قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ڈی آئی خان میں جامعہ معارف الشریعہ میں ختم بخاری شریف و تقریب دستاربندی سے خطاب
24 جنوری 2025
بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
باب قول الله تعالى ونضع الموازين القسط ليوم القيامة وأن أعمال بني آدم وقولهم يوزن وقال مجاهد القسطاس العدل بالرومية ويقال القسط مصدر المقسط وهو العادل وأما القاسط فهو الجائر
وبالسند المتصل قال الامام الھمام امیر المومنین فی الحدیث محمد بن اسمعیل بن ابراہیم بن المغیرۃ بن البرجزبہ
حدثني أحمد بن إشكاب حدثنا محمد بن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم کَلِمَتَانِ حَبِيْبَـتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ، خَفِيْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِيْلَتَانِ فِيْ الْـمِيْزَانِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ،
حضرات علماء کرام، طلباء عزیز، بزرگان محترم، بھائیو اور دوستو! جامعہ معارف الشرعیۃ اور ان کے اساتذہ اور طلباء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پوری محنت کے ساتھ تعلیمی سال مکمل کیا اور اب یہ اخری حدیث جس کے لیے اس اجتماع کا اہتمام کیا گیا ہے آپ تمام دوستوں کی شرکت پر آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح بخاری کی ترتیب بڑی حکمت کے ساتھ رکھی ہے۔ سب سے پہلے کتاب الوحی، جس میں ضرورت وحی کا بھی بیان ہے اور ترجیحات وحی کا بھی بیان ہے۔ اس لیے کے تشکیل انسانی کا مدار وحی پر ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو عقل کی عظیم نعمت سے نوازا ہے کوئی دوسرا حیوان اس امتیاز میں انسان کی ہم سری نہیں کر سکتا، عقل بہت بڑا رہنما ہے۔ اور آج کی اس دنیا میں سائینسی ایجادات نئی ٹیکنالوجی نئے انکشافات اور اس دنیا کے پورے ارتقاء کا نظام اس میں عقل کا بہت بڑا کردار ہے۔ لیکن عقل میں خطاء و انحراف کا امکان موجود ہوتا ہے۔ عقل خارجی اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔ محبت میں غلبہ عقل معطل، غضب کا غلبہ ہو تو عقل معطل، شہوانی خواہشات غالب آجائے تو عقل معطل اور انسانوں کے اس جامعہ میں جو بڑے بڑے لوگ نظر آتے ہیں اور جو گمراہ ہوئے وہ بھی عقل کے اعتبار سے ذہین لوگ تھے۔ اور انہوں نے تکیہ اپنے عقل پہ کیا۔ تکیہ اپنے مطالعے پہ کیا۔ لیکن چونکہ ان کی تحقیق ان کے تبصرے ان کی تحریرات ان کی تقریریں وحی سے متصادم رہی تو ان کے پلے ہرچند کے عقل کی طاقت تھی اور بہت زیادہ تھی لیکن سوائے گمراہی کے ان کے دامن میں کچھ نہیں آیا۔ جیسے انسان کو اللّٰہ نے بینائی کی طاقت عطاء کی لیکن بینائی تب بینائی ہے جب اس کو خارجی روشنی مہیا ہو۔ آدھی رات ہے، گھپ اندھیرا ہے، کمرہ بھی بند ہے چراغ تک موجود نہیں ہے ہرچند کے آپ کی بینائی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں لیکن اب وہ بینائی دیکھ نہیں پا رہی۔ آپ کی رہنمائی نہیں کر سکتی۔ اسی طریقے سے عقل بہت بڑا رہنما ہے لیکن جب تک اس کو وحی کی روشنی مہیا نہیں ہوتی جب تک عقل وحی کے رہنمائی میں نہیں چلتا تب تک وہ بڑا رہنما ہونے کے باوجود بھی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے۔ تو امام بخاری نے کتاب الوحی سے آغاز کر کے آپ کو ہمیں سب کو اس طرف متوجہ کیا ہے۔ کہ اصل اور حقیقی رہنما وہ اللہ کی وحی ہے۔ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اور جس طرح اللہ کی وحی کی تشریح کی اور انسانیت کے سامنے رکھی وہ ہے اصل رہنما، چاہے آپ کے عقل پر پورا اترے یا نہ اترے۔ اگر ایک بات عقل پر پورا نہیں اتر رہی تو آپ کا حق ہے کہ آپ اس کے حقیقت تک پہنچیں۔ استاذ کے پاس جائیں، کسی ماہر کے پاس جائیں ان سے عقلی وجوہ معلوم کرے اور اطمینان حاصل کرے لیکن اگر ناکام ہوگئے، آپ کی عقلی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی تو پھر آپ کو اس وحی پر ایمان لاکر اس کی پیروی کرنی ہے۔ اور پھر کتاب الوحی میں جو پہلا باب آپ (امام بخاری رحمہ اللہ) لائے ہیں پہلی حدیث جو آپ لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے یعنی نیت سے اس پہ وزن پیدا ہوتا ہے جتنی آپ کی نیت خالص ہے اتنا ہی آپ کا عمل اور قول وزنی ہے اور جتنا جتنا آپ کے اخلاص میں کمی آتی ہے اتنا ہی اس کا وزن بھی گھٹتا رہتا ہے ابتدا میں تو آپ کو اس طرف متوجہ کیا کہ آپ کا تعلق چونکہ تحصیل عالم سے ہے علم حاصل کرنے کے لیے آپ نے گھر بار چھوڑا ہے وطن چھوڑا ہے گھر کی لذتیں چھوڑی ہیں تو یہاں پر بھی ضروری ہے کہ پہلے آپ کی نیت صاف ہو کہ میں خالص اللہ کے راستے میں نکل کر اور اللہ کی دی ہوئی دین کو سمجھنا چاہتا ہوں تو ان مدارس کے اندر وحی کے علوم کی حفاظت ہوتی ہے اور دنیا کی نظریں ان مدارس کی طرف ہیں کہ کسی طریقے سے امت کو ہم وحی کی رہنمائی سے محروم کر دیں اب چاہے اس طرح مغرب سوچتا ہو چاہے اس طرح ہمارے سیاہ و سفید کے مالک سوچتے ہوں چاہے اس طریقے سے ہماری بیوروکریسی سوچتی ہو چاہے ہمارا پارلیمنٹ سوچتا ہو چاہے ہمارے حکمران سوچتے ہوں اور جتنے بھی خوشنما الفاظ کے ساتھ بڑے معصوم معصوم جملوں کے ساتھ کہ ہم تو ان کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں ہم تو سوچتے ہیں کہ یہ بھی دنیوی علوم حاصل کرے تاکہ یہ بھی روزگار کمائیں بھئی تمہارے اپنے کالج اور یونیورسٹیوں سے فارغ گریجویٹس ان کو آج تک تم روزگار نہیں دے سکے اور دئے ہوئے روزگار ان سے چھین رہے ہو اور ہماری اتنی فکر لگی ہوئی ہے کہ ہم جو یہاں ان مدارس میں اور وحی کی حفاظت کے لیے دن رات اساتذہ لگے ہوئے ہیں وہ سارے اس سلسلے کو ترک کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اس دباؤ کو قبول نہیں کیا علم کے اندر تقسیم یہ بھی تو انگریز نے بنایا ہے جو سب سے پہلا مدرسہ 1857 کے بعد علی گڑھ میں قائم کیا تو اس کی نصاب سے قران نکالا اس کی نصاب سے حدیث نکالا اس کے نصاب سے فقہ نکالا اور یہ کہ آئندہ آنے والی نسلیں وہ اپنے آپ کو محض مسلمان تو کہہ سکیں گے لیکن وہ اپنے دین کے علوم سے اور وحی کے علوم سے ناواقف رہیں گے تو علماء کرام نے پھر یہ ذمہ لیا اور ایک طالب علم اور ایک استاد سے اس کا آغاز کیا اور جس چیز کا آغاز اخلاص نیت سے ہوا تھا یہ مثال بن گیا اس کی برکت ہے کہ آج ہمارے مدرسے و جامعات آباد، طلباء جوق در جوق، اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جتنا وہ ہمیں کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے تو یہ اللہ والا کام ہے اور اللہ ہی کی تائید کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔
کتاب الوحی کے بعد عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ عبادات کی بحث شروع ہو جاتی ہیں اعمال کی بحث شروع ہو جاتی ہے پھر کتاب الطہارت شروع ہو جاتی ہے پھر کتاب الصلوۃ شروع ہو جاتا ہے پھر کتاب الصوم شروع ہو جاتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الایمان لے آئے اس بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار ایمان پر ہے اور اخروی نجات وہ ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے آپ کے جتنے بھی اعمال صالحہ ہوں اگر ایمان نہیں تو اس کا کوئی وزن نہیں ہے اور علامہ قسطلانی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ کتاب الوحی بمنزلہ مقدمہ کے ہے اور فرماتے ہیں
ولما فرغ المؤلف من کتاب الوحی الذی ھو کالمقدمة لهذاالكتاب الجامع شرع ذكرالمقاصد الديني
وہ پوری کتاب الوحی کو مقدمے کا درجہ دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ابتداء کتاب الایمان سے ہوئی تو ابتداء بھی کتاب الایمان سے اور اختتام بھی کتاب التوحید پر پہلے بھی عقائد کا بیان اور آخر میں بھی عقائد کا بیان ابتداء میں کتاب الایمان کے تحت جو ابواب لائے گئے ہیں اور ایمان کے حوالے سے جو احادیث آپ نے روایت کی ہیں اس میں ایمان کا ایجابی اور مثبت پہلو ہے یہ بات آپ کے اندر ہوگی تو ایمان ہے، یہ آپ کے اندر ہے تو یہ ایمان ہے ، یہ آپ کے اندر ہے تو یہ ایمان ہے اور آخر میں عقائد کا ذکر ہے لیکن سلبی پہلو سے کہ اگر آپ کے اندر یہ ہے تو یہ ایمان کی نفی ہے اگر یہ عقیدہ ہے تو یہ ایمان کی نفی ہے اور اسی لیے فرق باطلہ پر زیادہ تنقید کی گئی ہے اور جرح کی گئی ہے کہیں معتزلہ پر کہیں جہمیہ پر کبھی کس پر کبھی کس پر اور اس طریقے سے اپ نے ابتداء میں بھی لوگوں کو ایمان کی اہمیت سے واقف کیا اور آخر میں بھی آپ نے عقائد ایمان کے حوالے سے تعلیم مناسب سمجھی۔
کتاب التوحید کے تحت اٹھاون ابواب ہیں اور یہ آخری باب ہے
باب قول الله تعالى ونضع الموازين القسط ليوم القيامة
لیکن کتاب الایمان کے بعد بھی آپ نے کتاب الطہارت شروع کی نہ کتاب الصلاۃ نہ کتاب الصوم بلکہ کتاب الایمان کے بعد آپ کتاب العلم لے آئے کہ بہرحال وہ اعمال ہیں اور جب تک دین پر عمل کرنے کے لیے آپ کے پاس اس کا علم موجود نہ ہو تو عمل کیسے کرو گے؟ اور کتاب العلم میں بھی اس آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
کہ جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطاء کیا گیا اس کو بلند درجے دیے گئے اس کی شان کو بڑھا دیا گیا چونکہ علم سے ایمان کے بعد پھر علم ہے اور دونوں بلندی درجات کا سبب اور ذریعہ بنتے ہیں عند اللہ تو اس ترتیب کے ساتھ کتاب الایمان کے بعد پھر کتاب العلم لے آئے۔
ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ
تو ابتداء میں إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور آخر میں کہہ دیا کہ اب یہ تولے بھی جائیں گے جتنی آپ کی نیت خالص ہے اتنا ہی اس کا وزن زیادہ ہوگا اور جتنا آپ کے اخلاص میں کمی ہوگی اسی کے مطابق آپ کے اعمال تول دیے جائیں گے اپ کو بتا دیا جائے گا تو اس مناسبت سے اب آپ کو بتا رہے ہیں ونضع الموازين القسط ليوم القيامة یہ وزنی اعمال ہیں۔
ہم رکھیں گے ترازو انصاف کے قیامت کے روز، موازین جمع کا صیغہ ہے مادہ اس کا وزن ہے “و ز ن” تو اصل میں میوزان تھا واو ساکن ما قبل او مکسور تم بیا بدل کرد (واو کو یا سے تبدیل کردیا گیا) میزان ہوگیا۔ تو “موازین” یا تو میزان کی جمع ہے جیسے مواعید میعاد کی جمع ہے یعنی ترازو بکثرت ہوں گے اور زیادہ ترازو ،یا تو باعتبار اشخاص کے، کہ ہر شخص آئے گا اور اس کے اعمال تولے جائیں گے اور اس کے مطابق اس کو فیصلہ دیا جائے گا اور یا باعتبار اعمال کے ہیں کہ ہر عمل کا اپنا ترازو ہوگا۔ ایمان کو اپنے ترازو سے تولا جائے گا نماز کو ترازو سے تولا جائے گا روزے کو اپنی ترازو سے تولا جائے گا زکوۃ کو اپنی ترازو سے تولا جائے گا خیرا صدقات کو اپنی طرف سے تولا جائے گا جس طرح سونا چاندی کے لیے الگ سا ایک ترازو ہوتا ہے کوئی چاول ہو گندم ہو اس کو تولنے کے لیے اس کا الگ سا ایک ترازو ہوتا ہے گھاس پھوس صاحب تولتے ہیں لکڑیاں تولتے ہیں تو اس کا اپنا ترازو ہوگا پتھر اپ تولیں گے تو اس کا اپنا ترازو ہوگا کوئلہ تولیں گے تو اس کا اپنا ترازو ہوگا اور اج کل تو آپ نے اڈوں پہ دیکھا ہوگا پورا ٹرک جا کر اس کے اوپر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ تولا جاتا ہے اسی طریقے سے قیامت کو روز بھی مختلف اعمال کے اپنے اپنے ترازو ہوں گے۔ لیکن جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ میزان ایک ہوگا اور جمع کا صیغہ یہ تفخیم کے لیے لایا گیا ہے جس طرح ہم کبھی احترام میں ایک معزز مہمان ہمارے آتے ہیں وہ ہوتا ایک فرد ہے لیکن ہم جمع کے صیغے سے اس سے بات کرتے ہیں آپ تشریف لائے ہیں وہ تقریر فرما رہے ہیں وہ گفتگو کر رہے ہیں تو ہم جمع کے صیغے سے ایک فرد کا ذکر کرتے ہیں اس کے اعزاز کے لیے اس کی توقیر کے لیے جیسے کہ قران کریم میں ہے
كَذَّبَتۡ قَوۡمُ نُوۡحِ ۨالۡمُرۡسَلِيۡنَ
قوم نوح نے رسولوں کو جھٹلایا اب حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں تو ان کے علاوہ کوئی اور پیغمبر تھا ہی نہیں تو آپ کے وقت میں کوئی دوسرا پیغمبر نہیں تھا اور پھر کہتے ہیں کہ قوم نوح نے مرسلین کو جھٹلایا تو یہ بے اعتبار تفخیم کے ہے ان کی قدرت ممزلت کو سامنے رکھتے ہوئے جمع کا صیغہ اختیار کیا گیا ہے ورنہ واقعۃ تو ایک ہی رسول تھا۔ اس صورت میں پھر یہ موازین موزون کا جمع ہوگا جیسے مشاہیر مشہور کا جمع ہے
وَأَقِيمُواْ ٱلۡوَزۡنَ بِٱلۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُواْ ٱلۡمِيزَانَ
یعنی لا تنقصواالموزون۔ جس چیز کو تولا جاتا ہے اس میں کمی نہ کرو۔
ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ۔
فَمَن ثَقُلَتۡ مَوَٰزِينُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ۔
وَمَنۡ خَفَّتۡ مَوَٰزِينُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓاْ أَنفُسَهُمۡ فِي جَهَنَّمَ خَٰلِدُونَ
تو یہاں موازین سے موزونات مراد ہیں اور ہم رکھیں گے ترازو عدل کے
قسط صفت ہے موازین کی، موصوف اور صفت کے اندر مطابقت ضروری ہے یہاں موصوف جمع ہے اور صفت مفرد ہے تو یہاں تو ہم اس طرح عبارت بنائیں گے کہ
ونضع الموازین لاجل القسط یا ونضع الموازین ذوات القسط اور یا یہ کہ قسط مصدر ہے مصدر میں مفرد تثنیہ اور جمع برابر ہوتے ہیں
میزان قسط ، میزانان قسط ، موازین قسط۔ تو بہ اعتبار مصدر کے وہ مفرد ہو کر بھی جمع کا صفت بھی بن سکتا ہے تثنیہ کا بھی بن سکتا ہے۔
لیوم القیامة یا تو لام بمعنی فی کہ ہے فی یوم القیامة۔ یا لام تعلیل کے لیے ہے لحسابہ یوم القیامة، یا لام توقیت کے لیے ہے لوقت یوم القیامہ، یا لام زائد ہے ونضع الموازین القسط یوم القیامہ،
وان اعمال بنی آدم و قولھم یوزن
وانأعمال بنی آدم و اقوالھم پھر توزن پڑھا جائے گا۔
کیونکہ اعمال اور اقوال بتاویل جماعة کے پھر تانیث کے صیغے کے ساتھ ذکر ہوتا ہے توزن، لیکن یہاں پر چونکہ قولھم کا ذکر ہے تو اقرب کا اعتبار ہوگا اس لیے یوزن لایا گیا ہے۔ اور یہ رد ہے معتزلہ پر، معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ اعمال و اقوال یہ اعراض ہیں والأعراض لا توزن، تولا جوہر کو کیا جاتا ہے عرض کو نہیں، لیکن یا تو ہم اس کا تاویل یہ کریں گے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت ہے کہ اعمال اجساد ہو جائیں گے ٹھوس ہو جائیں گے جسم دے دیا جائے گا ان کو، تو پھر تو سوال ہی نہیں ہوتا اور یا یہ کہ اعمال کے صحائف تولے جائیں گے جس طرح حدیث بتطاقه ہے، یا اعمال کے جوارح تولے جائیں گے جیسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ درخت پہ چڑھے ہوئے تھے پنڈلی آپ کی نظر آئی پتلی پتلی تو صحابہ ہنسنے لگے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ابھی تم ہنس رہے ہو لیکن پھر قیامت کے دن ان کے وزن کا پتہ چلے گا تو جیسے جوارح تولے جائیں گے۔
اب أعمال بنی آدم اور اقوال امام صاحب کہہ رہے ہیں تولے جائیں گے یہ رد ہے معتزلہ پر اور معتزلہ کی رائےتو بدیہی طور پر غلط ثابت ہو گئی ہے جیسے یہ احمق لوگ تھے ان کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ کل لوگ ہنسیں گے ہمارے اوپر، اب بخار عرض ہے لیکن تولہ جاتا ہے رفتار یہ عرض ہے لیکن گاڑی میں میٹر لگے ہوتے ہیں پتہ چلتا ہے، تو اعراض اس دور میں کوئی کہے کہ وہ نہیں تولے جاسکتے اس کا تو لوگ مذاق اڑائیں گے
وقال مجاہد القسطاس العدل بالرومیة،
قسطاس رومی زبان میں عدل کو کہا جاتا ہے۔ اب یہ امام صاحب کی ایک عادت ہے کہ ترجمة الباب میں وہ جو آیت لاتے ہیں اور اس کے اندر کوئی ایسا لفظ موجود ہو جو قرآن کے کسی اور جگہ پر اسی معنی سے دوسرا لفظ موجود ہو تو وہ بھی لاتے ہیں اس کا ذکر بھی کر جاتے ہیں۔ تو القسطاس (بضم القاف) قسطاس (بکسرالقاف) بھی ہے قسطاس بھی ہے بمعنی عدل کے تو قسط کے ساتھ کے مادہ ایک ہے مصدر ایک ہے, تو القسطاس بھی لے آئے یہاں پر۔ کہتے ہیں یہ رومی زبان کا لفظ ہے اب اللہ فرماتے ہیں
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا
میں نے تو عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ اور اللہ رب العزت نے جو کلام عربی زبان میں نازل کیا وہ فصاحت و بلاغت کے مقام اعجاز پر فائز ہے اتنا فصیح و بلیغ کہ دنیا کی کوئی بلاغت اس کا مقابلہ نہ کر سکے وہاں پر پھر رومی زبان کا لفظ عجمی زبان کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی؟
تو قرآن کریم جیسے فصیح و بلیغ کلام کے اندر عجمی لفظ کو لانا یہ کہیں قرآن کی فصاحت و بلاغت یا اس کے اعجاز کو متاثر تو نہیں کرے گی؟
تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ توافق لغتین بھی ہے کہ رومی زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے اور عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس صابن کا لفظ ہے تو پشتو والے بھی کہتے ہیں ہماری زبان کا ہے سرائیکی بھی کہتے ہیں ہماری زبان کا ہے پنجابی بھی کہتے ہیں ہماری زبان کا ہے فارسی والے بھی صابن کہتے ہیں عربی بھی صابن کہتے ہیں۔ صندوق ہے ہم بھی صندوق کہتے ہیں فارسی والے بھی صندوق کہتے ہیں عربی والے بھی صندوق کہتے ہیں تو یہ توافق لغتین اس اعتبار سے یہ عربی لفظ بھی ہو سکتا ہے اور رومی بھی ہو سکتا ہے اور عربی میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ عربی ہی بن جاتا ہے معرب ہو جاتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو فصاحت و بلاغت ہے اور اس اعتبار سے جو اس کا اعجاز ہے اس سے مراد و مقصود اسلوب کلام ہے اسلوب عربیت ہے تو کوئی ایک آدھ لفظ اگر پورے قرآن میں کسی عجمی زبان سے لے لیا جائے تو چونکہ وہ اسلوب عربی کو متاثر نہیں کرتا اسلوب کلام کو متاثر نہیں کرتا تو اس کی فصاحت وبلاغت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اس ایک لفظ سے کسی قسم کا کوئی قرآن کی بلاغت پر اثر نہیں ہوتا۔
ویقال القسط مصدرالمقسط
قسط مقسط کا مصدر ہے اور مقسط تو ثلاثی مزید فیہ ہے اقساط سے ہے اور یہ “ق س ط ” ثلاثی مجرد ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ہم مصدر المصدر اسے کہیں گے کیوں کہ مادہ ایک ہے اس لیے اپ نے کہہ دیا کہ قسط المصدر المقسط وھوالعادل۔
واماالقاسط فھو الجائر اور جب مقسط ہوگا تو وَ اَقْسِطُوْاؕ- اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اور اگر یہ قسط سے ہے ف کلمہ پر فتحہ ہے تو وامالقاسط فھو الجائر، جیسے قرآن کہتا ہے وَ اَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا۔
تو بمعنی جور کے آتا ہے۔ تو یہ ایک ہی لفظ ہے اور یہ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے عدل کے معنی میں بھی استعمال ہوگیا اور جور کے معنی میں بھی استعمال ہوگیا جس طرح لفظ بیع ہے عربی میں وہ بیچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ خریدنے کے بارے میں استعمال ہو جاتا ہے۔
وبالسند المتصل قال الامام محمد ابن اسماعیل حدثنا احمد ابن اشکاب قال حدثنا محمد ابن فضیل عن عمارة بن القعقاع عن ابي ذرعة ’’عن أبي ھريرۃ -رضي اللہ عنہ-، قال: قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: کَلِمَتَانِ حَبِيْبَـتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ، خَفِيْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِيْلَتَانِ فِيْ الْـمِيْزَانِ۔
ثَقِيْلَتَانِ فِيْ الْـمِيْزَانِ یہ حدیث باب کی مطابقت ہے ترجمہ الباب کے ساتھ ونضع الموازین القسط لیوم القیامہ، موازین جمع میزان کی ہے اور حدیث میں بھی ثَقِيْلَتَانِ فِيْ الْـمِيْزَانِ کا لفظ اس کی مطابقت پر دلالت کرتا ہے۔
تو کلمتان اب آگے جو آئے گا سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ یہ تو دو کلام ہیں تو مناسب تو یہی تھا کہ کلامان حبیبتان علی الرحمن تو یہاں پر تو آپ نے کلمتان تو لفظ کلمہ کا اطلاق بعض دفعہ کلام پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ ورسوله۔ اب یہ کلام ہے حقیقت میں تو لیکن اس کو کلمہ کہتے ہیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ بظاہر تو کلام ہے لیکن اب اس کو کلمہ کہتے ہے
كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ۔
كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ
اب یہ لفظ کلمہ استعمال ہوا ہے لیکن پورے کلام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
جیسے آج کل آپ کا عرب مہمان آتا ہے تو ہم ان کے اعزاز میں جب اس کو سٹیج پر بلاتے ہیں کہ اب شیخ فلانا جو ہے سیلقی کلمتہ اپنی تقریر اب آپ کے سامنے رکھیں گے حالانکہ وہ تو لمبا کلام ہوتا ہے لیکن لفظ کلمہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کلمتان موصوف ہے
حَبِيْبَـتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ صفت اول، خَفِيْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ صفت دوم، ثَقِيْلَتَانِ فِيْ الْـمِيْزَانِ صفت سوم۔
ان تینوں صفات کے ساتھ مل کر یہ کلمہ صفت اور موصوف بن کر خبر مقدم بن جاتے ہیں۔ اور چونکہ جملہ اسمیہ کے اندر مقصود بالذات مبتدا ہوتا ہے تو جب کبھی خبر کو آپ مقدم کرتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہے کہ مبتدا کے اہتمام شان کی بنیاد پر آپ اشتیاق پیدا کرتے ہیں دلوں میں، کہ اچھا اتنی اچھی بات وہ کون سی ہوگی؟
تو پہلے آپ کو کہا کَلِمَتَانِ حَبِيْبَـتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ پھر خَفِيْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ پھر ثَقِيْلَتَانِ فِيْ الْـمِيْزَانِ، اشتیاق بڑھتا جا رہا ہے بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ دو کلمے ہوں گے کیا؟ تو کوئی پورا قرآن کریم تو ہمیں نہیں سنا رہے؟ کوئی لمبی چوڑی دعائیں تو نہیں ہمارے سامنے رکھ رہے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ ہے۔
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص مجلس سے اٹھتا ہے اور اٹھنے سے پہلے یہ کہہ دے سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ تسبیح و تحمید کرنے سے مجلس کے اندر جتنی بھی کمزوریاں غلطیاں آپ سے ہوئی وہ سب کے سب دھل جاتی ہے۔
سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لااله الا انت استغفرك واتوب اليك
تو تمام گناہ دھل جاتے ہیں، تو آپ بھی آٹھ سال جس مجلس میں بیٹھے رہے ہیں وہ جو صرف نحو سے شروع کی گئی مجلس اور آٹھ سال پورے کر کے اب آپ اٹھ رہے ہیں اس مجلس سے تو آج میں اب کہہ دیں
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ
سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيْمِ
اللہم صلی علی سیدنا مولانا محمد وبارک وسلم علیک، مبارک ہو آپ سب کو، اور ہمارے استاد فرمایا کرتے تھے مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کہ تم لوگ سمجھو گے کہ اب ہم عالم بن گئے ہیں تو فرماتے تھے کہ ابھی آپ عالم نہیں بنے ابھی آپ لوگ عالم بننے کا استعداد تم نے حاصل کر لیا ہے اس کے بعد اگر تم عالم بننا چاہتے ہو تو اب بن سکتے ہو تو مزید بھی آپ کو اس میدان میں محنت کی ضرورت ہے اور دوسرے استاد ہمیں نصیحت کرتے تھے تو اس میں ایک بات وہ کرتے تھے کہ اپنے آپ کو تنظیم سے وابستہ رکھو اب ہمارے اور آپ کے پاس جو اپنے اکابر کی امانت ہے وہ جماعت ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک ہوتی ہے مختلف ہر ایک شعبے سے وابستہ تنظیم وکیلوں کی تنظیم الگ ہوگی ڈاکٹروں کی تنظیم الگ ہوگی زمینداروں کی تنظیم الگ ہوگی بازار کی دکانداروں کی تنظیم الگ ہوگی کچھ انجمنیں ہوتی ہیں ایک وہ کہ جو جامع نظریہ کے حامل جماعت ایک باقاعدہ تمام شعبوں پرمحیط اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ایک جامع نظام رکھتی ہو ایک جامع منشور رکھتی ہو اب اگر وہ جامع نظریہ وہ قران سنت کے تابع ہے اور قران و سنت سے اخذ کیا گیا ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں وہ نظریہ تشکیل دیا گیا ہے تو پھر ایسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا واجب ہے
علیکم بالجماعة والاطاعة
جب علیکم مقدم ہو گیا تو تقدیم ماحقہ التاخیر لزوم کا فائدہ دیتا ہے یعنی تم پر لازم ہے کہ جماعت کے ساتھ وابستہ رہو اور پھر جماعت جو فیصلہ کرے اس کی اطاعت کرو اور ایک دوسری روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب
جماعت رحمت ہے اور باہمی تقسیم یہ ایک عذاب ہے اب اگر عقیدہ صحیح ہے تو صحیح عقیدے پر بنی ہوئی جماعت کبھی کبھی کسی وقت بھی کسی مسئلے پر کسی جزوی مسئلے پر اجتہادی رائے دے سکتا ہے اور وہ رائے غلط ہو سکتی ہے تو اگر کبھی کسی مرحلے پر ایسی جماعت اجتہادی طور پر کوئی غلط فیصلہ بھی کر لے تو وہ اس جماعت سے لا تعلقی کا جواز فراہم نہیں کرے گا جیسے ایک بڑا درخت ہے سایہ دار ہے اپ سفر کر رہے ہیں تھکے ہارے ہیں اور اپ چاہتے ہیں کہ میں کچھ ذرا سانس لے لوں کچھ وقت کے لیے میں ارام کر لوں اب وہ گھنا درخت اس کے اندر ایک شاخ یا دو شاخیں یا کچھ پتے وہ خشک ہو چکی ہیں یہ ایک دو پتوں کا خشک ہو جانا ایک آدھ شاخ کا خشک ہو جانا یہ آپ کو اس درخت سے بے نیاز نہیں کر سکتا اپ کو جانا پڑے گا اس کے نیچے بیٹھنا پڑے گا اور باطل نظریے کے حامل جماعت اس سے لاتعلق ہونا پڑے گا ممکن ہے کہ کسی موقع پر ایک باطل نظریے کی حامل جماعت اجتہادی طور پر صحیح فیصلہ کر لے وقت کے مطابق وہ کسی مسئلے پر وہ صحیح رائے دے دے تو یہ ایک ادھ کوئی صحیح رائے دے دینا یہ اس جماعت سے وابستگی کا جواز فراہم نہیں کر سکتا جیسے ایک درخت ہے بڑا درخت ہے لیکن وہ جھڑ چکا ہے اس کے پتے خشک ہو چکے ہیں اب وہ کوئی سایہ نہیں رکھتا اپ جاتے ہیں ایک آدھ شاخ اپ کو نظر آتی ہے کہ اس میں کچھ پتے جو ہیں وہ سبز ہیں ابھی تک وہ مرجھائے نہیں ہیں تو یہ ایک آدھ شاخ اور چند پتوں کا تروتازہ ہونا یہ آپ کو سہولت نہیں دے سکتا یہ درخت آپ کے لیے سایہ نہیں مہیا نہیں کر سکتا یہ آپ کے ارام کی حاجت کو پورا نہیں کر سکتا لہذا ایسے درخت سے دور رہنا پھر ضروری ہو جاتا ہے اور اس درخت کے نیچے بیٹھنا بھی واجب ہو جاتا ہے جماعت کی شکل بھی ایسی ہی ہے کہ جو جماعت قران و سنت کے تمام اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بنائی گئی ہو اس جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا اور پھر جب مملکتی امور پر بات ہوگی ظاہر اس میں شورائیت ہوگی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتا تو میں قرآن مجید میں اس کا حل تلاش کرتا کامیاب نہ ہو پاتا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کا حل تلاش کرتا میں کامیاب نہیں ہوتا تھا تو میں عابدین زاہدین واہل الرائے ان کو اکٹھا کرتا ان کی مشورے سے بحث ہوتی وہ جس فیصلے پر پہنچ جاتا ہے میں اس کے مطابق حکم جاری کر دیتا یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی روایت ہے یہی روایت حضرت عثمان کی روایت ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تو باقاعدہ حکم دیا کہ اپنی انفرادی رائے سے مملکت کے فیصلے نہیں کرنا تو جب بات مملکت کی ہوگی ملت کی ہوگی امت کی ہوگی قوم کی ہوگی تو ان کے معاملات میں ایک فرد عالم کی انفرادی رائے وہ حجت نہیں ہوسکے گی جب تک کہ علماء کی جماعت اس پر ایک اجتماعی رائے قائم نہ کرے اسے کہتے ہیں اجتماعیت اسی بنیاد پر جمعیت علماء قائم کی گئی تھی اب یہ مدرسہ جس میں ہم بیٹھے ہیں اور ایک جماعت جس سے ہم وابستہ ہیں جب ہم ان کی بنیاد تلاش کریں گے تو اس مدرسے کا پہلا طالب علم اس مدرسے کی بنیاد میں جو پہلا طالب علم ہے وہ محمود حسن ہے اور جمعیت علماء کی بنیاد میں وہی محمود حسن پھر شیخ الہند کی صورت میں اس کا آغاز کرتا ہے تو اس حوالے سے بھی جماعت کو سوچنا چاہیے ہر ایک کو تنظیم سے وابستہ رہ کر کام کرنا چاہیے انفرادی طور پر اور توانائی یا کبھی ضائع ہو جاتی ہیں اور یہی چیزیں ہمیں اپنے اکابر سے ملی ہیں ہمیں اکابر سے دو چیزیں ملی ہیں ایک نظریہ اور ایک اس نظریے کے لیے کام کرنے کا رویہ رویہ بھی ہمیں وہی رکھنا چاہیے اعتدال کے رویے نفرتوں سے پاک رویے کسی شدت کسی تعصب کسی نفرت کی طرف جانے کی بجائے ہمیں لوگوں کو دلیل سے سمجھانے کی ضرورت ہے تو دلیل سے سمجھانے کے لیے دلیل کو بھی پڑھنا پڑتا ہے نا تو آپ حضرات مولوی صاحبان بن گئے اور خدا کرے اب اور تکڑے مولوی صاحبان بن جائیں تو اپ جانتے ہیں کہ ایک ہے نفس مسئلے کا ادراک مسئلہ معلوم ہو گیا تو یہ مسئلہ معلوم ہو جانا یہ تو علم ہے اور مسئلہ تو امی کو بھی علم ہوتا ہے عام دیہاتی بھی جانتا ہے کہ جماعت فرض ہے روزہ فرض ہے زکوٰۃ فرض ہے زنا حرام ہے شراب حرام ہے چوری حرام ہے تو ہر ایک کو پتہ ہے لیکن جب اس مسئلے کے پیچھے اپ کو اس کی علت معلوم ہو جائے اس کی دلیل معلوم ہو جائے پھر اس کو کہتے ہیں فقہ، مَن يُرِدِ اللَّهُ به خَيْرًا يُفَقِّهْهُ في الدِّينِ اللہ تعالی جس کے لیے خیر کا ارادہ فرماتے ہیں اس میں دین کو رسائی ایسی رسائی کہ جس سے عوامر اور نواہی کی معرفت آپ کو حاصل ہو جائے۔ دلیل آپ کو مل جائے تو پھر آپ فقیہ ہوں گے اور اس کے بعد کہ آپ کو مسئلہ بھی معلوم ہو گیا مسئلے کے پیچھے علت بھی معلوم ہو گئی لیکن اب لوگوں کے سامنے مسئلہ رکھنا اس وقت اپ نے کون سی بات کرنی ہے کس طرح کے آدمی کے ساتھ آپ نے اس کے مزاج کے مطابق کیسی بات کرنی ہے دلیل کو کس حکمت کے ساتھ ان کے دل میں بات بیٹھ جائے تو جس کو یہ چیز معلوم ہو گئی کہ میں نے کون سی بات کب کرنی ہے کس طرح کرنی ہے کتنی کرنی ہے؟ اس کو کہتے ہیں حکمت۔ اب جب علم بھی آپ کے پاس آجائے علم کے پیچھے اس کی علت بھی اپ کو معلوم ہو جائے اور پھر اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے کا موقع و محل بھی معلوم ہو جائے اور انداز بیان بھی اپ کو آجائے تو یہ تینوں چیزیں جو کسی اندر جمع ہو جاتی ہیں اس کو کہتے ہیں عالم ربانی، وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا، تو فقہ کے لیے بھی اللہ جب خیر کا ارادہ کرتے ہیں۔ اور حکمت تو پھر اس سے بڑھ کر ہے فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا تو اس اعتبار سے ان علوم کی خدمت کرنی ہے علم حاصل کر لیا اور اپنے پاس جمع کر لیا اس کا کوئی معنی نہیں ہے، ہم دعوی کرتے ہیں العلماء ورثۃ الانبیاء علماء انبیاء کے وارث ہیں، انھم لم یورثوا دینارا ولا درھما، انہوں نے پیسے روپے کو میراث میں نہیں چھوڑا کہ وہ ہم پر روپے پیسے بانٹتے رہیں زمینیں بانٹتے رہیں ہمارے اوپر ،انہوں نے علم بانٹا ہے اللہ کی وحی بانٹی ہے ان کے علوم آپکے پاس آگئے ہیں اور جہاں ساری دنیا کے علوم موجود ہیں وہاں سب سے اچھا علم جو اللہ کی براہ راست وحی ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان کے ساتھ پوری امت میں تقسیم کی گئی ہے ہمیں اس کی طرف جانا ہے تو یہ مقام اگر ہمارے اندر حاصل ہو جائے کہ ہم جماعت سے وابستہ رہیں توانائیاں خوامخواہ ضائع نہ کریں اخلاص نیت کے ساتھ اس میں پیسے کی لالچ ہو نہ کرسی کی لالچ اور جب یہ دو چیزیں آجاتی ہیں تو پھر اس پر بھی وعید آئی ہوئی ہے
تَعِسَ عَبْدُ الدينار، تَعِسَ عَبْدُ الدرهم، تَعِسَ عَبْدُ الخَمِيصَة، تعس عَبْدُ الخَمِيلَة، إن أُعْطِيَ رَضِيَ، وإن لم يُعْطَ سَخِطَ، تَعِسَ وانْتَكَسَ، وإذا شِيكَ فلا انتَقَشَ، طُوبَى لعبد آخذ بعِنَانِ فرسه في سبيل الله، أشعث رأسه، مُغْبَرَّةً قدماه، إن كان في الحِرَاسَةِ كان في الحِرَاسَةِ، وإن كان في السَّاقَةِ كان في السَّاقَةِ، إن استأذن لم يُؤْذَنْ له، وإن شَفَعَ لم يُشَفَّعْ
روپے پیسے کا بندہ ہے جو لباس کا بندہ ہے جو عہدے کا بندہ ہے رسول اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ہلاک ہوگیا منہ کے بل گرا ان کے پاؤں میں ایسا کانٹا چبا جو نہ نکلا اور ایک اخلاص سے بھرا گمنام سپاہی ہے دنیا میں بشارت دی اس کو جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے اترنے کے لیے تیار کھڑا ہے اور گھوڑے کے باگ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں اور اپنی جان پر کوئی نظر اس کی نہیں ہے سر پراگندہ پاؤں گرد سے اٹے ہوئے اور ایسا گمنام سپاہی ہے کہ اگر چھٹی مانگتا ہے تو اس کو کوئی چھٹی بھی نہیں دیتا اور اگر وہ کسی کی سفارش کرتا ہے سفارش بیچارے کی نہیں سنتا لیکن ڈیوٹی ایسے دیتا ہے کہ اگر آپ کہیں کہ رات کو آپ نے پہرا دینا ہے تو پہرا دیتا ہے اور آپ اسے کہیں کہ قافلے کے پیچھے پیچھے آئیں کوئی رہ جائے سامان رہ جائے بندہ رہ جائے سنبھال لو اس کوپیچھے، ہر ڈیوٹی جو اپ اس کو حکم دیں وہ دیتا رہتا ہے لیکن وہ کسی عہدے کے لیے نہیں آتا خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے میدان ہو سکتا ہے اس درجے کا جو ایمان ہے اس درجے کا جو اخلاص ہے اس کی کوشش کرنی چاہیے اب محنت کے میدان میں ہے ہم نے کوشش کرنی ہے اس مقام تک پہنچنے کے لیے اور اس کے لیے اس ماحول کو استعمال کرنا ہے اگر عالم دین بھی ان تمام تر دروس کو پڑھنے کے بعد پیسے اور عہدے کے لالچ میں میدان میں اترتا ہے اس نے کیا کما لیا؟ ہاں ہجرت کی اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کے لیے تسلیم کی جائے گی ہجرت کی دنیا کے لیے تو دنیا نصیب ہو جائے گی عورت کی پیچھے چلا گیا تو عورت مل جائے گی اس کو، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا والے کو اور ایک عورت کے پیچھے آنے والے کو نہ مدینہ سے نکالا نہ جماعت سے نکالا، کوشش کی جائے کہ جب ایسے لوگ جماعت میں آتے ہیں ان کو اپنے اندر جذب کیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہ کرے۔ جو جاہلیت سردار تھے بڑے تھے اسلام میں آنے کے بعد بھی ان کا وہ عزت احترام برقرار رہے گا ورنہ کیا تاثر ملے گا پہلے تو ہم بڑے معزز لوگ تھے اسلام میں ائے تو ہمیں کوئی پوچھنے والی نہیں ہے نہیں عزت توقیر اپنی جگہ پر ہے اور کوشش کرو کہ اس کو اس نیت کی طرف لے اؤ کہ وہ آپ کی نیت کے ساتھ جذب ہو جائے۔ تو اس اعتبار سے ہمیں اپنے کام کرنے ہیں جدوجہد کرنی ہے باقی مشکلات اتی ہیں جو میدان ہمارا ہے واقعی سارا کا سارا مشکلات کا میدان ہے کوئی راحت کا میدان نہیں ہے لیکن اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہے تو ہر وہ جدوجہد اور محنت اور کوشش کہ جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہو جہاد کہلاتا ہے اور جہاد کوئی نماز کی طرح فرض نہیں ہے نماز کا نہ وقت تبدیل ہوتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہوتا ہے روزے کا وقت تبدیل ہوتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہوتا ہے حج کانہ وقت تبدیل ہوتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہوتا ہے زکوۃ کا نہ وقت تبدیل ہوتا ہے نہ طریقہ تبدیل ہوتا ہے جس طرح فرمایا کہ اسی طرح ہے لیکن جنگ کے لیے تدبیر وہ حالات کے تحت ہوا کرتے ہیں کبھی جنگ کا طریقہ یوں تو کبھی جنگ کا طریقہ یوں، کبھی اپ دعوت سے کام چلا رہے ہیں کبھی آپ جدوجہد سے کبھی آپ تحریکوں سے اور اس سے آگے بھی اگر مشکل میدان آتا ہے تو ابھی تک تو پاکستان میں علماء نے اس کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا ہے اور نہیں اس حوالے سے کوئی ان کے واضح ہدایات موجود ہیں لیکن یہ سب چیزیں ہمیں حکمت کے تحت کرنی ہوں گے شوریٰیت کی بنیاد پر علماء کے اتباع میں کرنے ہوں گی اپنے سر پر طے کر لینا کہ جو میں کہتا ہوں وہی دین ہے جو میں کہتا ہوں وہی شریعت ہے جو میں کہتا ہوں وہی جہاد ہے یہ چیزیں جو ہیں چلتی پھر نہیں ہیں رک جاتی ہیں تو اللہ تعالی ہماری صحیح رہنمائی فرمائے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
تصحیح: #یحیی_احمد