قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعہ خالد بن ولید وہاڑی میں استحکامِ پاکستان کانفرنس سے خطاب
14 جنوری 2025
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖۙ وَلَوۡ كَرِهَ الۡمُشۡرِكُوۡنَ۔ صدق الله العظیم
جناب صدر محترم، گرامی قدر حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب اور برادران عزیز، علماء کرام زعمائے علاقہ، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو! ایک طویل عرصے سے میں ضلع وہاڑی میں نہیں ا سکا ہوں کئی سالوں سے جامعہ خالد بن ولید کے مہتمم اور حضرت مخدوم محترم مولانا محمد قاسم ظفر صاحب رحمہ اللہ کے صاحبزادگان دعوت دیتے رہے میرا بھی اشتیاق تھا دونوں طرف سے اگ برابر لگی ہوئی کی کیفیت تھی اللہ تعالی نے اس حاضری کے لیے آج کا دن مقرر فرمایا اور میرے لیے بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ میں جامعہ کی اس عظیم اجتماع میں اور یہاں کے فضلہ کرام کی دستار فضیلت کے اس تقریب میں اپ کے ساتھ شریک ہو رہا ہوں۔
استحکام پاکستان اور تحفظ دینی مدارس ان دونوں عنوانات کے ساتھ یہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے ہمیں ذرا اس پس منظر میں جانا ہوگا کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں نے اتنے عظیم اور لازوال قربانیاں کس مقصد کے لیے دی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تحریک پاکستان کا جو مقصد بیان کیا گیا تھا وہ لا الہ الا اللہ کا نعرہ تھا یقیناً آپ کا ذہن بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہوگا کہ لا الہ الا اللہ صرف ایک کلمہ نہیں بلکہ یہ اللہ کے دیے ہوئے نظام اور پھر اللہ کے دیے ہوئے آخری کامل اور مکمل نظام کا عنوان ہے۔ فرمایا قولوا لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ تُفلِحوا، لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ کا کلمہ پڑھ لو تم کامیاب ہو جاؤ 77 سال اس ملک کے بیت چکے ہیں ہم ذرا اپنی تاریخ پر غور کریں کہ ان 77 سالوں میں لا الہ الا اللہ کے مقدس نعرے کے ساتھ ہمارا رویہ کہہ رہا ہے ہمارے پارلیمنٹ کا رویہ کیا رہا ہے ہمارے حکمرانوں کا رویہ کیا رہا ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ کا رویہ کیا رہا ہے ہماری بیوروکریسی کا رویہ کیا رہا ہے ہمارے جاگیرداروں کا رویہ کیا رہا ہے ہمارے سرمایہ داروں کا رویہ کیا رہا ہے ہمارے صنعت کاروں کا رویہ کیا رہا ہے کیا آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد ہم نے ان رویوں پر کوئی غور نہیں کرنا کیا ہم نے اس نعرے کا حق ادا کیا؟ میں واشگاف الفاظ کے ساتھ یہ بات کہنا چاہوں گا کہ اس نعرے کے ساتھ جو زیادتی ہم نے من حیث القوم یا ہمارے اشرافیہ نے ادا کیا ہے وہ اللہ کے ہاں ناقابل معافی ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے، کچھ ایک لمحہ کے لیے تو ہمیں غور کرنا چاہیے۔
قرارداد پاکستان پاس ہوئی اس کے اندر جو قیام وطن کا مقصد بیان کیا گیا اور جس کی نسبت ہم قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ قرارداد پیش کی تھی اسی قرارداد میں جب ابھی تک پاکستان کا وجود قائم ہوا تھا نہ اسرائیل وجود میں آیا تھا لیکن صہیونی بستیاں قائم ہو رہی تھی یہودیوں نے فلسطینیوں کے سرزمین پر قبضہ کرنے کا آغاز کر لیا تھا وہاں پر بستیاں قائم کرنا شروع کی تھی تو اس قرارداد کا حصہ ہے کہ ہم صہیونیوں کے اس عمل کو ناجائز کہتے ہیں اور ہم فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ رہیں گے، یہ اس وقت کہا گیا تھا وہ یاد دلا رہا ہوں اپنی بات نہیں کر رہا ہوں، یہ پاکستان کی بنیاد میں شامل ہے یہ اس کی اساس میں شامل ہے۔ پاکستان بنا تو پاکستان کا جھنڈا علامہ شبیر احمد عثمانی نے لہرایا اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کا مسودہ علامہ عثمانی نے تیار کیا اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے بحیثیت وزیراعظم کے اس اسمبلی میں پیش کیا، آپ کا آغاز تو یہاں سے ہوتا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ ہم نے مسلمانوں کی تائید اس ملک کی تحریک کے لیے کس نعرے سے اور جس نظریے کے ساتھ قائم کی اور پھر آج تک ہم نے اس ملک کے نظریے کے ساتھ کیا حشر کیا۔ اگر آج بھی وہ نظریہ زندہ ہے اگر آج بھی اس مقصد عزیز کے ساتھ کوئی مضبوط قسم کی کمٹمنٹ ہے تو وہ ان دینی مدارس اور ان کے علماء کرام اور ان کی جماعتوں کے صدقے ہیں، انہوں نے اس نظریے کے پرچم کو تھاما ہوا ہے، اگر یہ مدرسے نہ ہوتے تو یہ نظریہ تو آپ نے دفن کر دیا تھا اور آج بھی آپ کا یقین یہی ہے کہ اگر مدرسہ زندہ رہتا ہے یہ علماء موجود رہتے ہیں سیاست میں ان کا کردار رہتا ہے تو پھر یہ اسلام کی بات اسلام کا نظریہ اسلام کی بنیاد پر ہماری داخلی پالیسیاں ہماری خارجہ پالیسیاں اس کی آواز تر و تازہ رہے گی زندہ رہے گی اس لیے مدارس کا خاتمہ اور ان کے کردار کا خاتمہ ان کو غیر موثر بنانا آج ہمارے ملک کی سیاست اور ان جاگیرداروں اور اس اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا ایجنڈا بنا ہوا ہے اس کے علاوہ کوئی مقصد انکا نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ اس ملک کی استحکام کے لیے اور اس کے نظریے کے استحکام کے لیے آپ کی دینی مدرسے کی کس قدر ضرورت ہے، بدقسمتی سے ہمارا کالج اور ہماری یونیورسٹیاں جو حکمرانوں کے نگرانی میں چل رہی ہے آج وہاں یہ نظریہ دم توڑ چکا ہے، تو اگر ملک میں پیارا تو ایک نظریے کی بنیاد پر ہمیں پیارا ہے اگر یہ ملک جس کے لیے قربانیاں دی گئی ہیں ایک نظریے کی اساس پر دی گئی تھی یا تو اعتراف کر لو کہ ہم نے دھوکہ دیا تھا ہم نے برصغیر کے مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا یا تو اعتراف کر لو کہ ہم نے منافقت کی تھی پھر منافقوں سے نمٹنا بھی ہم جانتے ہیں، ہم نے اگر اس ملک کی سیاست میں سر اٹھایا ہے اور یہ جو پگڑیاں آپ کو بندھوائی گئی ہیں جس سروں کے اوپر یہ پگڑیاں باندھی گئی ہیں یہ سر جھکانے کے لیے نہیں بلکہ سر اونچا رکھنے کے لیے ہیں۔ اور پھر الزام علمائے کرام پر کہ یہ تو فرقہ واریت پیدا کرتے ہیں، یہ تو مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑاتے ہیں، جھوٹ کیوں بولتے ہو! ایک عالم دین نے قرارداد مقاصد کا مسودہ پیش کیا آج وہ آئین کا حصہ ہے کسی مکتب فکر کا اس کے اوپر جھگڑا نہیں ہے، سن 1951 میں 22 اسلامی نکات پر تمام مکاتب فکر نے اتفاق رائے کیا آج بھی اس پر اتفاق رائے موجود ہے، مذہبی دنیا کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ ہم آہنگی کا کردار ادا کیا ہے سن 1973 کا آئین بنا اس آئین کے اندر اگر آج اسلامی دفعات موجود ہیں اور اس آئین کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے مملکت کی بنیاد اگر اسلام پر رکھی گئی ہے تو علماء کرام کی موجودگی کی وجہ سے رکھی گئی اگر علماء نہ ہو تو وہاں پر تو آپ کے آئین میں یہ نہ ہوتا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، پھر آپ کے آئین میں نہ ہوتا کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے، پھر آپ کے ائین میں نہ ہوتا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، پھر آپ کے آئین میں یہ نہ ہوتا کہ اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہو جہاں تمام مکاتب فکر کی نمائندگی ہو اور وہ اسلامی قانون سازی کے لیے سفارشات مرتب کریں۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے آئین میں متفقہ ترمیم آئی تو یہ پارلیمنٹ کے اندر علماء کے کردار کے نتیجے میں آئی، اگر وہ علمی میدان میں اس کا مقابلہ نہ کرتے تو تم تو ان کے عقیدے کے سامنے جھک جاتے آج، انہوں نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی کے لیے کام کیا ہے، ایم ایم اے تک ہم تمام مکاتب فکر ایک پلیٹ فارم پر اور آج بھی جمعیت علمائے اسلام اپنے اکابر کی امانت سمجھتا ہے اس بات کے لیے کہ عوام کو فرقہ واریت سے دور رکھنا ہے ہم اختلاف نہیں ختم کر سکتے اس میں کوئی شک نہیں اختلافات اپنی جگہ پر لیکن اپنے رویے تو ہمارے اختیار میں ہیں، رویوں میں تو نرمی لا سکتے ہیں، ملک کو فساد اور فتنے سے اور خون ریزی سے تو بچا سکتے ہیں، معاشرے کو نفرتوں سے تو بچا سکتے ہیں، معاشرے کو تعصبات سے تو ہم بچا سکتے ہیں اور تمہارا کردار کیا رہا کہ جب نیشنل ایکشن پلان کے نام سے تم نے ایک دستاویز مرتب کی تو آپ نے ملک کے اندر فساد کا ذمہ دار دہشت گردی کا ذمہ دار وہ دینی مدرسے کو قرار دیا اور پھر اسی اتنا مقدس دستاویز قرار دیا کہ یہ تو نیشنل ایکشن پلان کی اختلاف کرتا ہے جیسے ہم کوئی بڑا جرم کر رہے ہیں، میں نے کہا یہ امتیازی قانون ہے یہ دینی مدارس کے خلاف بنا ہوا ایکشن پلان ہے اور تمہارا یہ پلان دینی مدارس کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے کیسے میں قبول کروں اس کو دستخط تو دور کے بعد مجھے کہا ذرا دعا تو کرے میں نے کہا دعا بھی نہیں کر سکتے اب وہاں قسم کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے میں نے کہا میں دینی مدارس کا نمائندگی کر رہا ہوں یہاں میں نے مثالیں دی کہ دینی مدارس ملک کے ساتھ کھڑی ہیں علماء ملک کے ساتھ کھڑے ہیں ملکی ائین کے ساتھ کھڑے ہیں ملکی وحدت کے ساتھ کھڑے ہیں پاکستان کے ساتھ علماء کھڑے ہیں آپ نے تو ان کو نشانہ بنایا لیکن یہاں وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جو قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہیں قومیتوں کی جنگ لڑ رہے ہیں لسانیت کی جنگ لڑ رہے ہیں صوبائی تعصبات کی قیادت کرتے ہیں مہاجر اور سندھی کا سوال پیدا کرتے ہیں سرائیکی اور پنجابی کا سوال پیدا کرتے ہیں بلوچ اور پشتون کا سوال پیدا کرتے ہیں پشتون اور ہزارے کا سوال پیدا کرتے ہیں پشتون پنجابی کا تعصب پیدا کرتے ہیں یہ تعصبات پیدا کرنا یا آپ کی سیاسی قیادت اسی کا نام ہے میرے سامنے بیٹھے ہو میں نے کہا میں ایک ایک کو جانتا ہوں کس کس تعصب کا آپ نعرہ بلند کرتے ہیں کس طرح اپنے ملک کے عوام کے درمیان اور قوموں کے درمیان اور مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان آپ نفرتیں پیدا کرتے ہیں آپ قوم کو لڑاتے ہیں تعصبات اور نفرت آپ کا کام ہے اور نشانہ بنا دیا آپ نے معصوم مدارس کا اور علماء کا جو قوم کے ساتھ کھڑے ہیں وہ ہمارے فرقوں کا نام لیتے ہیں میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں فرقہ وارانہ عناصر ہیں ہم صرف فرقہ وارانہ عناصر کی موجودگی کا انکار نہیں کرتے لیکن یہ فرقہ واریت اور مختلف فرقے اور یہ عناصر آپس میں اس وقت لڑتے ہیں جب اس کی ضرورت ہمارے ایجنسیوں کو ہو ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ہو ہمارے حکومتوں کو ہو تب جا کر یہ لڑائیاں پیدا ہوتی ہیں ان کی سیاسی قیادت نے کبھی بھی ان کو آپس میں لڑانے کے بات نہیں کی لیکن دکانیں ہیں بڑی اچھی چلتی ہے جذباتی ماحول پیدا کرتے ہیں اور ہم جذباتی ماحول میں جب معقول بات کرتے ہیں تو اس جذباتی ماحول میں ہماری معقول بات جرم بن جاتی ہے، کیا کر دیا آپ نے، پھر بھی اسمبلی کے اندر اگر صحابہ کرام کے ناموس کا بل پاس ہوا تو ہم نے پاس کیا پھر بھی اگر عدالت کے ماحول میں عقیدہ ختم نبوت کو تحفظ بخشی ہے تو جمعیت علماء اسلام نے بخشی ہے اور ان دینی مدارس کی قیادت نے بخشی ہے، آپ کا کیا کردار ہے اس میں، آج بھی اگر پاکستان جب بنا تھا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح ہوا اور اس کی افتتاحی تقریب سے قائد اعظم نے خطاب کیا تو انہوں نے ہی کہا تھا کہ ہماری معیشت کا مدار اسلامی تعلیمات پر ہوگا مغرب کی نظام معیشت نے تو ہمارے لیے مشکلات پیدا کی ہیں آج سود کے خاتمے کے لیے آئینی ترمیم جمعیت علماء لانے میں کامیاب ہوئی، آپ نے ایک ڈھیلا ڈھالا بے معنی قسم کی فیڈرل شریعت کورٹ بنایا جس کے فیصلے کا کوئی وقعت نہیں تھی اور اگر اس کے فیصلے کے خلاف اپیل ہو جاتی تو وہ اپیل قیامت تک کے لیے اپیل ہوتی اس کی سماعت میں کوئی زمانہ ہی نہ آتا جس کورٹ کا اپنا جج اپنی کورٹ کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا جس کا اپنا فیصلہ ایک منٹ کے اندر اندر غیر موثر ہو جاتا ہے اپیل کی صورت میں جمعیت علماء اسلام نے اس میں جان ڈالی ہے کہ اب آئین کی رو سے اس کا اپنا جج ہی اس کا چیف جسٹس بھی بن سکے گا اور اس کے جج کو عزت اور احترام کا ماحول ملے گا اور اگر اس کے خلاف اپیل کی گئی اور سپریم کورٹ یا شریعت اپیلیٹ بینچ نے ایک سال کے اندر اندر اس پر فیصلہ نہ دیا تو اسی شریعت کورٹ کا اپنا فیصلہ خود بخود موثر ہو جائے گا، تو سود کے خلاف فیصلے بھی تو اسی شریعت بنچ نے دیے ہے، آپ تو کہتے ہیں کہ یکم جنوری 2028 سے سود ختم ہو جائے گا لیکن یہ آپ نہیں دیکھ رہے یہ آپ نہیں دیکھ رہے کہ شریعت بینچ کے اندر جو طاقت پیدا ہوئی ہے اسی 26 ویں ترمیم کی جو بنیاد رکھی گئی ہے اس میں یہ سب سے پہلے لکھا گیا کہ یہ ترمیم یہ ترمیمی بل جب پاس ہو جائے گا ایکٹ بن جائے گا تو فوری طور پر ملک کے اندر نافذ العمل ہوگا، اس کو بھی پڑھیں نا، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات آتی تھی پیش ہو کر چلی جاتی تھی کمیٹیوں میں اور وہاں کمرے میں ڈمب ہو جاتے تھے آج اس کو لازم قرار دیا گیا ہے کہ اس کو پاس کے لیے ایوان میں پیش کیا جائے تاکہ قانون سازی کے لیے بنیاد بنا سکے، تو اس محاذ کا وقت جو کامیابیاں ہمیں آج ملی ہیں تو یہ جہد مسلسل کے نتیجے میں اللہ نے عطا کی ہے، آپ بتائیں جو قائد اعظم کا نام لے لے کر نہیں تھکتے اور ہمیں نسبت کرتے ہو کہ انہوں نے تو اختلاف رائے کیا تھا اپنا کردار بھی ذرا دیکھو نا قائد اعظم کو تم جیسے لوگوں کی صورت میں جو ناخلف اولاد ملی ہے اور تم وہ لوگ ہو جن کے بارے میں خود قائد اعظم نے کہا تھا کہ میرے جیب میں جتنے سکے ہیں سب کوٹے ہیں تم ان کوٹے سکوں کی اولاد ہو، ہم نے ان کی فکر اور ان کے نظریے اور ان کے نعرے کی لاج رکھی ہے تو اگر پاکستان کو مضبوط بنانا ہے مستحکم بنانا ہے نظریے سے بنے گا جس نظریے کا پرچار علماء کرام کر رہے ہیں اور دینی مدارس کر رہے ہیں اسی لیے تو تمہیں ججتی نہیں ہے تمہارا کردار مجھے یاد نہیں ہے اج 77 سال گزر گئے 77 سال پاکستان کے بلوچستان کا مریض آج بھی علاج کے لیے کراچی جاتا ہے 77 سال کے بعد بھی بلوچستان کا مریض آج بھی علاج کے لیے کراچی جاتا ہے اور کمبختو تم نے اس وقت قائد اعظم کو علاج کے لیے بلوچستان زیارت میں پھینک دیا تھا، ان کے ساتھ تمہارے خلوص اورعقیدت کا ہم پہلے دن مشاہدہ کر چکے ہیں تو اس طرح ملک میں نہیں چلے گا، میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی کہنا چاہتا ہوں بیوروکریسی بھی کہنا چاہتا ہوں جاگیردار سے بھی کہنا چاہتا ہوں صنعت کار سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جس شناختی کارڈ کی بنیاد پر تم پاکستانی ہو اسی کا شناختی کارڈ کی بنیاد پر میں میرے مدرسے کا طالب علم میری جماعت کا کارکن پاکستان کا غریب آدمی وہ بھی اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پر پاکستان کا شہری ہے تم کس بنیاد پر اپنی فضیلت بیان کر سکتے ہو! ہم پاکستانی ہے، یہ ملک ہمارا ہے اس کے لیے ہم نے قربانی دی ہے ہم قربانی دیں گے ان شاءاللہ لیکن پاکستان کو تمہارے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے، ہم نے آپ کے رحم و کرم پر چھوڑا تھا پاکستان ٹوٹ گیا بنگلہ دیش بن گیا۔ جو فسادات اس وقت 23 سال سے صوبہ خیبر پشتون خواہ بلوچستان میں ہو رہے ہیں یہ کس مستقبل کی نشاندہی کر رہے ہیں ذرا سوچا ہے کبھی! تمہارے کردار نے ریاست پاکستان کے خلاف نفرتوں کی بنیاد رکھی ہے ریاستی قوتوں کے خلاف وہاں نفرتیں پیدا ہو رہی ہیں یہ نفرتیں اگلے پانچ چھ نسلوں میں بھی تم دور نہیں کر سکو گے، تم نے جمعیت علماء اسلام کو ان علاقوں میں غیر موثر بنانے کے لیے جو وطیرے استعمال کیے جو بین الاقوامی ہدایات حاصل کی جو بین الاقوامی ایجنڈا لے کر اپ پاکستان میں ائے تم نے یہ سوچا تھا کہ یہ قوت جو ہے ہم اس کو بیچ سے نکال دیں گے اور پتہ نہیں کیا تمہارے پروگرام تھے بخدا نہ تم اس ملک میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے نظام کے قابل ہو نہ تم اپنی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کو تسلیم کرا سکتے ہو اور نہ تم قادیانیوں کو دوبارہ مسلمان کا سٹیٹس دے سکتے ہیں قائد اعظم نے اسرائیل بننے کے بعد اس کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا تھا تم اسے سر پہ بٹھانے کی کوشش کر رہے ہو اور جب پاکستان 47 میں بنا اور 48 میں اسرائیل بنا تو اسرائیل کے سب سے پہلے صدر نے اپنا سب سے پہلا جو خارجہ پالیسی بیان دیا تو اس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کا سب سے اولین مقصد اور اس کی سب سے اولین ترجیح ایک نو زائدہ مسلم ملک کا خاتمہ ہوگا یعنی پاکستان کا خاتمہ، تو ان کے بارے میں ہماری سوچ اور ان کی ہمارے بارے میں سوچ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا یہ علماء کرام کا کردار ہے اور ابھی حال ہی میں سات ستمبر سے پہلے ہی سپریم کورٹ میں ایک بار پھر 50 سال گزرنے کے بعد ان کی ایسی کمر توڑ کر رکھ دی کہ وہ اگلی صدی تک بھی دوبارہ اپنی کمر سیدھی نہیں کر سکے گے ان شاءاللہ، اگر ملک کو مستحکم رکھنا ہے اگر تمہیں پاکستان کا استحکام چاہیے تو دینی مدرسے اور علماء کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے ہوں گے ہمارے نیتوں میں کوئی شک و شبہ نہیں ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن تمہارا رویہ مشکوک ہے تم نے اپنے آپ کو سیدھا کرنا ہے ملک مستحکم ہو جائے گا ملک کو اپنا منہج مل سکے گا ملکوں کو راہ مل سکے گی جس راہ پہ چلنے کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا ہمارے رویے اور ہماری نیتیں صاف، تو میرے محترم دوستو اس نہج کو ہم نے صاف کرنا ہے واضح ہے پاکستان ہمارا وطن ہے ان شاءاللہ العزیز اس ملک کو مستحکم کرنا ہے پرچم نبوی کو سر بلند رکھنا ہے اس کی قیادت میں ملک کو مجتمع کرنا ہے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنی ہے اور عوام کا حقوق امن کی صورت میں محفوظ رہے گا ان کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا اور ان شاءاللہ العزیز ان کے تحفظ کرنے میں پاکستان کی بقا اور اس کی سلامتی ہے اللہ تعالی اس ملک کو مستحکم فرمائے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب