ڈیر ہ اسماعیل خان: قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما ء مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ تعلیم کے ذریعے قوموں کی تر قی کے اصول کے ہم قائل ہیں دنیا میں تر قی کیلئے امن اور تعلیم سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہے ہمارے سامنے نبی کریم ۖ کی زندگی آپ ۖ کے بہترین معلم کے روپ میں موجود ہے ان خیالات کا اظہار انہوںنے گومل یونیورسٹی کے دور ہ کے موقع پر کیا یونیورسٹی آمد پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سر ور نے انکا خیر مقدم کیا اور انہیں گومل یونیورسٹی میں تعلیمی ، تحقیقی سر گرمیوں کے فرو غ کے لئے اپنے اصلاحاتی ایجنڈہ ، یونیورسٹی کے مالی بحرا ن اور اس سلسلے میں در پیش مشکلات کے ساتھ ساتھ ٹانک کیمپس کے قیام اور زرعی یونیورسٹی کے حوالے سے ہونیوالی پیش رفت سے آگاہ کیا مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا کہ اداروں کی سر برا ہی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کی مالا ہوتی ہے گومل یونیورسٹی کی بہتری کے لئے ہم نے ہمیشہ کر دار ادا کیا ہے اس مادر علمی کے بحران کے خاتمے کیلئے میں نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے اس ضمن میں جلد ہی گرانٹ فراہم کر دی جائیگی انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی اساتذہ تعلیم و تحقیق کے فرو غ کے لئے منصو بہ جات تیار کریں ان منصوبوں کی عملی تکمیل کیلئے تعاون ہم فراہم کریں گے انہوںنے کہا کہ گومل یونیورسٹی کے قیام کے وقت مولانا مفتی محمود مرحوم کا کر دار کسی سے پوشیدہ نہیں جن کو کوششوں پر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے یہاں گومل یونیورسٹی قائم کی۔ اداروں کی تر قی کیلئے قومی ، لسانی ، اور نسلی تعصب سے بالا تر ہو کر مثبت سو چ اپنانی ہوگی۔ گومل یونیورسٹی میں سب کو صرف اور صرف اسی مادر علمی کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر کام کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ ہمیں قوم کو جدید تر ین علم کے زیور سے آراستہ کر نا ہوگا ہمارے خطے میں تعلیم کا فرو غ ہمارے بنیادی مسائل کے حل اور پائیدار امن کا ضامن ہے اسی سوچ تحت ہی وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے سابقہ دور ہ ڈیر ہ کے موقع پر یہاں پر مفتی محمود زرعی یونیورسٹی کے قیا م کا اعلان کیا گیا جو اس خطے میں تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ اس نئی زرعی یونیورسٹی کی زمہ داری ڈاکٹر اعجاز احمد خان کو سونپی گئی ہے تاہم وائس چانسلر گومل یونیورسٹی ڈاکٹر محمد سرور کی سرپرستی اور تعاون انتہائی ضروری ہے اس موقع پر ایگری کلچر یونیورسٹی ڈیر ہ اسماعیل خان کے پراجیکٹ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد خان نے انہیں زرعی یونیورسٹی سے متعلق پی سی ون کی تیا ری اور دیگر امور میں ہونیوالی پیش رفت سے آگاہ کیا جس پر مولانا فضل الرحمان نے خو شی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ نئی یونیورسٹی اس خطہ میں زراعت کے فرو غ کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اقتصادی راہداری کے یہاں سے گزرنے کے بعد ہونیوالی مثالی تر قی کو مزید تقویت دینے میں بھی اپنا کر دار ادا کریگی انہوں نے کہا اس موقع پر یونیورسٹی کے متعدد شعبہ جات کا بھی دور ہ کیا انہوں نے یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات ڈاکٹر محمد صدیق ۔ پرووسٹ انجینئر اقبال زیب خٹک اور دیگر حکام کے ہمراہ ہاسٹل اور مختلف حصوں کے معائینہ کے دوران کہا کہ دنیا بھر میں گومل یونیورسٹی علم کی شمع جلائے ہوئے ہے میں اس مادر علمی کا ہمیشہ خادم رہا ہوں اور خادم رہنے پر فخر کرتا ہوں اس موقع پر تحصیل ناظم پروآ سردار امتیاز احمد ۔ حاجی عبداللہ خان بھی موجود تھے
مادر علمی دارالعلوم حقانیہ پر حملہ اور برادرم مولانا حامد الحق سمیت شہداء کی خبر سے دل رنجیدہ ہے،یہ حملہ میرے گھر اور مدرسہ پر حملہ ہے،ظالموں نے انسانیت، مسجد، مدرسے اور جمعہ کی حرمت پامال کی،کے پی کے میں بدامنی پر عرصے سے آواز اٹھا رہے ہیں،مگر ریاست خاموش تماشائی ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔اس المناک سانحہ میں اہل خانہ کے ساتھ خود کو بھی تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں،اللہ تعالٰی شہداء کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحتیاب فرمائے،آمین۔مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان کی حماس کے سابق سربراہ ڈاکٹر خالد مشعل سے ملاقات
مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ قطر پہنچ گئے
اس وقت ملکی سالمیت کا مسئلہ درپیش ہے جس پر ہم بار بار بات کر رہے ہیں،جس پر ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ملکی سالمیت کی پالیسیاں ایوان اور حکومتی حلقوں میں نہیں بلکہ ماوراء سیاست و پارلیمنٹ بند کمروں میں بنائی جارہی ہیں، ہمیں ملکی سالمیت پر بات کرنے اور تجویز دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔اس وقت دو صوبوں میں کوئی حکومتی رٹ نہیں ہے، وزیر اعظم صاحب کو اگر بتایا جائے قبائل یا اس سے متصل اضلاع اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہے، تو شاید وہ یہی کہیں گے کہ ان کو علم نہیں ہے،پھر کون فیصلہ کرتا ہے ؟کل اسکا ذمہ دار پاکستان ہوگا ،عوام کی نظر میں اس سب کے ذمہ دارپارلیمان اور ہم ہیں،اس وقت ملک میں کوئی سویلین اتھارٹی اور نظریاتی سیاست موجود نہیں ہے، پاکستان میں مکمل طور پر ایک خاص اسٹیبلشمنٹ بند کمروں میں فیصلہ کرتی ہےاور حکومت صرف ان پر مہر لگاتی ہے۔کے پی کے اور بلوچستان میں امن و مان کی بدترین صورتحال ہے، میرے ضلع میں کئی علاقے پولیس جس کو کئی عرصہ پہلے خالی کرچکی ہے،حال ہی میں فوج نے بھی وہ علاقے خالی کردئے ہیں، تو بتایا جائے کہ وہ علاقہ کس کے قبضہ میں ہیں ؟درد دل اور افسوس سے یہ بات کہنی پڑ رہے ہے کہ اگر بلوچستان میں پانچ یاسات اضلاع مل کر آج آزادی کا اعلان کردیں تواگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کرلیا جائے گا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا، یہ جذباتی باتیں نہیں ہیں،لیکن حقائق تک پارلیمینٹ کو پہنچنا ہوگا۔آج اگر کوئی بقاءکا سوال کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو اس پر برا بنایا منایا جاتا ہے،چیخ و پکار کو اللہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے لیکن مظلوم کی چیخ و پکار اللہ تعالیٰ بھی سنتے ہیں۔پارلیمان میں قانون سازی کی جارہی ہے لیکن پہلے ریاستی رٹ کو تو مضبوط کیا جائے،ملک مضبوط ہوگا تو قانون نافذ العمل ہوگا، اگر ملک مضبوط نہیں ہے تو پھر قانون کس کے لئے بنایا جارہا ہے،صوبوں میں اسمبلیاں موجود ہیں لیکن کہیں بغاوت ہوتی ہے اورعوام باہر نکلتی ہے تو کوئی بھی پارلیمانی نمائندہ یا منسٹر عوام کا سامنا نہیں کرسکتا کیوں کہ عوام اسکو اپنا نمائندہ تسلیم نہیں کرتے،نظریات اور اتھارٹی کی جنگ جاری ہے، نظریات کی جنگ نظریات سے ہونی چاہئےلیکن یہاں دوسری جانب سے اتھارٹی کی سیاست کی جارہی ہے، جیسی تیسی بس اتھارٹی مل جائے، ہماری اس گفتگو کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے، کہیں پر بھی اسکا نوٹس نہیں لیا جارہا لیکن نتیجہ کیا نکلے گا کہ کل بنگال الگ ہوا تھا آج کہیں ہم سے ایک اور بازوٹو ٹ جائے، ہمیں اس کی فکر کرنی چاہئے۔
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام آزادی صحافت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب