کراچی :متحدہ مجلس عمل میں شامل 5 بڑی دینی جماعتوں نے ایم ایم اے کو مکمل بحال کرکے اعلان کیا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا جائےگا۔ ایک ماہ کے اندر تنظیم سازی مکمل ہوگی جبکہ منشور کمیٹی فوری طور پر کام شروع کرے گی۔ایم ایم اے کتاب کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لے گی۔مذہبی جماعتیں ایک ماہ میں حکومت سے علیحدگی کے حوالے سے فیصلہ کرے گی اور فاٹا کے حوالے سے کے پی کے کی سطح پر ایم ایم اے میں شامل جماعتیں اپنی حتمی رائے فیصلہ کریں گے۔یہ اعلان متحدہ مجلس عمل کے بانی سر براہ علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم کی رہائش گاہ بیت الرضوان میں گزشتہ رات 5 بڑی دینی جماعتوں کے طویل سر براہی اجلاس کے بعد کیا گیا اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ، جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ پیر اعجاز ہاشمی،مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سر براہ پرو فیسر سینٹر ساجد میر ،اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی اور اسٹیرنگ کمیٹی کے ممبران مولانا امجد خان، لیاقت بلوچ اور شاہ اویس نورانی سمیت دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد بریفنگ دیتے ہوئے شاہ اویس نورانی نے اعلان کیا کہ آج 13 دسمبر کو متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ بحال کردیا گیا ہے اور آج کے اجلاس میں اتفاق رائے سے یہ طے کیا گیا اہے کہ اسٹیرنمگ کمیٹی کی تجاویز کے بعد ملکی سطح پر ایک ماہ کے اندر تنظیم سازی مکمل ہوگی اور عہدیداروں کا اعلان کیا جائے گا اسی طرح جو جماعتیں مختلف اتحادی حکومتوں میں شامل ہیں ان کی حکومتوں سے علیحدگی کے حوالے سے بھی حتمی ضابطہ طے کیا جائے گا۔ 2018 کے انتخابات میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا جائے گا۔کتاب کے انتخابی نشان پر انٹکابات میں حصہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کا ایشو بہت اہم ہے اسی لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے خیبر پختونخواہ کی تنظمیں متحد ہو کر باہمی مشاورت سے ایک ماہ میں حمتی حل پیش کریں گی۔شاہ اویس نورانی کہا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا ہے کہ ایم ایم اے نئے سال کے آگاز سے بھر پور عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی۔ امریکی جارحانہ اقدامات بیت المقدس کی صورتحال، عوامی مسائل ،ختم نبوت کا ایشواور امت مسلمہ اور پاکستان کے دیگر مسائل پر ایم ایم اے پارلیمانی ،قانونی اور عوامی جنگ لڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے بھی ایم ایم اے بھر پور انداز میں مہم چلائے گی۔ اور بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے اجاگر کرے گی۔ ملک کی مستحکم خارجہ پالیسی کے لئے بھی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ ایم ایم اے نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ علماء مشائخ ونگ قائم کیا جائے اور اس پلیٹ فارم سے تمام مشائخ علماء پیر وں سے رابطہ کرے گی انہیں اپنے ساتھ شامل کرے گی یا انہیں اپنے منشور پر راضی کرے گی۔انتخابی منشور کمیٹی فوری طور پر تشکیل دی جائے گی، تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ پھر پو رابطہ کر کے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اجلاس میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے شیخ ابو تراب کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شیخ ابورتراب سمیت تمام لاپتیہ افراد کو بازیاب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایم ایم اے کا آٗندہ سربراہی اجلاس 18 جنوری 2018 کو مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مرکز لاہور میں پروفیسر ساجد کی میزبانی میں ہاگا۔ شاہ اویس نورانی نے کہا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ تمام جماعتیں اپنے جاری شیڈول کو جلد مکمل کریں اور آئندہ سے قومی اور عالمی ایشو پر ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے پروگرام ترتیب دئیے جائیں گے اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہ فاٹا کے حوالے سے کے پی کے سے ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کو ٹسک دیا گیا ہے اور وہ ایک ماہ کے اندر باہمی مشاورت سے جو بھی فیصلہ کریں گی اس پر عمل ہوگا۔یہ قومی مسئلہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کا معاملہ کسی فرد یا جماعت کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کا ہے ۔مجلس عمل نے پہلے بھی اس کے لئے ہر قربانی دی ہے اور حالیہ دنوں بھی ہر ایک نے اپنا کردار ادا کیا ۔ہم نے پارلیمنٹ میں کردار ادا کیا۔ عالمی مجلس ختم نبوت نے عدالت میں جا کر اپنا حق ادا کردیا او ر کچھ نے دھرنوں کے ذریعے اپنا کردار ادا کیا۔ سراج الحق نے کہا کہ ہم پاکستانی عوام کو متبادل نظام فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔ہماری نظر میں متبادل نظام صرف نظام مصطفی ہے جس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے اب تک ہم نے تمام نظاموں کو آزمایا اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ۔انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کے حوالے سے ایک آئینی طریقہ موجود ہے اور تمام سیاسی قوتیں متقف ہیں کہ الیکشن اپنے وقت پر آٗین کے مطابق ہونے چاہیے۔ کے پی کے اسمبلی قبل از وقت توڑنے کے ممکنہ فیصل میں جماعت اسمبلی کی عدم شمولیت کے سوال پر کہا کہ اس کا فیصلہ وقت آنے پر کریں گے یہ سوال قبل از وقت ہے۔ علامہ ساجد میر اور علامہ ساجد نقوی،پیر اعجاز ہاشمی نے بھی اپنے نیک جذبات اور ایم ایم اے کی بحالی پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب