیں اسی جماعت کے ساتھ تعلق قائم رہے اور خدا کے حضور حاضری ہو جائے ۔
جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ غالباًواحد مدرسہ ہے جس کے رجسٹرقواعدوضوابط اور داخلہ فارم پربرملا جمعیت علماء اسلام سے سیاسی وابستگی کا اظہارکیا گیا ہے اور پھر عملی وابستگی اور واقعات کی بڑی تاریخ ہے۔اسے لکھنا شروع کروں تو ایک ددفتر درکارہے۔صرف ایک واقعہ بطورنمونہ پیش خدمت ہے۔
1975ء کی بات ہے،جمعیت علماء اسلام آل پاکستان نظام شریعت کانفرنس منعقد کرنا چاہتی تھی ،جس کیلئے جگہ شیرانوالہ گوجرانوالہ باغ منتخب کیا گیا۔ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ نے پہلے اس کانفرنس کے انعقادکی اجازت دے دی،لیکن عین موقع پر آکر اس نے اس وقت کے پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ایماء پر اپوزیشن کی اس جماعت(جمعیت علماء اسلام )کو گوجرانوالہ میں کسی بھی جگہ جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔بلکہ پورے پاکستان میں کسی بھی جگہ جلسے کی ممانعت کردی اور خود غیرملکی دورے پر چلے گئے،جس کی وجہ سے اکابرین جمعیت کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا،چنانچہ انہوں نے حضرت والدماجد کو پیغام بھیجا کہ اگرآپ کی اجازت ہو تو یہ کانفرنس جامع مسجد نور(مدرسہ نصرة العلوم )میں منعقد کرلی جائے ،جوکہ شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔حضرت والد ماجد نے بخوشی اس کی اجازت دیدی،جوکہ ایک بہت بڑا رسک تھا۔چنانچہ اکتوبر 1975ء میں یہ سہ روزہ کانفرنس ہمارے ہاں مدرسہ نصرة العلوم میں منعقد ہوئی۔جس میں عوام الناس کے علاوہ پورے پاکستان سے دس ہزار رضاکار شریک ہوئے۔جن میں سے تین سو باوردی رضاکاروں نے پریڈ بھی کی اور قائدین جمعیت کوسلامی دی۔
یہ سیدھی سیدھی اس وقت کی حکومت کے ساتھ ٹکر تھی، جس کا فوری ری ایکشن ہوا ۔حضرت والد ماجد سمیت تقریبًا بیس اکابرین حضرات پر سٹی پولیس نے حکومتی پابندی آرڈر کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کرلیا ۔ علاوہ ازیں بھٹو مرحوم نے اسے اپنی ہتک سمجھتے ہوئے اس وقت کے اپنے وزیر اوقاف رانا اقبال احمد خان کے ذریعہ جامع مسجد نوراورنصرة العلوم کو سرکاری تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جار ی کردیا ، جس کے رد عمل میں ایک پر امن احتجاجی تحریک شروع ہوئی جو تحریک جامع مسجد نور کے نام سے معروف ہے۔جلسے ، جلوس ، گرفتاریاں سب کچھ ہوا، لیکن حکومت کو اس مرکز اہل حق پرقبضہ کرنے میں کامیابی نہ ہوئی ، اس تحریک کی مکمل روئیداد اور تفصیلات اگر کوئی صاحب ذوق دیکھنا چاہئے تو میری مستقل کتاب ”تحریک جامع مسجد نور” میں ملاحظہ فرماسکتا ہے ۔ بالآخر 1977ء میں بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا۔ ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا اور یہ ظالمانہ سرکاری نوٹیفیکیشن نوٹیفکیشن واپس ہوگیا۔ تمام مسالک کے ساتھ جمعیة علماء اسلام مکمل اس تحریک کی پشت پناہ تھی ، حتی کہ قائد جمعیة مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں اس مسئلہ کو اٹھایا تھا ، جو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ والد ماجد کو انہوںنے ایک خط بھی لکھا تھا جس کاعکس حاضر خدمت ہے:
محترم و مکرم حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدصاحب دام مجدکم
سلام مسنون! مزاج گرامی
گزارش ہے کہ میں نے بہت جلد اتحاد المدارس العربیہ کا اجلاس بلانے کی تحریک کردی ہے، ناظم جناب محمود احمد رضوی کو بھی خط لکھ دیا ہے تاکہ مسجد نور اورمدرسہ نصرة العلوم کے سلسلے میں ضروری اقدامات پر غور کرلے۔آپ اس سے قبل ان کو قبضہ دلانے میں تاخیر اور لیت ولعل کی پالیسی پر عمل فرمادیں تو ان شاء اللہ اچھی صورت سامنے آئے گی ، لیکن قبضہ دلانے کے بعد کوئی بھی تجویز قابل عمل نہیں رہے گی ۔ مناسب طریق سے دفاع جاری رکھیں،اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا۔
(مفتی)محمودعفااللہ عنہ
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے بزرگوں کے باہم کتنے قریبی مراسم اور تعلقات تھے کہ ایک دوسرے کیلئے خوشی غمی میں بھی آخری حد تک ساتھ نبھاتے تھے ۔ اللہ رب العزت اس سلسلہ کو تادم زیست قائم ودائم رکھے ۔

Facebook Comments