قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا پارلیمنٹ ہاؤس پی آر اے کے دفتر میں صحافیوں سے اہم گفتگو
03 فروری 2025
میرے انتہائی قابل احترام صحافی بھائیو ویسے بھی سیاست اور صحافت ہمیشہ سے ایک دوسرے سے وابستہ رہے ہیں اور پھر پارلیمنٹ کے اندر جو ایک وابستگی ہوتی ہے گیلری میں بیٹھے ہوئے رپورٹرز کی اور ایوان میں بیٹھے ہوئے ممبران کے درمیان تو اس تعلق کا بھی پورا ادراک ہے اور میرے دل میں اس کا بڑا احترام ہے۔ قوانین بنتے ہیں اور انسان جب اپنے قوانین بناتا ہے تو اپنے خاص معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون بناتا ہے لیکن جب وقت بدل جاتے ہیں تو کبھی اس قانون کی افادیت ختم ہو جاتی ہے کبھی تقاضے تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر اس میں ترامیم بھی ہوتی ہیں لیکن جو مشاہدات میں نے اپنی سیاسی زندگی میں کی ہیں یا آج جو اس دور سے ہم گزر رہے ہیں اور بالخصوص 26ویں ترمیم کے وقت مجھے تعجب اس بات پر آرہا ہے کہ ہمارے مقتدر قوتوں کی نظر میں آئین ہو یا قانون وہ موم کی ناک ہے جدھر چاہے جب چاہے اس کو موڑ دے اور اس کی شکل تبدیل کرے یعنی آئین ملک کو چلانے کے لیے نہیں بنا اور جیسے وہ آئین کو چلانے کے لیے بنے ہیں جسے دنیا میں کوئی نظام اس اصول کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، تو میں اعادہ کرتا ہوں دوبارہ اپنے اس موقف کا کہ جو پیکا کے حوالے سے قانون بنا ہے اسمبلی میں یہ یک طرفہ بنا ہے اور اس میں ضروری تھا کہ صحافی برادری کو اعتماد میں لیا جاتا، ان کی تجاویز لی جاتی، ان کی تجاویز کو قانون سازی میں شریک کیا جاتا اور جب میری ملاقات ہوئی تھی آپ دوستوں کے ساتھ آپ تشریف لائے تھے تو میں نے بھی یہی کہا صدر مملکت سے کہ آپ پی آر اے کی تجاویز بھی لیں، صحافی حضرات کی تجاویز بھی لے ان کی بڑی تنظیمیں ہیں ان تنظیموں کا بھی ایک رائے ہوگی ان سے بھی آپ رائے لے لیں اور دستخط نہ کریں انہوں نے مجھے اطمینان بھی دلایا یہ بھی کہا کہ محسن نقوی صاحب آج پہنچے ہیں کل یا پرسوں میں میرے پاس آجائیں گے پھر میں ان کو ان کے پاس بھیجوں گا پھر وہ باہمی رابطے کے ذریعے سے کچھ نہ کچھ کرلیں گے لیکن لگتا یہ ہے کہ کہیں سے ایسی سخت ہدایات آئیں کہ بالآخر ان کو اسی وقت دستخط کرنے پڑ گئے، اگلے دن پرائم منسٹر سے میں نے رابطہ کیا اسی لیے کہ یہ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور ان کی بات بھی مجھے وزن لگتا ہے تو آپ اس پر غور کریں تو میرے خیال میں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ تو دستخط ہو گئے ہیں، اور اب مزید ضرور اگر ان کے پاس تجاویز ہونگے تو ضرور تجاویز لینگے رواداری میں باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب صورتحال حضرت یہ ہے کہ 26ویں ترمیم میں جہاں وہ ہم سے تقاضا کر رہے تھے کہ ہم نو گھنٹے کے اندر اندر ووٹ بھی دیں اور اس کو پاس بھی کر دیں اور جب کہ اس وقت تک مسودہ بھی تیار نہیں ہوا تھا، ہوائی ہاں ہم سے لینا چاہتے ہیں، پھر جب ہم نے اس پر اصرار کیا کہ پہلے مسودہ تیار کرو پھر وہ ہمیں دکھاؤ ہمیں دیکھنا ہے تو اس میں انہوں نے دو تین دن لگا دیے اور پھر ہمارے شدید موقف کے بعد جا کر انہوں نے ہمیں مسودہ دیا، اگر ہم اس مسودے کو جوں کا توں قبول کر لیتے تو آج ملک میں نام کی جمہوریت اور کام کا مارشل لاء ہوتا عملاً مارشل لاء ہوتا آئین ڈوب چکا ہوتا پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہ ہوتی جمہوریت ختم ہو چکی ہوتی لیکن ہم نے فوری طور پر اس کا جو مطالعہ کیا اس میں جو چیزیں ہم نے نامناسب سمجھیں اور یہ میں بڑے اطمینان کے ساتھ آپ سے کہہ سکتا ہوں جی اور مجھے اس پر خوشی ہے اور رہے گی یہ خوشی کہ ہم نے ایک مہینہ مذاکرات کر کے خالصتاً نظریاتی جمہوری آئینی اور قانونی ضرورتوں کی بنیاد پر ان سے بات کی ہے اس میں کسی قسم کا نہ ہمارا جماعتی مفاد شامل رہا نہ ہمارا کوئی ذاتی مفاد شامل رہا نہ کوئی سیاسی مطالبہ شامل رہا اور الحمدللہ اللہ تعالی نے ہمیں اس میں کامیابی دی لیکن ہر چند کے ہمیں کامیابی ملی اور چھپن کلازز میں سے ہم نے چونتیس کلازز سے ان کو دستبردار کیا اور بائیس جب کلازز رہ گئی تو ہم نے اپنے پانچ کلازز اس میں ترمیم کر کے ملائیں تو ستائیس پہ ووٹ ہو گیا لیکن ظاہر ہے جو چیز آج اسمبلی میں ہو جائے تو ایک عرصے تک اس کو احترام دیا جاتا ہے اس کو رد کرنے کا تاثر بالکل بھی نہیں دیا جاتا کوئی حکومت اس کو رد کرنے کا تاثر نہیں دیتی یہاں تو ہفتوں کے اندر اندر انہوں نے قانون کے راستے سے اور پارلیمنٹ میں ایکٹ کے راستے سے انہوں نے وہ اقدامات کیے جو تازہ تازہ 26ویں آئینی ترین کی روح کے منافی تھی اور ابھی تک وہ عمل مسلسل چل رہا ہے، تو اس لحاظ سے بھی صورتحال بہت حساس ہے، یہ بات میں آپ حضرات بھی چھوڑتا ہوں آپ کے جو میرے دائیں بائیں تشریف فرما ہیں کہ اگر گنجائش ہو تو ملک کے بین الاقوامی صورتحال کے حوالے سے اگر مزید کسی موضوع پر بھی آپ بات کرنے کی اجازت دیں گے تو میں چاہوں گا کہ میں اس پر بات کر سکوں کیونکہ اس پر تو اپنا ہمارا موقف واضح بھی ہے۔
کچھ معاملات ایسے ہیں کہ جو سیاسی نہیں بلکہ باقاعدہ ریاستی معاملات ہیں، اس وقت خیبر پختونخواہ میں اور بلوچستان کے بالخصوص بلوچ ایریا میں حکومت کی کوئی رِٹ موجود نہیں ہے، ہمارے قیام امن کے ذمہ دار ادارے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور سڑک کے کناروں پر قریب قریب علاقوں میں بعض جگہوں پر تو سڑک سے نظر آتے ہیں ان کے مراکز سے یعنی مسلح گروہوں کے مراکز اور وہاں سے وہ آپریٹ کرتے ہیں اور مکمل نظام ان کا موجود ہے، رات کو سڑکیں ان کے حوالے ہوتی ہیں، شہر کی گلی کوچیں ان کے حوالے ہوتے ہیں اور حکومت نہ معلوم کہاں ہوتی ہے! اب ایسے حالات میں آپ بتائیں کہ عام آدمی کیسے زندگی گزارے گا؟ یعنی یقین جانیے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور آپ کو بھی تکلیف ہوتی ہوگی جب ہم سنتے ہیں کہ ہمارے جوان شہید ہو گئے ایک حملے میں تیس تیس لوگ پینتیس پینتیس لوگ بیس بیس لوگ سولہ سولہ لوگ یہ تقریباً روز مرہ ورنہ ہفتے میں ایک دو دن تو ضرور اس طرح کے واقعات آرہے ہیں، کیا میں اپنی فوج اور اپنی دفاعی صلاحیت کے بارے میں اب کیا سوچوں گا؟ وہ جو میرے اندر ایک اعتماد تھا کہ میں ایک طاقتور ملک ہوں، وہ جو میرے اندر ایک اعتماد تھا کہ میں ایک طاقتور قوم ہوں، وہ جو میرے اندر ایک اعتماد تھا کہ میرا ملک اس کی سرحدات محفوظ ہیں، وہ اعتماد ریزہ ریزہ ہو چکا ہے ایک عام شہری کے طور پر آپ خود اندازہ لگائیں ہم کیا سوچیں گے، میرے اپنے گاؤں میں کھلم کھلا کر رہے ہیں میرے گھر کی گلی سے ایک طرف بھی اور دوسری طرف بھی اور میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ خدا نہ کرے خدا نہ کرے اگر میں ان کا نشانہ بنوں تو مجھے پرووائڈ کی گئی سیکیورٹی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اس کیفیت میں اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں۔ یہی صورتحال بلوچستان کی ہے، کب تک ہم اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے الفاظ کے استعمال میں احتیاط کرتے رہیں گے، کیا یہ ملک صرف فوج کا ہے؟ وہ میرے محافظ ہیں ملک میرا ہے میں ان سے زیادہ فکر مند ہوں اس حوالے سے، آج اگر بلوچستان کا بلوچ علاقہ اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیں تو اس پوزیشن میں آگئے ہیں وہ یہ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں ممکن ہے کوئی مجھ پر تنقید کرے کہ فضل الرحمن آپ نے ضرورت سے زیادہ بات کر لی لیکن حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس صورتحال کی نزاکت کو آج دیکھا جائے گا جی، فضل الرحمن یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ آج وہ یہ بات سرعام آپ لوگوں کے سامنے کرنے کے لیے مجبور ہو گیا ہے اور پھر کشمیر تو ہم نے اونے پونے دے دیا ہے، ابھی پانچ فروری آئے گا تو ہم کشمیریوں سے یکجہتی بھی منائیں گے لیکن تاریخ کے صفحات کے ساتھ ہم زیادتی کر رہے ہوں گے ہم نے عملاً کوئی یکجہتی کشمیریوں کے ساتھ نہیں کی آج تک، ہم نے صرف ان کے خون کو سیاسی طور پر استعمال کیا ان کی عزت و ناموس کو اپنے سیاست کے لیے استعمال کیا اور جب بین الاقوامی حالات تبدیل ہوئے تو ان بین الاقوامی حالات کے دباؤ میں ہم نے کشمیر پر اپنا موقف چھوڑ دیا ہم نے کشمیریوں کو تن تنہا چھوڑا اور مودی جیسا حکمران جو مسلم کش ہے مسلم دشمن ہے اس نے کشمیر کے اندر جو منصوبہ بندی کی جس طرح انہوں نے وہاں کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی یہ تو کشمیریوں کے ہمت کو سلام ہے ان کی ہمت کو سلام ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں الیکشن ہوئے اور مودی کی جماعت کو عوام نے مسلمانوں نے شکست دے دی کشمیروں نے شکست دی ان کے خوابوں کو بکھیر دیا انہوں نے جی، اس منصوبوں کے تارپیت کو بکھیر دیا یہ ان کی ہمت ہے، ہمارا کیا کردار ہے ہمیں ذرا اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے صرف ایک بیان دینے تک اور اب ہم افغانستان کے ساتھ معاملات خراب کرنے کی طرف جا رہے ہیں، ہم پاکستان میں رہتے ہیں ہماری میڈیا میں وہی خبر چھپی گے جو ان کو مہیا کی جاتی ہے سو اس بات کو ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان سے افغانی آتے ہیں اور پاکستان میں کاروائی کرتے ہیں، وہ کتنی تعداد میں ہوں گے؟ اور کیا وہ افغانستان وہاں پر امارت اسلامیہ کی اجازت سے آرہے ہوں گے؟ یہ جو ہم نے بیج بوئے ہیں جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے لے کر چودہ سال افغانستان میں جہاد لڑا گیا اور چودہ سال ہمارے مجاہدین وہاں نہیں گئے پاکستانی؟ پہلی مرتبہ پاکستان میں کلاشنکوف کلچر متعارف نہیں ہوا؟ ہیروئن کلچر متعارف نہیں ہوا؟ مجھے خود جب کسی زمانے میں میں فارن افیئرز کمیٹی کا چیئرمین تھا امریکہ کے سفر پہ تھا تو ایک جہاز میں ایک ریٹائرڈ امریکی لیفٹننٹ جنرل میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا راستے میں جاتے جاتے پانچ چھ گھنٹے کی فلائٹ ہوتی ہے تو تعارف ہو گیا تو اس نے کہا میں نے پشاور میں چھ سال مائنز کی ٹریننگ دی ہے آپ کے مجاہدین کو، کیا ہمارے جنرلز ہمارے ہی مذہبی نوجوانوں کو تربیت نہیں دے رہے تھے؟ کیا وہ جہاد افغانستان میں ان کو شامل ہونے کی ترغیب نہیں دے رہے تھے؟ اور پھر جب کایا پلٹ گیا نائن الیون کا واقعہ ہو گیا تو پھر کیا جنرل مشرف کے زمانے میں ہم نے امریکیوں کو پاکستان میں اڈے نہیں دیے؟ کیا ہم نے اپنی فضائیں نہیں دی؟ کیا ہمارے اڈوں سے اڑ کر اور ہمارے فضاؤں سے گزر کر انہوں نے افغانستان میں بمباریاں نہیں کی؟ کیا کبھی ملا عمر نے یہ کہا ہے کہ آپ کی سرزمین سے ہم پہ حملے کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا کرزئی اور اشرف غنی نے بھی کہا کہ پاکستان کی سر زمین ہمارے خلاف کیوں استعمال ہو رہی ہے؟ وہ خود اس کا علاج کرتے تھے جیسے بھی کرتے تھے، آج سارا دباؤ دینی مدارس پہ آرہا ہے۔ ہم ایف اے ٹی ایف کے شرائط پر کہتے ہیں کہتے ہیں جی کہ دینی مدارس پر اس لیے نظر رکھی جائے کہ وہ دہشت گردی کو فروغ نہ دے سکیں اور ایف اے ٹی ایف کا جو بڑا کردار ہے وہ یہی ہے کہ پیسہ دہشت گردوں تک رسائی حاصل نہ کرے اور منی لانڈرنگ نہ ہو، یہ دو اہداف ایف اے ٹی ایف نے متعین کیے ہیں، مجھے کوئی بتائے مدرسوں کے تو اکاؤنٹ پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے جی کہ کون سا پیسہ ہے آج تک نائن الیون کے بعد چوبیس سال ہو گئے ہیں، کون سا پیسہ ہے کہ کسی پیسے والے کی طرف سے کسی بینک کی طرف سے وہ کسی دینی مدرسے یا ان کے جوانوں کی طرف منتقل ہوا ہو اور رہی بات کہ منی لانڈرنگ کو کنٹرول کرنا ہے تو کیا ہمارے پاکستان کے بزرگ سیاستدان اور بڑے سیاستدان اس جرم میں ملوث نہیں ہے؟ الزامات ہمارے سیاستدانوں پہ، مقدمات ہمارے سیاستدانوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے اور نشانہ مدرسہ! اس مذہبی ماحول کے خلاف کاروائی کے آڑ میں ہم سیاست کر رہے ہیں، اور پھر وردیوں میں ہمارے مدرسوں میں جا کر پیش ہوتے ہیں اور پھر وہ جناب بڑے بڑے بیانات دیتے ہیں اور اپنے ہاں میں ہاں ملانے والے بھی سامنے بٹھا دیتے ہیں اور ان کو ایک آدھ سوال بھی فیڈ کرا دیتے ہیں تاکہ آپ ہم سے یہ سوال کریں اور پھر جب ہم آپ کو جواب دے تو اس کو ہائی لائٹ کیا جائے، یہ کیا چیزیں ہیں؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہاں وفاق میں دینی مدارس کے رجسٹریشن اور اس کے اکاؤنٹ بینک کھولنے کا قانون پاس ہو چکا ہے کیا اب تک یہاں سے کوئی موومنٹ ہوئی ہے کہ صوبوں سے کہا جائے کہ آپ نے قانون سازی کرنی ہے، اس وقت بھی صوبے میں قانون سازی نہیں ہو رہی، کیوں؟ ہم نے تو بین الاقوامی دنیا کو بھی راضی رکھنا ہے نا، اپنے بچوں کو ذبح کرنا ہے ان کے لیے اور اوپر سے خیر خواہی کا چادر بچھاتے ہیں ہم تو مین سٹریم میں ان کو لانا چاہتے ہیں، مین سٹریم میں آپ خود نہیں ہے کیا دینی مدارس کے بچوں کو اب رہ گیا آج اس وقت امتحانات ہو رہے ہیں وفاق المدارس کے اس وقت ایک وفاق المدارس اور 43 ہزار فضلاء کرام ایک سال کے اندر فارغ التحصیل ہو رہے ہیں امتحان دے رہے ہیں اور چھ لاکھ بچے اس میں پورے ملک میں تمام درجوں کی امتحانات دے رہے ہیں، مدرسے کا نظام تو متاثر نہیں ہو رہا وہ تو ٹھیک جا رہا ہے، آپ نے مدرسے بورڈ بھی بنایا مشرف کے زمانے میں کدھر ہیں وہ، آپ نے ابھی ہمارے اداروں کو اور تنظیموں کو جو ہے تقسیم کیا کہاں ہے، وہ اٹھارہ ہزار ڈمی مدارس کے نام پر سیاست کرتے ہو، کب تک یہ ڈرامے چلتے رہیں گے پاکستان کے اندر، یعنی قسم کھا رکھی ہے کہ ہم نے ملک کے اندر مذہبی طبقے کو اپنے مقابلے میں متصادم رکھنا ہے جی، یہ ملک کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، نائن الیون گزر چکا ہے، اس کے 25 سال گزر گئے ہیں، دینی مدارس سے ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کے ساتھ کھڑے ہیں آئین کے ساتھ کھڑے ہیں پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں ملکی مفاد کے ساتھ کھڑے ہیں کسی طریقے سے کسی دوسری کاروائی میں شریک نہیں ہے لیکن اگر ہیں تو وہ پھر دینی مدارس کے نظم کے پشت پناہی میں نہیں اگر ہیں بھی تو آپ کے پشت پناہی میں آئے تھے، الزام ان پہ لگایا جا رہا ہے الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔
تو یہ ساری چیزیں صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ معاملات خراب کرنا یہ کیا ہم ایک بار پھر ایک پروکسی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں! ہم نے دنیا کے ایجنڈوں پہ چلنا ہے! ہمارا کوئی اپنا مفاد نہیں ہے! ہم نے کبھی ایک لمحے کے لیے پاکستان کے مفاد کو نہیں سوچ رہا اور پاکستان کا مفاد یہی ہے کہ ہم امریکہ کے غلامی کرتے رہیں! تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جس پر ہمیں نظر ثانی کرنی پڑے گی سوچنا پڑے گا ان چیزوں کے اوپر حقائق تلخ ہیں لیکن ملک کے حالات کو ٹھیک کرنا ہے۔
افغانستان کے سر پر امارت اسلامیہ کے سر پر آپ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ برہان الدین ربانی کی حکومت آئی اس کے خلاف مزاحمت آپ نے سپورٹ کی، پھر اس کے خلاف دوسری مزاحمت پر آپ نے سپورٹ کی، پھر اس کے خلاف مزاحمت آپ نے سپورٹ کی، آپ آج پھر ایک اور مزاحمت تھی اس کو آپ نے سپورٹ کیا، اب پھر امارت اسلامیہ کے خلاف مزاحمت کو آپ سپورٹ کررہے ہیں کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں کب تک یہ کھیل افغانستان میں آپ چلتے رہیں گے اور کیوں کھیل رہے ہیں آپ؟ کیا امارت اسلامیہ نے آپ سے یہ شکایت کی ہے کہ آپ نے اگر ہمارے کسی جوان کو وہاں پکڑا ہے اور مارا ہے کیوں مارا ہے؟ لیکن افغانستان پاکستان کے سرحدات ایسے ہیں کہ اس پہ روکا نہیں جا سکتا کسی کو، مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ امارت اسلامیہ نے اس کو اپنا ایک ٹاسک سمجھ لیا تھا۔ اور یہاں جو اینٹی پاکستان ایک سوچ باقاعدہ بنائی گئی ہے، اور پاکستان دشمنی پر مبنی ایک ذہنیت نئی نسلوں کو دی گئی ہے کہ کس طرح ہم اس کو دوبارہ تبدیل کریں گے۔ آج پھر حالات ایسے بنائے جا رہے ہیں کہ جو پرو پاکستانی تھے ان کو بھی اینٹی پاکستان، اور یہ کہ وہ سمجھ نہیں رہے، میں گیا ہوں الیکشن سے پہلے، میں گیا ہوں، ایک ہفتے میں سمجھ گئے تھے سارے معاملات ٹھیک ہو گئے تھے۔ اور واپس آکر میں نے ان سے تمام جو اسٹیبلشمنٹ کی قیادت ہے ان کو رپورٹ کیا اور انہوں نے مجھے اپریشییٹ کیا کہ کمال کر دیا آپ نے، کیوں بات بیچ میں رہ گئی؟ میں نے اپنے ذات کے لیے کی تھی یا ملک کے لیے کی تھی، اور فالو میں نے کرنا تھا، آگے بڑھانے کا پلان میں نے بنانا تھا یا سٹیٹ ٹو سٹیٹ بننا تھا، کیوں نہیں بنایا گیا، معاملات جب آپ کے ہاتھ سے بگڑتے ہیں اپنی ناکامی دوسرے کے سروں پہ مت ڈالا کرو۔ ہم ایک رسپانسبل سٹیٹ کا کردار ادا کریں ذمہ دار سٹیٹ، افغانستان ابھی تک اتنا سٹیبل نہیں ہے، لیکن ہم اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ہم نے اپنے ملک کے اندر کو کھوکھلا کر دیا ہے پروکسی وار لڑتے لڑتے، اور آج ہم خوف کھا رہے ہیں کہ کہیں ہمارا ہنستا بستا پاکستان تقسیم تو نہیں ہو رہا، ایک نیا بنگلہ دیش تو وجود میں نہیں آرہا، کیوں یہاں تک ہم پہنچ گئے۔
ہم نے قبائلی علاقے کا انضمام کیا۔ ہم نے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کیے۔ 2010 کے بعد سے مسلسل سوات سے لے کر وزیرستان تک آپریشنز کیے گئے۔ قبائلی عوام کو اپنے گھروں سے نکالا گیا۔ اپنے ملک میں دس سال تک مہاجر بنے رہے۔ اور آج اس ایک سال کے اندر آٹھ فروری 2024 سے لے کر ابھی آٹھ فروری 2025 تک اس دوران میں کوئی ایجنسی ایسی نہیں ہے کہ جس کے قبیلوں کے وفود میرے پاس نہ آئے ہو، باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک، چاہے اس میں مہمند ہو، چاہے اس میں آفریدی ہو، چاہے شنواری ہو، چاہے اورکزئی ہو، چاہے کرم کے لوگ ہو، چاہے اس میں وزیرستان ہو، ایک وزیرستان دوسرا تیسرا وزیرستان، داوڑ ہو، محسود ہو، وزیر ہو اور ابھی ایک ہفتہ ہوئے تقریباً تین سو لوگوں کا بڑا جرگہ میرے پاس ڈیرہ اسماعیل خان آیا۔ ان پہ کیا گزر رہی ہے کس کے ہاتھوں گزر رہی ہے۔ ایک طرف مسلح گروہ گلی گلی پھر رہے ہیں ایک طرف ہماری فوج پھر رہی ہے۔ ایک کے ہاتھوں وہ محفوظ نہ دوسرے کے ہاتھوں میں محفوظ، جس کے ہتھے چڑھ گئے راستے میں کہیں لاشیں ملیں گی ان کو، روزانہ دو دو چار چار ٹارگٹ کلنگز ہر ایجنسی میں ہو رہی ہیں، جس کی خبروں کو بھی روکا جا رہا ہے اب، اور زیادہ تر جمعیت علماء اسلام کے کارکن شہید ہو رہے ہیں۔ کس جرم میں، اگر یہ لوگ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں تو کیا جمعیت علماء اسلام اسلام کے خلاف ہے۔ یہ جو ابھی ایوان میں ہم نے پانچ ترامیم پاس کروائی تھی کیا وہ اسلام کی رو سے ایک پیش رفت نہیں ہے۔
تو ہم نے نظریے کے مطابق موقع پا کر اپنے مفادات کے لیے کام کیا نا تو اسلامی مفادات تھے، دینی مفادات تھے، ذاتی مفادات نہیں تھے۔ کوئی ہم نے سیٹیں نہیں مانگی، کوئی ہم نے وزارتیں نہیں مانگی، کوئی ہم نے پریذیڈنسی نہیں مانگی، کوئی ہم نے صوبے کی حکومت نہیں مانگی، ہم نے تو صرف اور صرف اس آئین کو سامنے رکھ کر اس میں اقدامات کیے۔ تو دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی والا معاملہ ہے۔
امریکن انتظامیہ نئی آئی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پندرہ ماہ کے بعد جنگ بندی ہوئی اور جنگ بندی فلسطینیوں کے قربانیوں کے نتیجے میں ہوئی اور اسرائیل کو تمام فلسطینی علاقے خالی کرنے پڑے۔ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ قیدیوں کو رہا کرنا پڑا جبکہ فلسطینیوں نے یہودیوں کی دو ڈھائی سو لوگ رہا کیے ہیں۔ پہلی مرتبہ میں کم از کم اپنی زندگی میں جو پاکستان کی میں نے دیکھی ہے، پہلی مرتبہ فتح کے جو اثرات ہیں اس کو میں فلسطین کی سرزمین پہ دیکھ رہا ہوں ورنہ شکست پہ شکست، اور ٹرمپ صاحب کیا کہہ رہے ہیں فلسفہ دیکھیے نا ان کا، ٹرمپ صاحب کہہ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو مصر اور اردن میں آباد کیا جائے، کس بنیاد پر، ذرا اس حوالے سے بھی اس کا ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا ٹرمپ صاحب کو یہ کہنے کی اجازت بھی ہے کہ وہ اس قسم کی بات کر سکیں۔ جنگ عظیم اول کے بعد یورپ میں یہودی دربدر ہوئے، بے گھر ہوئے، قانون یہ پاس ہوا کہ تمام ممالک دنیا کے وہ یہودیوں کو جہاں جہاں مناسب لگے وہاں آباد کریں گے۔ اور یہ ان کی ایک ریسپانسبلٹی قرار دی گئی انٹرنیشنل ریسپانسبلٹی، کہ ان کو دنیا میں جہاں چاہیں آباد کریں۔ انہوں نے صرف فلسطین میں کیوں آباد کیا، صرف فلسطین کیوں نظر آیا ان کو، یورپ کے ہر ملک میں ان کو آباد کیا جا سکتا تھا، لیکن جنگ عظیم کے فوراً بعد 1917 میں دار فور نے وہاں ایک معاہدہ کر دیا اور اسرائیل کے وجود کے لیے انہوں نے زمینیں خریدی۔ پھر اس پر بستیاں قائم کی گئی اور جب بستیاں قائم ہو رہی تھی تو 1940 کی پاکستان کی قرارداد میں لکھا ہے کہ یہ بستیاں ناجائز بن رہی ہیں اور ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کی قرارداد میں ان کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی جو ہے وہ شامل ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی اپنی سب کمیٹی نے اپنے سفارشات کے پیراگراف 47 میں لکھا کہ کسی ملک میں بھی جبری آباد کاری نہیں ہو سکتی۔ تو فلسطینیوں کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا۔ وہاں کیوں جبر مسلط کیے گئے ان کے اوپر، اور اسی سپیشل کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے اپنی سفارشات میں کہ فلسطین کا ملک اوور پاپولیٹڈ ہے باہر سے کوئی آبادی وہاں نہ لائی جائے۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کی سب کمیٹی کی سفارشات کے باوجود وہاں پر باہر کے یہودیوں کو لا کر آباد کیا گیا۔ جب کہ وہ ان کے بقول اوور پاپولیٹڈ ہے مزید آبادکاری کی گنجائش وہاں پر نہیں تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ فلسطین میں تو معاشی حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں وہاں باہر سے لوگ نہ لائے جائیں مزید بوجھ ہوگا۔ یہ ساری چیزیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم ہوئی اور خود لیگ آف نیشنز کے آرٹیکل بائیس کی خلاف ورزی ہوئی کہ جبری آبادکاری نہیں ہونی چاہیے۔ اور فلسطین میں کی گئی، اب میں یہی کہوں گا کہ ہمیں پوری من حیث القوم یہ موقف اختیار کرنا چاہیے اور میں سلام پیش کرتا ہوں عرب لیگ کو کہ عرب لیگ نے کل مصر میں اجتماع کر کے ٹرمپ کے اس تجویز کو کلی طور پر مسترد کیا ہے۔ اور میں اس پر اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کی پوری آبادی کو اٹھا کر امریکہ میں آباد کیا جائے۔ اور تمام دنیا کے فلسطینیوں کو لا کر واپس اپنے سرزمین پر آباد کیا جائے۔ کیا ظلم ہو رہا ہے مسلمانوں کے اوپر، اور ہم ہیں کہ بس امریکہ کو ہم نے بادشاہ اکبر سمجھ لیا وہ جو اشارہ جو خواہشات رکھے گا ہم ان کے سامنے سر جھکا دیں گے۔ اور ٹرمپ سے اور کیا خوف ہے ٹرمپ صرف صدر نہیں ہے معاف فرمائیے کہ میں اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کرتا وہ صرف صدر نہیں ہے وہ بدمعاش صدر ہے ان کی بدمعاشی سے ڈرتے ہیں لوگ، یہ ہوتی ہے غیر ذمہ دارانہ ریاست جس کی مثال اس وقت دنیا میں اگر ہے تو امریکہ ہے۔ مسلمانوں کا خون بہایا گیا، آج بھی اس کے ہاتھوں سے انگلیوں سے مسلمانوں کا خون ٹپک رہا ہے اور پھر بھی وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، ان کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، کیا حق ہے ان کو، ہمارے پاکستان اور افغانستان کے معدنی ذخائر پر ان کی نظر ہے بیس سال سے ایک علاقے پر جنگ مسلط کرنا اور جنگ کے لیے ایک ہی علاقے کو پاکستان کے مغربی سرحدات کو فوکس کرنا یا تو امریکہ آئے گا اور ہمارے وسائل پر قبضہ کرے گا اور یا پھر ہماری نئی جغرافیائی تقسیم کا سبب بنے گا۔ نئے جغرافیائی نقشے وجود میں آئیں گے۔ تھوڑا عرصہ نہیں بیس سال کا عرصہ ایک علاقے میں جنگ ہو رہی ہے اور وہ پھیل رہی ہو اور حکومت کی رٹ کو ختم کر چکی ہو اور یہاں اسلام آباد میں بیٹھ کر ہم بڑی بڑی باتیں کر رہے ہوں کیا فائدہ ہے اس کا، ٹھنڈی زمین پر تو آپ بڑی بڑی باتیں کر سکتے ہیں لیکن پتہ تو چلے گا گرم زمین پہ، تو وہاں پتہ چل چکا ہے۔
اس اعتبار سے ہمیں ذرا اپنے تمام تر رویوں پہ نظر ثانی کرنی ہوگی اور پروکسی رول جو ہے ہمیں اپنا ختم کرنا ہوگا۔ 26ویں آئینی ترمیم میں بالخصوص عدالتوں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ ان کو کمزور کیا جا سکے۔ ایسی ترمیم لائی گئی تھی کہ جج ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہوں۔ جہاں چاہیں ان کو پھینکے ادھر اُدھر، ہم نے ناکام بنایا اس کو، لیکن 26 ویں ترمیم سے پہلے آرٹیکل 200 میں اگر ججوں کی تبدیلی کا ایک گنجائش موجود تھی آج اس گنجائش کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی گنجائشوں کا فائدہ اٹھانا یہ بھی بعض دفعہ بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے۔ اور آئین کی روح کے منافی ہوا کرتا ہے۔
اس پہلو پر بھی میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کے نوٹس میں یہ بات میں لا سکوں۔ اور ایسا اقدام جو ہے یہ منتخب حکومت نہیں کر سکتی، اس طرح کے اقدامات کرنا یہ اس بات کی غمازی ہے کہ حکومت عوام کی منتخب نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں سے چلتی ہے، احکامات وہاں سے آتے ہیں آئین یہاں تبدیل ہو رہا ہوتا ہے، قانون یہاں تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ کھیل کب تک چلتے رہیں گے۔
لہٰذا میں سوچتا ہوں ہماری باتوں کو ہماری اس فریاد کو مثبت طور پر لیا جائے اور اس کو ملکی مفاد میں سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے رویوں پر اور پالیسیوں پر ازسرنو سنجیدگی کے ساتھ نظرثانی کرنی چاہیے۔ میں نے آپ کا کافی وقت لے لیا میں آپ کا شکر گزار بھی ہوں لیکن کچھ باتیں تھیں جو میں نے کہا کہ آج آپ کی ملاقات سے ذرا فایدہ اٹھا لوں۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب