جمعیت علماء اسلام کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس زیر صدارت مولانا فضل الرحمن صوبائی سیکرٹریٹ پشاو ر میں منعقدہو اجس میں سینٹ کے ڈپٹی چیرمین مولانا عبدالغفور حیدری، اکرم خان درانی، مولانا گل نصیب خان، مولانا امجد خان، مولانا فیض محمد، آغا محمد ایوب شاہ، سینٹر طلحہ محمود، علامہ راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان، سید اسعد مظہری، مولانا عطاء الرحمان، ، عبدارزاق لاکھو، شمس الرحمان شمسی، مولانا عطاء الحق درویش، مفتی محمد اعجازشنواری، عبدالجلیل جان، اسحاق زاہد، مولانا رفیع اللہ قاسمی، مولانا عزیز احمد، مفتی زاہد شاہ، مفتی ابرار اور عالمی اجتماع کیلئے قائم کردہ کمیٹیوں کے ارکان ،چاروں صوبوں کے ارکان عاملہ نے شرکت کی، اجلاس میں مختلف کمیٹیوں نے عالمی اجتماع کے سلسلے میں ہونیوالے انتظامات کی رپورٹ پیش کی، مولانا عبدالغفور حیدری نے ملک بھر میں صد سالہ اجتماع کیلئے صوبائی جماعت کی طرف سے ہونیوالے سرگرمیوں اور مرکزی قائدین کے دورے سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کی، جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے مولانا گل نصیب ، سندھ کے علامہ راشد محمود سومرو، پنچاب کے سید مظہر سعدی اور بلوچستان کے مولانا فیض محمد نے صوبائی سطح پر سرگرمیوں ،ہونیوالے انتظامات، فنڈزکی ترسیل، تشہیری مہم اور دیگر اہم امور سے متعلق تفصیلی صورتحال سے آگاہ کیا، مولانا گل نصیب خان نے عالمی اجتماع کے پنڈال میں ہونیوالے انتظامات ،سٹیج اور پنڈال کی تیاریوں ،ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی رہائش گاہوں ، طعام وقیام کے حوالہ سے کمیٹی کو آگاہ کیا، اجلاس میں بیرون مہمانوں کی آمد سے متعلق کمیٹی کو آگاہ کیا جبکہ ملکی سطح پر سیاسی ومذہبی جماعتوں سے رابطہ اور ان کی شرکت کے حوالہ سے کمیٹی میں رپورٹ پیش کی گی، اس موقع پر مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عالمی اجتماع مسلم امہ اور عالم اسلام کو درپیش مسائل اور ان کے حل اور مظلوم طبقات کیلئے روشنی کی کرن ثابت ہو گا، انھوں نے کہا کہ صہیونی طاقتیں عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، جمعیت علماء کے اکابرین نے 100سالہ تاریخی جدوجہد میں مسلم امہ کی بھر پور نمائندگئی کا حق ادا کیا ہے اورآج بھی اس بات پر فخر ہے کہ جمعیت مسلم امہ کی حقیقی نمائندگئی کر رہی ہے ، انھوں نے کہا کہ ملک میں اسوقت یکجہتی کی ضرورت ہے اور بیرونی قوتیں آئے روز عالمی ایجنڈے کے تحت ملک کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، عالمی اجتماع کے انعقاد سے ملک میں یکجہتی کو فروغ ملے گا، اور اسلام دشمنوں قوتوں کے عزائم خاک میں مل جائینگے، انھوں نے کہا کہ مدارس، علماء اور مذہبی قوتیں ملک کے دفاع اور اسلام کی سربلندی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مذہبی جماعتوں اور مدارس کو نشانہ بنایا جار ہا ہے، مدارس کا دفاع پہلے بھی کیا اور آج بھی اسلام اور اسلامی اقدار کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھینگے، انھوں نے کہا کہ عالمی اجتماع اسلام دشمن قوتوں کا عالمی ایجنڈے کو زمین بوس کریگا، انہوں نے کہا کہ چاروں صوبوں ،آزاد کشمیر، قبائل ،گلگت بلتستان کی تنظیموں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ کارکنوں کی محنت اور اخلاص کی وجہ سے آج پوری قوم میں عالمی اجتما ع کے حوالے سے جوش وجذبہ پایا جاتا ہے، اس موقع پر مولانا عبدالغفور حیدری ، اکرم خان درانی، مولاناگل نصیب خان ، راشد محمود سومرو، امجد خان اور دیگر نے بھی خطاب کیا
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب