آئمہ مساجد کااعزازیہ یا سیاسی رشوت؟

(تحریر:مولانا امان اللہ حقانی سابق صوبائی وزیر اوقاف)
صوبہ خیبرپختونخوا حکومت نے جب اس مبہم ارادے کا اظہار کیا کہ خیبر پختونخوا میں ائمہ مساجد کو حکومت کی طرف سے تنخواہیں دی جائیںگی،تو سوشل میڈیا پر اس حوالے سے عجیب و غریب تبصرے،پیشن گوئیاں،امکانات اور تحفظات کا اظہار کیا جانے لگا،چونکہ صوبائی گورنمنٹ کی جانب سے ائمہ کیلئے تنخواہوں کے اجراء کا فیصلہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ سیاسی مفاد کی خاطرمحض اعلان کی حدتک تو یہ ایک خوشنما نعرہ ضرور ہے مگر اس فیصلے کو عملی شکل دینے کے حوالے سے اس کی مشکلات اور پیچیدگیوں کو وہی شخص جان سکتا ہے جسے ان رموزاقتدار سے قدرے واقفیت ہو۔اس حوالے سے یہ بات واضح طور پر ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پورے صوبہ میںساٹھ ہزار سے زائد جامع مساجد ہیں جن میں پانچ وقت مع جمعہ کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔کوئی بھی حکومت جب نئی ملازمتوں کی اسامیاں تخلیق کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے متعلقہ محکمہ اسامیوں کی تعداد بتلاکر اس پر آمدہ اخراجات کا حساب کرکے محکمہ خزانہ کے پاس اس کی سمری بھیج کر اس کی باقاعدہ منظوری لیتی ہے۔جب محکمہ خزانہ اس پر آنے والے اخراجات اور حکومت کے پاس موجودمالی وسائل کا تخمینہ لگاکر پورا اطمینان حاصل کرلیتا ہے،تو پھر ایک طویل مرحلہ کے بعد ان ملازمتوں کی باضابطہ منظوری دی جاتی ہے۔
چنانچہ حسب ضابطہ راقم نے ائمہ مساجد کی تنخواہوں کے حوالے سے فنانس ڈپارٹمنٹ سے معلومات حاصل کیںتو معلوم ہوا کہ وہاں پرمتعلقہ حکام کی جانب سے نہ کوئی ایسی سمری گئی ہے اور نہ ہی باضابطہ متعین تعداد میں ملازمتوں کی منظوری دی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تجویز زیر غور ہے۔جبکہ 2017-18ء کے بجٹ دستاویزات میںبھی اس طرح کے اخراجات کاکوئی ذکر تک نہیں ہے۔تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ حکومت نے اب تک نہ کسی امام کی پوسٹ تخلیق کی ہے اور نہ وہ اس کا کوئی ارادہ رکھتی ہے،لہٰذا حکومت کے مندرجہ بالا اعلان سے ہم کیا مطلب اخذ کرسکتے ہیں؟
دراصل یہ بات اس وقت موضوع بحث بنی کہ جب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی پرویز خٹک نے ایک پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا کے حوالے سے بتایا کہ حکومت انتہاپسندی پر قابو پانے کیلئے مساجد میں سرکاری ائمہ کا تقرر عمل میں لائے گی اور اس کے لئے مساجد کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کاکام محکمہ اوقاف کے حوالہ کیا گیا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ صوبائی حکومت کی نہ اتنی اوقات ہے اور نہ ان کی یہ صلاحیت ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مساجد اور علماء کو مستقل ملازمتیں دے کر دیگر مراعات سمیت تنخواہوں کے ذریعے سرکاری نظم میں لایا جاسکے۔چنانچہ صوبائی حکومت اس حوالے سے ابھی تک گومگوکی کیفیت کا شکار رہی اور یہ وضاحت نہ کرسکی کہ ائمہ کرام کو یہ تنخواہیںکس مد سے ادا کی جائیںگی؟
ائمہ مساجد کی تنخواہوں کے حوالے سے جونہی حکومت نے اس ارادے کا اظہار کیا تو سب سے پہلے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے اس کو سیاسی رشوت قرار دے کرصوبائی حکومت کو تفویض شدہ ایجنڈے کی تکمیل کا نام دیا۔ جب ہم نے صوبائی حکومت سے تنخواہ کے حوالے سے درج بالافنی استفسارات کئے توحکومت نے فوراً پینترا بدل دیا اور اس کو تنخواہ کی بجائے اعزازیہ کا نام دیا۔
چند مہینے قبل امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سیکرٹری نے یہ بات سعودی عرب کے ائمہ مساجد کے بارے وضاحت کیساتھ کہی ہے کہ ہم سعودی عرب کی مساجد میں ایسے ائمہ کی تقرری اپنی نگرانی میں کریںگے جو معتدل سوچ کے حامل اور ہر قسم کی انتہا پسندی سے دور ہوں۔اب اس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ہماری صوبائی حکومت سمیت بعض مرکزی اداروں کی یہ سوچ باہر سے درآمد شدہ ہے کہ مساجد میں موجودہ وقت میں تعینات ائمہ کرام انتہا پسندی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیںاور یہی سوچ گلوبلائزیشن کے خالقین کی روز اول سے ہے جس کا اظہارجارج ڈبلیو بش،باراک اوبامہ اور امریکی پالیسی ساز کئی بار کر چکے ہیں۔ان کی یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی ننگی تہذیب کی ترویج کا جو مذموم عالمی ایجنڈا ہے،اس کے راستے میں فقط مذہبی قوتیں اور ائمہ مساجد رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ یہ منصوبہ عالمگیریوں کا ہے جو عمران خان اور ان کی جماعت کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
اب ایک تیر کے ذریعے دو شکار کرتے ہوئے عمران خان اور پرویز خٹک نے اس منصوبہ کو اپنی طرف اس انداز سے منسوب کرنا چاہا کہ اس انتہائی خطرناک اور پرفریب منصوبہ کو علما کی خیر خواہی اور ہمدردی کا جامہ پہنا کر چند مہینے اعزازیہ جاری کرکے ایک طرف اس کی ہمدردیاں سمیٹیںگے تو دوسری طرف انہیںاپنے مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے علماء و ائمہ مساجد کا ڈیٹا بھی ہاتھ آجائے گا۔صوبائی حکومت ایسے وقت میں(اپنے ہی وسائل سے) ائمہ مساجد کواعزازیہ دینے کا اعلان کرچکی ہے جبکہ محکمہ اوقاف کے مستقل ملازمین ائمہ مساجد،خدام المساجد،ضلعی و تحصیل خطباء کو تین مہینوں سے ان کی اپنی واجب الاداء تنخواہیں نہیں مل رہیں۔چنانچہ تنخواہوں کیلئے مطلوبہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے ایم ایم اے دور میں قائم مکتب سکولز اور ایک ہزار سے زائد منظور شدہ سکولوں کو سرے سے ختم کیا جارہا ہے، جبکہ دوسری جانب چھوٹے چھوٹے منصوبوں کیلئے عالمی اداروں اور ایشئین ڈیویلپمنٹ بینک سے بھاری سودی قرضے لئے جارہے ہیں۔ ان حالات میں اس قدر خطیر رقم کو اس انداز سے تقسیم کرنا چہ معنی دارد… ؟

Facebook Comments