پیغام پاکستان تمام مکاتب فکرکا متفقہ موقف

تحریر: حافظ مومن خان عثمانی
نائن الیون کے بعد حالات نے جس طرح تیزی کیساتھ پلٹایا کھایا اور دنیا میں تمام فسادات کا منبع دینی جماعتوں ،دینی مدارس اور مذہب پسند لوگوں کو قراردیاگیا اور دنیا کی تمام طاقتیں یکایک ان کیخلاف برسرپیکار ہوئیں ،جمعیت علماء اسلام نے اسے روزاول سے اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ قراردیا تھا مگر سیکولر لادین پارٹیاں اس جنگ کو پاکستان کیلئے ضروری سمجھ رہی تھیں اور اس وقت امریکی پالیسیوں میں پاکستان کی سب سے بڑی کامیابیاں دیکھ رہی تھیں ۔ہر پارٹی ایک دوسرے سے بڑھ کر مسٹر بش کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگی ہوئی تھی ۔لیکن مذہبی جماعتوں خصوصاً جمعیت علماء اسلام نے تب بھی امریکہ کی ان پالیسیوں کو اسلام اور مسلمانوں کیخلاف عالمی سازش قرار دیا تھا اور اس کے خلاف ملک گیر احتجاج کرکے بڑی دلیری سے آوازبلند کی تھی ۔
افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بڑھکائی ہوئی آگ کے شعلے جب پاکستان میں داخل ہوئے تو یہاں کچھ شدت پسندوں نے اپنے ہی ملکی اداروں کے خلاف مسلح کاروائیاں شروع کردیں ،اورخود کش حملوں کا آغاز ہوا ۔مساجد بازار اور عوامی مقامات پر بھی خود کش حملوں کا ایک طویل سلسلہ شروع کردیا گیا ۔جمعیت علماءاسلام نے پاکستانی حدودکے اندر ان مسلح کاروائیوں اور خود کش حملوں کی بھرپور مخالفت کی کیونکہ جمعیت ان کاروائیوں کو اسلام ،پاکستان اور امت مسلمہ کے مفادات کے خلاف سمجھ رہی تھی ۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اگر چہ یہاں اسلامی نظام کا مکمل نفاذ تو نہیں لیکن جس طرح کسی مسلمان کے گناہگار ہونے کی وجہ سے اس کیخلاف ہتھیار اُٹھانا اسلام میں جائز نہیں اسی طرح اسلامی ملک جو متعدد کمیوں کا شکار ہو،اس کیخلاف اسلحہ اٹھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ اس بناء پر جمعیت علماء اسلام مملکت پاکستان میں مسلح کاروائیاں ناجائز سمجھتے ہوئے اس کیخلاف میدان میں آئی ۔مسلح گروپوں کو سمجھایا ،ان میں مخلص لوگ تو باز آگئے مگر جو کسی کے آلہ کار تھے اور وہ بہر صورت ملک کے اندر فساد برپا کرنا چاہتے تھے ، انہوں نے جمعیت علماء اسلام کی ان باتوں کا کوئی اثرنہیں لیا اور اپنی مسلح کاروائیوںمیں بدستور مصروف عمل رہے ۔ انہوں نے افواج پاکستان کے ساتھ معصوم لوگوں کوبھی اپنی کاروائیوں کا نشانہ بنایا ۔اس ظلم کیخلاف سب سے پہلے جمعیت علماء اسلام نے آوازاُٹھائی اوراپریل 2007ء کو پشاور میں پچیس ہزار جید علماء کرام کا ایک اجلاس بلاکر مشترکہ بیانیہ جاری کیا،جس میں اعلان کیا گیا کہ جمعیة علماء اسلام ملک میں اسلامی نظام کے نفاذکیلئے سیاسی ،جمہوری اور آئینی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور ان تمام واقعات سے اپنی برات کا علان کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ان سازشوں کو سمجھنے اوران سے لاتعلق رہنے کی ہدایت کرتی ہے ۔ مدراس کے مہتممین سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ ان سازشوں کے جال میں پھنس کر اپنے تعلیم وتعلم کے مقاصداصلی کو ہرگز فراموش نہ کریں ۔جس پر دہشت گردوں کی طرف سے جمعیت علماء اسلام کی قیادت اور جید بزرگ علماء کرام کونشانہ بنایاگیا ،جمعیت کے سابق ایم این اے شیخ الحدیث مولانا حسن جان جیسے بزرگ انسان کو رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں عین افطاری کے وقت اور سابق ایم این اے مولانا معراج الدین کو نمازفجر کیلئے جاتے وقت شہید کردیا گیا ۔
اپریل 2010ء کوجامعہ اشرفیہ لاہورمیں دیوبندی مکتب فکر کے اکابر علماء کا تین روزہ اجلاس منعقدہوا جس کے بیانیہ میں دیگر نکات کیساتھ ایک مرکزی نکتہ یہ بھی تھا کہ: ”موجودہ حالات میں نفاذشریعت اور ملک کو بیرونی تسلط سے نجات دلانے کیلئے مسلح جدوجہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے ساتھ حصول مقاصدکیلئے بھی مضر ہے”اس کے ساتھ قبائلی علاقوں میں بھی قیام امن کے لئے قائدجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کئی دفعہ جرگے منعقدہوئے جن میں ان شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ قائدجمعیت مولانا فضل الر حمن اور پوری جماعت اس قتل و غارت کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتی رہی لیکن عالمی دہشت گردقوتیں پاکستان کے حالات کو بگاڑنے پر تلی ہوئی تھیں۔ اس لئے امن وآشتی اور پیارومحبت کی تمام کوششوں کو ہمیشہ سبوتاژ کیا گیا۔ اس دوران جمعیت علماء اسلام کے کئی اہم رہنما بھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ کر جام شہادت نوش فرماگئے۔ جن میں عالمی حالات کے مکمل ادراک رکھنے والے ،جہاندیدہ عالم دین ،مفتی اعظم، مولانامفتی نظام الدین شامزئی ،مفتی محمدجمیل خان ،مولانامعراج الدین شامل ہیں۔ اسی طرح بریلوی مکتبہ فکر کے مولاناڈاکٹر سرفرازاحمدنعیمی کوبھی امن کی کاوشوں کی وجہ سے شہید کردیا گیا ۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب ،مولانا محمد خان شیرانی صاحب اور مولانا عبدالغفور حیدری صاحب پر کئی بار خود کش حملے کئے گئے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو شرپسندوں کے پے درپے حملوں کے باوجود محفوظ رکھا ۔انہی کوششوں کے نتیجہ میں16 جنوری 2018ء کو ایوان صدراسلام آباد میں ایک متفقہ بیانئے کا اعلان ہوا ۔قومی اعلامیہ 22جبکہ فتویٰ 9 نکات پر مشتمل ہے،جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
”قرآن وسنت کے احکام کے نفاذکی پر امن جدوجہد کرنا ہر مسلمان کا دینی حق ہے ۔فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قراردینے اور ان کیخلاف مسلح کاروائی کا کوئی شرعی جوازنہیں ہے اور ایساعمل اسلامی تعلیمات کی روسے بغاوت کا سنگین جرم قرارپاتاہے۔دہشت گردی کیخلاف جنگ میں علماء ومشائخ سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست اور مسلح افواج کیساتھ کھڑے ہیں ۔
تمام دینی مسالک کے نمائندہ علماء نے شرعی دلائل کی روشنی میں قتل ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کو حرام قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔ فرقہ ورانہ منافرت ،مسلح فرقہ ورانہ تصادم اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شرعی احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے ۔
تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم وتربیت ہے ملک کی تمام سرکاری ونجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت ،نفرت انگیزی ،انتہاپسندی اور تشددپسندی پر مبنی تعلیم وتربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔انتہاپسندانہ سوچ اور شدت پسندی کے خلاف فکری جہاد اور انتظامی اقدامات ناگزیر ہیں ،ایسے لوگ خواہ کسی بھی درسگاہ سے منسلک ہوں ،کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔ صراحت ،کنایہ اور اشارہ کے ذریعے کسی بھی صورت میں انبیاء کرام ،ورسل عظام ، اہل بیت اطہار ،صحابہ کرام ،شعائر اسلام اور ہرمسلک کے مسلمہ اکابر کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 295…298کی تمام دفعات کو ریاستی اداروں کے ذریعے لفظاً ومعناً نافذکیاجائے ۔
پاکستان اسلامی نظام کی عملی کمزورویوں کے باوجود اسلامی ریاست ہے اور کسی عملی خامیوں کی بناء پر اسے ،اس کی حکومت یا افواج کو غیرمسلم قراردینا ہرگزجائز نہیں ،بلکہ گناہ ہے ۔ پاکستان میںکسی قسم کی مسلح بغاوت وخودکش حملے ناجائز وحرام اور تین طرح کے شدید گناہوں کامجموعہ ہیں :ایک خودکشی ،دوسراکسی بے گناہ کو قتل کرنا تیسرامسلمان حکومت کے خلاف بغاوت۔جہاد کا اعلان کسی گروہ یافرد کی بجائے صرف ریاست کاحق ہے ۔نفاذشریعت کے نام پر مسلح جدوجہد کرنے والے باغی ہیں،خودکش حملے کرنے اور کروانے والے باغی ہیں ۔عوام الناس بغاوت کو کچلنے کیلئے فورسزسے تعاون کریں ۔ لائوڈسپیکر کا غلط استعمال روکا جائے ۔ٹی وی چینلزپرمذہبی موضوعات پر مناظرے قابل دست اندازی پولیس جرم ہیں ۔ الیکٹرانک میڈیا کے حق آزادی اظہار کو قانون کے دائرے میں لایا جائے ۔خواتین کا احترام سب پر لازمی ہے، ورنہ سخت کاروائی ہوگی ۔مختلف مسالک کانظریاتی اختلاف ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ،لیکن اس اختلاف کو علمی اور نظریاتی حدودمیں رکھناواجب ہے ۔اس سلسلہ میں انبیا ء کرام صحابہ کرام ،ازواج مطہرات اور اہل بیت کے تقدس کو ملحوظ رکھنا ایک فریضہ ہے اور آپس میں ایک دوسرے کیخلاف سب وشتم ، اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے کا کوئی جواز نہیں۔نیز اس اختلاف کی بناء پر قتل وغارت گری ،اپنے نظریات کو دوسروں پر جبرکے ذریعے مسلط کرنا ایک دوسرے کی جان کے درپے ہونا بالکل حرام ہے ۔اس موقع پر ایوان صدر میں منعقدہ کانفرنس سے قائدجمعیةمولانا فضل الرحمن نے بھی ایک معرکة لآراء خطاب فرمایا، جس میں انہوں نے ریاست کو کئی مفید مشورے دینے کیساتھ کئی اہم شکوے بھی کئے اور مجلس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو بھی کئی اہم نکات کی طرف متوجہ کیا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مدارس پر روزمرہ چھاپوں، اساتذہ اور طلباء کو ہراساں کرنے ،علماء کو فورتھ شیڈول میں مجرموں جیسے سلوک اور مذہبی طبقات کو لڑوانے پر ریاست اور اس کے اداروں سے شدید مگر پر اثر الفاظ میں شکوہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ:” ہم سے تو روز روز وفاداریاں مانگی جاتی ہیں مگر میرے مدرسہ ،میری مسجد،میرے مدرسہ کا استاد ،میرے مدرسہ کا طالب علم ،مدرسہ کا نظام تعلیم ،میرے ملک کی داڑھی اور پگڑی پر کب اعتماد کیا جائے گا؟وہ دن بھی تو ہمیں بتادو۔ اعتماد دوطرفہ ہونا چاہئے ، مدارس پر روزانہ چھاپے مارے جاتے ہیں آدھی رات کے وقت طلباء کو اُٹھاکرباہر میدانوں میںلایا جاتا ہے،ان کو ماراپیٹاجاتا ہے ان پر تشددکیا جاتا ہے۔ہم نے ساری زندگی آئین وقانون کی پاسداری کیلئے گزاردی ،اور ہم نے یہ عزم کیا ہے کہ ہم اسلحہ کی نوک پر شریعت کے نفاذکی بات کرنے والوں کو تنہا کردیں اور ہم نے ایسا کیابھی ہے۔ آج تمام مدارس آپ کیساتھ ہیں تنظیمات مدارس آپ کے ساتھ ہیں تمام مکاتب فکر کی تنظیمیں آپ کے ساتھ ہیں ۔صدرمملکت کو مخاطب کرتے ہوئے قائدجمعیت نے کہا: آج اگر میں نے آپ پر اعتماد کیا ہے تو جناب صدرمملکت ! آج کے بعد آپ نے بھی مجھے شک کی نگاہوں سے نہیں دیکھنا،تب بات چلے گی ۔مولانا فضل الرحمن نے یہ بھی کہا کہ اہل بیت بھی ہمارے ہیں اور صحابہ کرام بھی ہمارے ہیں ،اہل بیت سے نفرت کرنے والا اپنے ایمان کی خیرمنائے اور صحابہ کرام سے نفرت کرنے والا بھی اپنے ایمان کی خیرمنائے ۔ یہ ہماری اساس ہیں اگر اساس بیچ سے ہٹ گئی تو میں اور آپ کس طرح سے دنیا کے سامنے اسلام پیش کریں گے ؟ہم اسلام کو اول ترجیح پر کیوں نہیں رکھ سکتے مسلکی شناخت کو ہم نے اول ترجیح کیوں قراردیاہے؟اس متفقہ فتویٰ پر اہل سنت ،اہل تشیع ،دیوبند ی ،بریلوی اور اہل حدیث علماء کے دستخط موجود ہیں ۔مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی ،شیخ الاسلام مولانامفتی محمدتقی عثمانی ،مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا فضل محمد یوسفزئی ،مفتی منیب الرحمن ،مولانا محمدحنیف جالندھری ،مولانا عبدالمالک منصورہ جیسے قدآور علماء شامل ہیں اور اس فتویٰ کے توثیق کرنے والوں میں پروفیسر ساجدمیر ،مفتی عبدالرحیم ،مولانا زاہدالراشدی ،مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی ،مفتی سید عدنان کاکاخیل ،مولانا فضل الرحمن خلیل ،علامہ محمداحمدلدھیانوی ، علامہ اورنگزیب فاروقی ، علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ، علامہ محمدامین شہیدی اورعلامہ عارف حسین واحدی جیسے 1821 شخصیات ایک ہی ہال کے اندر، ایک ہی مجلس میں، ایک ہی چھت کے نیچے ،ایک پیج پر بغیرکسی نفرت وتعصب کے جمع دکھائی دئیے ،لیکن نچلی سطح پر ان اختلافات کو حکومت کیسے ختم کرے گی اور اپنی بوئی ہوئی بیج کو کیسے کاٹے گی، اس کے لئے حکومت کوکوئی ٹھوس لائحہ عمل تیا کرنا چاہئے ۔اس کے بغیر اس متفقہ بیانئے کے کوئی ثمرات حاصل نہیں ہوں گے ۔

Facebook Comments