قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعہ نصرت العلوم گجرانوالہ میں تقریب سے خطاب
01 فروری 2025
الْحَمْدُ للهِ نَحْمَدُه ونستعينُه ، ونستغفرُه ، ونؤمن به، ونتوكل عليه، ونعوذُ باللهِ من شرورِ أنفسِنا ، ومن سيئاتِ أعمالِنا ، مَن يَهْدِهِ اللهُ فلا مُضِلَّ له ، ومَن يُضْلِلْه فلا هادِيَ له ، ونشهدُ أن لا إله إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له ، ونشهدُ أنَّ سيدنا و سندنا و مولانا مُحَمَّدًا عبدُه ورسولُه، أرسله بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وداعياً إلى الله بإذنه وسراجاً منيرا، صلى الله تعالى على خير خلقه محمد وعلى اله وصحبه وبارك وسلم تسليما كثيراً كثيرا. اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِـُٔوا۟ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَٰهِهِمْ وَيَأبَى ٱللَّهُ إِلَّآ أَن يُتِمَّ نُورَهُۥ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَـٰفِرُونَ، هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلهُدَىٰ وَدِينِ ٱلحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلمُشرِكُونَ۔ صدق اللہ العظیم۔
حضرات علماء کرام، بزرگان ملت، جامعہ کے فضلاء اور طلباء عزیز، میرے دوستو اور بھائیو ! میرے لیے انتہائی سعادت کی بات ہے کہ آج میں جامعہ نصرت العلوم کی اس جامعہ مسجد میں اور تاریخی جامع مسجد میں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں۔ اس جامعہ اور اس مسجد کے ساتھ زمانہ طالب علمی سے تعلق رہا ہے۔ جمیعت طلباء اسلام کے پروگرام ہوتے تھے اور ہمارے حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم ہمارے سرپرست ہوا کرتے تھے۔ بہت مفید علمی اور تربیتی گفتگو کرتے تھے۔ حضرت شیخ القران والحدیث مولانا سرفراز خان صاحب میرے باقاعدہ استاد تو نہیں تھے لیکن ان کے دروس میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ان کے علوم نے متاثر بھی کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا، جیسے وہ میرے استاد کا مقام رکھتے تھے۔ صوفی عبدالحمید خان صاحب یہاں جب میں حاضر ہوتا تھا تو ان سے ملاقات ضروری ہوتی تھی۔ بڑے پیار اور محبت کا اظہار کرتے تھے، اور یہ پورا خاندان اور یہ پورا ادارہ صرف علمی ادارہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ بڑا مضبوط قسم کا نظریاتی ادارہ رہا ہے۔ اور اب بھی ہے اور اس حوالے سے ہماری تاریخ کے ساتھ اس کی وابستگی ہے۔ ہمارے اکابر و اسلاف کے ساتھ اس کی وابستگی ہے۔ تو میرے بھائیو ! میں یہاں اپنے اپ کو مہمان نہیں محسوس کر رہا، میں خود کو صاحب خانہ محسوس کر رہا ہوں اور ان شاءاللہ آخری دم تک یہ تعلق رہے گا اور اللہ تعالی اس تعلق للہ کو اپنے دربار میں قبول فرمائے۔
حضرات گرامی جس جامعہ کا اور جن بزرگوں کا تعلق برصغیر کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ برصغیر کی جدوجہد آزادی کی قیادت ہمیشہ علمائے کرام نے کی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ نے جب ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا اور اس وقت سے استخلاص وطن ہندوستان کی حریت و آزادی کی تحریک کا اغاز ہوا۔ اور 1857 کے انتہائی ناخوشگوار انجام سے اس کا اختتام ہوا۔ یہاں سے ایک بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ اسباب کی دنیا میں طاقت کے اعتبار سے انسان ٹوٹ سکتا ہے جسے شکست کہا جاتا ہے، لیکن اگر آپ کا عزم نہیں ٹوٹا، آپ کا حوصلہ نہیں ٹوٹا، آپ اپنے موقف پہ قائم رہے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ آپ نے شکست نہیں کھائی، بلکہ جنگ لڑنے کے لیے پانسہ بدلا ہے۔
آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور پوری انسانی تاریخ میں ایک انسان نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے۔ دوسری قوموں کے نظر میں آزادی کا مفہوم کیا ہے سر دست اس سے بحث نہیں لیکن بحیثیت مسلمان کے ہمارے نزدیک اللہ کی بندگی کو قبول کرنا اور اللہ کے سوا کسی طاقت کی بالادستی کو قبول نہ کرنا اور اس کی غلامی و بندگی کا انکار کر دینا یہ ہے آزادی، ہم اس بات کو سمجھنے کے لیے ذرا اپنے خاندانی ماحول میں اجاتے ہیں ہمارے خاندانی ماحول میں ہمارا باپ ایک ہوتا ہے، جو ہماری تخلیق کا ایک ظاہری سبب ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے کائنات کا خالق ایک ہوتا ہے۔ اب جس طرح گھر میں باپ ایک ہے اور جو اولاد اپنے اس باپ کا فرمانبردار اور مطیع ہو اپنے باپ کی زمین پر محنت کرتا ہو، کام کرتا ہو، اس کی دکان پر بیٹھتا ہو، اس کے کارخانے کو سنبھالتا ہو، اس کے کاروبار کو سنبھالتا ہو ہماری انسانی سوسائٹی میں اس کو مزارع نہیں کہا جاتا، اس کو نوکر نہیں کہا جاتا، اس کو مزدور نہیں کہا جاتا، بلکہ اس کو اپنی جائیداد کا مالک تصور کیا جاتا ہے اور اپنے باپ کی فرمانبرداری اور ان کے خاندانی اور گھریلو اور کاروباری نظام کو سنبھالنا اس کو لوگ قدر و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن اگر یہی اولاد کسی معاشی مشکلات کی وجہ سے مجبور ہو کر ایک دوسرے طاقتور یا تونگر کہ سائے میں زندگی گزارتا ہے۔ اس کی زمین پر کام کرتا ہے، اس کی دکان پر بیٹھتا ہے، اس کے کارخانے میں مزدوری کرتا ہے، تو پھر ہم اس کو مزارع بھی کہتے ہیں، اس کو مزدور بھی کہتے ہیں، اس کو نوکر بھی کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جو قومیں اپنے ایک خالق کائنات کی اطاعت کرتے ہوئے نظر اتی ہے اس کے دیے ہوئے قانون اور ضابطہ زندگی کی پیروی کرتے ہوئے نظر آتی ہیں وہی قومیں آزاد کہلائیں گے، ان کو غلام نہیں کہا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی قوم ہر چند کہ کیا مجبوری ہو اس کی کسی ایک طاقتور قوت کے سائے میں زندگی گزاریں، ان کی فرمانبرداری کرے تو اس قوم کو پھر غلام قوم تصور کیا جاتا ہے۔
تو یہ ہے وہ آزادی جو دین اسلام نے انسانیت کو عطا کی، کہ ایک اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کر لو اور جو اس نے دین اسلام ہمیں بطور نظام کے بھیجا ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطا کیا ہے اس کی پیروی کرتے نظر اؤ، آپ دنیا کے محترم قوم بن جائیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ دنیا جو ہے یہ کوئی راحت کی جگہ نہیں ہے یہ محنت اور مشقت کی جگہ ہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا،
لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِى كَبَدٍۢ
یہ مقدمہ ہے ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اور اس دعوے کے اوپر پھر جو اللہ تعالی نے تفریق قائم کی،
فَلَا ٱقْتَحَمَ ٱلْعَقَبَةَ ۔ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا ٱلْعَقَبَةُ
تو جو گھاٹی میں داخل ہوا اور جانتے ہو گھاٹی کیا ہے۔ اب آپ بھی جانتے ہیں کہ گھاٹی ہمیشہ ایک مشکل گزرگاہ کا نام ہوتا ہے، کہ جب جہاں سے آپ گزریں گے تو اس میں پتھر بھی آئیں گے، جھاڑیاں بھی آئیں گی، پانی بھی کہیں کھڑا ہوگا، اس کو بھی عبور کرنا ہوگا، گرم ہوائیں بھی آئیں گی، ٹھنڈی ہوائیں بھی آئیں گی، اور ایک مشکل کو آپ نے عبور کرنا ہے۔
تو اللّٰہ رب العزت نے شریعت کو تعبیر کیا عقبہ سے یعنی جب آپ دین میں داخل ہوتے ہیں، جب آپ شریعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، تو یہ کوئی پھولوں کی سیج پر لیٹنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ کانٹوں پہ چلنے کا نام ہے۔ مشقت کا راستہ ہے، لیکن جب آپ اس مشقت کے راستے کو عبور کرتے ہیں تو اس کا تقاضا کیا ہے، اس کے مقاصد کیا ہیں۔ سب سے پہلا مقصد جو اللہ رب العزت نے اس کا ذکر کیا اور جو پہلا تقاضا اس کا بیان کیا، فَكُّ رَقَبَةٍۢ، گردن چھڑانا، غلامی سے آزاد کرنا، ہم مولوی حضرات کو اس کا بڑا ایک مختصر سا معنی پیش کرتے ہیں اور وہی جو واقع ہوتا رہا کہ غلام آزاد کر لیا۔ لیکن اگر قران کی وسعتوں کے حوالے سے دیکھا جائے کہ یہ میرا اور آپ کا کلام نہیں ہے، اللہ کا کلام ہے جو پورے کائنات کا حاکم ہے اور قرآن کریم کے الفاظ ہیں تو پھر ایک فرد غلام کی آزادی سے لے کر قوم کی آزادی تک اس کے معنی و مفہوم میں وسعت ہو گی، فرد کی آزادی سے لے کر قوم کی آزادی اس کا مفہوم ہوگا۔
تو سب سے پہلی چیز ہے آزادی، اور آزادی کے بعد اس دین اسلام کا جو فوری طور پر دوسرا بڑا مقصد بیان ہوا اور جو اس دین عظیم کا تقاضہ بتایا گیا،
أَوْ إِطْعَامٌ فِى يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَة
بھوک میں کسی بھوکے کو کھانا کھلا دینا۔ اب بظاہر تو اس کا مصداق محلے میں ایک غریب انسان ہے، آپ کو پتہ ہے پڑوسی بھوکا ہے، آپ چلے گئے اور آپ نے اس کو کھانے کا انتظام کر دیا، راستے میں کوئی بھوکا ملا آپ نے اس کے لیے کچھ خرید کر دیا اور کھانا کھلا دیا۔ لیکن قرآن کریم کے وسیع مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے قوم کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ملکی معیشت کو بہتر کرنا اور ایک کمزور اور معاشی لحاظ سے بھوکی قوم اس کے بھوک کو ختم کرنا یہ عظیم الشان نعمت ہے، جو اس ایت کا ایک کامل اور مکمل مفہوم اور تصور پیش کرتا ہے۔
تو اس مشکل گزرگاہ کا اس میں داخل ہونے کا اس شریعت میں داخل ہونے کا اولین تقاضا آزادی ہے دوسرا تقاضا معاشی خوشحالی ہے اور تیسرا تقاضا مفلوک الحال طبقہ اور کسمپرسی میں مبتلا طبقے کا خیال رکھنا ہے۔
يَتِيمًۭا ذَا مَقْرَبَةٍ – أَوْ مِسْكِينًۭا ذَا مَتْرَبَةٍ
اور وہ بھی جو قرابت دار ہو اور وہ مسکین غریب کہ گرد الود ہے، جسم پر کپڑا نہیں ہے، گرد سے اٹا ہوا ہے، صفائی کا بھی انتظام نہیں، دربدر پھر رہا ہے اس مفلوک الحال طبقے کا خیال رکھنا ہے۔ ہمارے اکابر نے یہ منشور دیا انسانیت کو، جمیعت علماء اسلام نے یہ منشور دیا ہے انسانیت کو، اور پوری قوم کو کہ اولین چیز آزادی و حریت اور پھر اس کے بعد اس قوم کی معاشی خوشحالی اور تیسرا اس کے کمزور اور غریب اور مفلوک الحال طبقے کا لحاظ اور خیال رکھنا، اس کی حالت کو بہتر بنانا یہ ایمانیات جو ہے سب سے آخری، تو صبر و مرحمت یہ اس ایمان کا تقاضا ہے۔ لیکن ہمارے اکابر نے جہاں وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلْمَرْحَمَةِ پہ نظر رکھی ہے وہاں پر وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلْحَقِّ وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلصَّبْرِ پر بھی نظر رکھی ہے۔ حق کا پرچار کرو، حق پھیلاؤ، حق کی بات کیا کرو، کمزور آدمی کے سامنے حق بات کرنا تو بہت آسان کام ہے۔ ہمارے اکابر نے یہاں پر جو حق کا مفہوم بیان کیا ہے کہ حق یہ ضد ہے باطل کا باطل لغوی معنی میں اس چیز کو کہتے ہیں جو مٹنے والی ہوتی ہے اور حق لغوی طور پر بھی اس چیز کا نام ہوتا ہے جو رہنے والا اور باقی رہنے والا ہوتا ہے۔ تو حق کا نام بقا کا ہے اور باطل نام ہے فنا کا، اب ہم حق کو پہچانیں گے کیسے کہ قران کریم کے الفاظ میں وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ کا مفہوم خارج میں کیا ہوگا پہلے باطل کو دیکھیں گے اور باطل کا خارج میں جو فرد کامل ہوگا کیونکہ اس چیز جب ذکر ہوتی ہے مطلق تو پھر اس سے مراد خارج میں فرد کامل ہوا کرتا ہے۔ تو باطل کو جب ہم خارج میں دیکھیں گے اور خارج اس کا فرد کامل دیکھیں گے تو وہ ایک ظالم حکمران کی صورت میں ہمیں نظر ائے گا۔ تو یہاں پر پھر جب باطل کا خارج میں مصداق ایک حکمران ہے اور باطل حکومت ہے تو پھر حق بھی اس باطل حکومت کے خلاف بات کرنا اور اس کو کہنا کہ تم غلط ہو اور تم سے ہم آزادی چاہتے ہیں اور تمہارا نظام غلط ہے اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔ اس نظریے کے ساتھ اٹھنا یہ اس حق کا مراد ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ازمائش بھی تو یہیں پہ ائے گی نا، ہم محلے میں کسی غریب کو دیکھتے ہیں اس کے سامنے ذرا سخت بات کہہ دیتے ہیں ہم نے حق بات کہہ دی۔ غریب کے سامنے حق بات کہنا تو بیچارا کیا کہے گا آپ کو، حق وہاں پر پتہ چلتا ہے کہ جب بدلے میں، مقابلے میں آزمائشیں آتی ہیں۔ اور آزمائشیں انبیاء کرام پر ائی ہے سب سے زیادہ، سب سے زیادہ مشقتیں انبیاء کرام پہ آئی ہے۔ اس لیے کہ یہ وہی جماعت ہے انبیاء کی جنہوں نے اپنے دور میں اپنے سامنے کے باطل حکمران اور اس کے حاکمیت کو چیلنج کیا ہے۔ اور اس کے بدلے میں ان پر آزمائشیں اور تکلیفیں آئی ہیں۔ تو جب بھی آپ باطل کو چیلنج کریں گے۔ آپ نمازیں پڑھتے رہیں اس کو کوئی پرواہ نہیں، آپ روزے رکھتے رہیں کوئی پرواہ نہیں، آپ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں اس کو کوئی پرواہ نہیں، نفلیں پڑھتے رہیں مسجد میں، کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ کوئی پرابلم نہیں ان کے لیے، حکمران اور باطل حکمران اس وقت اس طیش میں آتا ہے جب آپ اس کے حکمرانوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ پھر اس نے پیغمبر کو بخشا ہے نہ کسی خلیفہ کو بخشا ہے نہ کسی سیاسی قیادت کو بخشا ہے۔ تو پھر یہاں پر جب اتنا بڑا حق آپ کہیں گے باطل حکمران کے مقابلے میں آپ حق کی آواز بلند کریں گے تو آزمائشیں تو آئیں گے نا، اور میں یہ معنی کیوں کر رہا ہوں اگلی آیت اس کی دلیل ہے، وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ، یہ وہ مرحلہ و مقام ہوتا ہے کہ جب آزمائشیں اور تکلیفیں آئیں تو پھر آپ کو صبر و استقامت کا درس بھی دینا پڑتا ہے۔ یہاں ڈٹنا پڑتا ہے، مضبوطی کے ساتھ ڈٹنا پڑتا ہے۔
تو ہمارے اکابر اس باطل کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ ہر چند کے مدرسہ بنا لیا اور مدرسے کا آغاز ایک طالب علم سے کیا۔ صرف ایک طالب علم سے اور اللہ نے ایسی قبولیت بخشی کہ وہی ایک طالب علم برصغیر کی قیادت بن گیا۔ آزادی کی قیادت اس کا عنوان بن گیا۔ شیخ الہند اس کا نام پڑ گیا۔ اور جمعیت علماء جو آج ہمارے پاس ہے اس کی بنیاد و اساس اگر دیکھی جائے تو حضرت شیخ الہند اس کی ابتدا ہے۔
تو مدرسے کی ابتدا محمود حسن اور جمعیت علماء کی ابتدا شیخ الہند، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ کس کو کہتے ہیں اور وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ کس کو کہتے ہیں۔
قران کریم کی اس نظریے کو آپ کس طرح پبلک میں لے جائیں گے ہم تو روزمرہ کے معاملات میں پھنسے ہوتے ہیں۔ آج اسلامی دنیا پر کیا کیا کچھ مظالم نہیں گزرے، امت پر کیا کچھ نہیں گزرا، افغانستان پر کیا نہیں گزرا، عراق پر کیا نہیں گزرا، لیبیا پہ کیا نہیں گزرا، شام پر کیا نہیں گزرا، اور فلسطین پر کیا نہیں گزر رہا ہے۔
اللہ رب العزت نے ہم پر ایک دو احسانات کیے ہیں وہ ملحوظ خاطر رہنے چاہیے۔ وہ اللہ کے احسانات ہیں ہمارے اوپر، کہ تم نے جدوجہد کرنی ہے اور نتیجہ تمہارے ذمے نہیں۔ میں ٹھیک بات کہہ رہا ہوں مولوی صاحبان اس کی تائید کرتے ہیں اور دوسرا احسان یہ کہ جدوجہد اپنی استعداد کے حدود کے اندر اندر اپنی طاقت سے زیادہ کوئی تکلیف اپ کے اوپر اللہ نے نہیں ڈالی،
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًۭا إِلَّا وُسْعَهَا،
تو جو جماعت اللہ تعالی نے ہمیں مہیا کی ہے اس کے منشور اور اس کے پروگرام جو اکابر و اسلاف کی میراث ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے ہمارے پاس جتنی طاقت ہے اتنا ہی آگے بڑھنا ہے۔ اور پرامن راستوں سے ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ اور نتائج پھر اللہ کے ہاتھ میں ہے دعا کرو اللہ تعالی ہمیں کامیابی بھی نصیب کرے۔ جیسے ابھی تازہ تازہ ہمیں پارلیمنٹ میں حالات بن گئے تو جب بن گئے تو اللہ نے ہمیں کامیابیاں بھی دی، سود کے خاتمے کا بھی مسئلہ حل ہو گیا، مدارس کا بھی مسئلہ حل ہو گیا، وفاقی شرعی عدالت بھی طاقتور بنا دی گئی، اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات پارلیمنٹ میں پاس کرنے کا بل بھی پاس ہو گیا۔ یہ ساری چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی تو آتی ہے نا، اگر یہ جدوجہد نہ ہوتی ماضی میں اور اس کا تسلسل نہ ہوتا یہ کامیابی کہاں سے ملتی ہے آپ کو، تو یہ چیزیں ہوتی ہیں کہ جس کے تحت ہم نے آگے بڑھنا ہوتا ہے اور اس مقصد کو سامنے رکھے ہمیں آگے جانا چاہیے۔
آج جو مدارس کے اوپر دباؤ ہے تو اسی وجہ سے کہ یہ قرآن علوم کی حفاظت کرتے ہیں، وحی کے علوم کی حفاظت کرتی ہے، اور یہ علوم آزادی کا درس دیتے ہیں اب جب ہمارا دعویٰ ہے اور دعویٰ اس بنیاد پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علماء انبیاء کے وارث ہیں ایک بات تو رسول اللہ نے خود واضح کر دیا کہ آپ کوئی روپے پیسے نہیں بانٹ رہے آپ علم بانٹ رہے ہیں اور اس علم میں آپ ان کے وارث ہو جاتے ہیں۔ اب وہ علم کیا ہے وحی کا علم ہے، قران کا علم ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا، اور آپ نے اپنی عملی زندگی میں قرآن کی جس طرح تشریح کی یا قول کے اعتبار سے یا عمل کے اعتبار سے اس کا نام ہے علم، جس کے محافظ آج اس وقت دینی مدارس ہے۔ نبوت تو ختم ہو گئی، مکمل ہو گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر، لیکن خلافت تو ہے وسیکون بعدی الخلفاء تو آپ ورثاء بھی ہیں اور آپ خلفاء بھی ہیں۔ اتنے بڑے دعویدار ہیں آپ اس بات کے کہ مجال ہے کہ اس منبر رسول پر کوئی امی اکر بیٹھ جائے، کوئی کوٹ پتلون والا اکر بیٹھ کر خطبہ دے دے، کوئی دکاندار تو یہاں اکے خطبہ دے دے، کہ یہ پیغمبر کی جگہ ہے یہاں مولوی صاحب بیٹھے گا اس مصلے پر کوئی کھڑا تو ہو جائے کوئی اور مولوی صاحب کہے گا یہ میری جگہ ہے میں وارث ہوں۔ تو اگر آپ اس کے علم کے وارث ہیں، آپ اس کے دین کے وارث ہیں، تو پھر سیاست و حکومت میں آپ اپنے رسول کے وارث کیوں نہیں بنیں گے۔ یہ محاذ آپ ہی کا محاذ ہے، انبیاء کا محاذ ہے،
كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ ٱلْأَنْبِيَاءُ ۖ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّۭ خَلَفَهُۥ نَبِيٌّۭ
تو سیاسی نظامی تو انبیاء کا نظام ہے لیکن فرق ہے جو آج کے دور میں سیاست متعارف ہو رہی ہے جس کو ہم پہچانتے ہیں، یہ پاکستان کے یا اس دور کے سیاستدانوں کو دیکھ کر ہم سیاست کو مفہوم سمجھتے ہیں۔ اب چونکہ ان کا کردار جھوٹ، دھوکے، دھاندلی اور چالاکی سے اقتدار تک پہنچنا اور دولت کے ذرائع تک پہنچنا، اب ظاہر ہے جب جھوٹ، دھوکہ، فراڈ، دھاندلی اس سے آپ اقتدار تک پہنچیں گے، دولت کمانے کے وسائل تک پہنچیں گے، تو معیوب چیز ہو گئی نا، اسی لیے تو پھر آپ نے کہا مولوی صاحب آپ جیسا شریف آدمی بھی سیاست کرتا ہے۔ یعنی وہ خود مانتا ہے کہ میں شریف نہیں ہوں، میں اگر یہ کام کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں شریف نہیں ہوں، اور تم شریف لوگ یہ کام کرتے ہو اور اگر ہم اس کو انبیاء کی وراثت سمجھتے ہیں تو پھر سیاست نام ہے تدبیر و انتظام کا، کسی چیز کا اس طرح وجود پذیر ہونا کہ جو اصلاح کا سبب بنے، مملکت کے لیے بھی اور قوم کے لیے، مملکتی زندگی کا اور قومی اور ملی زندگی کا ایسا تدبیر و انتظام کے جو دنیوی زندگی میں سکون اطمینان کا سبب بنے اور اخروی زندگی میں نجات کا ذریعہ بنے۔ کیونکہ مسلمان کے سامنے جہاں مبدا ہے وہاں معاد کا تصور بھی ہوگا، اب اس تصور کے ساتھ جو انبیاء کا تصور ہے، جو شریعت اسلامیہ کا تصور ہے اس کے تو آپ وارث ہیں، کس طرح آپ سمجھتے ہیں کہ جی ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو خلافت کا انکار ہے خلافت راشدہ کے نعرے اب لگ رہے تھے یہ بینر پہ لکھنے والا نام ہے، کہ کوئی ہوا میں کوئی ہوائیں گزر رہی ہے اس پہ لکھا ہوا ہے خلافت راشدہ، خلافت راشدہ روئے زمین پر عملی نظام کا نام ہے، عدل و انصاف کا نظام ہے۔ تمام آپ نے نعمتیں ہر طرف سے اکٹھی کی اور ملک کی حالت کو بہتر بنایا اور ہم لوگ بس پتہ نہیں کبھی زہد کا سبق دے رہے ہوتے ہیں، کبھی ورعہ کا درس دے رہے ہوتے ہیں، کبھی تاریک دنیا کا درس دے رہے ہوتے ہیں۔ کیا کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں بابا، وہ آپ کا انفرادی عمل ہے۔ مملکتی زندگی میں اللہ کا فرمان ہے یہ اللہ نے پیدا ہی آپ کے لیے کی ہے۔ ہاں دنیاوی زندگی میں کافر بھی شریک ہو سکتا ہے اخروی زندگی میں تو سب کچھ آپ کے لیے ہوں گے۔ اب آپ کہیں گے جی مشاہدہ اس کے خلاف ہے۔ کفر کی دنیا کے پاس اور سب کچھ ہے ہمارے پاس تو کچھ نہیں، تو للذین آمنوا کہا ہے نا، اب ایمان کا رشتہ کمزور ہوگا تو کافر آپ کے ان نعمتوں پر قبضہ کرے گا۔ پھر اس کی حیثیت غاصب کی ہوگی پھر غاصب کے سامنے کبھی آدمی بھیک تو مانگتا ہے نا، لیکن اولین حق آپ کا ہے،
ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا لِّقَرْيَةٍۢ كَانَتْ ءَامَنَتْ،
معاشی لحاظ سے طاقتور تھا نا، تو پھر امن بھی تھا، اطمینان بھی تھا، فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ، جب اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو اللہ نے بھوک کا بھی اور بد امنی کا بھی مزہ چکھا دیا۔
یہ جو آج بھوک ہے، معاشی بدحالی ہے، انڈیا کا زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے چھ سو سے بڑھ گئے ہیں، ساڑھے چھ سو ارب ڈالر سے بڑھ گئے، اور پاکستان کبھی اٹھ کبھی دس کبھی بارہ، آج کل بارہ ہو گیا تو آسمان پہ چڑھ رہے ہیں کہ ہمارا بارہ تک پہنچ گیا۔ اور بد امنی کا، آج ہم یہاں گجرانوالہ میں بیٹھے ہوئے ہیں آپ کی زمین ٹھنڈی ہے خیر خیریت ہے کبھی ہمارے طرف آؤ نا پھر پتہ چلے آپ کو، بدامنی کا راج، خوف کا راج، قتل و غارت گری ہم پر مسلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم نے اللہ کی دین کو چھوڑا ہے اور اس نعمت کا کفران کیا ہے۔ اللہ کے نعمتوں کی ہم نے ناشکری کی ہے۔
تو ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر اپنی زندگی بناؤ، ہمارے حضرت شیخ مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اب تم فارغ ہو گئے ہو، تم سمجھتے ہو کہ آج ہم نے دورہ حدیث پڑھ لیا، امتحان دے دیا، اب ہم عالم بن گئے ہیں، فرمایا اب تم عالم نہیں بنے ہو ابھی تم میں عالم بننے کا استعداد پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے بعد چاہو تو اب عالم بن سکتے ہو۔ تو علم کا میدان بھی آپ کا انتظار کر رہا ہے، عمل کا میدان بھی آپ کا انتظار کر رہا ہے، سیاست کا میدان بھی آپ کا انتظار کر رہا ہے، دعوت کا میدان بھی آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ اور ہر ایک اپنے اپنے اصول ہیں ان اصول کو سمجھنے کی کوشش کرو اور تدبیر و تدبر کے ساتھ آگے بڑھو۔ ہر کام شروع کرو پہلے انجام پر نظر ہونی چاہیے، کیونکہ تدبیر یا تدبر ان دونوں کا مادہ د ب ر ہے، تمام کاموں کے انجام پر نظر رکھنا ہے ہم یہ تدبیر کریں گے نتیجہ کیا نکلے گا، ہاں تدبیر کی حد تک لیکن تکمیل کی حد تک اللہ کے حوالے ہے۔
ہر کام جو شروع ہوگا تو اس کی نسبت تدبیر کی طرف ہوگی، لیکن ہر کام کا جب نتیجہ سامنے ائے گا تو پھر نسبت تکمیل کی طرف ہوگی۔
اللہ تعالی ہمیں اچھے اور کامیاب نتائج سے ہم کنار فرمائے۔ اور کامیابی سے اللہ تعالی آپ کو سرفراز فرمائے، آپ کو فارغ التحصیل بننے پر بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ نے ساری زندگی اس علم کو دی، آٹھ سال آپ نے مدارس میں گزارے اور فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ والدین کے لیے دنیا کی کوئی خوشی اس خوشی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالی دین اسلام کی خدمت کے لیے آپ کو قبول فرمائے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب