قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پشتون فاٹا قومی مشاورتی جرگہ سے خطاب
10 فروری 2025
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرۡيَةً كَانَتۡ اٰمِنَةً مُّطۡمَئِنَّةً يَّاۡتِيۡهَا رِزۡقُهَا رَغَدًا مِّنۡ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الۡجُـوۡعِ وَالۡخَـوۡفِ بِمَا كَانُوۡا يَصۡنَعُوۡنَ۔ صدق اللہ العظیم
میرے بہت ہی عزیز، قابل قدر، شملہ و دستار کے مالکوں، حضرات علمائے کرام، سٹیج پر موجود قبائلی رہنما! میرے لیے یہ ایک اعزاز ہے کہ پشتون خواہ اور قبائلی مشران کے اس اجتماع میں اور اس جرگے میں آپ کے ساتھ شریک ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پشتون روایات کی مناسبت سے ہمیشہ ان کے جرگے ہوتے رہتے ہیں۔ اور پشتون واحد قوم ہے کہ اگر اس نے اسلام قبول کیا ہے تو جرگہ کے ساتھ قبول کیا ہے اور پشتونوں میں کا فر نہیں ہے۔ یہ ایک بہت ہی غیرتی قوم ہے اور ہماری سیاست کے پشتون رہنما اگر جرگہ بلاتے ہیں یہ ہم سب پشتونوں پر ایک احسان ہے۔ ہم ان تمام جرگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن میں بذات خود بارہ سال سے تسلسل سے آپ کے جرگوں میں شریک ہو رہا ہوں۔ اور آپ کے جرگوں کی مہمان نوازی کا اعزاز اللّٰہ نے ہمیں دیا ہے۔ ایک وقت میں جب فاٹا کے انضمام کا مسئلہ تھا، بحث یہ ہو رہی تھی کہ یہ انضمام کے حق میں ہے اور یہ حق میں نہیں ہے، اور ہماری طرف یہی نسبت ہوتی ہے کہ یہ انضمام کے مخالف تھے۔ لیکن میں ریکارڈ درست کرنا چاہتا ہوں ہم نے انضمام کی مخالفت نہیں کی، میں ذرا آپ کو اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میں حکومت کو یہ حق نہیں دینا چاہتا کہ قبائل کے مشورے کے بغیر فاٹا کا انضمام کرے۔ میں کون ہوتا ہوں کہ فاٹا کے مشاورت کے بغیر اس کے انضمام کی مخالفت کروں۔ میری بات کو سمجھ رہے ہو نا۔ وہ مکمل جرگہ جو حیات آباد میں تھا اور چار ہزار قبائل نے اس میں شرکت کی۔ یہ خان بہادر صاحب بیٹھے ہیں ہم پہلے دن سے اس میں شریک ہے اور بھی بہت سے مشران یہاں بیٹھے ہیں۔ اس میں یہ بات ہوئی تھی کہ قبائل کو حق دیا جائے کہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ اگر قبائل انضمام پسند کرتے ہیں تو انضمام ہو جائے گی، اگر وہ موجودہ نظام ایف سی آر کو چاہتے ہیں تو اسی کو قائم کیا جائے اور اگر یہ فاٹا کے لیے مستقل صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں یہ بھی ان کا اختیار ہے ہم ان کی مرضی سے فیصلہ کریں گے۔
لہذا تھوڑا سا اپنا ریکارڈ درست کیجیے کہ ہمارا مدعا کیا تھا اور اسے کیا بنایا گیا۔ اب بات کو حالات کے سپرد کیا گیا ہے۔ ہماری ایک رائے تھی ہم نے بات کی۔ اب ہم اس پر کسی کو طعنہ نہیں دینا چاہتے کہ آپ نے حمایت کی تھی اور آپ نے مخالفت کی تھی۔ اور آپ نے حمایت کی تھی اب مجھے دکھاؤ کیا فایدہ حاصل کیا۔ پشتون کسی کو طعنے نہیں دیتا، رائے کی بات تھی ہر کسی کو رائے دینے کا حق تھا اور یہ مطالبہ یقیناً جرگہ نے کیا تھا کہ ریفرنڈم کیا جائے اور فاٹا کے عوام سے پوچھا جائے، عوام جو چاہیں گے ہمیں فاٹا کے عوام کا فیصلہ قبول ہوگا۔
تو حکومت نے ایک فیصلہ کیا قوم کا، ملک اور وطن کا، اپنے نظام اور اپنے حکومتوں سے، پہلا حق وہ امن کا ہے۔ قبائل کی رائے اور ان سے پوچھے بغیر جو فیصلے ہوئے اس کا پہلا تقاضا یہ تھا کہ وہاں پر امن ہوگا۔ امن کے معنی کیا ہے، امن کے معنی انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ امن ہوگا تو ہر کسی کی زندگی محفوظ ہوگی۔ امن ہوگا تو ہر کسی کی عزت و آبرو محفوظ ہوگی۔ امن ہوگا تو ہر کسی کا مال اور ملکیت محفوظ ہوگی۔ آج جو ہم اور آپ بیٹھے یہ رونا رو رہے ہیں کہ اس انضمام کا پہلا تقاضا، ابتدا جو امن سے ہونا تھا اور پھر اس کی روشنی میں مذید نظام کو آگے بڑھانا تھا، ترقی کی راہیں مانگتے اور ہم اپنی مٹی کے مالک ہوتے، اور ہم وہ فیصلے کرتے۔ لیکن آج اور ہم بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہماری مٹی پر امن نہیں ہے۔ امن سے محروم قوم ہر چیز سے محروم تصور کی جاتی ہے۔ امن ہوگا تو زندگی محفوظ، عزت محفوظ، مال محفوظ، پھر یہ اللّٰہ کی نعمت ہے، ترقی کی راہیں بھی پھر کھلتی ہے۔ اب ترقی کے راستے بند ہے کیوں کہ امن نہیں ہے۔ اور اسلام کی نظر میں پہلی چیز امن ہے۔ اسلام نام سلامتی کا ہے، میرے مذہب کا نام اسلام ہے دوسرے کو سلامتی دینا، میرے عقیدے کا نام ایمان ہے دوسرے کو امن دینا، تو جس دین کے عنوان میں امن اور سلامتی کے معنی پوشیدہ ہو تو خود ہی اندازہ لگاؤ کہ وہ وطن، مملکت اور قوم کے لیے کیسا امن کا نظام رکھتا ہوگا۔
ہم اس نظام سے بھاگتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے میں تقریباً 1988 سے پارلیمنٹ میں ہوں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو مشکل اور سخت مطالبہ ہے وہ اسلام کا مطالبہ ہے۔ اگر ہمارے حکمران ہیں، اسٹیبلشمنٹ ہے، بیوروکریسی ہے، بڑے خاندان ہیں، سب اگر ڈرتے ہیں تو اسلام سے ڈرتے ہیں۔ حیران رہ جاؤ گے کہ تم نے کیسے کلمے پڑھے ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں مولوی صاحب ہم بھی مسلمان ہیں، ہم نے بھی کلمہ پڑھا ہے، ہم بھی نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ میں نے تو نہ آپ کے کلمہ پر اعتراض کیا ہے، نہ آپ کے تلاوت پر اعتراض ہے، نہ نماز روزے پر اعتراض ہے، لیکن بات یہ ہے کہ آپ ملک کو کیا دے رہے ہیں۔ یہ وطن اسلام چاہتا ہے۔
سن 1973 میں آئین بنا ہے اور میرا آئین کہتا ہے کہ قانون قرآن و سنت کے تابع ہوگا، قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی، آج اس ملک میں سب سے بڑی مشکل یہی ہے۔ جمہوریت ایک دعویٰ تو ہے اور آئین کا تقاضا بھی ہے لیکن ایک بے عمل جمہوریت، محض نمائش جمہوریت، تو اگر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، جمہوریت کی بات کرتے ہیں یہ آئین کا تقاضا ہے، ائین کے مطابق ہم بات کرتے ہیں۔
اب بات یہ ہے کہ آئین پر کوئی عمل نہیں کر رہا، میرے منہ سے اگر کوئی لفظ ادھر اُدھر نکلا اس جگہ سے فتوے جاری ہو جاتے ہیں کہ یہ تو ریاست کو چیلنج کر رہا ہے۔ میں جو آئین کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں، ائین کے مطابق مطالبے کرتا ہوں، ملک چلانے کی بات کرتا ہوں تو میں ریاست کا وفادار ہوں اور تم جو آئین کا احترام نہیں کر رہے، ائین کو اپنے سر پر چند اوراق کا بوجھ مانتے ہو، آئین آپ کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، تو پھر ریاست کے مخالف تم ہو اور ریاست کا حامی میں ہوں۔
ہم نے ہمیشہ آئین کی بات کی، آئین میثاق ملی ہے، آئین پوری قوم کے درمیان ایک مشترک عہد پیمان کا نام ہے۔ اگر میری گفتگو میں تلخی اتی ہے کوئی ایک لفظ مقتدر قوتوں کو پسند نہیں اتا، تو مجھے غدار بھی کہا جاتا ہے، مجھے ریاست کا دشمن بھی کہا جاتا ہے۔ اور جو لوگ آئین کو چند اوراق کا بوجھ تصور کرتے ہیں جو لوگ ائین کی کوئی قدر و قیمت ان کی نظر میں نہ ہو وہ اپنے اپ کو ریاست کا محافظ کہتے ہیں میں ببانگ دہل آج کے اس جرگے کی تائید کے ساتھ واضح اور واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ ہم ریاست کے وفادار ہیں، ہم آئین کے وفادار ہیں، ہم ملک کے وفادار ہیں۔ اور اگر آئین سے بغاوت کی ہے تو تم لوگوں نے کی ہے، جس ائین کا تم نے حلف اٹھایا ہے اس آئین کے حلف کو تم توڑ رہے ہو ہم نہیں توڑ رہے۔
میرے دوستو! ہمارے حکمران بڑے آقا امریکہ کے بڑے پیروکار نظر اتے ہیں۔ جو مذہب ان کا ہوتا ہے وہی مذہب ان کا ہوتا ہے۔ امریکہ نے کہا میری جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ دہشت گردی کی کوئی تعریف بھی نہیں تھی کسی کتاب میں لیکن افغا نستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے فوجیں اتاری، ہمارا حکمران مسلمان بھائی کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا۔ امریکہ کا اتحادی بن گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن آئے گا کہ تم بالشت بالشت اور قدم قدم پچھلی قوموں کی اس طرح پیروی کرتے نظر اؤ گے جس طرح کے اگر گوہ بھی اپنے غار میں گھسنے لگے تو تم وہاں سے ان کا پیچھا کرتے رہو، تابعداری کرتے رہو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم یہو د و نصاری کے تابع ہوں گے۔ آپ نے فرمایا پھر اور کون ہو سکتا ہے۔ آج ہمارے حکمران ہیں اج ہماری مقتدرہ ہے جو امریکہ اور مغرب کے غلام، جو ان کے پیروکار مسلمانوں کے خلاف فوراً بندوق اٹھانے والے، ریاستی طاقت استعمال کرنے والے اور ہم اپنے بھائی کو اپنا دشمن کہتے نہیں تھکتے، لیکن کہیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے۔ وہ امریکہ جو آج کہتا ہے کہ میکسیکو ہمارا ہے آج کے بعد یہ امریکی ریاست تصور کیا جائے۔ کبھی کہتا ہے فلس طین کے مسلمانوں کو مصر اور اردن میں آباد کر دیا جائے اور امریکہ کا کٹھ پتلی نیتن یاہو کہتا ہے کہ سعودی عرب کے اندر فلس طین کو بسایا جائے یعنی ہمارا کوئی گھر نہیں ہے۔ ہمارے ہر گھر پر تمہارا قبضہ، ہمارے گھر کی ملکیت تمہارے پاس اور اگر آپ کے اس دعوے کو ہم تسلیم نہ کریں تو پھر تم ہم پہ جنگ مسلط کرتے ہو انسانی حقوق کا سوال پیدا کرتے ہو، دعوے کے ساتھ آج پھر امریکہ اس بات پر غور کر رہا ہے کہ افغا نستان میں دوبارہ جنگ شروع کر دی جائے اور ہم ایک بار پھر افغا نوں کو آپس میں لڑانے کے لیے ایک پروکسی سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اب باتیں چھپتی نہیں ہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو دشمن کہنا اور عالمی کفر کو اپنا آقا کہنا اور اس کی اتحادی ہونے پر فخر کرنا اس سے بڑھ کر نہ اسلام دشمنی اور ہو سکتی ہے نہ پاکستان دشمنی اور ہو سکتی ہے۔ ہمیں صاف ستھرے نظریات کے ساتھ آگے جانا ہوگا۔ یہاں پر پشتون اگر اپنے حقوق کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں تو ہم ان پر گولیاں چلاتے ہیں، ان پر پابندی لگاتے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ جب مجھ پر پابندی لگائی جاتی ہے، میری پارٹی پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ الزام ہے اس الزام کی سزا مجھے اس وقت دی جا سکتی ہے اگر میرے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے، میرے اوپر الزام ثابت ہو جائے، پھر ریاست ہے لیکن اگر کسی عدالت کے سامنے آپ نے میرا مقدمہ لے کر نہیں گئے آپ میرے پر الزام لے کر نہیں گئے اور میری پارٹی پر پابندی لگاتے ہیں، میری سیاسی رہنماؤں پہ پابندی لگاتے ہیں، میرے کارکنوں پہ پابندی لگاتے ہیں تو پھر ائین کی خلاف ورزی تم کر رہے ہو اس کی خلاف ورزی ہم نہیں کر رہے۔ سیاست میں تشدد ہم تو اس کے خلاف ہیں، اعتدال کے رویوں کی طرف ہم سب کو جانا ہوگا اور قوم کو ایک کرنا ہوگا۔
میرے محترم دوستو! ایک دو ہفتے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں قبائل کے مشران آئے تھے، تین چار سو کے لگ بھگ لوگ تھے۔ اس جرگے کا مشورہ یہ تھا کہ یہ آج کا جرگہ بلائیں گے اور پھر آگے بڑھنے کے لیے یہی جرگہ آپس میں مشورہ کرے گی کہ ہم کیا کریں، کس کے پاس جائیں۔ تو ان شاءاللہ العزیز جو حکم آپ مجھے کریں گے، پشتون سیاسی رہنماؤں کا ایک اجتماع کریں گے ان شاءاللہ، اور ان کی مشاورت سے آگے چلیں گے۔ ہم کسی کا حق نہیں لینا چاہتے، پنجاب کے وسائل پر پنجاب کے بچوں کا حق ہے، سندھ میں جو وسائل ہیں سندھ کے بچے اس وسائل کے مالک ہیں۔ بلوچستان میں جو وسائل ہیں بلوچوں کا اس پر حق ہے اور پشتون خواہ میں جو وسائل ہیں اس پر پشتون اور پشتون بچوں کا حق ہے۔ نہ امریکہ کو اجازت ہے کہ میرے اجازت کے بغیر میرے وسائل کو ہاتھ لگائے، نہ وفاقی حکومت اور نہ ہی فوج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ زور زبردستی اور جبر کی بنیاد پر میرے وسائل پر قبضہ کرے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر حکمرانوں، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان کبھی بھی اعتماد پیدا نہیں ہوگا۔ آئیں کے اعتماد کی فضا قائم کریں، ائیں کے ایک پاکستان کی شہری کی حیثیت سے ایک قوم بن جائے۔ آپ کے رویوں نے ہمیں مجبور کیا ہے، آپ کے رویوں نے قومیت کے نام پر ہمیں لڑوایا ہے اور فرقوں کی نام پر بھی آپ ہمیں لڑاتے ہیں۔ اس وطن کے فساد کا سبب بھی تم ہو اور اس فساد کی سزا مجھے دے رہے ہو۔ ان حقائق کو مانیں گے۔ ظاہری بات ہے اگر ان جرگوں سے حل نہیں نکلتا اور ان کا خیال ہو کہ بس یہ اکھٹے ہوکر تین چار گھنٹے اکھٹے گزار دیں گے، دل کا بھڑاس نکال دیں گے اور اس کے بعد یہ استطاعت نہیں رکھتا ہے تو ان شاءاللہ انجینئر صاحب اگر میں دینی مدارس کے خاطر اسلام آباد نکلا ہوں، اعلان کرے کہ ہم اسلام آباد نکلیں گے۔ تو پھر ضرور نکلیں گے۔ پھر نقصان ہوگا یا کچھ اور دیکھا جائے گا۔ میرا خون تو بہہ جائے گا لیکن تاریخ میں ظالم، قاتل اور جابر کا نام آپ کا ہوگا۔ یہ مٹی میری ہے اس پر فرنگی نے بھی قبضہ کیا تھا، دو سو سال ہم پر حکومت کی، ہمارا خون بہایا، آج تاریخ اس کو قابض کہتی ہے، اسے قاتل اور جابر کہتی ہے اور یہ تاریخ ہر دور میں لکھی جاتی ہے۔ آج جو صورتحال ہے ان شاءاللہ اس مٹی کی تاریخ بھی آپ کو قاتل کہے گی، آپ کو قاتل اور جابر کہے گی۔
جمعیت علماء ہمیشہ مظلوم قوم کے ساتھ کھڑی اور میں تو دعویدار ہوں کہ میں تو پہلے دن سے کھڑا ہوں، ان شاءاللہ آخر تک اس تحریک کو اکھٹے چلائیں گے۔
اسباب بناتے ہیں، امریکہ بھی اسباب بناتی ہے وہاں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں اور فوجیں بھیجتی ہیں، ہمارے حکمران ان کی پیروی میں فساد کے حالات پیدا کرتے ہیں۔ تو مظلوم بھی آپ اور فساد بھی ان کا بنایا ہوا اور پھر یہ جواز ہوگا کہ قبائلی علاقوں پر قبضہ کرےا ور وسائل کو اپنے ہاتھ میں لے، ان شاءاللہ پاکستان کی مٹی پر ہم اپنے حقوق کی جنگ لڑیں گے، ہم ملک کے وفادار ہیں، ائین کو مانتے ہیں، پاکستان کے نظام کو مانتے ہیں لیکن اس میں آپ کا جبر ماننے کو تیار نہیں۔
تو اگر اللّٰہ نے چاہا حقوق کی جنگ اکھٹے لڑیں گے اور جس طرح آپ نے مشورہ دیا ہے اور جو قرارداد آپ نے پاس کی ہے یہ اعلامیہ ہے اور ان شاءاللہ اس اعلامیے کو ہم پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، اس پر عمل درآمد کریں گے، طریقہ کار بنائیں گے۔ اور اگر یہ بڑا جرگہ اجازت دے کہ ہم ہر علاقے سے معزز دوستوں کو اکھٹا کرے اور پھر وہ بیٹھ جائیں اور اپنے لیے اور قبائل کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈیں۔
اللّٰہ پاک ہمارے اس علاقے کو امن نصیب فرمائے اور ہمارے حقوق اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا فرمائے، امن اور احترام کے ساتھ عطا فرمائے اور ہر قسم فساد اور جھگڑوں سے ہمیں بچائیں۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب