قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ قاسم العلوم ملتان میں فضلاء کنونشن سے خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ قاسم العلوم ملتان میں فضلاء کنونشن سے خطاب

13 جنوری 2025

الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖۙ وَلَوۡ كَرِهَ الۡمُشۡرِكُوۡنَ۔ صدق الله العظیم

حضرات علماء کرام، سٹیج پر موجود ہمارے اکابر، جامعہ قاسم العلوم سے نسبت رکھنے والے تمام فضلائے کرام، عزیزان گرامی، مجھے اس بات کا احساس ہے کہ آپ نے انتظار کیا اور مجھے یہاں حاضر ہونے میں تاخیر ہوئی، کچھ فوری عوارض ایسے تھے کہ مجھے یہاں آنے میں تاخیر کا سبب بنے جس کے لیے میں آپ تمام حضرات سے معذرت خواہ ہوں۔

آج کل پورے ملک میں مدارس و جامعات کے اندر تعلیمی سال کے اختتام پر تقریبات منعقد ہو رہی ہیں کہیں پر اس کو تکمیل بخاری شریف کبھی ختم بخاری شریف کا عنوان دیا جاتا ہے لیکن یہ درحقیقت ایک عزت افزائی ہوتی ہے ان نوجوانوں کی جو اپنے آٹھ سال یا اس سے زیادہ مدارس کے احاطے میں گزار کر دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جب نصاب مکمل کر لیتے ہیں تو پھر اساتذہ ان کے سروں پر دستار فضیلت باندھتے ہیں اور اپنی دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کرتے ہیں کہ اب آپ جس میدان میں جائیں جہاں جائیں اسی علمی قوت کے ساتھ آپ دین کی بھی خدمت کریں معاشرے کی بھی خدمت کریں انسانوں کی بھی خدمت کریں اور جو آپ کے حوالے فرائض ہیں ان فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ ہمارے علماء کرام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ ألعلماء ورثة الأنبياء یہ علماء انبیاء کے وارث ہیں تو پھر وضاحت بھی فرما دیتے ہیں کہ وإن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما، إنما ورثوا العلم کہ انبیاء کوئی دنیائی امانت ہے آپ کے حوالے نہیں کر رہے بلکہ علم کی امانت آپ کے حوالے کر رہے ہیں یہی ان کی وراثت ہے اور اسی نسبت سے ہم انبیاء کی وراثت کے دعویدار بنتے ہیں۔ ظاہر ہے قرآن کریم کی رو سے جو علوم وحی ہیں ہم ان علوم وحی کے وارث بنتے ہیں اور امام بخاری نے اپنے صحیح بخاری کا آغاز بھی کتاب الوحی سے کیا اس بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کہ تشکیل حیات انسانی کا مدار وحی پر ہے۔ انسان کو جہاں دوسرے حیوانات کے مقابلے میں بہت سے امتیازات سے نوازا گیا وہاں دو امتیازات انتہائی اہم ہیں جو انسان کو تمام حیوانات سے الگ کر دیتے ہیں۔ ایک عقل کی قوت اس قوت کے ذریعے انسان سمجھتا ہے اور دوسرا زبان میں قوت گویائی، اس قوت سے انسان دوسرے کو سمجھاتا ہے یعنی خود بھی علم حاصل کرنا اور دوسروں کو بھی وہ علم پہنچانا، اب جب انسان کو اللہ نے ہی یہ دو صفات عطا کر دیے ہیں اللہ نے ہی یہ دو خصوصیتیں عطا کر دی ہیں تو ہمارا اور آپ کا مقصد، ہمارے اور آپ کے ایک دوسرے سے تعلقات، مسائل، معاملات، لینا دینا یہ تو بہت بعد کی بات ہے سب سے پہلی بات تو یہی ہوگی کہ اللہ نے آپ کو عقل اپنی وحی سمجھانے کے لیے دی ہوئی ہے اور اس کے لیے انسانی معاشرے میں اللہ نے انبیاء کرام کو چنا، اور پھر وہ علم انسانیت تک پہنچا تو علماء بنتے ہیں پھر وہ دوسروں کو علماء بناتے ہیں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ اے پیغمبر! جو چیز تیرے رب کی طرف سے تجھ پر نازل ہوئی وہی چیز لوگوں تک پہنچا دے۔ اب اللہ کا ایک حکم ایک رسول کے لیے کافی ہے ہمارا ایمان و عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزید اس میں کسی اور اضافے اس کی تاکید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے لیکن آپ کو اور ہمیں بھی تو سمجھانا تھا نا، تو اس لیے اس کے وجوب اس کی فرضیت کا احساس دلایا، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ کہ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا یا اس میں کوتاہی کی تو پھر آپ نے مقصد رسالت میں کوتاہی کر لی، پہنچانے میں کوتاہی ہو گئی، اب اس کی اہمیت کا بھی احساس ہو گیا کہ اللہ کا حکم بھی ہے اور یہ اس کی اہمیت بھی ہے کہ ذرا برابر اس میں کوئی کوتاہی کی گنجائش نہیں رکھتا اللہ، قول کے ذریعے بھی یہ عمل کے ذریعے بھی جیسا ہو آپ نے لوگوں تک پہنچانا ہے، اچھا الہ العالمین آپ کا حکم بھی سر آنکھوں پہ آپ نے اس کی اہمیت اس کی فرضیت اور اس کے وجوب کا بھی احساس دلا دیا سر آنکھوں پہ، لیکن جو بات میں معاشرے میں کروں گا اس سے پہلے یہ انبیاء کر چکے ہیں اور لا الہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرنا توحید کا درس لوگوں کو دینا یہ کوئی آسان کام تو نہیں ہے میری تو جان کو خطرہ ہے، اب ظاہر ہے کہ جب جان کو خطرہ ہوگا تو کوتاہی کا امکان ہوگا، تو یا اللہ ایک طرف آپ نے میرے ذمے یہ کام لگا دیا پھر اس کی تاکید بھی کی، اس کے وجوب و فرضیت پر بھی آپ نے زبردست سخت بات کہہ دی مجھے اور دوسری طرف معاشرہ ہے جو خود خدا بنے ہوئے ہیں، بتوں کو خدا بنایا ہوا ہے، ان سے ان کے فکر کو تبدیل کرنا، ان خداؤں سے ان کو باغی بنانا اور ایک رب کے ساتھ اس کا رشتہ جوڑنا اس پر تو مجھے ابراہیم کا انجام بھی معلوم ہے موسیٰ کا انجام بھی معلوم ہے عیسیٰ کا انجام بھی معلوم ہے اے اللہ میں کروں گا کیا؟ تو اللہ رب العزت نے اس کی بھی ذمہ داری لے لی وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ چھوڑو یہ باتیں لوگوں سے میں بچاؤں گا، اچھا حضرت یا رب آپ نے ہمیں بچا بھی دیا لوگوں سے، حکم بھی دے دیا، اس حکم کی فرضیت وجوب کا احساس بھی دلا دیا، اس راستے میں جو مشکلات آتی ہیں اس سے حفاظت کا ذمہ بھی آپ نے لے لیا، اب آگے میں محنت کروں گا لوگ قبول نہیں کریں گے، ایسے انبیاء آئے ہیں کہ جن کے پاس صرف ایک بلکہ ایک بھی ان کو امتی نہیں ملا ہے، ایسے انبیاء جن کو صرف ایک امتی ملا ہے، جس کو صرف دو ملے ہیں، تین ملے ہیں، چھوٹی سی جماعت ملی ہے، اب میں محنت بھی کروں اور جب الیکشن کا وقت آیا تو میرے صندوق میں کوئی ووٹ ہی نہ ہو، یہی بہانہ بناتے ہیں نا آج کے ہمارے مولوی صاحبان کہ جی عوام پذیرائی نہیں دیتے جی، عوام کے دلوں پہ ہماری بات اثر نہیں کرتی، تو آپ لوگوں کو بھی بتا دیا کہ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ کافروں کو اگر ہدایت نہیں ملتی تو ہدایت دینا نہ دینا تو میرا کام ہے نتائج سے آپ کا کیا تعلق ہے! تو نتیجے کی ذمہ داری بھی اللہ نے خود لے لی، اب یہ وہ ایک اہم منصب ہے جو علماء کے پاس ہے، الأنبياءُ أشدُّ بلاءً ثمَّ الأمثلُ فالأمثَلُ سب سے زیادہ مصیبتیں آزمائشیں انبیاء پہ آئی ہیں پھر جو جتنا ان کی طرف منسوب ہو درجہ بدرجہ، تو جو علم آپ نے حاصل کیا اور جس کے بعد آپ نے اب باقاعدہ معاشرے میں بطور ایک وارث الانبیاء کے خود کو پیش کرنا ہے اور ثابت کرنا ہے تو پھر یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ میں تو بڑی محنت کر رہا ہوں لیکن قوم قبول نہیں کررہی، قوم قبول کرے نہ کرے وقت کا انتظار کرنا پڑا ہو وہ اللہ کے ہاتھ میں لیکن اس کی بنیاد پر کام ہی چھوڑ دینا تو اللہ رب العزت نے ہمارے اوپر جدوجہد کو لازم کیا ہے نتیجہ ہمارے ذمے نہیں، ایک بات تو یہ ہے اور دوسرا یہ کہ جدوجہد بھی استطاعت کے اندر اندر، نہ نتائج کے آپ ذمہ دار ہیں نہ اپنی وسعت سے زیادہ اپنے اوپر مشقت آپ نے ڈالنی ہیں جتنا آپ کے بس میں ہو، وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ جتنا تمہارے بس میں ہو دشمن کے مقابلے میں اپنی طاقت بڑھاؤ، تو مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ہم جن اکابر و اسلاف کی بات کرتے ہیں پوری کی پوری زندگیاں جھونکی اس کام میں، تو امام بخاری نے اسی طرف متوجہ کیا کہ عقل کبھی کبھی کام چھوڑ جاتی ہے، عقل خارجی اثرات کو قبول کرتی ہے، عقل غلطی کرتا ہے اور ٹھوکر کھاتا ہے، محبت غالب آگئی عقل گئی، غضب غالب آگیا عقل گئی، شہوات غالب آگئے عقل گئی اور جرم کرنے کے بعد جب غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے جب وہ کیفیت واپس اور بشاشت واپس آجاتی ہے تب سوچتے ہیں اوہ یہ میں نے کیا کیا۔ تو عقل بہت بڑا رہنما ہے لیکن وہ رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے اس میں خطا اور انحراف کا امکان موجود ہے اس لیے اللہ تعالی نے براہ راست وحی سے رہنمائی کی کہ جس میں کسی قسم کی خطا اور انحراف کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ اتنا بڑا اہتمام کرے ہماری ہدایت کے لیے اور ہم اس کو کفرانِ نعمت کریں پھر کیسے معاملات سنبھلیں گے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام میں آپ کی رسالت میں جامعیت تھی، الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لیے بطور نظام حیات کے پسند کر لیا ہے۔

ہمارے علماء اساتذہ اکابر اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک ہے اِکمال دین، دین کا کامل اور مکمل ہو جانا یہ باعتبار احکامات و تعلیمات کے ہیں، اور ایک ہے اِتمام نعمت کہ میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اس سے مراد ہے کہ اس کامل اور مکمل دین کی حاکمیت اور اس کا اقتدار کیونکہ ہم نے اساتذہ تو یہی پڑھا ہے کہ جو چیز ذکر ہو مطلقاً تو خارج میں اس کا فرد کامل مراد ہوتا ہے اور جب نعمت کا ذکر یہاں ہوا اور علی الاطلاق ہوا ہے تو پھر اس کا خارج میں جو تصور ہوگا جو اس کا مصداق ہوگا وہ اس کا اقتدار سب سے بڑا فرد ہے کامل اور مکمل فرد ہے، ویسے تو کھانا کھلانا یہ بھی نعمت میں ہے، لباس پہننا یہ بھی نعمت ہے اللہ کی، گھر بار مل جانا یہ بھی نعمتیں ہیں اللہ کی لیکن ساری چیزیں ملا کے باپ بھی نعمت ہے بیٹا بھی نعمت ہے بیوی بھی نعمت ہے خاندان بھی نعمت ہے گھر بار بھی نعمت ہے کاروبار بھی نعمت ہے پیسہ کمانا یہ بھی نعمت ہے لیکن اگر اس کا مقابلہ اللہ کے اس کامل دین کے ساتھ ہو جائے وہاں کیا کرو گے؟
قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ
اب یہ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ کا لفظ اللہ جہاں بھی استعمال کرتا ہے اس میں آپ کو پیغام بھیجتا ہے کہ پھر میرے عذاب کے لیے تیار ہو جاؤ، ہم بیٹھے کہاں ہیں؟ ہم نے مسند کون سا سنبھالا ہوا ہے؟ العلماء ورثة الأنبياء لیکن دین اسلام کی جو کامل اور مکمل صورت ہے جو نبی کی وراثت کا تقاضا ہے، اب نبی کی وراثت کا تقاضا کیا ہے؟ اولین تقاضا تو خلافت ہے وسيكون بعدي خلفاء تو خلفاء وارثین خلفا بنیں گے نا، ابوبکر صدیق ہی خلیفہ بنے گا، عمر فاروق ہی خلیفہ بنے گا، حضرت عثمان ذوالنورین ہی خلیفہ بنیں گے، حضرت علی ابن ابی طالب ہی خلیفہ بنیں گے رضی اللہ تعالی عنہم اور یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ تو ان علوم کے حاملین دنیا کے بڑے بڑے لوگ بنتے ہیں اور یہ انسانیت کو اکٹھا کرنے والا دین ہے، یہاں تو قومیت کے نعرے بھی لگتے ہیں اور جو قومیت کا نعرہ لگاتا ہے اور پھر قومیت بمقابلہ دوسری قومیت کے یہ لوگ اپنے آپ کو لبرل بھی کہتے ہیں، اب آپ اس تضاد کو دیکھیں کہ قومیت کتنی چھوٹی سی چیز ہوتی ہے اور اس قومیت کے اندر پھر اور قومیت ہے پھر اس قومیت کے اندر پھر ایک اور قوم اور دائرہ تنگ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر بھی جب حقوق کا مسئلہ آتا ہے تو دوسرے حق قوم کے ساتھ تنازعہ جھگڑے تو سوائے تعصب اور تنگ نظری کے تو ان کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن اپنے آپ کو آزاد خیال بھی کہتے ہیں تضاد اتنا زیادہ ہے، اور جس دین کے آپ وارث ہیں قُل يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا تمام انسانیت کو بتا دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں۔ اور لا الہ الا اللہ کے رشتے میں آیا تو پھر وہ بھائی ہو گیا قومیتوں کا فرق زبان کا فرق رنگ کا فرق ختم ہو گیا بھیج میں سے۔ ٹرمپ مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن لیکن اگر وہ یہ دعویٰ کر دے کہ میں پٹھان ہوں تو کوئی پٹھان قبول کرے گا اس کو؟ اگر وہ کہے میں پنجابی ہوں پنجابی قبول کرے گا اس کو؟ اس دائرے میں آتا ہی نہیں ہے لیکن اگر اس نے کلمہ پڑھ لیا اور ایمان لے آیا تو سب کہیں گے آپ ہمارا بھائی، تو جو وسعت نظری اللہ کا دین ہمیں بتاتا ہے اس وسعت نظری کے ساتھ اللہ کے دین کو پہنچانا ہے۔ اور پھر حدیث میں جو سب سے پہلے حدیث لائے ہے وہ بھی إنَّما الأعمالُ بالنِّيَّاتِ تو جو کام بھی ہو اس کے ساتھ خلوص نیت بھی لازم قرار دیا۔ لیکن میں بطور ایک طالب علم کے اپنے علماء اساتذہ کے سامنے کہتا ہوں ہمارے جماعتوں کے اندر بحث ہوتی ہے یہ بڑا مخلص کارکن ہے تو یہ بڑا مفاد پرست ہے تو یہ بڑا مطلبی ہے عہدے کے لیے آیا ہے تو یہ پیسے کے لیے آیا ہے یہ تو منصب کے لیے آیا ہے اس قسم کی باتیں چلتی رہتی ہیں پارٹیوں میں جی لیکن اگر اس حدیث کی تفصیل پر نظر کی جائے
وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فمَن كانَتْ هِجْرَتُهُ إلى اللهِ ورَسولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إلى اللهِ ورَسولِهِ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا
تو ہجرت جو اللہ کے لیے ہوگی تو وہ اللہ کے لیے تصور کی جائے گی، دنیاوی مقصد لے کر ہجرت کرو گے تو وہ دنیا کے مقصد کے لیے، کسی عورت کی پیچھے شہر چھوڑ دیا تمہیں عورت مل گئی تو اس نیت سے شمار ہوگی، تو میں نے کہا جو دنیا کی نیت سے گئے ہوں یا جو ایک عورت کے پیچھے گیا تھا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے سے باہر تو نہیں نکالا، نہ جماعت سے باہر نکالا، بھئی محنت کرو ان کو جذب کرو اپنے اندر جذب کرو اپنے اندر، تاکہ وہ اگر دنیا کا کوئی لالچ رکھتا بھی ہے تو دنیا کے لالچ کے ساتھ اس کو اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا مقصود ہو جانی چاہیے، اور پھر ہم لوگ سوائے اس کے ہمارا اور کوئی کام نہیں ہے کہ ہم دین کی تشریح کرتے ہیں تو دین کا معنی یہ کہ دنیا چھوڑ دو، جو آدمی نہ کھائے نہ پیے حجرے میں بیٹھا رہے اور بس وہ اللہ اللہ کرتا رہے یہ سب سے اچھا انسان ہے، اب اس طرح تو نہیں ہے یہ جو اللہ تعالی نے دنیا کی نعمتیں اور دنیا کی زینت پیدا کی ہے اور طیبات اللہ نے پیدا کیے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات پر وضاحت فرمائی اور اللہ نے کہا بتاؤ لوگوں کو
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ
یہ جو دنیا کے رونقیں ہیں خوبصورت دنیا ہے حلال رزق ہے کما رہے ہو اور خوشی خوشی اپنی زندگی گزار رہے ہو بچوں کا پیٹ پال رہے ہو اور اللہ کی نعمتوں کو آپ استعمال بھی کرتے ہیں اور پھر اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں تو یہ کس کے لیے میں نے پیدا کیے ہیں؟ تمہارے لیے تو پیدا کیے ہیں میں نے، ہاں دنیا میں کافر بھی شریک ہوگا اور آخرت میں صرف آپ کے لیے۔ اب ہمارے اوپر لوگ سوال کرتے ہیں کہ صاحب آج کل تو یہ چیزیں سارے کافروں کے پاس ہیں ہمارے پاس تو نہیں ہے، تو پھر اس کا معنی یہ ہوا نا کہ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا ایمان والوں سے کہو، پھر سمجھ لو کہ ہماری ایمان کا رشتہ اللہ سے کمزور ہو گیا ہے، جب اللہ کے ساتھ ایمان کا رشتہ کمزور ہوگا تو کفر کی دنیا ان نعمتوں پہ قابض ہو جائے گی اور ان کی حیثیت غاصب کی ہوگی تو غاصب سے بھی تو کبھی بھیک مانگی جاتی ہے نا تو اب دیکھ رہے ہو نا ہم پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں انہی سے بھیک مانگ رہے ہیں، کیونکہ دو چیزیں بڑی واضح ہونی چاہیے ایک امن اور ایک خوشحال معیشت ہے اور اسی پر اللہ رب العزت نے جو مثال پیش کی ہے
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
ایک ایسی آبادی کی مثال اللہ دیتا ہے کہ جہاں امن بھی تھا یعنی انسان حقوق بھی محفوظ تھے سوسائٹی میں اطمینان بھی تھا سکون تھا اور اس کی وجہ خوشحال معیشت تھی لیکن جب اللہ کی ان نعمتوں کا کفران کیا شرک شروع کر دیا ظلم کر دیا لوگوں نے تو پھر اللہ نے اس کے بدلے میں کیا مزہ چکھایا؟ ایک بھوک اور ایک بدامنی، خوف۔ کیا ہم ان دونوں سے گزر رہے ہیں یا نہیں گزر رہے؟ ملتان والو آپ کے لیے حالات کوئی اچھے ہوں گے ذرا ہماری طرف آؤ نا، ایک طرف مسلح گروپ ہے انہوں نے بندوقیں تانے ہوئے ہیں ایک طرف فوج ہے انہوں نے بندوقیں تانے ہوئے ہیں دوسرے طرف پولیو ہیں انہوں نے بندوقیں تانے ہوئے ہیں، عام آدمی کیسے زندگی گزارے گا؟ لوگ شہر چھوڑ رہے ہیں، کیسے گزارا کریں ان شہروں میں، کہ نہ وہاں وہ بچوں کی تعلیم کرو انتظام کر سکتے ہیں نہ ان کے لیے روزی کما سکتے ہیں نا مزدوری کر سکتے ہیں تو جانا پڑے گا کہیں، اس ساری صورتحال سے جو ہم گزر رہے ہیں اس میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنا ہوگا تو اگر آپ وارث ہیں انبیاء کے تو سیاست بھی تو انبیاء کا وظیفہ ہے ان کو ہم نے دنیا داروں کے حوالے کیوں کر دیا ہے! اپنا مصلی تو آپ کسی دنیادار کے حوالے کرنے کو تیار نہیں ہے! ابھی خاکوانی صاحب مصلے پہ کھڑے ہوں گے آپ کہیں گے او تم تو مولوی صاحب نہیں پیچھے ہٹ ہو جاؤ، پارٹی کا جنرل سیکرٹری ہے لیکن مصلے پہ نہیں چھوڑو گے اس کو، آپ کہیں گے یہ پیغمبر کا جگہ ہے محراب میں تو ان کو خطبہ دینے کی اجازت نہیں ہے وہاں تو آپ اپنے آپ کو اس کا میراث اپنا سمجھتے ہیں کہ ہاں اس کے وارث ہم ہیں، یہ سیاست میں کیا ہو جاتا ہے؟ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے کھل کر فرما دیا
كَانَت بَنُو إسرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبيٌّ، وَإنَّهُ لا نَبِيَّ بَعدي،
میں تو ختم نبوت والوں سے بھی کبھی بے ادبی کر لیتا ہوں کہ بھئی آپ ختم نبوت کی بات کرتے ہیں ماشاءاللہ اور بہت بڑی خدمت ہے کوئی آسان خدمت نہیں ہے لیکن ختم نبوت بھی سیاست کے ذیل میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے ایک آتا تھا دوسرا جاتا تھا اور اب آخری سیاسی نظام میرے ہاتھ میں ہے اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، ہاں خلفاء ہونگے قیامت تک آتے رہیں گے۔ تو سیاست کے محاذ پر بھی ہم نے اس بات کو لوگوں کو سمجھانا ہے مسئلہ بنیادی یہ ہے میں ایک بات بڑے وضاحت کے ساتھ کر دینا چاہتا ہوں، ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جا رہے ہیں اکیسویں صدی سے پہلے بیسویں صدی اور اس سے پہلے انیسویں صدی زیادہ پیچھے نہیں جاتے جی اور اس برصغیر کی بات کرتے ہیں جب تک انیسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کی وسط تک جب تک برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت علمائے کرام کے ہاتھ میں تھی مجھے ایک مثال پیش کرو کہ کوئی دیوبندی بریلوی مسئلہ پیدا ہوا ہو، کوئی شیعہ سنی مسئلہ پیدا ہوا ہو، کوئی فساد پیدا ہوا ہو، کوئی قوم آپس میں لڑی ہو، کوئی فساد دنگے ہوئے ہوں ان کی قیادت میں مکمل امن تھا اور امت جڑی ہوئی تھی ان کے ساتھ، لیکن اس کے بعد پھر سیاست جن لوگوں کے ہاتھ میں آئی آج تک خون ریزی سے ہماری جانیں نہیں چھوٹ رہی، فتنہ و فساد، نفرتیں ہیں، لڑائیاں، ہم مذہبی حلقے کے لوگ ہیں جمعیۃ علماء اسلام کو اس لیے زیر عتاب لایا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو لڑاتے کیوں نہیں ہیں، یہ صحیح معنوں میں سنی نہیں ہے، بابا ہم نے سنیت کا شناخت ختم نہیں کیا، ہم نے حنفیت کی شناخت ختم نہیں کی، ہم نے دیوبندیت کی شناخت ختم نہیں کی اور اس کے باوجود ہم عوام میں جاتے ہیں عوام سے بات کرتے ہیں، ہر مکتب فکر سے بات کرتے ہیں، بر صغیر میں جمعیت علماء کا وجود آیا تو تمام مکاتب فکر موجود تھیں۔ قوم کو جوڑنے کی بات کرنی ہے، انسانیت کی بات کرنی ہے، ہم نے تو اپنے دکانیں بنائی ہوئی ہیں اب دیوبندیت بھی ایک دکان بن گئی ہے، کسی فرقے کو گالیاں دو اور سٹیج گرما دو بس اس کا معنی یہ کہ آپ نے بڑی زبردست خدمت کر لی اپنے عقیدے کی، یہ طریقہ ہمارے اکابر کو نہیں آتا تھا؟ کبھی کوئی پورے زندگی میں کوئی ایک آدھ واقعہ کسی موقع پر ہوا اس کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں اور یہ پوری زندگی وہ کیا کرو گے؟ تو اس لحاظ سے ہم نے اپنے جدوجہد جاری رکھنی ہے اور میں نے تو پارلیمنٹ میں کہا تھا بڑے وضاحت کے ساتھ میں نے تمام ممبران کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھے ایک خاص فرقے کے حوالے سے اشارہ نہ کیا کرو میں یہاں جو بات کروں گا وہ تمام مکاتب فکر کی نمائندگی ہوگی اور امت مسلمہ کی نمائندگی ہوگی۔ اور آج ہم نے الحمدللہ جدوجہد ہے ضروری تو نہیں ہے کہ آپ کب نتیجہ حاصل کرتے ہیں، آپ نے خود دیکھا مشاہدہ کیا کہ کس طرح ہمارے ٹی وی چینلوں کے اوپر قادیانیوں کے حوالے سے بات شروع ہو گئی ایسا تاثر دیا جانے لگا جیسے کہ ہم کوئی بڑی زیادتی کر رہے ہیں کہ وہ غیر مسلم کیوں ہیں، کمبختو وہ ہم سارے امت مسلمہ کو کافر کہتے ہیں اور مجھے یاد ہے جب میرے والد صاحب نے سوال کیا تھا کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آج زندہ ہوتے اور مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لاتے تو وہ مسلمان ہوتا ہے یا کافر؟ تو انہوں نے کہا کافر ہوتا، حضرت عمر کے بارے میں یہی کہا حضرت عثمان کے بارے میں یہی کہا حضرت علی کے بارے میں یہی کہا حضرت فاطمہ کے بارے میں یہی کہا حضرت حسنین کے بارے میں یہی کہا کہ وہ کافر ہوتے، لیکن پھر اللہ نے سپریم کورٹ میں پھنسایا اور اللہ نے مدد کی اور ایک دفعہ پھر ایسی کمر ٹوٹی کہ ان شاءاللہ اگلی صدی تک تو دوبارہ کمر بھی سیدھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔ ہمارا ایک پارلیمانی کردار ہے، ملک ہمارا ہے، آئین ہمارا ہے، پارلیمنٹ ہماری ہے، عوام ہمارے ہیں ان کی بنیادی حقوق وہ ہمارے ہاتھ میں امانت ہیں۔ 26ویں ترمیم لے آئیں آئین کے اندر پہلے تو ہمیں وہ دکھا نہیں رہے تھے کہ اس میں ہے کیا بلا، پھر دو تین دن کے بعد جب وہ مسودہ دکھایا تو وہ ایک کالا ناگ تھا، سب سے پہلے حملہ جو اس میں ہوا تھا وہ انسانی حقوق کے شق پہ ہوا تھا، آئین کے آرٹیکل آٹھ پہ حملہ ہوا تھا، اس کے کوئی 56 کلازز تھے 56 شقوں پر مشتمل اور الحمدللہ ایک مہینہ یا کچھ اس سے زیادہ جو ہم نے دلیل کی جنگ لڑی ہے بیٹھ کر جنگ لڑی ہے ہم نے حکومت کو چونتیس شقوں سے دستبردار کرایا، اور صرف بائیس شقوں پر آگئے پھر ہم نے اپنی چیزیں ملائیں، ہم نے اس میں ایک ترمیم سود کے حوالے سے لگا دی، دو ترامیم فیڈرل شریعت کورٹ کے حوالے سے اور دو ترامیم اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے، اس سے ادارے بھی مضبوط ہو گئے ایک پیشرفت ہو گئی اور ہم اسمبلی میں ہیں کتنے بھی قومی اسمبلی میں آٹھ سینٹ میں پانچ، تو جب اللہ تعالی کام لیتا ہے تو کچھ امتحان بھی لیتا ہے تو پھر اس کے بعد اللہ تعالی مدد بھی کرتا ہے، تو اس ملک میں ہم رہ رہے ہیں مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کی سیاست میں اور ہمارے ملک کے سیاسی ماحول میں حکمرانوں کے ماحول میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر ہوتے ہوئے سب سے مشکل چیز اسلام بن گئی ہے، کوئی ایک لمحہ کے لیے انہوں نے گریبان میں جھانکا ہے، کوئی ایک لمحہ کے لیے انہوں نے شرمندگی محسوس کی ہے کہ ہم کلمہ بھی پڑھتے ہیں نظام کو بھی قبضے میں لیے ہوئے ہیں لیکن سب چیزیں ماننی ہیں اسلام نہیں ماننا۔ پھر مدرسے کے مسئلے میں مشکل پیدا کی یہ بڑی پرانی مشکل ہے مدارس کو توڑا انہوں نے، وہ جنگ ہم نے لڑی اور الحمدللہ اس میں ہم کامیاب ہو گئے لیکن یہ جنگ ختم نہیں ہوئی ابھی کچھ مرحلے باقی ہیں اس کے، آپ نے جا گے رہنا ہے محنت اور جدوجہد کے لیے بھی جاگتے رہنا ہے اور رات کو دعاؤں کے لیے بھی جا کے رہنا ہے، لیکن اس کی اہمیت جو ہے وہ ہر وقت مدنظر رہے وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ تو یہ امانت ہے آپ کے ہاتھ میں اور باقی تو سیاسی معاملات ہیں روزمرہ کے مسائل ہیں چلتے رہتے ہیں، کبھی اتار کبھی چڑھاؤ کبھی چڑھاؤ کبھی اتارا، نشیب و فراز ہیں چل رہے ہیں لیکن اسی میں ہم نے سفر کرنا ہے، اور جو آئین اور قانون کا راستہ ہے جو اعتدال کا راستہ ہے وہ پاکستان کے علماء کی اجماعی رائے کے نتیجے میں ہے، اگر کچھ لوگ جذباتی ہو کر اس سے منحرف ہو رہے ہیں تو وہ ہمارے لیے حجت نہیں ہے، ملک کے طول و عرض میں علماء ہیں، مدارس ہیں، جامعات ہیں، استاد ہیں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں وہی ہمارے لیے حجت ہے ان شاءاللہ العزیز، تو یہ کچھ گذارشات اس تنگ وقت میں میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی، عصر کی نماز کا وقت بھی اب ذرا کمزور ہوتا جا رہا ہے، تو اللہ تعالی قبول فرمائے اور میرے لیے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالی صحت و عافیت فرمائے۔

واٰخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض

Facebook Comments