جمہوریت کا سفر اور غلبہ اسلام

تحریر : مفتی محمد عمران اسلام آباد
حضرت انسان کی فطری خواہش ہے کہ وہ آزاد ہو کوئی ضابطہ اس کو اپنی مرضی سے نہ روکے، لیکن اس کی طبیعت میں انسیت بھی ہے یہ معاشرتی واجتماعی زندگی کا خوگر ہے اس لیےوہ ایک معاشرتی حیات گزارنے لگا پھر جب اس انسان کی آزادی دوسرے انسان کی آزادی کو متاثر کرنے لگی اور اس سے باہمی مخاصمت پیدا ہونے لگی تو انہوں نے اپنا ایک حاکم مقرر کیا تاکہ وہ ان کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کرسکے ۔ رفتہ رفتہ حاکم کی توجہات حاصل کرنے کے لیے اس کی خوشامند ہونے لگی اس کو ہدایا سے نوازا گیا اس کے سامنے عاجزی اختیار کی گئی یوں اس کو لوگوں پر اپنی برتری اور علو نے اسے ناانصافی پر اکسایا یہاں تک کہ انسانی معاشرہ جابر ومستبد حاکموں کے دست نگر بن گیا ۔جبر اور مطلق العنانی انسانی فطرت سے متصادم رویہ ہے اس لیے اس کے خلاف فطرت نے آواز بلند کی ، حاکم اور محکوم کے تصور میں تبدیلی آنے لگی، چنانچہ انسانوں نے رفع نزاع کے لیے فرد واحد کے بجائے اکثریتی رائے کو فیصل واتھارٹی قرار دیا، یوں جمہور کی رائے ونظریہ حکومت کو فروغ ملا ، ابتدا میں اس کی شکل ایک گروہی جمہوریت سے ہوتے ہوئے جماعتی جمہوریت پھر اس سے ہوتے ہوئے معاشرتی جمہوریت میں منتقل ہوگئی۔ پھر اس نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے ، یہ جمہوریت کبھی ٹھوس ملوکیت سے متصادم ہوئی اور کبھی عدیدیت واعانیت سے کبھی شہنشاہیت سے برسر پیکار رہی اورکبھی آمریت فاشیت وناشیت سے تو کبھی اشتمالیت سے ۔ اس کا پڑاو کبھی بحر الکاہل اور افریقہ کے جزائر میں رہا تو کبھی اس نے یونان کا رخ کیا پھر اس کی صورت جب اپنی اصل سے ہٹنے لگی تو یونانی مفکرین افلاطون، ارسطو ، فینز اور زنیوفون نے اس پر زبردست تنقید بھی کی ۔یونان کے زوال کے بعد اس نے روما کی طرف رخت سفر باندھا اور روما نے اس سے ایک زمانے تک فائدہ اٹھایالیکن جب انہوں نے بھی جمہوری اقدار کو دفن کیا اور جبر واستبداد کی طرف گئے اور قیصر وکسری نے شہنشاہیت سے انسانی آزادی کو پامال کیا تو عرب کی صحرا سے ندا بلند ہوئی، جس نے انسانی مساوات کا درس دیا۔ شورائیت کا پرچار کیا، وامرہم شوری بینہم کا اعلان کیا، وشاور ہم فی الامر کا فلسفہ بیان کیا ، جس پر آخری مرسل صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جلیل القدر دوستوں نے اپنے عمل سے مہر تصدیق ثبت فرمائی۔ الغرض جمہوریت انسانی سوچ کی وہ ارتقاء ہے جو اس وقت پوری دنیا میں سکہ رائج الوقت ہے ، شخصی حکومت سے آج کی انسانیت اباء کرتی ہے، اس کے تحکمانہ جبر سے متنفر ہے۔ ازیں خاطر جمعیت علماء اسلام اور دیگر مذہبی جماعتیں ملک پاکستان میں ایک جمہوری طرز سیاست پر عمل پیرا ہیں، کہ اسی ذریعے سے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرکے ملک میں دستوری وقانونی طریقے سے اسلامی نظام نافذ کیا جاسکتا ہے اس رائے کی تائید کے لیے قائد جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن صاحب کے انٹرویو سے اقتباس نقل کرتے ہیں
جو انہوں نے 5 اپریل 1988 میں ندا کے پینل کو دیا تھا
سوال: پاکستانی صورت حال کے موجودہ تناظر میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نظام اسلام جمہوریت کے ذریعہ آسکتا ہے؟
جواب: ہمارے نذدیک غلبہ اسلام کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہے اور ذہن سازی براستہ دعوت ہوگی، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس وقت دعوت کے مرحلے میں ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے عوام کی تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت عوام کی بھر پور تائید کے ساتھ کسی پروگرام اور نظریہ کے ساتھ برسر اقتدار آتی ہے، تو ایک مستحکم حکومت قائم کرسکتی ہے، لیکن ایک مسلمان کی حیثیت سے میں پوری اذعان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی غیر اسلامی نظریہ اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ وہ انسان کے مفاد میں ہو، اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر قرآن وسنت پر نظریہ کو اتنا پھیلایا کہ اسے عوام کی بھر پور تائید حاصل ہوئی اور اس تائید کی بنیاد پر کوئی اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسلام کا غلبہ ضرور ہوگا۔ اور قرآن کریم بھی یہی تصور پیش کرتا ہے کہ دین حق اسی لیے ہے کہ تمام نظریات پر غالب آجائے۔ اور جب اللہ تعالی ہی نظریاتی تقابل کی بات کرتا ہے تو فرماتا ہے کہ حق غالب آ کر رہے گا خواہ کفار ومشرکین کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
(مشافہات 110)
مولانا موصوف نے ایک ملک میں نظام کے قیام سے بڑھ کر یہ فرمایا ہے کہ اس کے ذریعے سے پوری دنیا میں اسلام کو غلبہ مل سکتا ہے، لہذا ہمیں مکمل فکری طور پر یکسو ہو اس جہد جہد کا حصہ بننا ہوگا۔
آخر میں شیخ الاسلام مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی رائے کو نقل کرکے بات سمیٹتے ہیں:چانچہ لکھتے ہیں: ان حالات میں جب کہ لڑائی اسلام اور لا دینیت کی اور پاکستان کے بقاء وفنا کی ہے، کسی بھی باشعور شخص کے لیے غیر جانب دار رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، اس وقت ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ساری توانائیاں اسلامی قوتوں کو مدد پہنچانے میں صرف کرے، اس موقع پر خاموش بیٹھنا بھی ایسا ہی جرم ہے جیسا دشمن کو تقویت پہنچانا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا الناس اذا رئوا الظالم فلم یاخذوا علی یدیہ اوشک ان یعمہم اللہ بعقاب۔
(جمع الفوائد ص : 51ج2)
اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالی اس سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمائیں۔اگر آپ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے، اور انتخابات میں سرگرم حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجہ میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔
(اسلام اور سیاست حاضرہ 16)

Facebook Comments