متحدہ مجلس عمل کی بحالی

اعتراضات پر ایک نظر
(طاہر رفیق کا جوابِ آں غزل)
جب سے مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں،میڈیا میں اس پر مختلف زاویوںسے بحث ہورہی ہے۔کسی بھی موضوع پربحث و مباحثہ (discussion)ایک حوصلہ افزا بات ہے ،یہ کسی بھی معاشرے کی صحت مند روایت میں ہوتی ہے کہ وہاں ایک دوسرے کی بات کو توجہ سے سنا جائے اور اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے۔لیکن متعلقہ موضوع پر صرف منفی نقطہ نظر یا تنقیدی پہلو کو اچھالناکسی طوربھی صحت مندانہ عمل نہیں بلکہ انتشار پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔
ایم ایم اے کی بحالی پر جو تنقید ہورہی ہے اس میں سب سے پہلا سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ جب تمام مذہبی جماعتوں کا نکتہ نظر ملک میں نفاذاسلام ہی ہے اور ان کا مقصد ایک ہے سبھی نفاذ شریعت چاہتے ہیں،سب کے سیاسی اور معاشی منشور بھی ایک جیسے ہیں تو پھر ان کی راہیں علیحدہ علیحدہ کیوں ہیںاور ان کے الگ الگ وجود کا کیا جواز ہے؟یہ ساری جماعتیںاپنی الگ الگ شناخت ختم کر کے ایک وجود میں مدغم کیوں نہیں ہوجاتیں ؟جبکہ یہاں پرتو ہر مسلک کی الگ الگ جماعتیں موجود ہیں جو اکٹھی ہونے کیلئے تیار نہیں۔لہٰذا ہم پاکستانی محب وطن دانشوروں کا ماننا ہے کہ یہ سب مفاد پرست ہیں اور ان کا اتحاد ایک بار پھر قوم کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔
اس اعتراض کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ اگر مذہبی جماعتوں کے الگ الگ وجود کا جواز نہیں ہے توپھر غیر مذہبی جماعتوں کے الگ الگ وجود کا کیا جواز ہے؟مثال کے طورپر ملک کی معروف سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن ،ق،پی پی پی،پی ٹی آئی وغیرہ سب کا مقصدبزعم خویش ملک کی ترقی، معاشی خوشحالی اور عوامی مسائل کا حل ہے ،ان تمام جماعتوں کے منشور،دستور اور لیڈروں کے بیانات پڑھ کر دیکھ لیں، تنقیدی بیانات اور شخصی اختلافات کے سوا پچانوے فیصد باتیں ایک جیسی ہو نگی۔ہر کوئی دعوی کرتا ہے کہ ہم ملک کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔تواگر ان سب کا مقصدایک ہونے کے باوجود الگ الگ وجو د کا کوئی جواز ہے تو پھرمذہبی سیاسی جماعتوں پر یہ اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟
اسی طرح ادیب،وکلاء،مزدور، کسان،اساتذہ، تاجر اپنے اپنے شعبو ں اور میدانوں میں مختلف تنظیمیں اور جماعتیں بناکر کام کرتے ہیں ان پر تو سوالات نہیں اٹھائے جاتے؟ اگر تمام شعبہ ہائے زندگی میںمقاصد ونظریات اور منشورات ایک ہونے کے باوجود صرف طریقہ کار،حکمت عملی اور لیڈرشپ کے مختلف ہونے کی وجہ سے الگ الگ تنظیموں کا وجود ہی جواز کا حامل ہے تو پھر مذہبی جما عتوںکوطریقہ کار اور حکمت عملی مختلف ہونے کی بنیاد پر یہ رعایت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ خاص طور پر سیاسی میدان میں تو ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ حکمت عملی کے الگ الگ ہونے سے کیسے مختلف نتائج پیدا ہوتے ہیں ۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن میدان سیاست کے کھلاڑی ہیں لیکن ان کے الگ الگ طریقہ کار اورپالیسیوںکے نتائج ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیںیہ کوئی الجبرا کا سوال نہیں۔ اسی طرح مذہبی میدان میں بھی مذہبی سیاسی جماعتیںاپنی الگ الگ حکمت عملی سے مختلف مثبت نتائج پیدا کررہی ہیں بشرطیکہ انصاف کیساتھ تعصب کی عینک اتار کرجائزہ لیا جائے۔
مذکورہ اعتراض کے ایک اور جواب کی طرف اشارہ کافی ہوگا کہ یہ مختصر مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔بات یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے آغاز سے لیکر آج کے ترقی یافتہ دور تک انسان کی انفرادی و اجتماعی ترقی کے ضامن وہی لوگ رہے ہیں جنہوں نے لگے بندھے نظریات اور طریقوں سے اختلاف اور بغاوت کرکے نئی راہیں نکالی ہیں۔ لکیر کے فقیر کسی بھی دور میں کوئی تبدیلی نہیںلاسکتے۔ہمارے ہاں اختلاف رائے اور اختلاف عمل کے منفی پہلوئوںکو تو اجا گر کر کے دکھا یاجاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسکے فوائد اور انسانیت پر مثبت اثرات واحسانا ت تاریخ کا کوئی اہل نظرطالبعلم نہیں جھٹلاسکتا۔
انسانیت میں مختلف رنگ، زبانیں، کلچر،لباس،نسلیں، زبانوں کے مختلف لہجے ا ور مختلف سیاسی ومذہبی نظریات انسانیت کا حسن ہیں۔تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف رائے اور حکمت عملی کااختلاف انسانی معاشروں کے ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتو معاشرہ اس کھڑے ہوئے پانی کی مانند ہوجاتا ہے جس میں بدبو پیدا ہو جا تی ہے۔ یہ اصول جیسے زندگی کے دیگر شعبو ںپر لاگو ہے اسی طرح سیاست اور مذہب کے میدان میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔بنیادی اصول تو ہر دور میں ایک جیسے رہے ہیںجبکہ حکمت عملی اور طریقہ کارہر دور کے تقاضوں کے اعتبار سے لوگ اپنی فہم اور عقل کے مطابق تشکیل دیتے ہیں،فیصلہ تاریخ کرتی ہے کہ کون کامیاب رہا اور کون ناکام؟کون ہیرو ہے اور کون زیرو؟فرد پر تو صرف یہ لازم ہے کہ وہ اپنے میدان میں دیانت وامانت کے ساتھ اپنی ہمت اور صلاحیت کے مطابق اپنے حصے کا کام سرانجام دے۔
میرا خیال یہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیںاپنے اپنے انداز میںغلبہ اسلام اور تحفظ دین کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیںاور عوام بھی اپنے اپنے مزاج اور پسندکے مطابق کسی نہ کسی جماعت کا انتخاب کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے اگرملک کی ایک ہی مذہبی جماعت ہوتی اور اس کی قیادت بھی علامہ خادم حسین رضوی کے پاس ہوتی تو ہم جیسے کمزوروں کو بات کہنے اور سننے کا حوصلہ کہاں ہوتا؟اس لئے مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب الرحمن جیسے حضرات کے وجود کو غنیمت سمجھئے جو آ گ بجھانے کے فن سے بھی واقف ہیں۔ گلستان میں رنگا رنگ پھولوں سے اس کی خوبصورتی اور حسن میں اضافہ ہوتا ہے، کمی ہرگزنہیں۔
ایم ایم اے کی بحالی پر ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ الیکشن قریب دیکھ کریہ جماعتیں ذاتی مفاد میں اکٹھی ہورہی ہیںجب کی پہلے یہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیںکرتے تھے ۔اس لئے یہ مفاد پرستوں کا اتحاد ہے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ہماری پارلیمانی جمہوریت میںالیکشن کے قریب یا کسی مشکل وقت میں مختلف الخیال جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجانا ایک روایت چلی آرہی ہے۔ ایوب خان کیخلاف بیشتر سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی نے بھی محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ،اسی طرح قومی اتحاد،ایم آرڈی،اسلامی جمہوری اتحاد سے کون واقف نہیںاور ماضی قریب کے میثاق جمہوریت پر تو آگ اورپانی(پی پی پی اور ن لیگ) کے اتفاق سے سب ہی آگاہ ہیں۔چند مشترکہ نکات پر جماعتیں متحد ہوکر بہتر نتائج حاصل کرسکتی ہیں،یہ عام فہم بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے اتحادوں اور قربتوں کو حب الوطنی کی سند جاری کی جاتی ہے تو پھر مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو مفاد پرستی سے کیوں تعبیرکیا جاتا ہے؟
ا ور لطف کی بات یہ ہے کہ جب یہ پارٹیاں اپنی اپنی الگ راہوں پر چل رہی ہوتی ہیںتو ہمارے یہی دانشور اور میڈیا (جو اب معترض ہیں)دہائی دیتے ہیں کہ یہ مذہبی لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کیوں نہیں ہو جاتے؟یہ مل کر جدوجہد کیوں نہیں کرتے؟یہ اپنے مفادات کو بالائے طاق کیوں نہیں رکھ دیتے؟اور جب ان میں اتحاد کی بات چلتی ہے تو پھر کہتے ہیں کہ اب یہ مفادات کے لئے متحد ہورہے ہیں:
خداوندا !یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
بغیر کسی ثبوت کے مذہبی راہنمائوں کی نیت پر حملہ کرنے والے اورمفاد پرستی کا الزام لگانے والے قوم میں یکجہتی اور اتحاد پیدا کرنے کی بجائے انتشار اور شبہات کو فروغ دے کرکس کی خدمت کررہے ہیں؟
آپ خود ہی اپنی ادائوں پرذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے، تو شکایت ہوگی
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ ایم ایم اے میں مولانا سمیع الحق کیو ں شامل نہیں ہورہے؟نیز بریلوی مکتبہ فکر کی کئی جماعتیں اس اتحاد پر مطمئن نہیں؟
یہ ایک سطحی بات ہے ۔کون شامل ہے کون نہیں؟ہر ایک اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنا راستہ منتخب کرنے کا حق رکھتا ہے ہمیں فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑدینا چاہیے،وقت بتائے گا کہ کس کا فیصلہ درست تھا اور کس کا غلط؟ہمیں بلاوجہ کسی کی نیت پر شبہ کرنے کاحق نہیں۔

Facebook Comments