راولپنڈی: (تعلیم القرآن راجہ بازار )
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم نے خود اپنی ذات پرطعنے اور الزامات برداشت کر کے نہ صرف ملک میں معتدل سیاست کو فروغ دیا بلکہ مذہبی فکر رکھنے والے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کے ساتھ ساتھ مساجد اور مدارس کا تحفظ بھی یقینی بنایاپارلیمنٹ میں چور دروازے سے ختم نبوت کے حلف نامے پر نقب لگائی گئی جسے علما کرام نے مل کر بے نقاب کیا اور حلف نامے کی شق کو اصل حالت میںبحال کروایا1953میں تحریک ختم نبوت میں صرف شہر لاہور میں 10ہزارافراد نے جانوں کے نذرانے پیش کئے جبکہ 1974میں گولی چلے بغیر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا وجہ یہ تھی کہ علماء کرام سیاست میں تھے آج بھی علمائے کرام کا پارلیمان میں پہنچنا بہت ضروری ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نےدارلعلوم تعلیم القران راجہ بازار میں عظمت قرآن کانفرنس سے خطاب کر تے ہو ئے کیاکانفرنس سے مولانا ضیا اللہ شاہ بخاری اورمولانا اشرف علی سمیت دیگر علما نے بھی خطاب کیا ۔
قائدجمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ اسلام عالمگیر مذہب ہے اس کی عالمگیریت کا تقاضا ہے کہ تنگ نظری ،علاقائی و لسانی تعصبات سے بچا جائے اقوام عالم کے لئے دین اسلام میں ہی کامل راہنمائی ہے اپنی فکر اور سوچ میں وسعت دے کر عدم بر داشت کے کلچر کو ختم کر نا ہو گا، جمعیت علما اسلام پارلیمنٹ میں خلاف اسلام قانون سازی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے پارلیمنٹ میں چور دروازے سے ختم نبوت کے حلف نامے پر نقب لگائی گئی بر صغیر کی تاریخ میں استعماری قوتوں کے انخلا سے قبل اور بعد علما کرام نے سیاسی میدان میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دیئے بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرام کیا کر تے تھے اجتماعی اور مملکتی زندگی کا انتظام اور انصرام پیغمبر کے ہاتھوں میں ہو تا تھاچونکہ ختم نبوت کے صدقے نبی کریم آخری نبی ہیں قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا اور انبیاء کے وارث بھی علماء کرام ہیں ، اب علماء کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امور اجتماعیہ کا انتظام اور مملکت کے انتظام کے لئے جدو جہد کریں انہوں نے کہا کہ اسلام تنگ نظر مذہب نہیں ہے اسلام اقوام عالم کے لئے کامل راہنما مذہب ہے ، کسی ایک علاقہ یا خطے کے لئے نہیں ہے انھوں نے کہاکہ1953میں تحریک ختم نبوت میں صرف شہر لاہور میں 10ہزارافراد نے جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہو سکا جبکہ 1974میں گولی چلے بغیر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا وجہ یہ تھی کہ علماء کرام سیاست میں تھے تب مسئلہ حل ہوا علماء کرام کا پارلیمان میں پہنچنا بہت ضروری ہے ہم نے اپنے مقاصد اور نظریات کی جنگ خود لڑنی ہے پہلے دنیا میں سو شلزم اور کیمونزم اور دوسرے نظام تھے جو قوت کے ساتھ دم توڑ گئے ، اب صرف سر مایہ داریت اور مغربی نظام ہم پر مسلط ہے جس کا ہدف اسلام اور مسلمان ہیںاور اولین نشانہ دینی مدارس ہیں اسلام اور اسلامی ریاستوں کو ختم کر نے کے لئے عالمی استعمار نے منصوبہ بنایا ہوا ہے کہ 14 سال روس کیخلاف جہاد کرنے والے نوجوانوں کو اشتعال دلاکر ریاست کے مد مقابل کھڑا کیا جائے پھر ان نوجوانوں کو ریاست بھر پور قوت کا استعمال کر کے ان کو ختم کر دے اس کا عملی تجربہ عراق ،شام ، اور لیبیا میں کیا گیا ہے پاکستان بھی عالمی استعماری قوتوں کے نشانہ پر تھاجس کو ہم نے اعتدال والی سیاست کر کے طعنے اور الزامات خود سہہ کر مذہبی فکر رکھنے والے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لایا اور مساجد اور مدارس کا تحفظ یقینی بنایا انہوں نے کہا آج ہمارے ہاں علما کو سیاست میں بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ برصغیر میں سیاست ہمارے اکابرین نے کی لیکن آج کسی سرکاری ادارے میں علماء کی نمائندگی نہیںہم جب حقوق نسواں بل کی مخالفت کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ علماء عورتوں کے خلاف ہیںلیکن یہ بات طے ہے کہ جو بھی قانون قرآن سنت کے منافی بنایا جائے گا علماء کرام بات اس کے خلاف آواز بلند کریں گے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اپنی تاریخ ہے اب انتخابی اصلاحات کے لئے قانون مرتب ہوامیاں نواز شریف کو نااہل قرار کردیالیکن اسی بل میں کہا کہ نااہل شخص پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے یہ ہنگامہ ختم ہوا تو پتا چلا کہ ہماری جیب کٹ گی ہے لیکن جیسے ہی ختم نبوت کے معاملے پرشق کا ادراک ہواتمام پارٹیوں کو بلایا کہ حلف نامہ میں ختم نبوت کے حوالے سے شق مکمل بحال کی جائے اور اب الحمدللہ قانون بحال ہوگیا۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب