(ضبط وترتیب: مفتی محمد خالد شریف اسلام آباد )
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ، اما بعد
جناب صدر مملکت ، وزرا کرام، علما ومشائخ عظام اور اس تقریب میں موجود تمام اہل علم ، اداروںسے وابستہ اہم شخصیات میرے بھائیو اور بہنو!
ایک مبارک موقع ہے، جب ریاست کی نگرانی میں مملکت کے زیر سایہ یہاں ملک کے تمام مکاتب فکرجمع ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے یہاں جمع ہیں، حکومت اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے حضرات یہاں جمع ہیںاور ریاست کیساتھ اپنی بھر پور اور گہری وابستگی، وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں ،جسے پیغام پاکستان کا نام دیاگیا اور یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی ہماری کہ ہم عالمی برادری کو اور اسلامی برادری کو یہ باور کراسکیں کہ ہم ایک پر امن ملک ہیں ، پور ی قوم امن چاہتی ہے اور امن کو سبو تاژ کرنے والوں کے مقابلے میں پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے ۔
میرے محترم بزرگو اوردوستو!
انسان معاشرے میں اور حیات اجتماعی میں امن و سکون کی زندگی ،اللہ تعالی کی طرف سے ایک فطری زندگی ہے ۔ انسانی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ جب وہ مدنی الطبع ہے ، مل جل کر رہتا ہے ، ریاستوں کی صورت میں ، شہروں کی صورت میں ، دیہاتوں کی صورت میں، محلوں کی صورت میں، تو پھر انہیں ایک دوسرے کی عزت ، جان و مال کے حقوق کا لحاظ رکھنا ہے ، اس کا احترام کرنا ہے ، اور اسی لئے تمام قوانین اور تمام دنیا کے دساتیر وجود میں آتے ہیں ۔
اللہ تعالی کی مشیت توبڑی واضح ہے ،کہ رب العزت کیا چاہتے ہیں ، مدینہ منورہ میں جو قوتیں فساد برپا کرنے کے لئے سازشیں کرتی تھیں، ، اللہ تعالی نے اس کی تعبیر ان الفاظ میں فرمائی :کُلَّمَااَوْقَدُوانَارًا لِلحربِ اَطْفَأَھَااللّٰہ
(جب ان لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکانا چاہی تو اللہ نے اس کو بجھایا ) یعنی رب کی مشیت ایک پر امن ماحول دیناہے۔ حضرت انسان کو اللہ نے جب پیدا کیا تو اسے لفظ خلیفہ سے تعبیر کیا اور جب انسان کو اللہ تعالی نے اپنی نیابت (خلافت)کے عظیم الشان منصب پر فائز کیا تو اس سے مقصود انسانی معاشرے میں انصاف ، عدل اور امن کا قیام تھا ، حقوق کا تحفظ تھا ، جان و مال ، عزت وآبرو کا تحفظ تھا۔ لیکن انسانی تخلیق کے عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے ملائکہ نے ضرور اس شبہ کا اظہار کیا: قالوااتجعل فِیھا من یفسِد فِیھاویسفِک الدِماء آپ ایک ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گی اور خون بہائے گی لیکن اللہ تعالی نے ان کی اس رائے اور شک یا گمان کے علی الرغم فرمایا :قال اِنِی اعلم مالا تعلمون، (میں وہ جانتا ہوں جو آپ نہیں جانتے )میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک کررہا ہوں ۔کیا ہم نے کبھی اس ذمہ داری کا احساس کیا ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ریاست کو وجود میں لاکر قرارداد مقاصد کے ذریعے سے ہم نے جو پہلا عہد اپنی قوم کے ساتھ کیا ،وہ یہی تھاکہ قوم کے نمائندوں ذریعے سے اللہ کی نیابت کرتے ہوئے قومی و اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق گزاری جائے گی ۔ اس حوالے سے علماء کرام کی اپنی کوششیں ہیں ،مختلف مکاتب فکر کی کوششیں ہیں، اور ریاست نے جب بھی تمام مکاتب فکر کے علما ئے کرام کو دعو ت دی ہے ،علماء نے لبیک کہا ہے ، اتحاد کی دعوت پر۔ پھر بھی الزام انہی پر ہے کہ آپ ہی لوگ ،مذہبی لوگ ہی فساد کی جڑ ہیں ۔1951ء میں 22اسلامی دفعات ملکی نظام کے لئے بطور اساس کے اور اصول کے تمام مکاتب فکر نے متفقہ طور پر تجویز کئے تھے،حضرت مولانا تنویر الحق تھانوی تشریف فرما ہیں انہی کے گھر پر اجتماع ہو ا ، جیکب لائن کراچی پر اجتماع ہوا تھااور آج وہ ہماری متفقہ دستاویز ہے ۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں ہم نے ان 22 اسلامی اصولوں کو اپنی پالیسی اور نظام کی بنیاد بنانے کے لئے کبھی توجہ دی ہے؟ قرارداد مقاصد پر اتفاق، 22 اسلا می نکات پر اتفاق ، اور پھر ملک کو متفقہ آئین ملا تو پارلیمنٹ کے اندر تمام مکاتب فکر نے اس آئین کوایک متفقہ اسلامی آئین کے طور پر قوم کے سامنے رکھنے میں جو کردار ادا کیا،وہ کس سے مخفی ہے ؟
یہاں سوال اٹھایا جاتارہا کہ اسلام تو ہم سب چاہتے ہیں لیکن کس کا اسلام ؟ سنی کا اسلام ، شیعہ کا اسلام ، بریلوی کا اسلام، دیو بند ی کا اسلام ، سلفی کا اسلام ، کس کا اسلام چاہئے ؟ چنانچہ اس کا جواب دیاگیا اور باقاعدہ اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی ۔ مسئلہ اعتقادات کا ہوتو اس کا تعلق فرد کے ساتھ ہے ، مسئلہ عبادات کا ہو تو اس کا تعلق فرد کے ساتھ ہے ، لیکن قوم کو حیاتِ اجتماعی میں جس نظام کی ضرورت ہے ، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے آئینی ادارہ قائم کیا گیا ، تمام مکاتب فکر اس میں موجود ہیں ، ماہرین آئین اس میں موجو دہیں ، سینئر وکلاء اس میں موجود ہیں، آج تک اس کی جتنی بھی سفارشات ہیں ، تمام مکاتب فکر کے جو نمائندے کونسل کے اندر ہیں ان کے اندر بھی متفقہ ہیں اور جو باہر ہیں ان کے اندر بھی متفقہ ہیں لیکن 1973 سے لے کر آج اس دن تک جب ہم اور آپ ایک بیانیہ پر متفقہ رائے کا اعلان کر رہے ہیں،پاکستان میں ایک سفارش پر بھی قانون سازی کی نوبت اب تک نہیں آئی ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کس کو ٹھہرائیں اس کا ذمہ دار؟ ہمیں آپ مصروف کریں ملک کے لئے ، ریاست ہماری خدمات حاصل کرے، تاکہ اس کو حقیقی معنوں میں ہم ایک اسلامی ریاست بنائیں ۔آج کا انسان ، پندرہویں صدی کا مسلمان اپنی تمام تر کوتاہیوں اور تمام تر فسق و فجو ر کے باوجود بہر حال اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ، اور ہم بھی اسے مسلمان سمجھتے ہیں لہٰذا ن گناہگاروں کے بشمول اور ان کی جدو جہد سے جو ریاست وجود میں آئی ، وہ گوکہ عملی طور پر ہزار کمزور، لیکن اس ریاست کوعقیدے کے اعتبار سے ایک اسلامی اور مسلمان ریاست کہا جائے گا۔ لیکن جیسے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب نے فرمایا کہ 2004ء میں میں نے فتوی لکھا اور اس پر تمام علما کرام کے دستخط موجود ہیں، یہ ایک کاوش ہے ۔
جمعیت علماء اسلام نے پشاور میں 25ہزار علمائے کرام کو اکٹھا کیا ،صوبہ کے کسی پہاڑ کی چوٹی پر اگر چھوٹا سا مدرسہ ہے اس کے عالم دین کو بھی بلایا اور ایک بیانیہ جاری کیا جس میں ان تمام چیزوں سے برات کا اعلان کیاگیا ، یہ مسلح جنگ اور یہ خود کش حملے، آئین سے ماورا جو کچھ بھی ہے ان سے براء ت کا اظہارکیاگیااور آئین کے مطابق ملک کے اندرکردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔پھر لاہور میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے متفقہ اعلامیہ جاری کیا اور اس کا مسودہ میں نے خود لکھا تھا ، مکمل اتفاق کے ساتھ اس کو قبول کیا گیا۔ اس وقت اس اجلاس میں شہیدمولانا سرفراز نعیمی صاحب بھی موجود تھے ، اتفاق رائے کے ساتھ ہوا۔ لاہور میں جامعہ اشرفیہ کے اندر وفاق المدارس العربیہ کے تمام علماء کرام طول وعرض سے اکٹھے ہوئے ، اور ایک جامع اعلامیہ جاری کیا اور تمام نے اتفاق رائے کیساتھ اس پر دستخط کر دیئے،جس میں یہاں تک لکھا گیا کہ پاکستان میں مسلح جنگ غیر شرعی ہے ۔
ووٹ کی شرعی حیثیت پر سب سے پہلے فتوی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے دیاتھا اورآج بھی ان کے فتاوی میںموجود ہے۔ ہمارے تمام اکابرین پارلیمنٹ سے وابستہ رہے ہیں ، پارلیمانی سیاست سے وابستہ رہے ہیں ہم آج بھی آج کے اس بیانیے سے اتفاق کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بندوق کے ذریعے سے شریعت کا مطالبہ غلط ہے، جو لوگ اس قسم کا مطالبہ بندوق کے ذریعے سے کرتے ہیں ان سے ہزار ہزار مرتبہ برات کا اعلان ۔لیکن جمہوریت کے راستے سے اور پارلیمان کے جائز راستے سے ، مجھے کب شریعت ملے گی ؟آئینی راستے سے میری یہ تشنگی کب دور ہوگی؟ ریاست اس کا بھی احتساب کرے۔میرا احتساب تو کرتی ہے ، اپنا بھی احتساب کرے ۔ مجھ سے تو روز روز لکھوایا جاتاہے کہ میں پاکستان کا وفادار ہوں۔ ریاست اور شہری کے درمیان ایک رابطہ ہوتاہے ، جہاں ریاست شہری کے جان مال او رحقوق کاتحفظ کرتی ہے ، جہاں ریاست ایک سایہ ہے وہاں فرد اپنی وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
میں نے آپ کے سامنے تین ان دستاویزات کی بات کی ،جن سے متعلقہ مجالس میںمیں خود شریک تھا، حضرت مفتی (منیب الرحمن)صاحب کا فتوی اس کے علاوہ ہے ،اور بھی علماء ہیں جنہوںنے بار باراس پر کام کیا ہے ۔ اس تمام کے باوجود میرا مدرسہ ، میری مسجد ، میرے مدرسے کا استاد، میرے مدرسے کا طالبعلم، میرے مدرسے کا قرآن وسنت کا نظام تعلیم میرے ملک کی ڈاڑھی اورپگڑی، اس پر اعتما د کب کیا جائے گا ؟ وہ دن بھی تو بتادیں ہمیں …!اعتماد دو طرفہ ہونا چاہئے ، مدارس پر روزانہ چھاپے لگائے جار ہے ہوں ، آدھی رات میں طلبا کو اٹھا کر میدان میں لایا جاتاہے ، تشدد کیا جاتاہے ، مار اپیٹا جاتاہے ۔ اب میں اس پر شاکی ہوںکہ میں نے ساری سیاسی اور مذہبی زندگی اس بات پرگزاردی ہے کہ میں دہشت گردوں ، ان مسلح تنظیموں کو اور اسلحہ کے ذریعے شریعت کی بات کرنے والوں کو تنہا کردوں اور ہم نے انہیں تنہا کیا بھی ہے ،الحمدللہ، آج تمام مدارس آپ کیساتھ ہیں ، تنظیمات مدارس آپ کے ساتھ ہیں ، تمام مکاتب فکرکی تنظیمیں آپ کے ساتھ ہیں ، لیکن جب مدرسے کے اجتماعی نظام پر حملہ کیا جاتاہے ، اجتماعی طور پر پورے ماحول پر تشدد کیا جاتاہے ،تووہ دو بندے جو مجرم ہوتے ہیں جب ان کو اٹھایا جاتاہے ،صبح دیکھتے ہیں ساری ہمدردیاں پھر ان کے ساتھ ہوتی ہیں ، اور ہم پھر تنہا نظرآتے ہیں ۔
علما ء کرام کو فورتھ شیڈول میں مستقل مجرم قراردیا جارہا ہے ، جناب صدر مملکت! اگر میں نے اگر آپ پر اعتماد کرناہے تو آپ نے بھی آج کے بعد مجھے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا ، تب بات چلے گی ،دونوں طرف اعتماد ہونا چاہئے۔ میں آپ پر اعتماد کرتا ہوں آپ مجھ پر اعتماد کریں۔ جس طرح آپ آج مجھے اکٹھا کرسکتے ہیں ، خدا کی قسم قیامت تک آپ مجھے متحد رکھ سکتے ہیں اگرآپ چاہیں، کوئی جھگڑا نہیں ، ساری تاریخ ہماری ایک ہے ۔ اہل بیت بھی ہمارے ہیں ، صحابہ کرام بھی ہمار ے ہیں ، اہل بیت سے نفر ت کرنے والا بھی اپنے ایمان پر نظر رکھے ، صحابہ کرام سے نفر ت کرنے والا بھی اپنے ایمان پر نظر رکھے ۔یہ ہماری اساس ہے اگر یہ اساس بیچ سے ہٹ گئی تو میں اور آپ کس سند کے ساتھ دنیا کے سامنے اسلام پیش کریں گے ؟سند کیا رہ جاتی ہے میری اور آپ کی؟
تو اس اعتبار سے ہم نے آج اس اجتماعیت کو پیدا کرنا ہے ، اس وحدت کو پیدا کرنا ہے ، میرا آپ سے اختلاف ہوسکتا ہے ، آپ کا مجھ سے اختلا ف بھی ہو سکتا ہے ، اختلا ف کے اپنے گوشے ہیں ۔ ہم اسلام کی ترجیح کو اول درجے میں کیوں نہیں رکھ سکتے اور مسلکی شناخت کو ہم نے پہلی ترجیح کیوں قراردیا ہے ؟یہ ہے ہمارے سامنے بڑا سوال، جس کی سزا میں بھگت رہا ہوں۔ میرا گریبان بھی پکڑا جارہا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ میں ریاست سے پوچھنا چاہتا ہوں ناراض نہ ہونا،آج کی مجلس ہی اس لئے ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر نے جب وحدت کا مظاہرہ کیا اور آج تک کر رہے ہیں ۔ جمہوری راستے سے ہم نے ملک میں اسلام لانا ہے ، اب تمام دینی قوتیں یکجا ہوکر ایک بازو بن کر یہ ہاتھ آگے بڑھے گا تو پھر ریاست کے گریبان میں پڑے گانا ، ریاست بہت ہوشیار ہے ،اس کے ادارے بہت ہوشیار ہیں ، ایسے حالات پیدا کر لیتے ہیں کہ اسلام کی بات کرنے والے اپنی طاقت ایک دوسرے کیخلاف استعمال کریں، تاکہ مجتمع ہو کروہ ریاست پر دبائو نہ ڈال سکیں۔ تو یہ ہمارے لئے بھی سبق ہے ، ہم بھی سوچیں اس بات پر کہ ہم آپس میں کیوں لڑرہے ہیں ؟ کیوں شدت کی طرف جاتے ہیں؟ اسلام تو ہمیں اعتدال کا راستہ دکھتا ہے ، قرآن کریم ہماری تعلیمات کا منبع ہے جو ہمار ے اندر اترتا ہے اور ہمیں انسان بناتا ہے ۔وہ تو
مجھے اعتدال کی امت کہتا ہے: وکذالِک جعلناکم امة وسطاًکہ(ہم نے تمہیں ایک میانہ رو امت بنایا)تو پھر میری قرآن سے وابستگی کو شدت پسندی سے کیوں تعبیر کیا جارہا ہے ؟ جب تک میں مذہب کی بات کروں گا ، دین کی بات کروں گا ، میری طرف نسبت ہوگی یہ بڑے شدت پسند ہیں، ملا لوگ بڑے سخت ہو تے ہیں ، لیکن یہ تجزیہ شاید صحیح نہیں ہے ۔ ہمارے ملک میں جو لبرلز ہیں وہ بالکل پانی اور مائع ہوچکے ہیں ، ان کو ہم کہتے ہیں کہ آپ بہت ہی پگھل گئے ہیں ان کے سامنے ، تم ذرا اپنے اندر سختی پیدا کرو ہم ذرا پنے اندر نرمی پیدا کریں ، خیر خیریت سے ملک چلے گا ایک صف میں آجائیں گے سارے لوگ۔آپ تو عالمی قوتوں کے مقابلے میں پانی بن جائیں اور خود پانی ہو کر میرے اعتدال کو شدت سے تعبیر کریں، پھر یہ انصاف کا تقاضا نہیں ہوگا۔ تم بھی پانی مت بنو،مت جھکو اتنا آگے،کہ ٹرمپ جیسا آدمی آپ کی گردن پر سوار ہو جائے ، اب عقلمند آدمی تو آدمی جواب بھی دے سکتا ہے ، ٹرمپ کا کیا جواب دوگے؟
میں تسلیم کرتا ہوں کہ جس طرح دعوت میں حکمت کا تقاضاہوتا ہے:ادع اِلی سبِیلِ ربِک بِالحِکمة و الموعِظة الحسنة وجادِلھم بِالتِی ھِی احسن … حکمت کے ساتھ دعوت دیا کرو، خوبصورت لب ولہجہ کے ساتھ دعوت دیا کرو ،شائستہ انداز گفتگوکے ساتھ دعوت دیاکرو اور کبھی بحث و مباحثہ کی بھی نوبت آجائے تو بِالتِی ھِی احسن تب بھی احسن و شائستہ انداز گفتگوکے ساتھ۔
بین المذاہب مکالمہ کے تصور کی سب سے پہلے ہم نے حمایت کی۔ ہم بین المذاہب مکالمے کے حق میں ہیں ، لیکن بین المذاہب مکالمہ پر امن ماحول چاہتا ہے۔آپ نے میرے سر پر تلواراٹھائی ہوئی ہے، آپ میری گردن کو بھی مار رہے ہیں اورآپ مجھے کہتے ہیں کہ مذاکرہ بھی کرو ، مکالمہ بھی کرو ، میرے سر کے اوپر جنگ کے بادل ہیں ، بارود برس رہا ہے ، میری امت مر رہی ہے، پور ی دنیا میں ا س کا خون بہہ رہا ہے ، آپ میرا خون بھی بہاتے رہیں اور آپ مجھے مجبور بھی کریں کہ آئو میرے ساتھ اس پہ مباحثہ کرو ۔ ہاں ہم مباحثے کے لئے تیار ہیں آپ بھی تو جنگ بند کر دیں ۔
میںاپنی ریاست کو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں، وزیر داخلہ تشریف فرما ہیں ، روز اول سے ہم یہ موقف دے رہے ہیں ، جب2001 میں عالمی اتحاد کا حصہ بننے کی بات کی جارہی تھی ، ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ پاکستان کو اس دلدل میں مت ڈالو۔ امن وامان داخلی مسئلہ ہے، ہم پاکستان کے اندر ان عناصر کے ساتھ نمٹ سکتے ہیں، لیکن بین الاقوامی جنگ کا حصہ بننے کے بعدپھرآپ اس جنگ کو افغانستان کے حدود تک محدود نہیں کر سکیں گے ۔ پڑوس میں آگ لگ جائے تو اس کو ٹھنڈ اکرنے کے لئے اس پر پانی ڈالا جاتاہے ، ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم نے افغانستان میں برپا ہونے والی جنگ پر تیل چھڑکنا شروع کیا جس کے شعلے پاکستان میں داخل ہو گئے اور آج ہم ا س سے نبرد آزما ہیں ، اپنی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ ہماری
پالیسی واضح ہے ، جو لوگ ہماری بات نہیں مانتے، وہ تنہا ہیں ، ان کو تنہا کرنا پڑے گا۔ آج کے اس اجتماع سے بھی وہ تنہا ہیں لیکن ریاست کی سطح پر بھی کچھ غلطیاں اگرہوئی ہیں ، توا س کے ازالے کے لئے بھی ہم نے بولڈ سٹیپ لینے ہوں گے ، پالیسی سٹیٹ منٹ دینی ہوگی ، اور اس طرح ہم پاکستان کے مستقبل کو روشن کرسکتے ہیں، مملکت امن سے چلتی ہے،جناب رسول اللہ نے فرمایا: سلوا اللّٰہ العافیة ولا تتمنوالقاء العدوواذالقیتم فاثبتوا… ”اللہ سے عافیت طلب کیاکرو، دشمن سے آمنا سامناہوئے کی تمنا نہ کیا کرو(جنگ کی خواہش نہ کیاکرو ، ہاں اگر مقدر ہے) جنگ درپیش ہوجائے پھر بزدلی نہ دکھائو سامنے ڈٹ جائو۔ تدریج کے ساتھ ، پہلی ترجیح عافیت ہے پھر اس کے بعد جنگ کی تمنا کبھی نہ کیا کرو ، اور اگردرپیش ہو جائے تو ڈٹ جایا کرو
میں نے کئی مرتبہ علمائے کرام کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ جہاد ایک فریضہ شرعی ہے اورجہاد کرنے کا کتنا اجر و ثواب ہے، ساری چیزیں اپنی جگہ پر ۔لیکن جہاد کا میدان بڑا وسیع ہے صرف بندوق اوروہ بھی اپنی ریاست کے ساتھ اور اس کو جہاد کہنا ، اس پرعلمائے کرام اتفاق نہیں کرتے آپ کے ساتھ ، اس تصور کے ساتھ اختلاف ہے ۔تو اس حوالے سے کوئی ابہام موجود نہیں ہے ، جو آپ کو وسائل ریاست مہیا کرتی ہے ، آئین مہیا کرتی ہے اس میں جو آپ کے بس میں ہے ، وہ کرتے جائیں اس سے آگے مت جائیں ۔ آپ جلسے کریں، جلوس نکالیں، پارلیمنٹ میں جائیں، نظریہ پیش کریں ، بحث کریں وہاں پر ۔اس اعتبارسے اصل چیز ہے امن۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو زندگی بھرشرک کیخلاف لڑتے رہے ، بتوں کوتوڑتے رہے اوراس پاداش میں آگ میں بھی پھینکے گئے واذابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن،قال انی جاعلک للناس اماما، اللہ نے امتحانات لئے اور آپ اس میں کامیاب ہوئے۔ لیکن جب امامت کبری ملی، انسانیت کے امام بن گئے، امر اجتماعی آپ کے ہاتھ میں آگیا تو اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو کا زاویہ دیکھیں… واذ قال ابراہیم رب اجعل ھذا بلدا آمنا۔کرہ ارض کے سب سے بڑے موحد ،شرک کیخلاف سب سے بڑے مجاہد لیکن جب امر اجتماعی کی ذمہ داری آئی تو فوراًآپ نے کہا: رب اجل ھذا بلد آمنا وارزق اھلہ من الثمرات
اب آپ امن کے بھی خواہش مند ہیں اور اقتصادی خوشحالی کے بھی ۔ریاستیں امن سے چلتی ہیں، اقتصادی خوشحالی سے چلتی ہیں۔ اپنے وسائل کو کب ہم Motivate کریں گے تاکہ ہم دنیا کی حاجتوں سے بے نیاز ہو ں۔ ہم کرہ ارض پر اللہ کے نائب (خلیفہ)ہیں ، تو جب اللہ ایک ہے تو اس کی نیابت کا تقاضا ہے کہ مومن ایک رہیں۔ اگر اللہ بے نیاز ہے تو اس کے بے نیازی کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں ،ان کی مدد اورقرضوں سے بے نیاز ہو جائیں ۔ ان تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ریاست کو کب تشکیل دیں گے؟ہمیں پہلی چیز،،،،امن چاہئے۔5,6سال پہلے غالبا میں
بنوں میں تھا ۔رات کو میں سویا ہوا تھا تو میں خواب دیکھ رہاہوںکہ حضرت آدم علیہ السلام سے فون پربات کررہا ہوں ، اور حضرت آدم مجھے فرماتے ہیں کہ:تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا :میں امن چاہتا ہوں ، اس کے بعد لائن کٹی نہیں ، لیکن خاموشی کاایک وقفہ ہوگیا۔ میں سوچتا رہا کہ میں کچھ کہوں ہوں تو بے ادبی ہے ، مسلسل خاموش رہوں تولائن کٹ جائے گی۔ تو میں نے سلام عرض کیا: فرمایا انتظار نہیں کرسکتے ؟ توانتظار تو کررہے ہیں ، ابا نے کہہ دیا ،انتظا ر کرو تو اس انتظار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے آگے بڑھنا ہے ،اتفاق رائے سے بڑھنا ہے۔ ہمارے اندر کی روح امن مانگتی ہے ، اسی لئے ریاست نے جب امن کے قیام کے لئے فوج کو میدان میں اتارا ، اداروں کو میدان میں اتارا، ہم نے سپورٹ کیا کیونکہ ہم امن چاہتے ہیں۔ حکمت عملی میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن ریاست مقدم ہے ، جب اس نے فیصلہ کیا ،ہم نے پیروی کی ۔لہٰذ اعلماء کرام اس بات پر بھی غور کریں کہ ریاست کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ریاست کی حاکمیت، اس کی اطاعت کا تصور کیا ہے اور اس پر اپنے نوجوانوں کو تعلیم دی جائے تاکہ وہ اس کی اہمیت کو سمجھیں اورریاست کے وفا دار رہیں ، ریاست کی اطاعت کریں ۔اللہ تعالی ہمیں ریاست کے ساتھ وفادار رہنے ، پاکستان کو روبہ ترقی دینے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمٰن کا ایوان صدرمیں پیغامِ پاکستان کےاجراکی تقریب سےخطاب
Facebook Comments