قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا جامعہ خیر المدارس ملتان میں دستاربندی کی تقریب سے خطاب
12 جنوری 2025
الحمدلله الحمدلله وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آله وصحبه و من بھدیھم اھتدی، اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔ صدق الله العظیم
قابل قدر انتہائی محترم حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم العالیہ، حضرت مخدوم محترم مولانا خلیل احمد صاحب دامت برکاتہم العالیہ، تمام اساتذہ کرام، طلبہ عزیز، میرے بزرگو، دوستو اور بھائیو! سب سے پہلے میں جامعہ کے تمام فضلاء کو جنہوں نے ایک طویل عرصہ مدرسے کے احاطے میں دل کی دنیا کو روشن کرنے میں گزارا، وحی کے علوم سے مالامال ہوئے، تمام حفاظ کرام، قراء حضرات جنہوں نے قرات میں مہارت حاصل کی ہے، میں ان تمام اپنے برخورداروں کو دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی پوری زندگی چاہے دنیاوی ہو، چاہے برزخی ہو، چاہے اخروی ہو اسے تروتازہ رکھے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
نضَّر اللهُ امرأً سمِعَ مقالَتي فوَعاها فأدَّاها كما سمِعَها
“اللہ تعالی اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات کو سنا، پھر اسے یاد کیا پھر جیسے سنا ویسے ہی دوسروں تک پہنچایا”۔
تو اس میں جو نظارت ہے تروتازگی ہے اس کے ساتھ کوئی قید و شرط نہیں ہے۔ علی الاطلاق اس کا ذکر ہوا ہے۔ تو اس تروتازگی سے مراد دنیاوی تروتازگی بھی ہے، برزخی تروتازگی بھی ہے اور اخروی تروتازگی بھی ہے۔ قرآن و حدیث کے ان علوم کو وحی کا علم کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا علم ہے کہ جس میں کسی طرح کے خطا و انحراف کی کوئی گنجائش نہیں، کسی قسم کی خطا کا امکان موجود نہیں ہے۔ سو جو بھی اس کی رہنمائی زندگی گزارے گا اسے کبھی بھی ٹھوکر نہیں لگے گی۔ عقل بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ تمام حیوانات سے اللہ تعالی انسان کو جہاں اور بھی بہت سے امتیازات عطا کرتا ہے وہاں دو امتیازات کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس کی خصوصیت ہے۔ ایک عقل کی نعمت اور ایک قوت گویائی کی نعمت، عقل سے انسان بات کو سمجھتا ہے اور قوت گویائی سے انسان دوسرے کو سمجھاتا ہے۔ ایک تعلیم کا ذریعہ ہے دوسرا تعلم کا ذریعہ ہے۔ اب جب ہم اللہ کے پورے نظام کا مطالعہ کرتے ہیں کہ حضرت انسان کو یہ دو خصوصیتیں کیوں عطا کی، تو اس کے دیے ہوئے نظام سے اندازہ لگتا ہے کہ دوسروں کی بات بعد میں، مقصود بالذات اللہ انسان کو اپنی بات سمجھانا چاہتا ہے۔ اور جب انسان اس کی بات کو سمجھ لے تو پھر وہ دوسروں کو سمجھاتا ہے۔ چنانچہ انسانوں کے معاشرے میں اللہ نے انبیاء کرام کو چنا اور انبیاء کرام کو اللہ تعالی نے اپنے علم سے نوازا، وحی کے ذریعے نوازا، اور انبیاء کرام نے پھر جس طرح اللہ سے علم لیا اسی طرح انسانیت کے حوالے کیا۔
اب یہ وہ مدارس ہیں جہاں ان علوم کی حفاظت ہوتی ہے۔ عقل کے بعد وحی کی حاجت اسی طرح ہے جس طرح ایک بینا انسان کہ اس کی قوت بینائی بالکل صحیح ہے اور پوری قوت کے ساتھ وہ دیکھتا ہے۔ لیکن اگر اندھیرا چھا جائے، بجلی بجھا دی جائے، کمرہ بھی بند ہو اب ہر چند کے آپ کی بینائی میں پوری قوت موجود ہے لیکن آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آتا، تاوقتیکہ اس بینائی کو خارجی روشنی مہیا نہ ہو، سورج کی روشنی، بجلی کی روشنی، چراغ کی روشنی، خارجی روشنی مہیا ہوگی تو بینائی کام کرے گی۔ تو عقل بھی اللہ تعالی نے ایک ایسی قوت انسان کو عطا کی ہے جو یقیناً بہت اعلیٰ و ارفع نعمت ہے لیکن جب تک اس کو باہر سے وحی کی روشنی مہیا نہیں ہوگی عقل بھی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ اور دنیا ہے کہ وہ اس روشنی کو بجھانا چاہتے ہیں۔ کمبختوں یہ روشنی نہیں ہوگی تو اندھے ہو جاؤ گے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ اور یہی وہ جنگ ہے جو کوئی ڈیڑھ سو سال سے ہم لوگ لڑ رہے ہیں اس سے بھی زیادہ عرصہ گزرا ہے۔
ہماری زیادہ تر مصروفیت اس ملک کی سیاسی ماحول میں ہوتی ہے، پارلیمانوں میں ہوتی ہے، سیاست دانوں سے زیادہ واسطہ رہتا ہے، حکمرانوں سے پالا پڑتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، لا الہ الا اللہ کے نعرے کے ساتھ حاصل کیا گیا، اس ملک میں سب سے مشکل چیز اگر کوئی ہے وہ اسلام بن گیا ہے۔ ان حکمرانوں سے جو مطالبہ کر لو وہ آسان، لیکن مسلمان حکمرانوں سے اسلام کا مطالبہ کرنا اسلام کا تقاضا کرنا یہ سب سے مشکل ترین چیز بن گئی۔ تو اب سوچیں ذرا کہ پاکستان کا جو مقصدِ وجود تھا آپ صرف مدرسوں کی حفاظت نہیں کر رہے بلکہ اس وطن عزیز کے مقصدِ وجود کی جنگ بھی آپ لڑ رہے ہیں۔
الحمدللہ ہم پر تو سوالات بھی بہت اٹھتے ہیں۔ اس سیاست سے آج تک کیا حاصل ہوا، اس جمہوریت سے کیا حاصل ہوا، یہ تو ایک فضول توانائی ہے جو ہم ضائع کر رہے ہیں زندگی، میں نے اپنے قبلہ گاہ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ سے خود سنا، جامعہ قاسم العلوم میں وہ طلباء سے خطاب کر رہے تھے۔ تو اپنے بیان میں انہوں نے فرمایا کہ میں قرآن و حدیث کی اس درسگاہ اور اس درسگاہ کے خوشبودار اور خوشگوار ماحول سے ایک ایسے ماحول میں چلا گیا ہوں کہ جہاں کے فسق و فجور کی بدبو سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور کبھی سوچتا ہوں کہ یہ میں نے کیا کر دیا، کہاں سے کہاں چلا گیا ہوں میں، مدرسے کا ماحول، پاک ماحول، خوبصورت ماحول، خوشبودار ماحول اسے چھوڑ کر میں کہاں چلا گیا ہوں۔ لیکن جب ایک مرحلہ آیا جب اس ملک کو ہم نے آئین دینا تھا اور اس آئین کو اسلامی بنانا، اس آئین کے اندر اسلامی دفعات لانا، اس آئین کے اندر یہ لکھوانا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، اس آئین کے اندر یہ لکھوانا کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع بنیں گے، اس میں یہ لکھوانا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، اسلامی نظریاتی کونسل جو قرآن و سنت کے مطابق قوانین کی سفارشات اسمبلی کو پیش کرے گی اس ادارے کو آئینی ادارہ بنوانا، عقیدہ ختم نبوت کی جنگ لڑنا اور اس عقیدے کی حفاظت کے لیے ایک متفقہ ترمیم پارلیمنٹ سے منوانا یہ شاید اس مسند پہ نہ ہو سکتا اگر میں اس ماحول میں نہ جاتا۔ اب بنیاد تو مل گئی لیکن عمل نہیں ہو رہا۔ تو جب عمل نہ ہو تو پھر چھوڑ دیں؟ مسلمان اسلام پر عمل نہیں کر رہے، کلمہ گو ضرور ہے، عقیدہ بھی بالکل ٹھیک ہوتا ہے، لیکن عمل نہیں ہوتا تو پھر اسلام سے دستبردار ہو جائیں؟ سیاست عملی طور پر اسلامی نہیں بن رہی تو پھر کیا اس جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں؟ آج کل یہ سوالات بہت زیادہ اچھل رہے ہیں اور ہماری طرف متوجہ کیے جاتے ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ بازار سے ہم آتے ہیں نرخ وہ بتلاتے ہیں۔ جمہوریت یہ ہے اور جمہوریت یہ ہے اور جمہوریت وہ ہے اور جمہوریت وہ ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ جمعیت علمائے اسلام قومی اسمبلی میں صرف آٹھ اراکین کے ساتھ اور سینٹ میں پانچ اراکین کے ساتھ معمولی تعداد میں، لیکن جدوجہد ہم نے چھوڑی نہیں، موقع آیا، ماحول بنا، تو صرف یہ نہیں کہ حکمرانوں سے منوایا، اپوزیشن سے بھی منوایا۔ اور شاید تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہم نے دیکھا کہ حکمران بھی ہمارے قصیدے پڑھ رہے تھے اور حزب اختلاف بھی ہمارے قصیدے پڑ رہے تھے۔
تو یہ مواقع جب آتے ہیں تو پھر اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہم غافل تب کہلاتے کہ موقع ہاتھ آیا اور پھر بھی ہم نے تسامح کیا کہ چلو بھائی وقت گزارنا ہے، سیاست ہی کرنی ہے پارلیمنٹ میں رہنا ہے بس خالی، اور اللہ تعالی نے ہماری مدد کی اور پھر اس پورے دورانیے میں ہم اپنے اکابر علماء سے رابطے میں رہیں۔ ہم نے ان سے رہنمائی لی، ان کی مشاورت سے آگے بڑھتے رہے۔ اور تاریخ میں مجھے یہ بھی کوئی پہلی دفعہ نظر آیا کہ ہمارے تمام علماء کرام وہ بڑے مضبوطی کے ساتھ ایک ہی موقف پر ڈٹ گئے اور پھر جا کر ہم نے یہ کشتی پار کرائی۔ ایک صاحب نے مجھے لطیفہ سنایا کہتا ہے کہ دو کشتیوں پہ پاؤں رکھنے والا اکثر غرق ہو جاتا ہے۔ عام مشہور ہے ناں، لیکن اس مولوی صاحب نے دو کشتیوں پہ پاؤں رکھا اور دونوں کو پار لگایا۔ تو یہ اللہ کی مدد سے ہوتا ہے۔
اللہ نے ہمارے اوپر دو احسانات کیے۔ ان دو احسانات کی قدر کرو قدر، ایک احسان یہ کہ اس نے ہم پر جدوجہد لازم قرار دی ہے، محنت اور کوشش ہم پر لازم قرار دی ہے، نتیجہ ہمارے ذمے نہیں کیا، سو اگر کوئی کہتا ہے کہ کیا فائدہ اس سیاست کا کیا فائدہ اس جمہوریت کا، کیوں وہ نتیجہ تیرے باپ کے ہاتھ میں ہے! تم جو کر رہے ہو اس کے نتیجے کے تم ہمیں ضمانت دے سکتے ہو! تو یہ مواقع جو آپ کو ملتے ہیں اس پہ اپنا کام جاری رکھیں۔ اور یاد رکھیں تمام علماء کرام موجود ہیں جس چیز کو جہاد کہا جاتا ہے وہ ایک ہی ہے ہر وہ محنت جس درجے کی بھی ہو اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہو وہی جہاد کہلائے گا۔ اور اللہ نے جو دوسرا احسان کیا ہے ہمارے اوپر کہ جدوجہد کرو، جدوجہد تمہارے اوپر لازم ہے لیکن اپنی استطاعت کے حدود کے اندر لازم ہے استطاعت سے باہر نہیں،
لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا
تو اپنے وسعت سے زیادہ تکلیف اللہ انسان کو نہیں دیتا، کوئی ایک من بوجھ اٹھا سکتا ہے کوئی آدھا من اٹھا سکتا ہے، کوئی چار سیر اٹھا سکتا ہے، کوئی ایک سیر اٹھا سکتا ہے، یہ اس کی استطاعت پہ ہے۔ اب ایک پہلوان نوجوان سے آپ توقع رکھیں گے کہ ایک من بوجھ اٹھا لے گا اور 90 سال کی بوڑھے سے بھی آپ توقع رکھیں کہ وہ بھی اتنا ہی اٹھائے کیسے کر سکے گا۔ اور نتیجہ بھی اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ
آپ محنت کریں۔ انبیاء کرام آئے، ایسا نبی بھی آیا جس کو ایک امتی نہیں ملا۔ ایسا نبی آیا کہ اس کو صرف ایک امتی ملا۔ ایسا نبی آیا جس کو صرف دو امتی ملے۔ ایسا نبی آیا جسے صرف تین امتی ملے۔ ایسا نبی آیا جسے ایک چھوٹی سی جماعت ملی۔ تو کیا اس نبی نے محنت نہیں کی؟ زندگی کھپا دی، ہزار ہزار سال تک نو سو نو سو سال تک انہوں نے دعوت دی، لوگوں نے نہیں مانی، تو دل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے نا، نبی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں
إنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِن أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ
دل تو اللہ کے دو انگلیوں کے بیچ میں ہے جدھر چاہے پھیر دے۔ تو جو ایمان اللہ تعالی نے ہمیں عطا کیا ہے اس پر ہمیں اللہ تعالی ثبات نصیب فرمائے۔
رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً
ان مدارس سے جو اللہ نے ہمیں وابستہ کیا ہے اور ان مدارس میں جو علوم پڑھائے جاتے ہیں قرآن کے علوم، حدیث کے علوم، فقہ، یہ وہ رہنمائی ہے کہ جو آپ کی کشتی ہر محاذ پر پار کرآئی گی۔
وقت کی کمی کے پیش نظر زیادہ گفتگو کرنے کا تو وقت ہی نہیں رہا لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جو ہمارے اکابر نے کیا، جو اکابر نے ہمیں بتایا وہی ہمارے لیے نقش راہ ہے اسی پہ ہم نے چلنا ہے۔ مدارس کا راستہ بتایا، خانقاہ کا راستہ بتایا، سیاست کا راستہ بتایا خالصتاً شرعی اصولوں پر قرآن و سنت کے تابع جب اس پر ہم چلیں گے تو وہی ہمیں ان شاءاللہ العزیز کامیابی سے ہم کنار کرے گا۔
اللہ تعالی جامعہ خیر المدارس کو مزید ترقیوں سے نوازے۔ یہاں حاضر ہوتا ہوں دل خوش ہو جاتا ہے۔ اور یہ خیر تا ابد رہے۔ حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمہ اللہ کا یہ خیر، اس کی روشنی اللہ کبھی بجھائے نہیں۔
تو ان شاءاللہ العزیز میں کل بھی ملتان میں ہوں۔ کل پھر ملیں گے ان شاءاللہ العزیز اور مزید گفتگو ہوگی۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ ہمیں کامیابی سے اللہ سرفراز فرمائے اور ہمارے ان جہود کو اللہ تعالی قبول فرمائے۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب