Mudasir Husain is a Freelancer Journalist, Reporter, Blogger & Social Media Activist
(تحریر: شیٰخ الحدیث مولانا زاھد الراشدی مدظلہ)
16 جنوری2018ء کو ایوانِ صدر، اسلام آباد میں ”پیغامِ پاکستان ”کے اجراء کی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور اکابرین امت کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ کتاب ”پیغام پاکستان ”معروضی حالات میں اسلام، ریاست اور قوم کے حوالہ سے ایک اجتماعی قومی موقف کا اظہار ہے، جو وقت کی اہم ضرورت تھا اور اس کیلئے جن اداروں، شخصیات اور حلقوں نے محنت کی ہے وہ تبریک و تشکر کے مستحق ہیں۔ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تیار کردہ تمام مکاتب فکر کے متفقہ پیغام پاکستان میں بنیادی اور اصولی باتیں تو وہی ہیں جن کا گزشتہ دو عشروں سے مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے اور کم و بیش تمام طبقات اور حلقے ان پر متفق چلے آرہے ہیں۔ اس کا ذکر مذکورہ تقریب میں مولانا فضل الرحمن اور مولانا مفتی منیب الرحمن نے اپنے خطابات کے دوران تفصیل کیساتھ کر دیا ہے کہ اسلامی ریاست کے خلاف عسکری محاذ آرائی، نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جنگ، پرامن شہریوں کا قتل، دستور کی بالادستی کو چیلنج اور خودکش حملوں کے عدم جواز کے بارے میں دینی حلقے اور ان کی قیادتیں اس افسوسناک عمل کے آغاز سے ہی لگاتار اپنے دوٹوک موقف کا اعلان کر رہی ہیں۔ اسکے باوجود وسیع تر دائرے میں اعلی ترین سطح پر ریاستی اداروں کے اشتراکِ عمل کیساتھ صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کی قیادت میں اس نئے اور اجتماعی اظہار نے اسے متفقہ قومی موقف کی حیثیت دیدی ہے اور آج کے قومی اور عالمی حالات میں اس کی اہمیت و افادیت کو دوچند کر دیا ہے جس سے دنیا کو پاکستانی قوم کی طرف سے ایک واضح اور دوٹوک پیغام ملا ہے۔
البتہ ”پیغامِ پاکستان ”میں بظاہر ایک نئی بات فرقہ واریت کے حوالہ سے ضرور سامنے آئی ہے کہ کسی فرد یا طبقہ کی تکفیر اور اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے عمل کو ریاست و عدالت کے دائرہ اختیار میں محصور قرار دیا گیا ہے جو مختلف حلقوں کی وسیع تر باہمی تکفیری مہم اور اس میں مسلسل اضافے کے باعث ضروری ہوگیا تھا اور اس کا سنجیدہ حلقوں میں خیرمقدم کیا جائے گا۔ ویسے عملاً پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے اجماعی فیصلے اور فتوے کے عملی نفاذ کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمی کو ذریعہ بنایا گیا تھا اور انہی کے فیصلوں کو اس حوالہ سے بنیادی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ جبکہ پیغامِ پاکستان کے ذریعے اس روایت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ کسی طبقہ یا فرد کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ(سپریم کورٹ) ہی مجاز ادارے ہیں اور تکفیری رجحانات سے معاشرہ میں پھیلنے والی انارکی کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ ناگزیر ہے اور اسی سے فرقہ واریت کے عفریت کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔
پیغامِ پاکستان کی ترتیب و تدوین کے دوران ہمیں کسی مرحلہ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا، ورنہ اسے زیادہ موثر اور جامع بنانے کے لئے ایک دو تجویزیں ہمارے ذہن میں بھی تھیں ،جن کا اظہار اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے، ممکن ہے آئندہ کسی مرحلہ میں ان کی طرف توجہ مبذول ہو جائے۔
ایک یہ کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی مسلم ریاست کی جائز اور مسلمہ حکومت ہی جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے اور اس کے بغیر کسی شخص یا گروہ کو اس کا حق حاصل نہیں ہے لیکن کسی بھی اجتماعی فتوی میں عام طور پر مسئلہ کے تمام پہلوں کو سامنے رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ فتوی بار بار جاری کیے جانے اور درست ہونے کے باوجود اس سوال کے حوالہ سے تشنہ چلا آرہا ہے کہ اگر کسی مسلم ریاست میں غیر ملکی اور غیر مسلم طاقتوں کی مداخلت سے اس کا ریاستی ڈھانچہ اور حکومتی نظام ہی ”ہیک ”ہو جائے اور خود وہ حکومت غیر مسلم اور غیر ملکی مداخلت کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر لے تو پھر اس تسلط اور استعلاء کے خلاف مزاحمت اور جہاد کا اعلان کس کی ذمہ داری قرار پائے گا اور اس کی مجاز اتھارٹی کون سی ہوگی؟ مثلاً جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی کے مغل بادشاہ کو بے اختیار کر کے اسی کے نام پر مالیاتی، انتظامی اور عدالتی نظام کو اپنے کنٹرول میں لینے کا اعلان کیا تھا تو حکومتی اتھارٹی اس طرح” ہیک” ہو جانے پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اس خطہ کو دارالحرب قرار دے کر جہاد کا اعلان کر دیا تھا اور اس اعلان کو دینی و علمی طور پر تسلیم بھی کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اب خدانخواستہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو کسی کو مزاحمت اور جہاد کے اعلان کا اختیار حاصل ہوگا یا سارے معاملات کو ”سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے” کہہ کر قبول کر لیا جائے گا؟
دوسری گزارش یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کیلئے ہتھیار اٹھانے کو بجا طور پر شرعا حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ شریعت کے نفاذ میں کوتاہی برتنے اور اسے نظرانداز کرتے چلے جانے والوں کے اس عمل کی شرعی حیثیت بھی اس قومی فتوے میں واضح ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ متعلقہ افراد اور اداروں کو نفاذ اسلام کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ بلکہ اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ جو ادارے اور طبقات شرعی و دستوری دونوں حوالوں سے نفاذِ اسلام میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے ان کی حیثیت کیا ہے اور کیا ان پر بھی کسی فتوے کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟
مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا فضل الرحمن، مولانا مفتی منیب الرحمن، پروفیسر ساجد میر، مولانا عبد المالک، علامہ ریاض حسین نجفی اور دیگر اکابرین نے اپنے خطابات میں اس طرف توجہ دلائی ہے لیکن پیغامِ پاکستان کا متن اس کے بارے میں خاموش ہے۔ اس کیساتھ ہی مولانا عبد المالک کا یہ کہنا بھی قابل توجہ ہے کہ بغاوت کہ بغاوت کرنے والوں کیخلاف کاروائی اور آپریشن ضروری ہے مگر ان کو اپنے موقف سے رجوع کرنے اور محاذ آرائی سے دستبردار ہونے کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حوالہ دیا ہے کہ جب حضرت ابوبکرصدیق نے باغیوں کیخلاف کاروائی کیلئے فوجیں بھیجی تھیں تو پہلی ہدایت یہ تھی کہ انہیں اسلامی ریاست کے سامنے سپرانداز ہونے اور توبہ کرنے کی دعوت دیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف کاروائی کریں۔