تحریر (محمد ابوبکر شیخ ڈپٹی ایڈیٹر الجمعیۃ )
ملک میں سیاسی تنائو قدرے غیر فطری رفتا رسے بڑھتا جا رہا ہے ، قطبی میلان (سیاسی، گروہی، طبقاتی پولورائزیشن) کی موجودگی بذات خود اتنی نقصان وہ نہ ہوتی جتنا کہ اس کی بنیاد پر پروان چڑھنے والی انتہا پسند سوچ کے غلبے نے کر دی ہے ۔تقسیم در تقسیم کے بعد مختلف قوتیں اپنی اثر پذیری اور بقاء کی خاطر چار پانچ جگہوں پر جمع ہونے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ گویا ایک اودھم مچنے والا ہے ، کم و بیش ہر جماعت اور گروہ کا سنجیدہ، باشعورسوچنے اور سمجھنے والا عنصر محو تماشہ بننے پر مجبور ہے ۔ رد عمل کا شکار، جذباتی یا مفاد پرست عنصر غالب سے غالب تر ہوتا جارہا ہے ،نتیجۃً ملک ، ریاست اور عوام کے حقیقی مسائل یکسر غیر اہم ہوتے جار ہے ہیں:
اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ملک میں مؤثر سیاسی پارٹیوں کے علی الرغم تانگہ پارٹیوں کا ظہور او رنشو نما واضح ہے ۔یہ تانگہ پارٹیاں برساتی کھمبیوں کی طرح منظرپر آئی ہیں اوراپنے انتہاپسندانہ نعروں اورمشتعل ورکروں کے بل بوتے پر پلک جھپکنے میں بظاہر مقبولیت حاصل کرنے لگی ہیں۔حالیہ ضمنی انتخابات میں بیلٹ باکس پر ان کا حصہ ان کے جثے سے کہیں بڑھ کر ظاہر ہوا ہے ۔ بادی النظر میںیہ فرقہ وارانہ نئی سیاسی گروہی پارٹیاں بھی کسی غیر مرئی اشارے پر پروان چڑھ رہی ہیں۔ ان کے وجود سے جہاں مقدس اور متفقہ امور کے معاملات بازیچہ اطفال بننے کے خدشات لاحق ہو رہے ہیں، ساتھ ہی وہاں ملک میں پہلے سے موجود فرقہ واریت کی دبی ہوئی چنگاریوں سے شعلے بھڑکنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز امر ہے کہ دہائیوں تک قوم کے سامنے جمہوریت، سیاست اور انتخابی عمل سے انکا ر کرنے والے مسلکی بنیادوں پر اس گناہ او رعیب کا حصہ بن رہے ہیں، محسوس یوں ہوتاہے کہ آئندہ انتخابات سے انجینئرڈ نتائج کشید کرنے کے لئے پس پردہ کوئی نیا میکنزم تشکیل پا رہا ہے ، اس کے لئے مکینک پر انی ورکشاپ میں نئے پرزے ڈھال رہے ہیں ۔
رقص شتر کے اس منظر میں جمعیت علماء اسلام کے کارکن پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ اپنا کردار و کلام اپنے اکابر کی روایت سے ہم آہنگ بنائیں ، بد اخلاقی ، بد زبانی پر مبنی تحریر ، تقریر اور جہد وعمل پر ہم اگر دوسری جماعتوں کی گرفت کرتے ہیں تو خود بھی کسی طرح اس قبیح طرزعمل کو اختیار نہ کریں ۔ اختلاف دلیل کی بنیاد پر کریں ،الفاظ کا چنائو بہت احتیاط سے کریں۔ مخالفین حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام کا کارکن مشتعل ہو ،فرقہ وارانہ لب و لہجہ استعمال کرے۔ ہم نے اس چکمے سے بچ کر آگے بڑھنا ہے۔کارکنان یہ باریک نکتہ خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ۔ ہم نے دعوت دلیل اور کردار سے ہم آہنگ جچے تلے الفاظ میں دینی ہے ۔ کسی واقعہ پر فوری رد عمل نہیں دینا ،بلکہ اپنی قیادت کی پالیسی بیان کا انتظار کرنا ہے، پھر اس کی روشنی میں اپنی سطح کی بات کو آگے بڑھانا اورپھیلاناہے۔ معروضی امور پر گفتگو کرتے ہوئے حضرت قائد جمعیت دامت برکاتہم کے طرز و کلام میں ہمارے لئے مکمل راہنمائی میسر ہوتی ہے ۔
مکررعرض ہے کہ ہم سب کا دنیاو آخرت کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم اجتماعی موقف ،بالائی قیادت کے پیرائے میں آگے بڑھائیں۔مخالفین کے دعووں کو ان کی کارکردگی کے ترازومیں تول کر جواب دیں۔خوددھونس برداشت کریں ،نہ کسی کو دھونس کے ذریعے دبانے کی کوشش کریںاور اس پیغام کو مداہنت نہیں بلکہ معروضی وتدبیری تقاضاسمجھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمار ا حامی و ناصر ہو۔
سیاسی تناؤ اور ہماری ذمہ داریاں
Facebook Comments