جے یوآئی خیبر پختونخوا کی مجلس عمومی سے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن مدظلہ کا فکرانگیزخطاب

ضبط وترتیب : مفتی محمد زاہد شاہ
جے یوآئی خیبر پختونخوا کی مجلس عمومی سے
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن مدظلہ کا فکرانگیزخطاب
بعد از خطبہ مسنونہ
صوبائی مجلس عمومی کے معزز اراکین جمعیة علماء اسلام کے ا نتہائی ذمہ دار ساتھیو !کافی عرصے بعد مجھے جمعیة علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کی مجلس عمومی میں شرکت کا موقع ملا ہے ، ہمارے سامنے جس طرح کے مسائل ہیں اوران مسائل کا ہم جس طرح سامنا کر رہے ہیں یقیناچند گھنٹوں کا اجلاس اس کیلئے کافی نہیں۔عام انتخابات بھی آرہے ہیں ،اس کے لئے ہماری حکمت عملی کیا ہے ؟ اب تک ہم کیا کرچکے ہیں اور آگے ہم نے کیا کرنا ہے ؟ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال کیا ہے؟ اس سے ساتھیوں کو خبردار ہونا اور اس کو مدنظررکھتے ہوئے نئی حکمت تشکیل دینا یہ ایسے مسائل نہیں ہیں کہ چند گھنٹوں کے اجلاس میں ہم ان کا حق ادا کرسکیں ۔تاہم کچھ ضروری چیزیں ہیںمیں کوشش کروں گاکہ اس مختصر گفتگو میں ان کا احاطہ کر سکوں اور آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں۔
الحمد للہ جمعیت علماء اسلام بحیثیت جماعت کے پاکستان کی ایک مسلمہ سیاسی قوت ہے ۔ ملکی معاملہ ہویا بین الاقومی معاملہ ، اس پر جمعیةعلماء اسلام کی رائے کو اور اس کے موقف کواب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔جمعیت علماء کا اس طرح ایک قوت بننا مسلسل ایک جدو جہد کے نتیجے میں ہوا ہے اور میں ہمیشہ ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ:ایک زمانہ تھاجب فتوحات کاذریعہ تلوار تھی،اسلحہ تھا توآج کے زمانے میں پوری دنیا میں اقتدار تک پہنچنے اور اس حوالے سے فتوحات حاصل کرنے کا جو وسیلہ اور ذریعہ ہے وہ اب اسلحہ نہیں، توپ نہیں ، ٹینک نہیں ، بندوق نہیںبلکہ عام آدمی کا ووٹ ہے ۔جب ہتھیا ر ہی یہی ہے تو پھر ہم نے عوام تک پہنچنا ہے۔عام آدمی کوجماعت کے قریب لانا اوراس کیلئے حکمت عملی بنانی پڑتی ہے، اس کیلئے دعوت کا ایک طریقہ کار بنانا ہوتاہے۔جماعت بہرحال ایک جامع نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے ،کوئی وقتی یا جزوی مسئلہ جماعت کا اساس نہیں ہوا کرتا۔لہٰذا اگر جماعت کا جامع نظریہ حق ہے تو پھر اس جماعت سے وابستہ ہونا واجب ہے اور اگر جماعت کا جامع نظریہ باطل ہے تو پھر اس جماعت سے لاتعلق ہونا واجب ہے ،یہ بنیادی فرق ہے ۔
اگر کسی جماعت کا جامع نظریہ حق ہو، تو ممکن ہے کسی جزوی مسئلے میں ، وقتی طورپر فیصلہ کرتے وقت اجتہاد ی لحاظ سے غلطی کر بیٹھے،مگر ایک جزوی مسئلہ پر غلط فیصلہ کرنا جماعت سے لاتعلق ہونے کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ جس طرح ایک بڑا سایہ داردرخت ہے ، لوگ اس کے نیچے آکر اس کے سائے میں بیٹھتے ہیں ۔اگر اس کی کوئی ایک شاخ یا کچھ پتے خشک ہو جائیں تو وہ اس سایہ دار درخت کی افادیت کی نفی نہیں کرتے لیکن جماعت کاجامع نظریہ اگر باطل ہے اورقرآن وسنت کی روشنی میں اس کی تشکیل نہیں ہوئی،بلکہ اس میں بنیادی اجتہادی غلطیاں ہیں تو ممکن ہے کسی جزوی مسئلے پر ، کسی وقتی مسئلے پر وہ کبھی صحیح رائے دیدے ، لیکن کسی جزوی مسئلے پراس کا صحیح رائے دینا اس جماعت سے وابستگی کی دلیل نہیں بنتا۔ جیسے اگرپورادرخت سوکھ گیا ہے اس قابل نہیں ہے کہ اس کے نیچے بیٹھا جائے اور اس کی ایک آدھ شاخ سر سبز ہو تو اس ایک آدھ شاخ کا سبز ہوجانا درخت کی افادیت پید انہیں کر سکتی ۔
تو اس اعتبار سے جمعیة علماء اسلام جو ا کابر کی جدو جہد کا ایک تسلسل ہے اور پاکستان میں جتنی بھی مذہبی ، سیاسی جماعتیں جو منظر پر نظر آتی ہیں اور ان کو سیاسی جماعتیں کہا جاتا ہے جمعیت علماء اسلام سے ان کی تاریخ طویل نہیں ہے ۔ آج جو ہمارے پاس جمعیةعلماء اسلام ہے،اس کا بنیادی عقیدہ اور نظریہ انہی اکابرین نے قرآن و سنت کی روشنی میںطے کیااور اسی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حق جماعت ہے، اس سے وابستہ ہونا واجب ہے لیکن جب آپ نے عوام کوقریب کرنا ہے تو پھر عام آدمی کے بھی مسائل ہو تے ہیں ۔آپ نے عام آدمی کو اپنی طرف کیسے متوجہ کرنا ہے ؟ ظاہر ہے آپ نے اپنا نظریہ ضرور ان کے سامنے پیش کرنا ہے،بڑے سادہ انداز سے پیش کرنا ہے تاکہ عام آدمی کا ذہن اس کو سمجھ بھی سکے اورقبول بھی کر سکے۔ لیکن اگر عام لوگوں کی کچھ حاجتیں ہیں، ضرورتیں ہیں ،مسائل ہیں تو اس کی ایک تونوعیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا مسئلہ آ پ کے پاس لے کر آتے ہیںکہ آپ اس مسئلے کو اور اس ضرورت کو پوری کرنے میں میری مدد کریں ۔لیکن ایک دوسری نوعیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بعض دفعہ ظالم لوگوں کے ظلم کا شکار ہو جاتے ہیں جیسے ہمارے نواب ، سردار، خوانین کا ایک طبقہ ہے، ایک ذہنیت ہے ،ان کے مظالم سے تنگ آکر وہ آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔پھر وہ آپ سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ آپ اسے تحفظ بھی دے سکتے ہیں۔تو عام آدمی اپنا تحفظ چاہتا ہے اور اس کا تحفظ کرنے کیلئے آپ کو ایک سیاسی طاقت بننا ہوگا انفرادی طور پر آ پ اس کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتے۔ اگر آپ نے تھانہ کچہری میں اس کی مدد کرنی ہے اس کی خدمت کرنی ہے،آپ نے اسکی ضرورت پوری کرنی ہے تو پھر طاقت بننا پڑے گا،طاقت کے بغیر آپ کی نہیں سنی جائے گی ۔
سوعام آدمی تک رسائی ہونی چاہئے ، ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ اگرکوئی آدمی آپ کے پاس آتا ہے کہ جی میرا مسئلہ ہے توہم کہتے ہیں کہ اچھا آپ جمعیت میں دین کیلئے ہیں یا اس مفاد کے لئے ہیں ؟یہ جان چھڑانے والی باتیں ہیں۔آپ سیاست نہ کریں ، الیکشن نہ لڑیں بس مسجد کی امامت کریں تو کوئی آدمی آپ کے پاس نہیں آئے گا کسی کام کیلئے ، لیکن اگر آپ سیاست کرتے ہیں ملکی نظام کا حصہ بنتے ہیں تو عام آدمی آپ کے پاس آئے گا اور جناب رسول اللہ ۖ کا ارشاد ہے:
ان للہ خلقاخلقھم لقضاء حوائج الناس حببھم فی الخیر وحبب الخیر الیھم ھم الامنون من عذاب اللہ یوم القیامۃ
فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق بھی دنیا میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اسلئے پید اکرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کی حاجت روائی کر سکے اور لوگ اپنی ضرورتیں لے کے ان کی طرف لپکتے ہیں،دوڑتے ہیں ،قیامت کے روز یہی لوگ محفوظ ہوں گے۔کتنی بڑی فضیلت بیان کی ہے خدمت خلق کی۔ اور خدمت خلق کے بغیرعام آدمی کو کس طرح وابستہ کریں گے جماعت کیساتھ۔یہ ووٹ آپ کی طاقت بنے گا ، پبلک کو آپ نے یہی سمجھانا ہے کہ آج آپ کی پرچی تلوار کا کام دے رہی ہے ۔
یہ کہنا کہ جمعیت میں اور دووسری پارٹیوں میں کیا فرق ہے ؟پیپلز پارٹی ہے، مسلم لیگ ہے ، نیشنل پارٹی ہے، پی ٹی آئی ہے ، وہ بھی تو الیکشن لڑتے ہیں ،یہ بھی الیکشن لڑتے ہیں وہ بھی جلسے کرتے ہیں یہ بھی جلسے کرتے ہیں ، وہ بھی ووٹ لیتے ہیں یہ بھی ووٹ لیتے ہیں ، فرق کیا ہے دونوں میں؟ عام آدمی سمجھتا ہے کہ مولوی ایک دفعہ اگر سیاست میں آگیا تو پھر خوانین اور ان کے درمیان کیا فرق ہے ؟ یہ تو پھر ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہہ دے کہ بدرکے میدان میں ابو جہل کی بھی فوج تھی اور میدان میں رسول اللہ ۖ کی فوج تھی اور اُس کے پاس بھی تلوار تھی اور اِن کے پاس بھی تلوار تھی ،اُس کے پاس بھی گھوڑا تھا اور اِن کے پاس بھی گھوڑا تھا،اُس کے پاس بھی نیزہ تھا ا ور اِن کے پاس بھی نیزہ تھا،دونوں میں کیا فرق ہے ؟ کیا اس چیز کو آپ دونوں قوتوں کی یکسانیت کا نام دے سکتے ہیں ؟یہ تو وسائل ہیں،ذرائع ہیں ۔اس کے پیچھے اصل نظریہ کیا ہے کس مقصد کیلئے آپ اس میدان میں اترے ہیں؟لہٰذا ذرائع تو تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن نصب العین تبدیل نہیں ہو تا۔ تو وہی تلوار جو حق کے لئے استعمال ہوتی تھی آج ووٹ کی صورت میں حق کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔وہی تلوار جو باطل کے لئے استعمال ہوتی تھی آج وہ ووٹ کی صورت میں باطل کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔اور پھر آج کے زمانے میں آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ میرے گھر کا معاملہ ہے۔آج دنیا سمٹ آئی ہے ، گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ سلسلے اوپر تک جاتے ہیں، کہاں کہاں تک جاتے ہیں اور یہ لوگ کس کس کی نمائندگی کرتے ہیں اور پاکستان میں وہ کس امت کو یہاں پرتسلط کا موقع مہیا کرتے ہیں او ریہاں وہ کس کے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں؟ ان چیزوں کو آپ نے قوم پر واضح کرنا ہے۔ مسجد مسجد میں نکلنا ہوگا ، حجرے حجرے حجرے میں جانا ہوگا۔مظلوم کا ساتھ دینا ہوگا آپ کو اور پھر ایک اعتماد بنانا ہوگا۔ جب تک پبلک آپ پر اعتماد نہ کرے کہ واقعی آپ مجھے ظلم سے نجات دلاسکتے ہیں ،واقعی آپ مجھے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں ، واقعی آپ میری ضرورتوں کو پور ا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں ،تو آپ ہزارلوگوں کو کہیں کہ ہم تو اس لئے ہیں ہم تو اس لئے ہیں۔ جب تک ان کا اعتماد نہیں ہوگا وہ آپ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ تو یہ اعتماد پید اکریںلیکن دوسرے کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے اولین چیز اپنا کردار ہے۔
اگر آپ قوم کو وحدت کی دعوت دیتے ہیں تو اپنے اندر پہلے وحدت پیدا کرو۔اگر آپ قوم کو اخلاص اور نیک نیتی کی دعوت دیتے ہیں تو اپنے اندر پہلے نیک نیتی اور اخلاص پیدا کرو،اور اس کا اثر پڑتا ہے۔تو اپنی صفوں میں آپ کو ایک وحدت پیدا کرنی ہوگی اور ہمارے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ اختلافات مباحثے سے ختم نہیںہوتے،اختلافات برداشت سے ختم ہوتے ہیں ،ہم اپنے ایک ساتھی کی چھوٹی سے بات برداشت نہیں کرتے۔ ہما ری جماعت کا ایک انتخابی نظام ہے انتخابی نظام ہے تو ظاہر ہے انتخاب ہوگا ایک جیتے گا اور ایک ہارے گااور جو ہار گیا وہ پانچ سال تک حزب مخالف کے طورپر منتخب ادارے کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اپنے اندر اختلاف کی صورت میں آپ اپنی تحریک ، اپنے نظریئے اور اپنی جدو جہد میں کیاحرکت پیداکر سکتے ہیں ؟
یہ تو لڑائی ہے ، ہمارے ایک بزرگ لکھتے ہیںکہ: اگر ایک گھر میں دو بھائی ہوں ان کے دلوں میں نیتی پید ا ہو جائے ایک دوسرے کیلئے پھر اس گھر سے برکت اٹھ جاتی ہے”اپنی رائے دیجئے نیک نیتی سے ۔کبھی قبول ہو جائے گی کبھی قبول نہیں ہوگی اگر قبول نہ ہو تو الحمدللہ پڑھئے کہ شکر ہے کہ میری بات نہیں مانی گئی۔ اگر مان لی جاتی اورنقصان ہو جاتا تو پھر کیا کرتامیں ؟اور اگر مان لی جائے آپ کی رائے تو پھر استغفار پڑھئے کہ اے اللہ میری بات مانی گئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ غلط بات میں نے کہہ دی ہو اور وہ مان لی گئی ہے ، میری گفتگو یا کسی وجہ سے متاثر کر کے میں نے اپنی بات منوا لی ،اب نقصان ہو جائے گاتو پھر کیا ہوگا یااللہ مجھے معاف فرما۔اب دینی تعلیمات تو یہ ہیں لیکن ہمار اعمل الٹا ہوگیاکہ اگر میں ایک بات کروں او ر نہ مانی جائے توعزت نفس کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔میں بات کروں اور مان لی جائے تو ہر جگہ بڑے فخر کیساتھ کہتے ہیں، میں نے یہ بات منوا لی میں نے یہ بات منوالی۔اس اعتبار سے ہمیں کچھ اپنی اصلاح کرنی چاہئے ، اپنے دلوں کو ٹٹولنا چاہئے۔ہمارے بزرگوں نے دلوں کی اصلاح کے لئے خانقاہیں بنائیںوہاں ریاضت و مجاہدہ ہوتاہے اس کا معنی یہ کہ دلوں کی اصلاح کا کام اب شاید ان خانقاہوں میں ہی ہوگا باہر اس کا کوئی میدان نہیں ہے دعوت کا کام ہم نے تبلیغی جماعت کے حوالے کردیا ہے ، تبلیغی جماعت والے دعوت دیتے ہیں تو ا س کو دعوت کہا جاتاہے اور وہ بھی اسی کو اللہ کا راستہ کہتے ہیں اس کے علاوہ توشاید اللہ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔حق کو اپنے اندر منحصر کرنا، یہ کہاں کی تعلیم ہے ؟ مجھے کسی نے کہا کہ جمعیة علماء اسلام والے جو ہیں یہ اسلام اور جمعیة کومترادف پیش کرتے ہیں اگر کوئی جمعیة میں نہیں ہے تو اس کومسلمان ہی نہیں سمجھتے ۔تو میں نے کہا کہ اگر کسی کی یہ سوچ ہے تو غلط ہے۔اسلام تو پوری دنیا میں ہے ، اور پوری دنیا میں جمعیة نہیں ہے۔ ہر جگہ پر لوگ وہاں کے حالات کے مطابق دین کی خدمت کر رہے ہیں ،کوئی کس رنگ میں کوئی کس رنگ میں۔ جیسے جیسے مواقع ان کو ملتے ہیں ان کو استعمال کرتے ہیں اور اپنے دین کی خدمت میں مشغول ہیں توپھر ان لوگوں کو ہم کیا سمجھیں گے کہ وہ جمعیةعلماء اسلام میں نہیں ہیں تو اسلام میں نہیں ہیں نعوذباللہ؟مسئلہ بنیادی یہ ہے کہ جب میں جمعیة علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے اسلام کی بات کرتا ہوں، اور میں لوگوں کو دعوت دے رہا ہوںاور ایک آدمی کھڑا ہو جائے اور پوچھ لے کہ مولوی صاحب یہ اسلام کی بات کررہے ہو کہاں سے بول رہے ہو؟تمہارے پاس سند کیا ہے ؟تو جو اسلا م میں قوم کے سامنے پیش کررہا ہوں تو اس پر اپنی سند پیش کرتا ہوںکہ جمعیة علماء اسلام جو اسلام کی بات کرتی ہے اس کی حجت اور دلیل یہ ہے، اس کی سند یہ ہے ۔ اس اعتبار سے عوام میں جانا ،جماعت کا پروگرام پیش کرنا ان کے مسائل کے حل کیلئے ان کے درمیان پہنچ جانا ان کی مشکلات کو دو رکرنااور ایک طاقت بننا تو الحمد للہ ایک اچھا لمبا چوڑا سفر آپ نے طے کیا ہے۔اس طرح نہیں کہ آپ کو یہاں کسی ایجنسی سے بلایا ہے دو چار دن آپ کو میڈیا کے ذریعے اٹھا لیتے ہیں ، کل آپ نے پارٹی بنائی، آج آپ پورے ملک پر مسلط ہو گئے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ایک محنت کی ہے آپ نے اور آج اگر پشاور کی سرزمین پر پورے ملک کے پچاس لاکھ لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرنے کی کوئی جماعت صلاحیت رکھتی ہے تو وہ صرف جمعیة علماء اسلام ہے ،
مجھے نوازشریف صاحب کا فون آیا کہ بلوچستان میں مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ آپ ذرا اس میں تھوڑا کردار ادا کریں میں نے کہا صاحب !ہماری طرف سے کوئی مشکل نہیں ہے آپ کی اپنی پارٹی چلی گئی ہے۔بائیس تئیس آپ کے اراکین ہیں صرف چار آپ کے ساتھ رہ گئے ہیں، باقی ساری پارٹی چلی گئی ہے ،اپنی پارٹی کو سنبھالو۔اب جب میر ی پارٹی عدم اعتماد میں نہ جائے،اپوزیشن میں بھی ہوںاور ہم نہ جائیں توہمارے بارے میں لوگ کیا کہیں گے کہ یہ کیا اپوزیشن کر رہے ہیں ؟تو آپ لوگوں نے کہا کہ ہم نے عدم اعتماد کرنا ہے ہمیں اپنے وزیر اعلیٰ پر اعتماد نہیں ہے۔اب میری جماعت کہے کہ مجھے اعتماد ہے اور آپ اپنی پارٹی کہے کہ نہیں ۔یہ کس طرح چلے گا۔توانہوںنے کہا کہ اگر آپ نے اسٹینڈ لے لیا توسار ا معاملہ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ میں نے اگر میں سخت اسٹینڈ لوں گا تو ممکن پارٹی ٹوٹ جائے ،ساتھی ناراض ہو جائیں ۔توکہنے لگے: مولانا صاحب میں 1988ء سے آپ کی پارٹی کو دیکھ رہا ہوںمیری پارٹی ٹوٹی ہے اور پیپلز پارٹی ٹوٹی ہے،پھرفلاں پارٹی ٹوٹی، لیکن آج تک میںنے جمعیة کو ٹوٹتے نہیں دیکھا۔ تو یہ اللہ نے ہمار ابھرم رکھا اور ہماری عزت رکھی ، اس پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ورنہ حضرت مفتی صاحب کی زمانے میں یہ مشکلا ت آئی تھیں،اس کرب سے مفتی صاحب کوگزرنا پڑا مگر الحمدللہ اللہ نے ہمارابھرم رکھاہے کہ آج تک کوئی ایسی صورتحال پیش نہیں آئی ۔یہ ہمارے لئے حوصلے کی بات ہے یہ اللہ کی طرف سے مدد ہے، دل اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں: ان قلوب بنی اٰدم بین اصبعی الرحمن یقلبھا کیف یشاء (انسان کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں جس طرف چاہے پھیر دے ) خالصتًا اللہ کی مدد سے جماعت آگے گئی ہے اور اللہ نے جماعت کا بھرم رکھا ہے ،اور اسے اور آگے بڑھائے گا :و اعدوالھم ماستطعتم من قوة طاقت بڑھائو،جتنا تمہارے بس میں ہو آگے بڑھائو،لیکن ابھی بھی ہم اپنے آپ کو اس پوزیشن میں نہیں سمجھتے کہ اس طاقت سے ہم کوئی بڑی تبدیلی لے آئیں ۔کیونکہ آج بھی سرکاری ایجنسیاں سب اس کام میں مصروف ہوتی ہیں کہ جمعیة علماء اسلام کو الیکشن کے نظا م میںمشکلات سے دو چار کیا جائے تاکہ وہ کوئی بڑی اکثریت لے کر اسمبلی میں نہ آجائے۔ ہمارا راستہ باقاعدہ ملکی ادارے روکتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق جو جماعتیں دو ہزار اراکین کا ریکارڈمہیا نہ کرسکیں تو الیکشن کمیشن کے رولزکے مطابق یہ سیاسی پارٹی نہیں رہی، اس کی رجسٹریشن منسوخ ہو چکی ہے۔لیکن ان کو بندے فراہم کئے جاتے ہیں ،اورہم سے کوئی ناراض ہو جائے توان سے کہتے ہیں اِن کا ٹکٹ لے لو ۔اس سازش سے آپ نے پبلک کو آگاہ کرنا ہے ۔ہمارے جو علماء کا ماحول ہے ہر مولوی کہتا ہے کہ میری رائے حجت ہے ، تیرے پاس قرآن کی آیت ہے تو میرے پاس بھی ہے۔ اس گھمنڈ میں وہ اپنے لئے اختلاف کا راستہ ڈھونڈتا ہے ،کیا خدا نہیں دیکھ رہا؟ تم جو اپنے لئے دلیل گڑھ رہے ہو،کس سے چھپائو کے یہ بات؟جب ایک مسجد کے مقابلے میں دوسری مسجد بنتی ہے تو آپ اس کو مسجد ضرار کہتے ہیں اوراس کے انہدام کو واجب سمجھتے ہیںلیکن یہاں کہتے ہو جی!یہ بھی جماعت ہے ،یہ بھی جماعت ہے، یہ بھی دیوبندی ہے ،یہ بھی دیو بندی ہے ، یہ بھی حق پر ہے ،یہ بھی حق پرہے ، یہاں پھر سب برابر ہو جاتے ہیں ؟ خوب سن لویہ سارے آپ کے مقابلے میں مسجد ضرار ہیں ،اس کا انہدام واجب ہے آپ کے اوپر۔نہ کہ اس شخص کی رعایت کریں ۔ یہ بنائے ہی اسی لئے گئے ہیںتاکہ جمعیت علماء کی قوت کو بریک لگائے جائیں ۔اور اپنے آپ کو علم کے لبادے میں پیش کرتے ہیں، یہ بھی عالم ہے، وہ بھی عالم ۔ آپ علماء کرام سے تو میں سمجھتا ہوں یہ ہمارا عنایت چاچا اچھا ہے کہتا ہے میں کسی کو اس وقت تک ولی اللہ نہیں مانتا جب تک جمعیت میں نہیں ہوگا ۔ یہی حال حاجی جلیل جان کے والدمرحوم کاتھا۔ یہ ہوتا ہے اعتماد یہ ہے جماعت پر فدائیت کا مقام ،فنا فی الجماعت کا مطلب و معنی سمجھا تھا انہوںنے ،خانقاہوںمیں بھی یہی کام ہوتا ہے، کہ مادیت اور روحانیت کے درمیان تصادم ہوتاہے ،اور دل کی دنیا کے اندر جوکثافتیںہیں آپ مجاہدے کے ذریعے اس کو نفاست میں تبدیل کرتے ہیں۔ روحانیت کوغالب کرنے کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ تو جمعیت علماء اسلام میں بھی آپ اعلائے کلمة اللہ کیلئے شامل ہوئے ہیں ،مقصود بالذات تو اللہ کے دین کی سربلندی ہے۔آپ الیکشن لڑتے ہیں تو آپ اسمبلیوں میں جاتے ہیں، اسمبلی سے آگے حکومت میں جاتے ہیں ،پھر ملکی وسائل پر حکومت کی دسترس آجاتی ہے ، ان وسائل کے ساتھ عام آدمی کی ضرورتیں وابستہ ہوتی ہیں ۔اب جب ملکی وسائل پر آپ کی دسترس آئے اور عام آدمی کی ضرورتیں ان وسائل سے وابستہ ہوںتو لوگ آپ کی طرف ہی متوجہ ہوں گے ،مجھے نوکری دو مجھے سکول دو ، مجھے ہسپتال دو مجھے سڑک دو۔تو یہ ہجوم جب آپ پر آتاہے، یہ ایک مادی ہجوم ہوتاہے،اور اندر سے جو آپ کا نصب العین ہے جمعیة میں شمولیت کابنیادی ،وہ روحانی ہے ، اب تصادم آگیا یا نہیں آیا ، اس تصادم کیلئے آپ اپنی نظریاتی حیثیت ، نظریاتی احساس اور اعلاء کلمة اللہ کے اس جذبے کو غالب رکھیں گے، تو پھر یہ خانقاہ نہ ہوئی یہ جمعیة علماء اسلام اس خانقاہ کی یونیورسٹی ہے،اس نکتے کو بھی ہمیں دیکھنا چاہئے ۔ مادی چیزیں بھی تو روحانی ارتقاء کا سبب بنتی ہے ، تزکئے کا سبب بنتی ہیں۔ وسییجنبہاالاتقی الذی مالہ یتزکیٰ مال بھی توتزکئے کا سبب بنتی ہے ، خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَةً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْمال ہے لو گوں سے لواور ان کا تزکیہ اور تطہیر کرو،اور خلافت راشدہ اس کی مصداق ہے سب سے بڑی ۔کیا میں یہ مان لوںکہ حضر ت عمر فاروق ساری رات نفلیں پڑھتے تھے ؟ان کو اپنی رعایا کا بھی خیال تھا۔ رات کو بھی گشتوں پرنکل جاتے تھے اور اس قدر احساس کہ فرمایا لو مات الکلب جوعا علی شط الفرات لکان عمرمسئولا عنہ یوم القیامة ،کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بھی ایک کتا بھوکا مرتا ہے تو قیامت کے دن عمر سے پوچھا جائے گا” یہ احساس تھا ، اب ہم وہ مقام تو نہیں حاصل کرسکتے، ہم وہ معیار تو نہیں حاصل کر سکتے،کیونکہ اپنی شخصی زندگی میں انسان جب اپنی کوتاہیوں او رکمزوریوں کو دیکھتا ہے ،کتنا بڑافاصلہ محسوس کرتا ہے لیکن پھر بھی اللہ کے نام لیوا ہیں ، وہ نسبت تو قائم ہے۔
ہر ضلع کی جماعت کے ساتھی بیٹھے ہیں ،اب آپ نے صد سالہ اجتماع کیا۔اس وقت بھی اختلافات توتھے ،ساتھیوں میں جھگڑے ہوتے تھے ، لیکن جب کام آگیا،تو آپ سارے بھول گئے ،اورسب کے سب اس کام میںجُت گئے اور ایسی دلجمعی کے ساتھ کام کیا کہ اس کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا ۔اب الیکشن آرہا ہے اس سے بڑھ کر کام آرہا ہے ،اور اس کی طرف اگر ہم نے جانا ہے تو صفوں کو ٹھیک کرنا ہے ۔الیکشن کی اپنی حکمت عملیاں ہیں ،کہاں ہم براہ راست جیت سکتے ہیں کہاں ہم باہر سے کوئی امیدوار لاکرجیت سکتے ہیں ، کہاں ہم کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے جیت سکتے ہیں یہ تو ہرجگہ کی اپنی حکمت عملی ہوتی ہے وہاں جماعت کے ساتھی جس طرح مشورہ دیتے ہیںاسی کے مطابق عمل کریں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جمعیت کا ایک واضح اعلان ہے،ہم پاکستان کیساتھ ہیں ہم آئین کے ساتھ ہیں ہم آئین و قانون کے دائرے میں جدو جہد کریں گے ،تو پھر اس پر یکسوئی ہونی چاہئے ،یہ جو ہمارے اندر تھوڑی سی رعایتیں ہوتی ہیںکہ اگر کوئی اسلحے کی سیاست کرتا ہے،یادوسری تنظیموں سے جو وابستہ ہوتے ہیں،اور نچلی سطح پر کہیں مدرسوں میں ، کہیں مقامی تنظیموں میںہمارے ایسے ایسے ساتھی ہوتے ہیںجن کی کالیں ریکارڈ ہوجاتی ہیں ،پھر کہتے ہیں ہم بے گناہ تھے ،سارا ریکارڈ موبائل بھرا ہوتاہے ،یہاں پر کوئی رعایت نہیں ہوتی، پھر آپ کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جاتاہے۔اورفورتھ شیڈول کوئی ایسی شے ہے نہیں جتنا ہم نے اس کو بنایا ہے۔ یہ شیڈول آج کل جس کاانگریزی نام پڑ گیا ہے پہلے کسی زمانے میں یہ بستہ ”’ب” بدمعاش کیلئے ہوتا تھا،تو میں تو سمجھتا ہوں کہ آپ کی جماعت اس پر غور کرے ،بیٹھے ، اور میری رائے یہ ہے کہ بڑی جرأت کیساتھ فیصلہ ہونا چاہئے کہ ہم فورتھ شیڈول کی خلاف ورزی کریں گے ، پکڑو ہمیں ، ہم جیلوں میں جائیں گے تو کوئی بات نہیں ۔آپ کا صوبہ یہ کر سکتا ہے ،آپ میں طاقت ہے ، ایک دفعہ آپ نے پیغام دے دیاکہ جمعیة علماء اسلام فورتھ شیڈول کو نہیں مانتی اور ہمارے کسی ساتھی کے اوپر فورتھ شیڈول لگایا گیا ہم حتماًخلاف ورزی کریں گے ،اس دن ہمیں پشاور میں کوئی کام ہو یا نہ ہوہم نے صر ف اس لئے سفر کرنا ہے تاکہ فورتھ شیڈول کوتوڑیں۔تو اس پر مشورہ کریں ، تاکہ ہم ایک پیغام دنیا کو دیں کہ یہ حربے ہمارے راستے میں رکاوٹ نہیں۔سیاسی آدمی ہیں ایک دفعہ آپ نے فیصلہ دیا تو پھر اس کے لئے گھر اور جیل میں فرق نہیں ہونا چاہئے ،اور یہ دہشتگرد، دہشتگرد اور انتہا پسند ، انتہا پسند… آج انتہا پسند کون لوگ ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ علماء کو شدت پسند مت کہیں ، اپنا جائزہ لے لو۔ علماء میں شدت نہیں ہے تم مایا ہو پانی بن گئے ہو کم بختو،اب ہم تمہیں شدت والے نظر آتے ہیں۔ اورجیسا کہ سنا کہ آپ پشاور میںصوبے کے لیول پر بڑا جلسہ کر رہے ہیں ،تو اس کے لئے بھی آپ کو ایک ایک ضلع میں کام کرنا ہوگا ،بھر پور کردار اس کے لئے ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو طاقت کے اظہار کا ذریعہ ہیں اور یہ پیغام بھی دنیا کو دینا ہوگا کہ اسمبلیوں میں ہماری سیٹیں کم یا بڑھ جانا، اسمبلی تک پہنچ جانا، نہ پہنچنا،اقتدار تک پہنچ جانا نہ پہنچنایہ کوئی اتنی بڑی ترجیح ہماری نہیں ہے۔ اگر تم نے سازشیں کر کے ہماری سیٹیں خراب کیں ،تب بھی عوام میں جو ہماری طاقت ہے اس کو تم ختم نہیں کر سکو گے۔
ابھی جوفاٹاکا مسئلہ پیدا ہوا مفتی صاحب نے توبڑے مختصر انداز سے بات کر لی آپ سے ۔2012ء سے ہمارے سامنے تین باتیں ہیںکہ فاٹا کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک امن بحال نہ ہو۔ پھر جو لوگ آئی ڈی پیز ہیں ،دربدر ہو چکے ہیں ، گھروں کو علاقوں کو چھوڑ چکے ہیں ،جب تک ان کی دوبارہ بحالی نہ ہو،پھر جب وہ بحال ہو جائیںتوان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ لوگوں کے مشورے سے اور ان کی آراء کی روشنی میں کیا جائے ۔اب یہاں جو کچھ لوگ جمہوریت جمہوریت کرتے ہیں ،جمہوریت کے علمبردار کہتے رہے کہ فاٹاعوام سے پوچھنے کی ضروررت نہیں ۔ کہاں گئی فاٹا کیلئے جمہوریت،اسٹیبلشمنٹ تواس طرح سوچ سکتی ہے کہ عوام کون ہوتے ہیں ہم خود فیصلہ کریں گے،لیکن پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کی سیاسی جماعتیں کہیںکہ عوام سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے؟برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ کی اپنی حیثیت ہے اس کا سٹیٹس مختلف ہے انگلینڈ سے ،ان سے تو پوچھا جاتاہے کہ آپ برطانیہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں رہنا چاہتے؟برطانیہ یورپی یونین کا حصہ ہے قوم سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ یورپی یونین سے تعلق برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ اور لوگ کہتے ہیں ہم نہیں چاہتے ،تو فیصلہ ہو جاتاہے ۔ کشمیر کیلئے تو ہم کہتے ہیںکہ پبلک سے پوچھو،گلگت بلتستان کے لئے ہم کہتے ہیں کہ پبلک سے پوچھو، لیکن فاٹا ایسی کوئی قوم ہے ایسے غلام لوگ ہیں کہ ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے باقی پارٹیاں تو جمہوریت کی بات کر رہی ہیں،یہ جو ہمارے قوم پرست حضرات ہیں جو کہتے ہیں” اخپلہ خاورہ خپل اختیار” یعنی (اپنی سرزمین پر اپنا اختیار)وہ فاٹاکے عوام کواختیاردینے کے حق میںنہیں ۔ پھر فاٹا کا مسئلہ صرف سیاسی نہیں ،تزویراتی (اسٹریٹجک) بھی ہے۔ہم ایک طرف مسئلہ میں کشمیر کی طرف پھنسے ہوئے ہیں ، افغانستان کی طرف بھی پھنس سکتے ہیں ۔ اس نزاکت کو بھی ہم نے ان کے سامنے رکھنا ہے۔اگر یہ اتنا آسان مسئلہ ہوتا تو 2012ء سے اب تک ہو چکا ہوتا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ عوام کو تو پتہ ہی نہیں چلے گا ،اور کوئی ایسے اندھیر نگری میں فیصلہ کر کے ان پر مسلط کر دیں گے کہ پتہ ہی نہیںچلے گا ان کو۔ جسطرح سوات ، چترال اوردیگر ریاستوں کو شایدبیس پچیس سال بعد پتہ چلا کہ ہم پاکستان میں ہیں ۔ ان ریاستوں کو 1969ء میں ختم کرکے پاکستان میں شامل کیا گیا اور اور پھر ان کو” پاٹا” بنایاگیا، آج تک آپ ان ریاستوں کو باقاعدہ نظام نہیں دے سکے،اورجب ان لوگوں نے شریعت کا مطالبہ کیا تو کیا حال کردیا ان کا ۔اور ہمارا ایک لیڈرکہتا ہے کہ جب یہ ریاستیں نوابوں کے پاس تھیں تو وہاں جرائم کی شرح سات فیصد تھی ،جب سے پاکستان میں شامل ہوئے ہیں جرائم کی شرح سات سو فیصد ہو گئی ہے۔ اب جب سات فیصد سے سات سو فیصدتک جرائم میں اضافہ ہو جائے پھر آگے کہتا ہے کہ: فاٹا کو پاکستان میں ضم ہونا چاہئے ”جب فوج نہیں گئی تھی فاٹا میں تو قتل و غارت گری کی شرح کیا تھی اور آج کیا ہے ؟اس کا بھی حساب ہونا چاہئے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم امن قائم کرنا چاہتے ہیں،ہم رکاوٹ نہیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب کہ لوگ در بدر ہوں، علاقے خالی ہوں ، پبلک کو پتہ ہی نہیں ہے کہ میرے کیا حالات ہیں اور وہاں جا کر آپ ان پر فیصلہ مسلط کر دیں۔ ابھی اس د انہوں نے جوفاٹا تک پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اختیارات کی توسیع کی ہے ،یہ بھی چوری چھپے کی ہے ، جس طرح ختم نبوت کے خلاف بل میں ایک چوری کی گئی کسی کو پتہ بھینہیں چلنے دیا یہ بھی اسی طرح تھا،کہ صبح مشاورتی کمیٹی سپیکر صاحب سے معلوم کرتی ہے کہ آج جو ایجنڈا ہے اس پر ہمیں کیا کرنا ہے کس طرح چلنا ہے؟ تو ہماری جو خاتون ممبر ہیں اس نے اس کمیٹی میں اسپیکر سے پوچھا کہ آج کہیں فاٹا کے حوالے سے تو کوئی بل نہیں آرہا؟اس کو کہیں پتہ چل گیا ہوگا۔ اسپیکر نے کہا نہیں ، جب دوبارہ پوچھا،پھر کہا نہیں ، اس نے یہ تاثر دیا کہ آج کوئی ایسا بل نہیں آرہا اورواقعی ایجنڈے پر تھا بھی نہیں، اجلاس کے دوران ہی ضمنی ایجنڈابنا دیا گیا اور لاء اینڈجستس کمیٹی کی جورپورٹ ہے وہ پیش کردی اور جب وہ پیش کی تو قانون اور ضابطہ یہ ہے کہ پھر رپورٹ کے اوپر بحث ہوتی ہے اورکم از کم دو دن بیچ میں دینا ہوتے ہیں،لیکن انہوں نے بحث کی بجائے اس پرووٹنگ کرادی اور پاس کر دی۔
اب عجیب سا قانون ہے کہ سپریم کورٹ اورہارئی کورٹ کے اختیارکو فاٹا تک وسعت تو دی گئی،لیکن فاٹا میں آدمی اپیل کیسے کرے گا ؟نیچے عدالت ہی نہیں ، عدالتی نظام ہی نہیں ہے اور عدالت میں دیوانی کیس اس وقت پیش ہوتے ہیں جب لینڈ لاء موجود ہو ،لیکن فاتا میں توریکارڈ ہی نہیں ہے بلکہ وہاں پر تو پٹواری نہیں ہیں۔انگریز کے زمانے سے پردادے کے نام پر زمین ، آج قوم کی زمین کہلاتی ہے بس اس کے علاوہ وہاں کوئی ریکارڈ نہیں ہے، اس طرح کبھی نظام دیئے جاتے ہیں ؟ کیا حاصل کیا جارہا ہے آخر سمجھ نہیں آرہی یہ بات۔ اب امریکہ کا دبائو ہے اورمجھے معلوم ہے کہ امریکہ کا دبائو ہے ۔اگر بڑے سے بڑا آدمی تردید کرے کہ امریکہ کا کوئی دبائو نہیں ہے تب بھی میں اپنے اس دعوے پر قائم رہوں گا کہ فاٹا کے انضمام کے حوالے سے امریکہ کا دبائو ہے ۔اس ملک کی سیاست میں یہ لوگ ہم سے زیادہ باخبر نہیں ہیں ،بڑی کوشش کرتے ہیں باتوں کو چھپانے کی ۔ایک دفعہ زرداری صاحب بھی ایک بات مجھ سے چھپا رہے تھے میں نے کہا زرداری صاحب آپ سیاست میں مجھ سے جونیئر ہیں، چھپانے کی کوشش نہ کرو۔ یہ مسئلہ یہاں ، یہاں پہنچا ہے، آپ توسارے خفیہ طریقے سے کر رہے ہو، ہنگامہ کھڑ اہو جائے گامیں نے ان کو ساری بات بتائی اسی وقت واپس ہو گئے (توہین رسالت کا مسئلہ تھا)
آج الحمد للہ جو حکومت نے خود اعلان کیا ہے ، وہ میں آپ کو بتا تا ہوں۔ نمبر ایک: اب انضمام نہیں ہوگا ، نمبر ٢:رواج ایکٹ جو اسمبلی میں پیش کیاگیا تھااب اس پر کاروائی معطل ہو گی،نہیں کی جائے گی ۔نمبر٣:فاٹا سے خیبر پختونخوا کیلئے صوبائی سیٹیں2018ء کے الیکشن میںاب نہیں ہوں گی اورجو کورٹ کی توسیع کی ہے وہ چھپ چھپا کر کی ہے ،جب تک آئین کا آرٹیکل 247زندہ ہے، تب تک ایف سی آر ہے،اور جب تک ایف سی آر ہے کوئی انتظامی حکم پاکستان کی طرف سے فاٹا پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ۔اب دیکھیں کیا صورتحال بنتی ہے ؟ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم تو مسئلہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں ،ہمیں انہوںنے کہا کہ کورٹ کی توسیع کرتے ہیں، ہم نے کہا کہ کورٹ کی توسیع کی اگر آئینی گنجائش ہے تو کریں۔ہم نے یہاں پرماہرین کو بلایا، ماہرین سے مشورہ کیا ،انہوںنے جواب تیار کیا اور یہ جواب ہم نے حکومت کو پیش کرنا تھا، اس کا انہوں نے انتظار نہیں کیا،کیا جلدی تھی ان کو ؟ تو اس حوالے سے الحمد للہ صورتحال قابومیں ہے اتنی بات ضرور ہے کہ فاٹاکے سپریم کونسل ہے ہم نے فاٹا کی سپریم کونسل سے ضرور یہ کہا ہے کہ جو آپ فیصلہ کریں گے ہماری جماعت آپ کے ساتھ ہے ، یہ مسئلہ ان کاہے۔
ائمہ کو جواعزازیہ دیا جارہا ہے یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہورہا ہے، پہلے بڑے مدرسے کو تیس کروڑ روپے کس طریقے سے دیا،پھر اس کے بعد ایک فضا بنائی تاکہ دوسرے مولوی بھی کہیں کہ اتنا بڑا مولوی ہے اپنے مدرسے کیلئے لے رہا ہے ہم کیوں نہ لیں؟ اب ان ائمہ کوجو یہ پیسے نہیں لے رہے انہیں باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی ہیں، اسپیشل برانچ سے فون کرائے جاتے ہیں،ایجنسیوں کی طرف سے فون کرائے جاتے ہیں ،اور پھر ان کو ڈرا دھمکا کر ان سے فارم پر دستخط لئے جاتے ہیں،تاکہ کسی طریقے سے ہم یہ زہر ان کے منہ میں دے دیں۔اسی لئے ہم نے کہا کہ اس پیسے کو مسترد کرو،ہر ضلع میں آپ لوگ اجلاس بلائیں علماء کرام کے، ائمہ مساجد کے ۔
وفاق المدارس العربیہ ہمارے مدارس کا نظام جو تقسیم ہندسے پہلے چلا آرہا ہے کہ سرکاری مال کو اپنے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں اوریہ کہ جو دارالعلوم دیو بند کے اصول ہشتگانہ ہیں ، ہم نے سرکاری پیسہ اس اصول کے تحت نہیںلینا۔آج وفاق المدارس کااتنا بڑا مدرسہ بھی پیسہ لے رہا ہے کوئی صوابدیدی فنڈ نہیں ہے کہ وزیر کا صوابدیدی فنڈ ہے ،گلی کی بجائے مدرسے کا ایک کمرہ بنادیا،ایسا نہیں ہے ۔تو یہاں سے آغاز کیا گیا اور اب مدارس کے اندر وہی پیسہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرا خیال آپ حضرات اس پر تھوڑا ذرا موقف سامنے لائیں ،ہر ضلع میں ائمہ کو بلائیں،اور ان پر واضح کریں کہ یہ پیسہ نہیں لینا اور اگر ہمارے کسی کمزور قسم کے امام پردبائو آتاہے جماعت جا کر ان کا دفاع کرے کہ نہ لو پیسے ان سے۔مجھ سے کہا گیا کہ پیسہ آجائے گا جمعیة ختم ہو جائے گی پیسہ استعمال ہوگا۔میں نے کہا ہمیں اپنے رب پر ایمان ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ لِیُضُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَسَیُنْفِقُوْنَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْھِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْن، انہیںکوئی فائدہ نہیں ہوگا اس کاان شاء اللہ۔
میں ایک جگہ کیا تو ایک عالم دین نے پوچھا کہ حضرت علماء کرام پوچھتے ہیں کہ اس پیسے کے لینے میں کیا چیز مانع ہے ، کوئی دلیل قاطع، برھان ساطع ایساموجود نہیں ہے ۔میں نے کہا جب آپ کے مدرسے کو قفل لگایاجاتاہے، اس وقت بھی آپ نے پوچھا ہے ؟وہاں تو ہم کھڑے رہتے ہیںمیدان میں ، اگر تو آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مدارس کی خدمت کی ہے مدارس کا دفاع کیا ہے ،سندھ میں تین سو مدارس کو تالے لگائے گئے ، جمعیة علماء اسلام کی ریلی نکلی ،اس پورے علاقے میں گئی اور ایک ایک مدرسے کا تالا توڑا اور اس کے دروازہ کھولے ۔ اور ظاہر ہے کہ بین الاقوامی سازش بھی یہ تھی کہ مذہبی جماعتوں کو مشتعل کیا جائے ، ریاست کے مقابلے میں لایا جائے تاکہ ریاست کے ساتھ تصادم ہواور ریاستی طاقت کے ساتھ ان کو ملیا میٹ کیا جائے ۔ہم نے اس سازش کو ناکام بنایا۔
اب اگر گزشتہ پندرہ سولہ سالوں سے ہم مدارس کے خادم بھی ہیں ، مدارس کے محافظ بھی ہیں ، مدارس کے لئے ہم لڑنے والے بھی ہیں، داڑھی پگڑی کی بھی ہم جنگ لڑ رہے ہیں ،مسجد اور اس کے محراب اور منبر کی بھی ہم جنگ لڑ رہے ہیں ،تو اگر ہماری ان خدمات کا اعتراف ہے، آج دس ہزار کے لئے ہمار ا وہ اعتماد کہاں چلا گیا ؟وہاں پر ہم دلائل او ر براہین قاطع و ساطع مانگے جاتے ہیں ۔کہاں گئے وہ اعتماد علماء کا؟ ہمارے اسی صوبے میں میراثیوں کو تیس ہزار روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں اور مولویوں کے لئے دس ہزار۔اور ان کی تنخواہ توباقاعدہ بجٹ کا حصہ ہے،جبکہ اس کاتو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے ؟
وآخردعواناان الحمدللہ رب العالمین۔

Facebook Comments