اسلام آباد:
نیشنل پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ
امریکہ اور بھارت کے مفادات ایک ہیں امریکہ سیاہی کی بجائے خون سے سرحدوں کی نئی لکیریں کھینچ رہا ہے اس کے لئے وہ مسلم ملکوں میں اندرونی سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے جس کے لئے سی پیک کی سزا پاکستان کو دی جارہی ہے عدالتی فیصلوں سے سیاسی عدم استحکام آیا ،کشمیری 70سال ایک مشکل سے گزرے رہے ہیں اور ہندوستان ہے کہ اس ہٹ دھرمی کا سلسلہ ارتکاب کر رہا ہے، کشمیریوں کو اقوام عالم، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے دیا، راہ حق انہیں دینے کو تیار نہیں، گزشتہ 15,16سے امریکیوں کی ترجیحات کو دیکھ بھی رہے ہیں اب بھی کوئی ان کی ترجیحات کو نہ سمجھے، تو وہ امت مسلمہ کی راہبری کا حقدار نہیں، امریکہ نئی صدی میں نئی جغرافیائی تقسیم چاہتا ہے جو امریکی مفادات کے تابع ہوں ، افغانستان، شام، عراق، یمن کی صورت میں اور اب سعودی عرب اور افریقی ممالک پر یہ خطرات منڈلا رہے ہیں،ہمارے نیوکلیئرپروگرام کوتباہ کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے،ہماری امداد بند اوربھارت کودی جا رہی ہے،
فاٹا کا خیبرپختونخوا سے انضمام ہونا چاہیے یا نہیں اس پراختلاف رائے ہے، ہم پاکستان کے آئین ، جمہوریت، پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں، جمہوری عمل نہیں رکنا چاہیے، مفاہمت کی بنیاد پر سیاست آگے بڑھانی چاہیے، ہر جماعت سخت موقف اختیار کر رہی ہے آئندہ الیکشن کے بعد ان کی حکومت بن جائے، خدا نہ کرنے قوم 2018 الیکشن نہ دیکھ سکے۔
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پورا عالم اسلام اس وقت آزمائش اور کرب کے صدمے سے گزر رہا ہے، ہم اس حوالے سے سائوتھ ایشیاء کا حصہ ہیں، انڈیا اور پاکستان کے تعلقات ،پاک افغان تعلقات اور خطے کے اہم ممالک چائنہ، انڈیا، ایران، افغانستان، ہم ان سب کو درپیش صورتحال پوری قوم کیلئے نمائندگان قوم کیلئے اور مقتدر حلقوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے، ساری مشکلات پر مستزاد ہم ملک کے اندر داخلی یکجہتی سے بھی محروم ہیں، مشترکہ اور قومی سوچ کے تحت ہم مسائل کا تجزیہ کرنے اور مشکلات سے نکلنے کے طالب بھی نہیں رہے، کشمیری 70سال سے ایک مشکل میںہیں اور ہندوستان ہے کہ اس ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، بھارت کبھی مذاکرات روک دیتا ہے، کبھی سرحدات پر کشیدگی پیدا کر دیتا ہے، کشمیر کے اندر پر تشدد اقدامات، ریاستی دہشت گردی جاری ہے اور جب ہندوستان پاکستان کے ساتھ کشیدگی پیدا کرتا ہے تو بھی سوچ سمجھ کر پیدا کرتا ہے، اس وقت خطے میں امریکہ اور ہندوستان کا مفادات مشترکہ ہیں، امریکہ چین کے نئے اقتصادی ویژن ، فلسفے کو فروغ دینے میں رکاوٹ دینا چاہتا ہے، سی پیک کی صورت میں چین کی اقتصادی سیڑھی پاکستان بنا، چنانچہ ہندوستان پاکستان کے اقتصادی سیڑھی کو تاریک بنانے کی کوشش کر رہا ہے، گزشتہ 15,16 سال سے ہم امریکیوں کی ترجیحات کو دیکھ بھی رہے ہیں اب بھی کوئی ان کی ترجیحات کو نہ سمجھے، تو وہ امت مسلمہ کی راہبری کا حقدار نہیں، امریکہ نئی صدی میں نئی جغرافیائی تقسیم چاہتا ہے جو امریکی مفادات کے تابع ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر مسلمان ملک میں عدم استحکام پیدا کیا جارہا اور عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے سیاسی عدم استحکام سے ہی آغاز کیا جارہا ہے ، افغانستان، شام، عراق، یمن کے بعد اب سعودی عرب اور افریقی ممالک پر یہ خطرات منڈلا رہے ہیں، چند ماہ پہلے میں نے کہا تھا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے آغاز ہمارے سیاسی داخلی بحران سے کیا جا ئے گا، جب سیاسی بحران پیدا ہوا تو عدالتوں کے ذریعے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا، فیصلوں کے نتیجے میں ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکی دی، پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کی دھمکیاں دی گئیں، مالی طور پر دھمکیاں بھی دی گئیں جبکہ دوسری جانب ہندوستان کو پاکستان پر حملے کیلئے جاسوسی ڈرون دیئے گئے 16سال قبل ہمیں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے تو ہندوستان فائدہ اٹھائے گا لیکن اب ہندوستان کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے ہو رہے ہیں، انڈیا کو ڈرون دیئے جا رہے ہیں،کشمیریوں اور فلسطینیوں کے کازکو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے،دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے جنگ چھیڑ دی گئی ہے اور آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، ہم دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں لیکن دنیا ہمارے داخلی مفادات کو تسلیم کرے، اگر ہمیں انکار ہے تو صرف غلامی سے انکار ہے، ہندوستان بھونڈے طریقے سے کشمیر پر بات کرنا چاہتا ہے، ساری دنیا مذاکرات کی بات کر رہی ہے، بین المذاہب مذاکروں کی بات ہو رہی ہے، ہم دھمکیوں سے پاک مذاکرات چاہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ خدا نہ کرے کہ قوم 2018 کا الیکشن نہ دیکھ سکے،خدانخواستہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے،سیاسی جماعتوں کوآپس میں بات کرنی چاہیے،ہماری نیوکلیئرپروگرام کوتباہ کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے،ہماری امداد بند اوربھارت کودی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا سے انضمام ہونا چاہیے یا نہیں اس پراختلاف رائے ہے۔
اس موقع پرمولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم پاکستان کے آئین ، جمہوریت، پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں، جمہوری عمل نہیں رکنا چاہیے، مفاہمت کی بنیاد پر سیاست آگے بڑھانی چاہیے، ہر جماعت سخت موقف اختیار کر رہی ہے۔
حکومت ایک بار پھر اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 میں ترمیم کرنے جا رہی ہے جس سے دفاعی اداروں کو بے پناہ اختیارات ملیں گے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر ہیں۔ پہلے نیب کے اختیارات پر اعتراض تھا اور ان میں کمی کی گئی تھی، لیکن اب دفاعی ادارے کو کسی کو شک کی بنیاد پر 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جا رہا ہے جو سراسر غیر جمہوری عمل ہے،ملک میں سول مارشل لاء کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ، جو جمہوریت اور “ووٹ کو عزت دو” کی بات کرتے ہیں، آج اپنے ہی ہاتھوں جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ 26ویں ترمیم میں کچھ شقیں واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی، لیکن یہ نیا ایکٹ اسی ترمیم کی روح کے خلاف ہے۔ یہ آئین اور پارلیمنٹ کی توہین ہے کہ ایک دن آپ ایک فیصلہ کریں اور اگلے دن اسے نظر انداز کر دیں۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان
فیصلے اجلاس مرکزی مجلس شوری جے یو آئی پاکستان
میں اداروں کا احترام کرتا ہوں لیکن میری نظرمیں بھی ان کی پالیسیاں سیدھی نظرآئیں، میں نے بھی چالیس سال صحراؤں میں گذارے ہیں، آنکھیں بند کر کے بات نہیں کر رہا بلکہ مشاہدات کے ساتھ بات کرتا ہوں،اگر ہم یہ بات نہیں کریں گے تو قوم کے ساتھ خیانت ہوگی،آپ اپنا قبلہ درست کریں ہم آپ کو سر کا تاج بنا لیں گے۔قوم کی قدر کریں، آپ کے کرنل اور میرے عام کارکن کے پاس ایک ہی شناخت ہے، دونوں کے لئے ایک ہی آئین ہے۔قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کا ڈی آئی خان میں ورکرز کنونشن سے خطاب
43ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر سے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا خطاب
قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چھبیسویں آئینی ترمیم پر قومی اسمبلی میں تاریخی خطاب