ختم نبوت قانون میں ردوبدل کا نوٹس لیا جائے،فاٹا کے انضمام پر عوام سے جھوٹ نہ بولا جائے، مولانا فضل الرحمان

اسلام آباد :
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان مدظلہ نے کہا ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے‘ وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد انتخابی اصلاحات بل میں حکومتی ترامیم کے دوران شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی میں نقب لگانے والوں نے ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں نقب لگائی‘ اس کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے‘ ہم فاٹا کے صوبے میں انضمام کے خلاف نہیں ہیں تاہم فاٹا کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار خود دیا جائے‘ ایوان سے منظور ہونے والے رواج ایکٹ پر بھی اب تمام جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ یہ غلط تھا‘ ہم نے اس وقت بھی اس کی مخالفت کی تھی‘ فاٹا کے مستقبل کے مسئلے پر چارسدہ‘ مردان اور دیگر علاقوں سے لوگوں کو لاکر دھرنے دے کر یہ تاثر نہ دیا جائے کہ یہ فاٹا کے عوام تھے‘ فاٹا کے معاملے پر عجلت سے گریز کیا جائے۔
قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ایوان سے اجتماعی گناہ ہوا ہے۔ ختم نبوت ناموس رسالت پر پوری امت مسلمہ متفق ہے، یہ کسی گروہ کا معاملہ نہیں ہے‘ 1974ء میں ختم نبوت کی تحریک میں میں نے اپنے والد والدہ کے ساتھ جیل کاٹی، پیپلز پارٹی کے لوگ بھی وہاں قید تھے۔ حکومت پیپلز پارٹی کی تھی۔ یہ بحث نہیں کرنی چاہیے کہ کسی کی عقیدت کم اور میری زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر دور نے ثابت کیا کہ نبیﷺ کی محبت ہر چیز سے بڑھ کر ہے، انتخابی اصلاحات پر سینکڑوں اجلاس ہوئے‘ نواز شریف کی نااہلی پر انتخابی اصلاحات بل میں ترمیم پر ہنگامہ کے موقع پر ایک ایسا کام ہوا ہے جس کی باقاعدہ تحقیقات کی ضرورت ہے کہ یہ حرکت کس نے کی۔ ایسے موقع پر نقب لگانے والے نے نقب لگائی۔ اس معاملہ پر پوائنٹ سکورنگ اور انتخابات کیلئے ایشو بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
اس حلف نامہ کو مکمل بحال کردیا گیا ہے۔ سیون بی اور سیون سی کی بحالی کیلئے مزید کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ چیزیں اس ایوان میں سلیقہ سے ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہا جارہا تھا کہ ناموس رسالت کا قانون اقلیتوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ ممتاز قادری کو سزائے موت دے دی گئی لیکن جس کی وجہ سے یہ مسئلہ بنا وہ آج بھی جیل میں ہے، اسے بھی پھانسی کی سزا دی گئی ہے تاہم ابھی عمل نہیں ہوا، حدود کے قانون میں مشرف نے ممبران کو ساتھ ملا کر تبدیلی کردی، ملک میں زنا بالجبر کو جرم قرار دیا جارہا ہے زنا بالرضا کو جرم نہیں بنایا گیا، دونوں جرم ہیں اس وجہ سے قبائلی اور دیگر لوگ اپنی روایات کے مطابق سزائیں دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حلف نامے سے ختم نبوت کا معاملہ تبدیل کرنے کی ترمیم کو سینیٹر حافظ حمد اللہ نے سینٹ میں اٹھایا۔ ہر ایک کا فرض ہے ایسا مسئلہ اٹھائے، سب مسلمان ہیں، یہ وقت ایسا نہیں کہ ایک دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈالیں۔ جس نے نقب لگایا اس کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کا معاملہ اس ایوان میں زیر بحث لایا گیا ہے، اب ہائوس کیا کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا پر ہمارا موقف 2012ء سے ہے۔ اس زمانے میں صوبائی اسمبلی نے قرارداد منظور کی کہ فاٹا کو ضم کیا جائے۔ اس سے اضطراب بنایا گیا اس وقت پشاور میں قبائلی جرگہ ہوا۔ وہاں ایک اجتماعی قرارداد آئی جس میں تین آپشن سامنے آئے کہ یا تو فاٹا کو صوبے میں ضم کیا جائے یا اسے الگ صوبہ بنایا جائے یا موجودہ نظام میں اصلاحات لاکر کالے قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔
یہ تینوں تجاویز اہم اور سنجیدہ تھیں ہم کسی تجویز کو رد یا قبول کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ وہاں اس وقت آپریشن تھا۔ قبائل بے گھر تھے‘ ایسے حالات میں ان کا سیاسی مستقبل مسلط نہ کرنے کی بات کی کہ پہلے ان کو اپنے علاقوں میں آباد ہونے دیا جائے۔ 16 دسمبر کو ہم نے پانچ ہزار قبائلی نمائندوں کا جرگہ بلایا۔ ہر جماعت مذہب‘ فرقہ کے لوگ اس میں شریک ہوئے۔
جس نے فیصلہ کیا یہ جرگہ مستقبل کا فیصلہ کرے گا اس میں یہ اعلامیہ جاری ہوا۔ جناح کنونشن سنٹر یمں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس اعلامیہ کو سپورٹ کیا۔ اس جرگہ نے قبائلی امن میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے قبائل کے مفاد اور مرضی کو سامنے رکھ کر کیا جائے، رواج ایکٹ پر میں نے اپنی حکومت سے جھگڑا کیا۔ وہ ایکٹ یہاں سے پاس ہوا اور وہ کمیٹی میں ہے۔ آج حکومت اور اپوزیشن برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ غلط تھا۔ اب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرہ بڑھانے کی بات ہو رہی ہے۔ لوئر کورٹ نہیں ہے تو کس فیصلے کے خلاف فیصلہ کریں گے۔