قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہم کا جامعہ صدیقیہ کراچی میں ختم بخاری کی تقریب سے خطاب
11 جنوری 2025
الْحَمْدُ للهِ نَحْمَدُه ونستعينُه ، ونستغفرُه ، ونؤمن به، ونتوكل عليه، ونعوذُ باللهِ من شرورِ أنفسِنا ، ومن سيئاتِ أعمالِنا ، مَن يَهْدِهِ اللهُ فلا مُضِلَّ له ، ومَن يُضْلِلْه فلا هادِيَ له ، ونشهدُ أن لا إله إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له ، ونشهدُ أنَّ سيدنا و سندنا و مولانا مُحَمَّدًا عبدُه ورسولُه، أرسله بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وداعياً إلى الله بإذنه وسراجاً منيرا، صلى الله تعالى على خير خلقه محمد وعلى اله وصحبه وبارك وسلم تسليما كثيراً كثيرا. اما بعد فاعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ۔ بَلِ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْۚ وَ هُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ۔ صدق الله العظیم
گرامی قدر حضرت شیخ مولانا منظور مینگل صاحب دامت برکاتہم العالیہ، میرے اور آپ سب کے انتہائی قابل احترام حضرت مولانا مفتی مختار الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ، سٹیج پر موجود اکابر علماء کرام اور زعماء، فضلاء کرام، طلباء عزیز، بزرگان ملت، میرے دوستوں اور بھائیو! میرے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے کہ اس عظیم الشان روحانی، دینی اور علمی اجتماع میں آپ کے ساتھ شریک ہو رہا ہوں۔ جن طلبہ نے اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کر لیا ہے اور جامعہ ان کے سروں پہ دستار فضیلت باندھ رہا ہے، جن فضلاء نے تخصص فی الافتاء کیا ہے، جو ہمارے بچے حفظ قرآن کی سعادت سے سرفراز ہو چکے ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی ان کے علم میں اور ان کے عمر میں اور عمل میں برکت عطاء فرمائے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے دینی مدارس جہاں دینی علوم کی محافظ ہیں، قرآن کے علوم، حدیث کے علوم، فقہ کے علوم، اور ان سے متعلق تمام فنون یہاں پڑھائے جاتے ہیں اس سے جہاں ایک طرف دینی علم محفوظ ہوتا ہے وہاں ایک اسلامی، قومی اور وطنی تہذیب کی بھی حفاظت ہوتی ہیں۔ پورے برصغیر میں اگر اسلامی تہذیب محفوظ ہے، قومی اور وطنی تہذیب محفوظ ہے تو اس کے پشت پر آج دینی مدرسہ کھڑا ہے۔ مغربی دنیا ہو یا ہمارے اس سرزمین پر ان کے ذہنی غلام ہو، ان کے دل و دماغ میں دینی مدارس اور ان کے اندر دینی علوم کا یہ سلسلہ اور ان کی روشنی میں اپنی طرز زندگی اور اپنی بود باش کو ترتیب دینا ان کی نظروں میں حقیر لگتا ہے۔ لیکن میں ان کو بتانا چاہتا ہوں،
خاکسارانِ جہاں را بحقارت منگر
تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد
اس گرد غبار کو محض گرد غبار مت سمجھے، جان لو کہ یہ شہہ سواروں کے قدموں سے اٹھتی ہوئی گرد ہے جو تمہارے قلعوں کو فتح کرنے کے لیے نکلے ہیں اور ان شاءاللہ وہ فتح حاصل ہوگی۔ اب یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو، اب یہ خائف دل سے نکال دو، اب یہ سازشوں کا سلسلہ ختم کر دو، تمہیں سوائے ذلت اور رسوائی کے کچھ نہیں ملے گا یہ مدرسے رہے گے اور ان شاءاللہ رہیں گے اور اگر تم نے دل سے قبول نہیں کیا تو بوجھل دل کے ساتھ زندگی گزارو گے لیکن مدرسہ رہے گا اور اس کی حقیقت رہے گی۔ یہ تو کوئی احمق آدمی ہو سکتا ہے جو بوجھل دل کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے، پلیز بی ریلیکس۔
ایک زمانے میں ایک حکومت نے فیصلہ کیا کہ سکولوں میں، کالجوں میں نئے اساتذہ کی بھرتی نہیں کی جائے گی۔ اب موجودہ اساتذہ کو نکالیں گے تو ہنگامہ کھڑا ہوگا، نئے کی بھرتی نہیں ہوگی تو یہ رفتہ رفتہ ریٹائرڈ ہوتے جائیں گے، ہوتے جائیں گے، ہوتے جائیں گے اور اس کے بعد یہ سکول کالجز یہ مولوی صاحب سے فارغ ہو جائیں گے۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ ہمارے صوبے میں ہماری حکومت بن گئی اور پورے صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں جو پوسٹیں خالی تھی ہم نے دل کھول کر وہ علماء کرام کی بھرتی کرا دی اور اس سے کہیں زیادہ علماء کرام سکولوں اور کالجوں میں پڑھانے لگے۔ تو تم کچھ سوچتے ہو اللّٰہ تعالیٰ کا پروگرام کچھ ہوتا ہے اور وہ کوئی اور اسباب بناتا ہے۔ اب تم ہمیں تو تھکا سکتے ہو خدا کو تو نہیں تھکا سکتے!
وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
ایک زمانے سے ہمارے ہاں کی اسٹیبلشمنٹ ہوں یا بیوروکریسی ہو یا حکومتیں ہوں انہوں نے مدارس کی رجسٹریشن بند کی ہوئی تھی۔ بینک اکاؤنٹس ہمارے بند تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ہم اس دباؤ میں مدارس کو بند کرا دیں گے، مدارس کے پاس آمدن نہیں ہوگی، طلباء کو کہاں سے کھلائیں گے، کہاں سے پلائیں گے، جو کوئی مسلمان اہل خیر ان کو چندہ دے گا، اس کا پیچھا کیا جائے گا، ان سے پوچھا جائے گا مدرسے کو کیوں چندہ دے رہے ہیں۔ اور اس طرح پریشر کے اندر لوگ یہ مولوی صاحبان مدرسے والا کام چھوڑ دیں گے۔ لیکن اس پورے دورانیے میں مدارس کی تعداد بھی بڑھتی گئی، مدارس کے اندر طلباء کی تعداد بھی بڑھتی گئی، اساتذہ کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور پہلے سے کہیں زیادہ پیسہ بھی آتا گیا، اور پہلے ہمارے بینک میں اکاؤنٹ ہوتے تھے، رجسٹریشن ہوتی تھی، ہم سرکار کو حساب بھی دیا کرتے تھے اب حساب کتاب ہی نہیں رہا۔ کیا نقصان کیا تم نے ہمارا، مدرسہ اس سے بھی زیادہ پھلا پھولا، اس کی جان میں بھی ٹھیک ٹھاک جان آئی، مدرسہ پوری طرح پہلوان ہو گیا اور تم سمجھ رہے تھے کہ بھوک کی وجہ سے نڈھال ہو جائیں گے۔ مولوی کے پیٹ پر فرشتوں نے برکت کا ہاتھ پھیرا ہوا ہے۔
ہمارے شیخ مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ، اللّٰہ آپ کے قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، ہمارے شیخ تھے ہمیں حدیث پڑھاتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کہ فرمایا
نضَّر اللهُ امرأً سمِعَ مقالَتي فوَعاها فأدَّاها كما سمِعَها
اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے کہ جس نے میری بات سنی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری بات سنی پھر اسے یاد کیا پھر جیسا سنا تھا اسی طرح دوسروں تک پہنچایا۔ تو فرمایا کہ مدرسوں میں پڑھنے والے چاہے غریب ہوں چاہے ان کے والدین کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ ہو لیکن مدرسے میں پڑھنے والا تر و تازہ لگتا ہے اور فرمایا یہ تر و تازگی مطلق ہے اس سے دنیا وی تر و تازگی بھی مراد ہے، برزخی تر و تازگی بھی مراد ہے اور اخروی تر و تازگی بھی مراد ہے۔ تو آپ دنیا میں ہوں گے یا اس سے آگے جائیں گے، برزخ میں جائیں گے یا آخرت کی طرف جائیں گے جہاں جہاں جائیں گے تر و تازگی آپ کا استقبال کرے گی۔ بس اللہ تعالی ہمارے دلوں میں اخلاص بھر دے۔
تو انہوں نے بھی ہمارے رجسٹریشن بند کیے ہوئے تھے۔ میں نے کہا سب کچھ اللّٰہ کرتا ہے۔ یہ الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کی حکومت بنی تھی، ہمارے چار وزیر بھی اس کے اندر تھے۔ قومی اسمبلی میں ہماری تعداد سولہ تھی۔ قانون سازی کے لیے ڈرافٹ بھی بن گیا تھا۔ بل اسمبلی میں پیش بھی ہو گیا۔ پیش ہونے کے باوجود پاس نہیں ہو سکا۔ عین وقت پر مشکلات کھڑی کر دی گئی۔ مجھے کہا کہ جی بس اب جتنا ہو جائے بس اسی پر گزارا کر لیں۔ میں نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! چھوڑو ہمیں کوئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ وقت لائے گا، ہماری جدوجہد جاری رہے گی، ہم مدارس کی آزادی پر کوئی قدغن قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پھر ابھی ہمارے پارلیمنٹ میں چھبیسویں ترمیم آئی۔ آئین کی چھبیسویں ترمیم جو حکومت نے مرتب کی انسانوں حقوق کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔ عام انسانی حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ عدلیہ کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ پورے سیاسی نظام کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ لیکن مقابلے میں مذاکرات کی جماعت صرف جمعیت علما اسلام تھی۔ اس سے پہلے تو جتنے بھی آئین بنا، اس کے بعد ترامیم آئی یا اٹھارویں ترمیم آئی سب میں ساری پارٹیاں موجود ہوتی تھیں اور وہ ملکر بات چیت کرتی تھی لیکن یہاں پر حکومت کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام اکیلے اور تنہا لڑ رہی تھی۔ اللّٰہ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ ہم نے اس چھبیسویں ترمیم کی 56 شقوں میں سے حکومت کو 34 شقوں سے دستبردار کیا اور صرف 22 شقوں پہ ان کو لے آئے۔ تو ہم نے ان کو بتلا دیا اور ہم نے سیاسی نقطہء نظر سے بات کی۔ نہ ہم نے کوئی اپنا ذاتی مفاد دیکھا، نہ پارٹی کا کوئی مخصوص مفاد دیکھا، قوم کا مفاد، عوام کا مفاد، ملک کا مفاد، آئین کا مفاد، پارلیمان کا مفاد یہ چیزیں مد نظر تھی اور اصولی سیاسی نظریے کے ساتھ ہم نے ان کے ساتھ بات چیت کی اور اسی لیے پھر ان کو ماننا پڑ گیا کہ دلیل کے مقابلے میں ان کے پاس جواب نہیں ہوتا تھا۔
اس سے پہلے ہمارے سپریم کورٹ نے ختم نبوت کے حوالے سے مسئلہ خراب کر دیا تھا۔ اس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اور بلآخر ہم نے اس کو سپریم کورٹ میں دوبارہ چیلنج کر دیا۔ اور یاد رکھو میرے بھائیو میری اس وقت 72 سال یا اس سے کچھ زیادہ ہو گئی عمر، پوری زندگی میں میں عدالت کے سامنے آج تک پیش نہیں ہوا ہوں اور اگر پیش ہوا تو اسی ایک کیس میں پیش ہوا۔ ایک دفعہ پیشی کی کچھ پتہ نہیں تھا کہ عدالت کا نظام کیا ہوتا ہے، اس میں بات کیسی کی جائے گی، جج کا سامنا کیسے کیا جائے گا، وہ کیا کہے گا، ہم کیا کہیں گے، لیکن دو چار گھنٹوں کے بعد ہم اپنے مسئلے میں کامیاب ہو کر واپس آئے اور ایسی کمر ٹوٹ گئی قادیانیوں کی کہ آئندہ صدی میں شاید ان کو دوبارہ کمر سیدھی کرنے کا موقع نہ ملے۔
لیکن ابھی بھی سفر جاری ہے سفر ختم نہیں ہوا۔ آپ کو بیدار رہنا پڑے گا۔ ابھی قانون سازی وفاق کی سطح پر ہوئی ہے ابھی صوبوں میں نہیں ہوئی مدارس کے حوالے سے، اس قانون سازی کی طرف بھی جانا ہے اور ان شاءاللہ کامیابی کے ساتھ جانا ہے۔ باقی تو سیاسی معاملات ہیں۔ الیکشن پر عوام کا اعتماد نہیں۔ دھاندلیوں سے اسمبلیاں بن جاتی ہیں۔ پھر وہ ہم پر حکومت کرتے ہیں اور میں تازہ مثال آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ ایک مہینہ قبل ہمارے بلوچستان کے ایک صوبائی حلقے کی ووٹوں کی تحقیق و تفتیش کی نادرہ نے، نادرہ نے تفتیش کرنے کے بعد جو رپورٹ لکھی ہے اس میں کہا ہے کہ صرف دو فیصد ووٹوں کا پتہ چلا ہے کہ کس نے ڈالے ہیں اٹھانوے فیصد کا ہمیں پتہ نہیں چل سکا، غیبی مدد نہ کہیں حضرت اسے خلائی مدد کہیں۔ اور ابھی ایک ہفتہ ہوا ایک ایسا حلقہ کہ جس کے اوپر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پانچ ہزار ووٹ ہمیں بوگس لگتے ہیں یہ صحیح نہیں پڑے۔ تو پندرہ پولنگ سٹیشن پر دوبارہ کیا جائے۔ آپ یقین جانیے کہ پندرہ کے پندرہ پولنگ سٹیشن پر جو آدمی ناکام ہے اسی کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ اور ہم کامیاب تھے ہمیں نیچے کر دیا۔ اس وقت بھی ان کو عقل نہیں آئی۔ عوام تھوک رہے ہیں اس کردار کے اوپر، لعنتیں بھیج رہے ہیں اس کردار کے اوپر، مذمت کرتے ہیں لوگ اس کردار کی، چوری طشت ازبام ہو چکی ہے۔ اور جب چوری طشت ازبام ہو جائے تو پھر اس کو چوری نہیں کہتے اس کو ڈاکہ کہتے ہیں۔ تو عام آدمی کے حق پر، میرے والد صاحب رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی کہ ووٹ بیعت ہے۔ بیعت بلواسطہ بھی ہوتی ہے اور بلاواسطہ بھی ہوتی ہے۔ صدارتی نظام میں ہر ایک اولی الامر کو براہ راست ووٹ دیتے ہیں اور پارلیمانی نظام میں آپ ایک اولی الامر کو بلاواسطہ دیتے ہیں اپنے حلقے سے نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔ وہ آگے جاتا ہے وہ وزیراعلی بھی منتخب کرتا ہے، وہ ملک کے صدر کو بھی منتخب کرتا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ عام آدمی کسی ایک کی بیعت کرے اور جب نتیجہ آئے تو کسی اور کا بیعت ہو چکا ہو۔ جس کے ہاتھ پر کسی نے بیعت ہی نہیں کی اور وہ کہتا ہے میں اولی الامر ہوں اس کو تو شریعت میں بھی ولی الامر تسلیم کرنا جائز نہیں۔
ایک پریس کانفرنس میں میرے پاس میں نے دیکھا کہ طالب علم جیسا آدمی بیٹھا ہوا ہے اور اس نے مجھ پر ایک سوال کیا لگتا ایسا تھا کہ کسی استاد جی نے پڑھایا ہوگا، مجھے کہتا ہے کہ صاحب وزیراعظم تو ولی الامر ہوتا ہے آپ اس کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں یہ خروج کی زمرے میں نہیں آئے گا؟ بتاؤ، میں نے کہا جی جس کے ہاتھ میں نے بیعت ہی نہیں کی وہاں خروج کا کیا مطلب! میں داخل ہی نہیں ہوا تو وہاں خروج کیسے؟
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کی میں نے بھی حسین کی سنت پر عمل کیا ہے۔ حکمران کا مقام یزید کا ہے میرا مقام حسین کا ہے بتاؤ، اور پھر اللہ رب العزت ایک آیت میں دو باتوں کا ذکر کرتا ہے اور عطف کے ساتھ کرتا ہے۔
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ (یہ ایک بات) وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ
تو کبھی تو ایسا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اقتدار بھی دیتا ہے اور عزت بھی دیتا ہے۔ کبھی صرف عزت دیتا ہے اقتدار نہیں دیتا۔ کبھی صرف اقتدار دیتا ہے پھر عزت نہیں دیتا۔ تو یہ جو ہمارے حکمران ہوتے ہیں ان کو اقتدار تو مل جاتا ہے تو عزت نہیں ملتی ہے۔ تو میں نے کہا اقتدار تو یزید کو ملا اور عزت حسین کو ملی۔
تو ان شاءاللہ العزیز ہم نے محنت کرنی ہے اور نتائج اللہ پہ چھوڑنے ہے۔ اللہ کے امت پر دو احسانات ہیں ان احسانات کو سمجھنے کی کوشش کرو ایک یہ کہ ہم پر جدوجہد لازم ہیں، محنت لازم ہے، کوشش لازم ہے، نتیجہ ہماری ذمہ داری نہیں۔ اللہ چاہے تو مرتب کر دے اللّٰہ چاہے تو نہیں۔ انبیاء کرام آئے۔ فرض نبوت کو پورا کیا، دعوت دی لیکن ایسے پیغمبر بھی آئے جن کو ایک امتی بھی نہیں ملا۔ کسی کو صرف ایک ملا، کسی کو صرف دو ملے، کسی کو تین، کسی کو چھوٹی سی جماعت، اب ہم کہیں کہ پیغمبر ناکام ہوا، پیغمبر نے اپنی پوری محنت کی، پیغمبر ناکام نہیں ہوتا، پبلک ناکام ہوئی۔ جن کو دعوت دی گئی وہ ناکام ہے، کن بخت ہے اور دوسری بات یہ کہ جتنی آپ کے اندر استطاعت ہے اتنی جدوجہد آپ پر لازم ہے۔ اپنے بس سے زیادہ نہیں اور اس استطاعت کا فیصلہ آپ نے ماحول کے اندر کرنا ہوگا کہ جس ماحول میں آپ ہیں، جس نظام کے اندر آپ رہ رہے ہیں، جس طرح کے حالات سے آپ کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے تو ساری چیزوں کو جانچنے کے بعد اپنی حکمت عملی بنانی ہوتی ہے۔
اور علم یہ تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔ پہلی چیز نفس ادراک، آپ کو ایک مسئلہ معلوم ہوگیا اب مسئلہ تو ایک دیہاتی کو بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ مولوی بتائے گا تو عام آدمی کو بھی پتہ چل جاتا ہے۔ اس کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ نماز فرض ہے، اس کو بھی پتہ ہے روزہ فرض ہے، اس کو بھی پتہ ہے زنا حرام ہے، اس کو بھی پتہ ہے شراب حرام ہے، چوری حرام ہے لیکن جہاں مسئلے کا نفس ادراک آپ کو ہو جائے، پھر آپ کو یہ بھی علم ہو کہ اس مسئلے کے پیچھے علت کیا ہے۔ جب اس کی علت پر بھی آپ کا ادراک ہو جائے تو یہ ہے فقہ، وہ فقیہ ہو جاتا ہے۔ اور تیسری چیز یہ کہ آپ نے کوئی مسئلہ بیان کرنا ہے، تو یہ مسئلہ کس ماحول میں بیان کرنا ہے۔ آپ کا ماحول کس حد تک آپ کو یہ بات کہنے کی اجازت دیتا ہے کیوں کہ ایک مسئلہ تو ہمیں معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا حرام ہے، جھوٹ بولنا جائز نہیں لیکن یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ جتنا سچ تمہیں آتا ہے وہ سارا کا سارا کہو، جتنا مناسب ہے اتنی بات کہو لوگوں کے سامنے، جب آپ کو بات کرنے کا موقع محل معلوم ہو، جب آپ کو اپنی گفتگو کرنے کا زاویہ گفتگو متعین کرنا، الفاظ کا تعین کرنا، جملے کا تعین کرنا، مخالف کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرنا کہ اس کے دل میں اتر جائے اس کو کہتے ہیں حکمت۔ اور حکمت وہ خیر ہے۔
وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا
تو جب یہ علم اس کے پیچھے علت، فقہ اور پھر حکمت یہ تین چیزیں جس میں اکٹھی ہو جاتی ہیں اس کو کہتے ہیں عالم ربانی اور ہمارے حضرت شیخ ہمیں نصیحت فرماتے تھے کہ اب تم فارغ التحصیل ہو گئے ہو اب تمہیں یہ گھمنڈ ہو گیا ہے کہ میں عالم بن گیا ہوں۔ تو بیٹا تم ابھی عالم نہیں بنے تمہارے اندر عالم بننے کے استعداد پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اگر تم چاہو کہ میں عالم بن جاؤں تو اب عالم بن سکتے ہو۔ آٹھ سال میں مدرسے نے تیرے اندر استعداد پیدا کر دیا ہے کہ تم اب عالم بن جاؤ۔ آج اگر یہ علماء یہ اساتذہ یہ شیوخ الحدیث یہ شیوخ القرآن اگر آپ کو پڑھا رہے ہیں اور ایک قبولیت ان کو حاصل ہو گئی ہے ایک دن میں حاصل نہیں ہوئی، فارغ التحصیل بنتے ہی نہیں ہوئی، انہوں نے وہاں سے تدریس کا کام شروع کیا، کرتے کرتے مطالعہ بڑھتے بڑھتے اور آج اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ آج ان کی بات کو حجت تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس تمام تر اکتساب فیض کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم تین چیزوں کا خیال رکھیں چونکہ اس کا تعلق مدرسے کے ساتھ بھی ہے، اس کا تعلق کتاب کے ساتھ بھی ہے، اس کا تعلق استاد کے ساتھ بھی ہے اور تینوں سے وہ اکتساب فیض کرتا ہے یہ تینوں چیزیں آپ کو تب ہی حاصل ہوگی مدرسے سے، کتاب سے، استاد سے اگر تینوں کے ساتھ آپ کا تعلق اور علاقہ آدب کا ہوگا۔ آداب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ رشتے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان رشتوں کو مضبوط کرنا ہے۔ تاکہ صحیح معنوں میں آپ ایسے عالم بن جائیں کہ آپ کے علم کی برکت سے لوگ مستفید ہوں اور آپ کے چشمے جاری ہو جائے۔ مدرسہ یہ ماں ہے، مادر علمی ہے، اس کے گود میں ہم پلتے ہیں آٹھ نو سال ہم اس کے گود میں گزارتے ہیں۔ اس کی گود میں ہماری نشونما ہوتی ہے۔ استاد باپ کی حیثیت رکھتا ہے وہ ہماری روحانی غذا اور علمی غذا کا انتظام کرتا ہے یہ کتابیں جو ہم پڑھتے ہیں یہ کتابیں ہمارے اس غذا سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ ہماری روحانی ارتقاء اور نشونما کا سامان ہے ذخیرہ ہے اور استاد ساری رات مطالعہ کر کے ایک طالب علم کی استعداد کے مطابق اس سارے ذخیرے سے غذا چن چن کر آپ کو صبح عطا کرتا ہے۔ اس کا نام ہے ہمارے دینی مدرسہ کا نظام، یہی سے آپ کی سیاست اٹھتی ہے۔ لیکن سیاست آج بدنام ہے۔ سیاست اور سیاسی کردار ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا ہے جو جھوٹ کو سیاست کہتے ہیں۔ جو دھوکے کو سیاست کہتے ہیں۔ چالاکی سے اقتدار تک پہنچنا اور دولت حاصل کرنا اس کو سیاست کہتے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ پھر سیاست گندی چیز ہو گئی نا، اب اگر ایک سو سال سے، ستتر سال سے آپ کے حکمران اس طبقے سے آرہے ہوں گے آپ کا پورا مملکتی نظام اس کی سیاست کا جو ظاہر المفہوم آپ کے اور میرے ذہن میں آئے گا تو لوگ کیسے کہیں گے کہ سیاست اچھی چیز ہے۔ لیکن اگر سیاست انبیاء کا وظیفہ ہے
كانَتْ بَنُو إسْرائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأنْبِياءُ، كُلَّما هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وإنَّه لا نَبِيَّ بَعْدِي
ایک پیغمبر آتا تھا دوسرا اس کی جگہ سنبھالتا تھا تو سیاست اللّٰہ کے دیے ہوئے وحی کی رہنمائی میں مملکت اور قوم کے معاملات کی تدبیر اور انتظام کا نام ہے۔ ایک ایسا تدبیر و انتظام کہ جو دنیا میں پرسکون زندگی اور مطمئن زندگی کا ضمانت دیتا ہے اور اخروی نجات کا سبب بنتا ہے۔ مبداء اور معاد دونوں سامنے رہنے چاہیئے۔ آپ نے اس سیاست کا علمبردار ہونا ہے اگر آپ انبیاء کے وارث ہے۔ ہر بات پر العلماء ورثة الأنبياء لیکن سیاست نہیں کرنی، یہ مولوی سیاسی مولوی ہے۔ یہ علم کا تقاضا نہیں ہے بلکہ یہ دین سے جہالت کا تقاضا ہے۔ ہمارا دین رہبانیت نہیں سکھاتا ہمارا دین پھیلتا ہے۔
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ وَحَمَلْنَٰهُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ
ان تعلیمات کی روشنی میں اگر ہم مملکت کے انتظام میں کردار ادا کریں۔ عوام کے فلاح و بہبود میں کردار ادا کریں۔ قیام امن میں کردار ادا کریں۔ انسانی حقوق کے تحفظ میں کردار ادا کریں اور شریعت کے مطابق لوگوں کو انسانی حق عطا کرے تو اس سے بڑھ کر اور ایک مبارک وظیفہ کیا ہو سکتا ہے۔ جو لوگ جہاں جہاں جس جس محاذ پر، یہ مدرسہ بھی ہمارا محاذ ہے، یہ خانقاہ بھی ہمارا محاذ ہے، دعوت بھی ہمارا محاذ ہے، حکومت بھی ہمارا محاذ ہے، سیاست بھی ہمارا محاذ ہے، شریعت جامع دین ہے تمام شعبوں کو مکمل کرتا ہے۔ اب آپ صرف مولانا مختار الدین صاحب کو پیر کہتے ہیں مجھے نہیں پیر کہتے حالانکہ میں اس سے بڑا پیر ہوں اور آپ شیخ الحدیث اس بزرگ کو کہتے ہیں حالانکہ میں اس سے بڑا بزرگ ہوں۔ ہر چند کہ میں نہیں پڑھا سکا اب اس وقت تو میری حیثیت بھی طالب علم کی ہے لیکن اگر میں پڑھا تھا تو آپ میرا مقابلہ نہ کر سکتے (ہنسی مذاق)۔
ان ذمہ داریوں کو سمجھو، ہم ایک دوسرے کے مقابلے میں نہ آئے۔ اگر خانقاہی نظام پر کام ہو رہا ہے ہمیں دعا دینی چاہیے کہ وہاں پر سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ بدعات سے اللّٰہ ان کو محفوظ رکھے۔ ہمارے خانقاہیں اکثر جہاں علم ختم ہو جاتا ہے وہاں بدعتیں آجاتی ہے اور ان کی جگہ لے لیتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے خانقاہوں کو علم سے آباد رکھے۔ ہمارے مدارس میں ان مدارس میں پڑھائی ہوتی ہے علماء درسگاہوں میں رہتے ہیں اگر ذہن درس گاہ کے اندر پھنس گیا حجرے میں پھنس گیا تو پھر اسلام کی آفاقیت کا تصور ختم ہو جائے گا اور رہبانیت کا تصور سامنے آجائے گا جو اس بات کا مزاج ہی نہیں ہے۔ تو ان ساری چیزوں کو ہمیں مد نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔