قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پشاور نشتر ہال میں استقبالیہ تقریب سے خطاب
6 جنوری 2025
الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ صدق الله العظیم
جناب صدر محترم، حضرات علمائے کرام، دانشوران گرامی، جمعیۃ علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخواہ کے میرے انتہائی ذمہ دار ساتھیوں، میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ آج اس پروقار اجتماع میں آپ سے مخاطبت کا موقع حاصل کر رہا ہوں۔ سب سے پہلے تو میں صوبائی جماعت کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اور آپ سب دوستوں کو یہ موقع عنایت فرمایا۔ کوئی دو ہفتوں سے میری سرگرمیاں معطل رہی لیکن آپ دوستوں کی دعائیں کام آئی اور اس تعطل کے بعد آپ کے اجتماع سے پھر اپنے مصروفیات کا آغاز کر رہا ہوں۔
جمعیۃ علماء اسلام ایک نظریاتی تحریک اور جہد مسلسل کا نام ہے، یہ جماعت اپنے اکابر و اسلاف کے نظریات و اعتقادات اور ان کے لیے جدوجہد کی امین ہے، موافق حالات بھی آتے ہیں ناموافق حالات بھی آتے ہیں، حالات کی روش کے ساتھ ہمیں چلنا بھی پڑتا ہے لیکن اللہ تعالی نے ہمیں دو باتوں میں ثبات عطا کیا ہے کہ نہ ہم نے اپنے اکابر و اسلاف کے عقیدے و نظریے پر کوئی سودا کیا اور نہ ہی اس عقیدے اور نظریے کے لیے کام کرنے کے منہج اور رویے پر کوئی سمجھوتہ کیا، پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا آئینی طور پر اس کی نظریاتی اساس کا تعین کرنا یہ ہمارے اکابرین کا پارلیمانی کردار ہے، ہمارے ملک کی جمہوریت اور پارلیمانی سیاست یقیناً کوئی معیاری نہیں ہے، اس پر ہزاروں سوالات اٹھ سکتے ہیں اور اٹھ رہے ہیں لیکن اگر ہم مسلمان ہوتے ہوئے دین اسلام کے حوالے سے ہماری زندگی میں کمزوریاں آجائیں تو کیا ہم اسلام سے دستبردار ہو جائیں گے؟ کہ مسلمان کمزور ہو گئے، اسلام پر ان کا عمل برائے نام رہ گیا، ہم برائے نام مسلمان ہیں، اس لیے اس اسلام سے ہم دستبردار ہوتے ہیں۔ کمزوریوں کی بنیاد پر نظام سے اور عقیدے سے دستبردار نہیں ہوا جاتا بلکہ اس کے استحکام کے لیے اور اس کو مؤثر بنانے کے لیے جدوجہد جاری رہتی ہے اور الحمدللہ وہ جدوجہد آج بھی جاری ہے اور کل بھی جاری رہے گی۔
پاکستان میں ایک بہت بڑا مذہبی طبقہ موجود ہے اور اس مذہبی طبقے میں فرقہ وارانہ اختلافات موجود ہیں، مختلف مکاتب فکر ہیں اور مذہب بیزار لوگ ہمیشہ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تو ہم بھی چاہتے ہیں اسلام تو ہمارا بھی مذہب ہے لیکن کس کا اسلام؟ کس مذہب کا اسلام؟ کس فرقے کا اسلام؟ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ریاست اور مذہب کو جوڑ دیا جائے تو مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا اثر ریاست پر پڑتا ہے منفی اثر پڑتا ہے لہٰذا مذہب اور ریاست کے بیچ میں تعلق نہیں ہونا چاہیے بطور نظریہ کے پیش کرتے ہیں، اور ہمارے پارلیمانی زندگی میں ایسے مواقع آئے ہیں جہاں یہ موضوع زیر بحث آیا ہے، تو ہمارا موقف یہ رہا ہے کہ تمام مذہبی مکاتب فکر کی جو سیاسی قیادت ہے ان کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی کا کردار ادا کیا ہے، چنانچہ پاکستان بن جانے کے بعد جو سب سے اولین دستاویز ہمارے پاس آئی وہ پہلی دستور ساز اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد مقاصد ہیں، تمام مکاتب فکر کا اس پہ اتفاق ہے، آج تک کوئی جھگڑا کسی نے نہیں کیا، کسی نے نہیں کہا کہ یہ تو ایک دیوبندی مولوی نے پیش کیا تھا یہ تو فلانے فرقے نے پیش کیا تھا اس میں تو ہم نہیں تھے فلاں تھا فلاں نہیں تھا، اس کے بعد 1951 میں تمام مکاتب فکر کے علماء کا اجتماع ہوا ان کی قیادت کا اجتماع اور ملک کو اسلامی نظام کی طرف رہنمائی کے لیے حکمرانی کے 22 اسلامی دفعات مرتب کیے، تمام مکاتب فکر کا اس دن بھی اتفاق تھا آج بھی اتفاق ہے۔ آئین پاکستان، 1973 کا آئین اس کے تمام تر اسلامی دفعات، اس میں موجود مسلمان کی تعریف، قرآن و سنت کے حوالے سے قانون سازی کا معاملہ، عقیدے ختم نبوت کے تحفظ کی ترمیم، کل بھی اتفاق تھا تمام مکاتب فکر کا آج بھی اتفاق ہے۔ کس فرقے کے عقائد اور اس کی فقہ کے تابع ہونا چاہیے نظام؟ اس کے لیے بھی اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی جس میں ماہرین شریعت بھی ہے ماہرین آئین و قانون بھی ہیں اور تمام مکاتب فکر کی نمائندگی ہے اور آج تک جتنی سفارشات قانون سازی کے لیے مرتب ہوئی ہے 99 فیصد سفارشات پر اتفاق ہے کونسل کے اندر بھی تمام مکاتب فکر کا اور کونسل سے باہر بھی تمام مکاتب فکر کا، اب تمام مکاتب فکر نے تو اتفاق کر لیا ہے اگر قانون سازی نہیں کر رہے تو آپ لوگ نہیں کر رہے، ہمارے ایوانوں کو ایسے ایسے لوگوں سے بھر دیا جاتا ہے کہ جنہیں قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی، سفارشات بھی موجود ہیں، ایک سفارش پر نہ آج تک بحث ہوئی ہے اور نہ قانون سازی ہوئی ہے، ذمہ دار کون ہے؟ پھر بھی علماء ذمہ دار ہیں! ہاں ہمارے سوسائٹی میں فرقہ وارانہ عناصر موجود ہیں اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اور وہ فرقہ وارانہ عناصر جب آپس میں لڑتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف اشتعال پیدا کرتے ہیں تب پیدا کرتے ہیں جب ہماری ریاست کو اور ریاست کی کسی حکومت کو اس کی ضرورت ہوتی ہے، فرقوں کو ریاستی ادارے لڑاتے ہیں، فرقوں کو حکومتیں لڑاتی ہیں، ان کے درمیان اشتعال کے پیچھے ان کی باقاعدہ منصوبہ بندی کار فرما ہوتی ہے، تو فرقوں کو لڑاتے آپ ہیں اور پھر فساد کا الزام آپ مذہبی مکاتب فکر پہ ڈالتے ہیں، ان باتوں کو ذرا سمجھنا چاہیے۔
پرسوں میرے پاس ایک قابل احترام سفیر صاحب تشریف لائے تھے، بہت سی باتوں میں انہوں نے کُرم ایجنسی کا ذکر کیا، بہت سی باتوں میں انہوں نے کرم ایجنسی کا ذکر کیا وہاں کے فسادات کی طرف اشارہ کیا، تو میں نے کہا کہ اب آپ یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ یہ شیعہ سنی فساد ہے، یہ تو 20 22 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا قبائل ہیں لڑ رہے ہیں لیکن اگر یہ شیعہ سنی فساد ہے تو میں نے کہا کرم ایجنسی سے تھوڑا سا نیچے آئے ہیں تو ہنگو آتا ہے یہ علاقہ بھی شیعہ سنی کا علاقہ ہے، اس سے تھوڑا آگے آئیں تو خالصتاً شیعہ آبادی آتی ہے ان کے بالکل بیچ میں سے سڑک گزرتی ہے کوہاٹ کی طرف آتی ہے، پھر کوہاٹ آجائے تو وہاں پر بھی شیعہ سنی معاملہ ہے ماضی میں فسادات بھی ہوئے ہیں، یہ کیا وجہ ہے کہ کرم میں جھگڑا شیعہ سنی کا ہے آگ جل رہی ہے اور اس کی گرمی نہ ہنگو تک پہنچتی ہے نہ کوہاٹ تک پہنچتی ہے اور کراچی تک پہنچ جاتی ہے! کیا وجہ ہے کہ اس کی گرمی ہنگو اور کوہاٹ تک نہیں پہنچتی اور لکھنو تک پہنچ جاتی ہے! کیا وجہ ہے کہ اس کی گرمی نہ کوہاٹ تک پہنچتی ہے نہ ڈیرہ اسماعیل خان تک پہنچتی ہے نہ پشاور تک پہنچتی ہے اور تہران تک پہنچ جاتی ہے! تو ہم مقامی لوگ ہیں ہمیں پتہ ہے کہ اس مسئلے کی بنیاد کیا ہے اور اس مسئلے کے حل کے راستے کیا ہو سکتے ہیں، لیکن جو لوگ مسئلے کو اشتعال دے رہے ہیں ایک فرقہ کی تنظیم کراچی میں پریس کانفرنس کرتی ہے دوسری تنظیم اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتی ہے تو ان کو کون آگے کرتا ہے کس کے اشاروں پہ آگے آتے ہیں؟ اپنے نظریے سے محبت عقیدت اس کے لیے قربانی کا جذبہ اور اگر لوگ اس میں شہید ہو جاتے ہیں تو اپنے خون کا سہارا لینا یہ تو ہر ایک کرتا ہے، یہ کون سی ایسی بات ہے ہر ایک اپنے جو قتل ہو جاتے ہیں ان کو شہداء کہتے ہیں ہمارا خون ہماری قربانیاں ہے اس کا سہارا تو ہر ایک لیتا ہے، تو کب تک آپ معاشرے کو غلط فہمی کا شکار کرتے رہیں گے، کیوں آخر؟ میرے پاس بھی کچھ وفود آئے تھے اہل سنت کی طرف سے بھی آئے اہل تشیع کی طرف سے بھی آئے، جونہی ہم نے اس کے لیے ایک راستہ بنایا اگلے دن دوبارہ فساد شروع ہو گئے، جب ہم ان کے معاملات کو سیدھا کرنے کے لیے متوجہ ہو جاتے ہیں تو آگ بھڑک اٹھتی ہے، پیغام دیا جاتا ہے کہ آپ کون ہوتے ہیں مسئلے کو ٹھنڈا کرنے والے، ہم تو اس کو اشتعال دلا رہے ہیں شعلے کو اٹھا رہے ہیں، فائدہ کیا ہوگا اس کا جی؟ لیکن ہم اپنے کردار کو قرآن کریم کے اصولوں کی نظر میں طے کرتے ہیں قرآن کریم واضح طور پر کہتا ہے
كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ
جب بھی ان لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی اللہ نے بجھائی۔ سو اللہ کا کام بجھانا ہے ہم اللہ کے نمائندے اور تمہارا کام شیطانوں والا ہے تم شیطانوں کے نمائندے، تمہیں اپنا کام مبارک ہمیں اپنا کام مبارک۔
میرے محترم دوستو! ہماری جو پارلیمانی جدوجہد ہے کیا حالات بنے یہاں پر، فرقہ واریت کی بنیاد پر لوگوں کا کتنا خون کیا گیا، مجھے بھی اپنے ساتھیوں نے رابطے کیے کہ جی ہمیں قتل کیا جا رہا ہے ہمیں بندوق کی اجازت دے دو، ہم نے کہا نہیں یہ جمعیۃ کا روش نہیں ہے، کہنے لگے پھر ہم سیٹ ہار جائیں گے میں نے کہا ہار جائیں کوئی مسئلہ نہیں، ایک سیٹ ہارنے سے کچھ نہیں بنے گا جی اپنے منہج کو تبدیل نہیں کرنا، اشتعال میں نہیں آنا، تحمل اور برداشت سے کام لینا ہے، آج اگر مدارس پاکستان سے وابستہ ہے، آج اگر علماء پاکستان سے وابستہ ہیں، آئین سے وابستہ ہیں، قانون سے وابستہ ہیں، ملک کے ساتھ وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں، پھر سزا کس چیز کی ان کو دی جا رہی ہے؟ تمام تر وفاداریوں کے باوجود اگر اس طبقے کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے تو پھر مان لو کہ نہ مولوی دہشت گرد ہے نہ مدرسہ دہشت گرد ہے نہ یہ دہشت گردوں کے مراکز ہیں لیکن الزام چسپاں کر دو تاکہ اس الزام کے سہارے پر تم ان کو دیوار سے لگاؤ اور دنیا کو تسلی دو کہ ہم تو پاکستان میں دہشت گردی سے جنگ لڑ رہے ہیں اور پھر اس عنوان سے ڈالر کماتے رہو، ہمارے خون پر ڈالر کماتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی! پاکستان کا اقتصاد چلے گا اس بات پر کہ تم مدارس کو کھنڈرات بناؤ، علماء کا قتل عام کراؤ، انہیں آپس میں لڑاؤ، انہیں دہشت گرد کہو، ان کے حقوق پامال کرو، ان کو انسانی حقوق سے محروم کر دو، سو ہم نے برداشت کیا ہم بھی وقت کا انتظار کرتے رہے پھر 26 ویں ترمیم پر آکر پھنسے یا نہیں؟ یقیناً اس کا بار بار تذکرہ بھی ہوا ہے آپ حضرات وکیل حضرات تو مجھ سے بھی زیادہ بہتر جانتے ہیں ان چیزوں کو، آئین بنا اس وقت ساری اپوزیشن موجود تھیں، تمام مختلف مکاتب فکر کے علماء بھی موجود تھے، ختم نبوت کا مسئلہ آیا تمام مکاتب فکر موجود تھیں پوری اپوزیشن موجود تھی، 17ویں ترمیم آئی ایم ایم اے موجود تھی، 18ویں ترمیم آئی ساری اسمبلی موجود تھی لیکن 26 ویں ترمیم کے مسئلے پر بمقابلہ حکومت کے صرف جمعیۃ علماء اسلام تھی اکیلے، اب ظاہر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کے اندر ہمیں ایک کردار ملا اور اس کردار کو ادا کرنے میں ہم تنہا تھے، پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی لیکن وہ مذاکرات کا حصہ نہیں تھی ہم ان کو قدم بقدم صورتحال سے آگاہ کرتے رہے ان کو اعتماد میں لیتے رہے اگر انہوں نے نشاندہی کی کہ فلاں جگہ پر ہمیں اعتراض ہے ہم اس کو بھی مسئلہ بناتے تھے اور مذاکرات کا حصہ بناتے تھے، اب اس میں ہمیں مسودہ اور ڈرافٹ نہیں دیا جا رہا تھا چھپایا جا رہا تھا اور جب مہیا کیا گیا اور ہم نے اس کو دیکھا تو سب سے پہلے حملہ آئین کے آرٹیکل 8 پر ہوا جو ہمارے عام آدمی کے انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، اور جب کوئی بھی قانون پارلیمنٹ یا اسمبلی پاس کرتی ہے اور اس کو عدالت میں بہ یہ معنی چیلنج کیا جائے کہ یہ انسانی حقوق کے منافی ہے اور عدالت میں ثابت ہو جائے کہ ہاں یہ قانون یہ انسانی حق کی نفی کرتا ہے تو اس قانون کو معطل کر دیتے ہیں، یہاں پر ایک چھوٹا سا استثنیٰ ہے کہ اگر کوئی شخص آئین کا انکار کرے فوج سے بغاوت کرے وغیرہ وغیرہ چھوٹے سے استثنیٰ کے ساتھ لیکن یہاں استثنیٰ کا دائرہ بڑھا دیا گیا اور اصل جو دفعہ تھا انسانی حقوق کا اس کے حدود تنگ کر دیے گئے، تو ہم نے انکار کر دیا کہ یہ نہیں ہو سکتا اور بالآخر ان کو دستبردار ہونا پڑا۔ ہماری عدالتوں کو کھلونا بنایا گیا یہاں تک کہ ہائی کورٹ کے ججز کو تبدیل کرنے کا اختیار بھی حکومت اپنے ہاتھ میں لے رہی تھی کہ اگر ان کو اندازہ ہو کہ یہ جج میرے حق میں فیصلہ نہیں کرے گا تو اس کو تبدیل کر دیا جائے اس کی جگہ اپنا وفادار لایا جائے، کتنی بری بات ہے کہ پاکستان کی عدلیہ پر یہ چھاپ پڑ جائے کہ اس کا فلانا جج جو ہے وہ ایک پارٹی کا وفادار ہے اور دوسرا جو ہے وہ دوسری پارٹی کا وفادار ہے، اس پر میں نے پارلیمنٹ میں تقریر کی اور میں نے عدالت کے حوالے سے اس روش پر تنقید کی تھی، عدالتوں کو جج کو سامنے رکھ کر فیصلے کریں گے، جج کو سامنے رکھ کر آپ آئینی ترامیم کریں گے، آپ لائیں عدالتی اصلاحات لائیں، عدالتی اصلاحات یہ تھی کہ جی ملٹری کورٹ بنائیں کورٹ کو یہ حق دیں کورٹ کو یہ حق دیں کورٹ کو یہ حق دے اور یہاں تک بھی کہ اگر ملٹری کورٹ وہ اپنا ایک ذہن اور ایک پیغام بھیج دے ایک سول کورٹ میں کہ آپ جو مقدمہ سن رہے ہیں یہ ہمارے زمرے میں آتا ہے آپ کے زمرے میں نہیں تو سیول کورٹ پابند ہوگی کہ وہ مقدمہ ادھر منتقل کر دے، ہماری پوری عدلیہ کو یرغمال بنا دیا گیا تھا، ہم نے ان اصولوں سے اختلاف رائے کیا، 56 شقوں پر مشتمل آئینی ترمیم آپ کی دعاؤں سے ہم نے 34 شقوں سے ان کو دستبردار کیا، پھر 22 شقیں رہ گئی پھر 22 شقوں میں ہم نے اپنے 5 شقیں ملا دی تو 27 ہو گئی۔
اب کورٹ نے فیصلہ کیا تھا وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ 31 دسمبر 2027 تک سود کا خاتمہ ہوگا، تمام اداروں کو ہدایات دی گئی کہ آپ اپنے ادارے کے اندر کے مالیاتی نظام کو، بینکوں کو ہدایات دی گئی کہ آپ اپنے اندر کے تمام مالیاتی نظام کو 31 دسمبر 2027 تک سود کی آلائش سے پاک کریں گے یہ کورٹ کا فیصلہ تھا، اب کورٹ کا فیصلہ شریعت کورٹ کا فیصلہ اس بیچاری کے فیصلے کی اتنی ہی وقّت ہے کہ فیصلہ تو دے دیا لیکن اگر کسی نے سفید کاغذ پر بھی اپیل لکھ کر سپریم کورٹ میں دائر کر دیا اس کی شریعت اپیلیٹ بینچ میں درخواست دائر کر دی مقدمہ فیصلہ رک گیا، کوئی پابندی نہیں ہے سپریم کورٹ پر کہ وہ اس پر سماعت کب کرے ان کی نظر ثانی اپیل کب سنے کوئی پابندی اس کی نہیں ہے، یوں سمجھیں کہ شرعی عدالت کا فیصلہ عدالت ہی نہیں ہے، وفاقی شرعی عدالت کا اپنا جج اپنے کورٹ کا چیف جسٹس نہیں بن سکتا تھا، آپ بتائیں کہ جج کیوں آئے گا اچھا بھلا اس کا عزت و احترام ہوتا ہے اس کا آؤں بھگت ہوتی ہے یہاں آگیا تو بے نام و نشان رہ جائے گا، تو ہم نے اس میں یہ اضافہ کیا کہ عدالت کا فیصلہ مؤثر ہوگا اور وفاقی شرعی عدالت کا اپنا جج اپنے کورٹ کا چیف جسٹس بنے گا اور اس کے خلاف جب اپیل ہوگی تو جس کورٹ میں اپیل جائے گی ایک سال کے اندر اندر اس اپیل پر فیصلہ کرنا لازم ہوگا اور اگر ایک سال کے اندر وہ فیصلہ نہ دے سکا تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ خود بخود مؤثر قرار پائے گا، اب آپ اس چیز کو ایک طرف رکھ کر محفوظ کر لیں۔ اس کے بعد ہم نے ترمیم دی کہ یکم جنوری 2028 سے ملک کے ہر ادارے میں ہر جگہ پر سود کا خاتمہ ہو جائے گا لہٰذا شرعی عدالت کے اختیارات کے حوالے سے اس چیپٹر کو اور اس شق کو جب آپس میں ملا کر آپ پڑھیں گے تو آپ بتائیں کہ سود کا خاتمہ ہو گیا یا نہیں ہوگا؟ کل جب کورٹ میں کیس آئے گا تو اٹارنی جنرل پیش ہوگا نا تو اٹارنی جنرل اپنے آئین کے خلاف بات کرے گا؟ وہاں پر لاء منسٹر پیش ہوگا تو وہ کیا اپنے آئین کے خلاف بات کرے گا؟ اس طریقے سے سود کے نظام کے خاتمے کو مستقل طور پر جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ بس اتنا ہے کہ یہ میدان ذرا حوصلہ چاہتا ہے جذباتی ہو کر تو آدمی بندوق کی طرف جاتا ہے نا تو یا اِدھر یا اُدھر، مشکل تو یہ ہے کہ یہاں صبر و تحمل سے کام لینا پڑتا ہے، تدبر اور احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔
بنیادی چیز یہ ہے کہ نظریے کو زندہ رکھنا ہے نظریہ زندہ رہے گا تو ایک وقت آئے گا جب آپ کو مواقع ملیں گے اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات آتی تھی ایوان میں پیش ہو جاتی تھی اور اس کے بعد متعلقہ کمیٹی کے پاس چلی جاتی تھی اور وہاں ڈمپ ہوتی جاتی تھی اور آج کا پتہ نہیں کتنے کمرے بھرے ہوئے ہوں گے ان سے، کوئی پابندی نہیں تھی کہ پارلیمنٹ اس پر بحث بھی کرے گی، اب چونکہ اصولاً آئین کی رو سے بھی اور ہر لحاظ سے بہرحال قانون ساز ادارہ اسمبلی ہی ہے یہ اختیار ہم اسمبلیوں سے نہیں چھین سکتے لیکن آئین پارلیمنٹ کو پابند کرتا ہے اسمبلیوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں کریں گے اور ہر قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی لہٰذا ان سفارشات کو ڈیبیٹ کے لیے تو پیش کرو! تو اب دستور میں لازم قرار دیا گیا ہے کہ ان سفارشات پر باقاعدہ بحث ہوگی جب بحث ہوگی تو ظاہر ہے کہ یا تو اتفاق رائے ہو جائے گا اور یا اختلاف ہوگا تو ایک فریق کہے گا کہ قانون سازی کرو قرآن و سنت کے مطابق یہ ہے، جہاں پر اکثریت پابند ہو جائے کہ وہ قرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں کر سکے گا اور جہاں پر اکثریت پابند ہو جائے کہ وہ قرآن و سنت کے تابع قانون سازی کرے گا اس جمہوریت کو کفر نہیں کہا جا سکتا، ہاں آپ سمجھتے ہوں گے عمل کدھر ہیں؟ تو مسلمان اگر دین پر عمل نہ کرے تو کافر ہو جاتا ہے؟ کافر تو پھر بھی نہیں ہے، کلمہ گو تو کہا جائے گا جنازہ تو پھر بھی پڑھا جائے اس کا، تو اس لحاظ سے فتوے بازیاں جو ہیں وہ جذباتی لوگوں کا کام ہوتا ہے، جو صبر نہیں کر سکتے، جو تحمل نہیں کر سکتے، تنگ نظر ہوتے ہیں، مشتعل مزاج ہوتے ہیں اور پھر ہمارے وہ حضرات جو صرف حجروں کے اندر صرف اور صرف تدریس سے وابستہ ہوتے ہیں اور فتوے پوری دنیا پہ دے رہے ہوتے ہیں، فتویٰ دینے کے لیے بھی عام ماحول بین الاقوامی ماحول کو سمجھنا پڑتا ہے جی۔
میرے بھائیو لوگوں کو شعور دو، سیاسی شعور دو، حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ تہجد گزار آدمی بھی اگر لوگوں کو سیاسی شعور نہیں دے گا تو تہجد تو دور کی بات ہے پانچ وقت کی نماز بھی لوگوں کو نصیب نہیں ہوگی، وہ دین سے لا تعلق ہو جائیں گے، ان پہلوؤں پر ہمیں نظر رکھنی ہے، یہ کس کی ڈیوٹی ہے؟ یہ آپ حضرات کی ڈیوٹی ہے، جمعیۃ علماء اسلام کا رکن بننے کے بعد یہ آپ کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے اور مسلسل قوم کو ایک شعور دینا پڑتا ہے، سو یہ ملک بھی ہمارا ہے، یہ آئین بھی ہمارا ہے، یہ نظام بھی ہمارا ہے، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے حضرات تو کہتے ہیں کہ یہ ووٹ دینا یہ بیعت ہے، بیعت بلاواسطہ بھی ہوتی ہے اور بیعت بالواسطہ بھی ہوتی ہے، جہاں صدارتی طرز حکومت ہو وہاں صدر مملکت کو براہ راست ووٹ دیا جاتا ہے اور جہاں پارلیمانی طرز حکومت ہو وہاں بوساطت قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے صدر بھی بنتا ہے وزیراعظم بھی بنتا ہے۔ اب بیعت جیسا ایک مقدس فریضہ لوگ ووٹ ایک کینڈیڈیٹ کو دیتے ہیں بکسہ کھلتا ہے تو کسی اور کے لیے کھلتا ہے، ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ہے مہینہ بھی نہیں ہوا ہوگا اس کا شاید، بلوچستان کے ہمارے ایک حلقے میں ہمارے ساتھی نے اپیل کی ہوئی تھی کہ بھئی یہ نتیجہ غلط ہے میں کامیاب ہوں اور یہ حلقہ دوبارہ اس کو ویریفائی کیا جائے از سر نو ووٹ چیک کئیں جائیں کہ واقعی ووٹ صحیح پڑے ہیں یا نہیں، نادرا نے ووٹوں کی تفتیش شروع کی اور جتنا انہوں نے تفتیش کی باقاعدہ لکھا کہ صرف دو فیصد ووٹ صحیح نکلے اور باقی ووٹوں کا ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا کہاں سے آئے ہیں، 98 فیصد ووٹ جو ہیں اس کا پتہ نہیں چلا کہ کہاں سے آئے ہیں ہم سب دو فیصد ووٹوں کی تصدیق کر سکے ہیں۔ یہ ہے آپ کا الیکشن، فخر کرتے ہو ہم نے الیکشن جیت لیا ہم نے الیکشن ہار دیا، ابھی کل الیکشن ہوا ہے گزشتہ کل ایک حلقے میں 15 پولنگ اسٹیشنوں کا، 15 پولنگ اسٹیشنوں کا الیکشن ہوا ہے اور پہلے بھی ہمارے ساتھی کا دعویٰ تھا کہ میں جیتا ہوا ہوں، فارم 45 جو پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ ہے وہ یہ ہے اور میں ڈھائی ہزار ووٹوں سے جیت رہا ہوں، کل کے 15 پولنگ اسٹیشنوں میں تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فارم 45 پڑھیں سب پر جمعیۃ کا کنڈیڈیٹ جیتا ہوا ہے اور 47 میں اُن کو جتوا دیا، میں نے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا میں نے کہا صاحب وہاں پر ہمارے صوبائی امیر ہیں اور ہمارے کامران مرتضیٰ صاحب ہیں باہر کھڑے ہیں ان کو آپ اندر جانے دیں تاکہ آر او ڈی آر او سے ملے، بالآخر ان کو جانے دیا گیا لیکن اندر نہ ڈی آر او ملا نہ آر او ملا ڈپٹی کمشنر جو اس وقت نہ آر او تھا نہ ڈی آر او تھا اس نے اسے ریسیو کیا دفتر میں بٹھایا چائے پلائی اور چائے پلانے کے بعد باہر لا کر کہا کہ اس دیوار پر آپ دیکھیں دیوار کو دیکھو دیوار کو دیکھو تو وہ 47 فارم چپکا ہوا تھا اس کے اوپر چسپاں اس کو پڑھ کر انہوں نے کہا جی یہ تو نتیجہ ہمارے خلاف ہے لیکن ہمارے پاس تو یہ فارم ہے اس نے کہا بس ٹھیک ہے آپ جائیں بس مہربانی جی ہو گیا، یہ آپ کا الیکشن ہے جی! اب اس الیکشن کو ہم تسلیم کریں؟ آپ کے اپنے اس خیبر پختونخواہ کے صوبے کا الیکشن یہ فارم 47 کا ہے جھوٹا الیکشن ہے اور جھوٹی حکومت یہاں بیٹھی ہوئی ہے، کہاں جائیں؟ کس سے انصاف طلب کریں؟
ملٹری کورٹس کے حوالے سے ایک دفعہ مجھے ایک بڑے بزرگ نے بڑے غصے میں کہا مولانا صاحب آپ کیا چاہتے ہیں یہ 9 مئی ایک بار پھر 9 مئی ہو پھر دوبارہ 9 مئی ہو پھر سہ بار 9 مئی ہوں یہ ہوتے رہیں اور آپ ملٹری کورٹس کی مخالفت کر رہے ہیں؟ میں نے کہا اچھا یہ 9 مئی اتنا بڑا واقعہ اتنا بڑا واقعہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس کے بدلے میں صوبے کی حکومت بطور انعام کی آپ نے ان کو حوالے کر دیا! صرف جمعیۃ علماء اسلام کو پیچھے دھکیلنے کے لیے، جمعیۃ نے آپ کو نقصان کیا دیا ہے؟ جمعیۃ نے ملک کو نقصان کیا دیا ہے؟ جس کی برکت سے پورے ملک کے تمام مکاتب فکر کا مذہبی طبقہ آج پاکستان کے آئین کے ساتھ کھڑا ہے، ان کو آپ پیچھے دکھیل رہے ہیں، ہر بات پر آپ کہتے ہیں جی امریکہ کی مداخلت ابھی قرارداد پاس کی اسمبلی میں امریکہ کی مداخلت غیر ملکی مداخلت کو ہم نہیں مانتے، ادھر یہ قرارداد پاس کی ادھر صدر مملکت نے ایک اعتراض بھیجا ہمارے اس سوسائٹیز ایکٹ والے قانون پہ کہ جی اس میں تو ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف ناراض ہو سکتے ہیں، او کمبختو میں نے کہا پرسوں تم نے قرارداد پاس کی ہے کہ ہم بین الاقوامی مداخلت نہیں مانتے جی اور امریکہ کے بارے میں کیا ہے اور امریکہ کے اس بات پہ کی ہے جب پی ٹی آئی کے حق میں انہوں نے وہاں اسمبلی میں کوئی قرارداد پاس کی تھی، اسمبلی کی قرارداد ایک عوامی چیز ہوتی ہے وہ سرکاری حیثیت نہیں رکھتی، وہ حکومت کا موقف نہیں ہوا کرتا، تب بھی آپ نے کہا کہ بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور یہاں تو آپ بین الاقوامی اداروں کے حوالے سے ہمیں ڈرا رہے ہیں، ہمیں بلیک میل کرتے ہو، ہم نے کہا آئین سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی ہے اب یہ ایکٹ بن چکا ہے، صدر صاحب نے ایک اعتراض بھیجنا ہے 21 اکتوبر 2024 کو ان کے پاس ایکٹ گیا اس نے اس دن اس پہ دستخط کرنے تھے سب پہ دستخط ہو گئے سوائے مدارس والے ایکٹ پہ اور 28 تاریخ کو یعنی 28 اکتوبر کو انہوں نے ایک اعتراض بھیجا، اب دس دن کے اندر ایک اعتراض کا اس کو حق ہے وہ 28 کو بھیج دیا اس کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ بھی موصول ہو چکا تھا 28 کو اعتراض لگانے کا معنی یہ ہے کہ آپ کو ریسیو ہو چکا ہے اب اس پر اسپیکر نے آپ کو جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل فلانا اور رولز کے آرٹیکل فلانے کے تحت یہ لفظی غلطی ہے جس کی اصلاح کر کے میں بھیج رہا ہوں اور سینٹ کے چیئرمین نے بھی دستخط کیے اور صدر نے کوئی اعتراض نہیں کیا خاموش، نہ یہ کہا کہ جوائنٹ سیشن بلاؤ نہ یہ کہا کہ یہ میری تسلی کے لیے کافی نہیں ہے، نہ اس پر کوئی پریس کیا اس کو، نہ اس پہ کوئی زور دیا اس نے اور پھر جا کر 13 نومبر کو آٹھ اعتراضات بنا کر بھیجتا ہے آٹھ اعتراضات، بھئی پہلے تو آپ کو دوسرے اعتراض کا حق نہیں ہے پھر اگر دوسرے اعتراض کا حق ہے تو دس دن کے اندر ہے آپ تو 13 نومبر تک جا رہے ہیں آپ اتنی تاخیر کے ساتھ آپ کو حق نہیں پہنچتا آئینی لحاظ سے اب انہوں نے کہا نہیں، وزیر صاحب نے اسمبلی میں کہا جائنٹ سیشن ہونا چاہیے تھا میں نے کہا ہونا چاہیے تھا یہ آپ کا کام نہیں ہے، ہونا چاہیے تھا یہ صدر مملکت کا کام ہے کیونکہ وہ پارٹ آف دی پارلیمنٹ ہے اور یہ رابطہ پارلیمنٹ اور صدر کے درمیان ہوگا وزارت بھیج میں کیسے بول رہی ہے؟ اس پر اسپیکر بات کریں کیونکہ یہ کرسپانڈنس ان کی جو ہے وہ اسپیکر کے ساتھ ہوا کرتی ہے اور جو ادارہ آخر میں قانون پاس کرتا ہے صدر مملکت کے ساتھ اور پریزیڈنسی کے ساتھ وہی رابطے میں رہتا ہے تو قانون قومی اسمبلی میں آخر میں پاس ہوا تو اس کا فرض تھا کہ وہ رابطے میں رہتا جی، تو اس نے نہ زور دیا نہ پوچھا ہے نہ تمہیں میں نے وکیل بنایا خود بخود وکیل بنتے ہو جائنٹ سیشن ہونا چاہیے تھا اس پہ ڈیبیٹ ہو سکتی ہے، میں نے کہا کوئی ڈیبیٹ نہیں ہو سکتی ڈیبیٹ تب ہوتی ہے اگر وہ اعتراض کرتا، جب وہاں سے کوئی اعتراض نہیں آیا پھر اس کے بعد ایک میٹنگ ہوئی اس میٹنگ میں ایک اور دلیل پیش کی وکیل صاحبان آپ ذرا سوچیں اس دلیل کو آپ کو بھی پتہ چل جائے گا کہ آپ نے کیا قانون پڑھا ہے کہتے ہیں صاحب وہ جو آپ کہتے ہیں نا یہ آٹھ اعتراضات وقت کے بعد آئے ہیں وہ آٹھ اعتراضات دراصل وہ پہلے اعتراض کی کنٹینیوٹی (تسلسل) تھی اب میں نے کہا یہ کنٹینیوٹی اس کا کوئی آئینی حوالہ کوئی رولز کا حوالہ کوئی قانون کا حوالہ کہاں سے کنٹینیوٹی آپ نے نکال لی ہے کوئی حوالہ ہے آپ کے پاس اور میں نے کہا نہیں یہ آپ سیاسی لوگ ہیں! اس طرح کی روایات آپ قائم کریں گے! آج اگر ایک اعتراض کے بعد دوسرا کنٹینیوٹی ہے اور یہ مثال اور نظیر قائم ہو گئی تو پھر آپ کے لیے گلے پڑے گی یہ کہ پھر اس کے بعد تیسرا بھی کنٹینیوٹی ہوگا چوتھا بھی کنٹینیوٹی ہوگا پانچواں بھی کنٹینیوٹی ہوگا اور اس آئین کی دھجیاں اڑ جائی گی اس حوالے سے تو، تو انہوں نے کہا جی آپ کی بات میں وزن ہے ہم اپنی بات چھوڑ رہے ہیں، چھوڑنی پڑے گی آپ کے پاس ہے کیا؟ ایکٹ بن چکا ہے، انہوں نے کہا جی اس ایکٹ میں ہم ایک ترمیم شامل کرنا چاہتے ہیں میں نے کہا ترمیم بعد میں لائیں گے پہلی اس کی گزٹ کرو، پہلے اس کا گزٹ کرو یہ ایکٹ ہو چکا ہے، تب جا کر ہم نے اس کو گزٹ پہ آمادہ کیا گزٹ ہوا اس کے بعد ایک تاریخ کے فاصلے سے انہوں نے آرڈیننس جاری کیا کیونکہ اسمبلی تو ہے نہیں، اب آرڈیننس میں انہوں نے حضرت پھر گڑبڑ کی وہ جو محنت ہم نے کی تھی اس پر پانی پھیر دیا تھا انہوں نے، ہمارے پاس آئی میں نے کہا نہیں مانتا واپس کرو اس کو، یعنی ایسی ایسی چیزیں ہمارے پاس آتی تھیں کہ بخدا انگلیوں سے پکڑنے کی تو دور کی بات چمٹی سے بھی پکڑ کے قابل نہیں ہوتی تھی اور یہ ہمارے انٹلیکچول تھے، کہاں سے یہ چیزیں آتی تھی؟ کیوں آتی تھی ہمارے پاس؟ ہم نے کہا جو مدارس سرکار کے وزارت تعلیم کے تحت ہے ان مدارس میں بچے ہی پڑھتے ہیں ہم ان کی تعلیم ضائع نہیں کرنے دیں گے بادل ناخواستہ ہر چند کے غلط ہیں اگر کوئی مدرسہ وہاں رجسٹرڈ ہونا چاہتا ہے بسم اللہ لیکن سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، اب آپ مولوی صاحبان بھی تو سادھے لوگ ہیں نا مولوی صاحبان کو کہا گیا یہ تو تعلیمی ادارے ہیں تو وزارت تعلیم سے ہی وہ نسبت بنتی ہے، او میں نے کہا یہ تو چلو مدرسہ ہوا تعلیمی ادارہ ہوا ایک شخص کارخانہ بنا رہا ہے ایک شخص ہسپتال بنا رہا ہے ایک شخص کوئی اور ادارہ پرائیویٹ بنا رہا ہے تو وہ پھر اپنے اپنے محکموں کے ساتھ رجسٹرڈ ہوگا؟ یہ تو 1860 میں اسی لیے صنعت و حرفت کے اندر ایک ادارہ بنایا گیا سوسائٹیز ایکٹ کے لیے کہ جو بھی پرائیویٹ ادارہ ہوگا چاہے کارخانہ ہو چاہے این جی او ہو چاہے ہسپتال ہو چاہے ایدھی والے ہوں چاہے مدرسے والے ہوں یہیں پر رجسٹرڈ ہوں گی تاکہ چیزیں جو ہیں وہ حکومت کے نوٹس میں رہیں بس ایک ڈاکخانہ تھا اور ڈاکخانے میں چیز پڑی ہوتی تھی اس میں سرکار مداخلت نہیں کرتی تھی پرائیویٹ کاموں میں جی، پرائیویٹ ادارے خود قانون کا لحاظ رکھتے تھے اور اس کے تحت جتنے ان کی ذمہ داری ہوتی تھی وہ اس کا رپورٹ پیش کرتے تھے مالی رپورٹ اور ہمارے ساتھ مدارس کے حوالے سے 2004 میں ایک قانون بنا تھا اس میں تین باتوں پہ اتفاق ہوا تھا مدرسے کا مالیاتی نظام کیا ہوگا، مدرسے کا تعلیمی نصاب کیا ہوگا، مدرسے کا انتظامی ڈھانچہ کیا ہوگا، ان تین چیزوں پہ اتفاق کے بعد کہا کہ جاؤ قانون سازی کرو قانون سازی ہو گئی، صوبوں سے بھی ہو گئی، پھر کہاں سے آیا تعلیمی بورڈ؟ اور وہ بھی کوئی ایکٹ نہیں کوئی قانون نہیں ایک معاہدہ ہے، معاہدے پہ دستخط دونوں طرف کے ہیں لیکن یہ جو مدرسوں کو توڑ دیا گیا بورڈوں کو تقسیم کیا گیا اور 10 پانچ سے 15 15 20 20 بنا دی گئی یہ تو اس میں ایک بھی شریک نہیں تھا اس میں تو صرف پانچ بورڈ شریک تھے تم تو تھے ہی نہیں اس میں تمہارے تو دستخط ہی نہیں ہے، تو اس معاہدے کے اندر کیا لکھا ہوا ہے ذرا وہ بھی پڑھ لینا، اس میں لکھا ہوا ہے کہ مدارس جس کی بھی رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ بحال ہو گی، نئی رجسٹریشن ہوگی تو اتنے عرصے کے اندر اندر کرنی ہوگی، بینک اکاؤنٹس سب کے کھول دیے جائیں گے، غیر ملکی طلبہ اگر پڑھنا چاہیں گے تو 9 سال کا ویزہ اس کو دیا جائے گا، اب تنظیمات مدارس دینیہ مدارس نے اس پر دستخط کئیں، تنظیمات مدارس سے وابستہ کسی ایک مدرسے کی نہ رجسٹریشن بحال ہوئی، نہ نئی رجسٹریشن ہوئی، نہ آج تک اس کا بینک اکاؤنٹ کسی مدرسے کا کھلا، نہ کسی ایک غیر ملکی طالب علم کو ویزہ ملا، تو معاہدے کی خلافت بھی ہو گئی یا نہیں؟ تو اگر آپ کے مدرسوں میں انہوں نے کسی کو ویزہ دیا ہو یا کسی کا بینک اکاؤنٹ کھولا ہو وہ ہمارے مدرسوں کو بلیک میل کرنے کے لیے تھا! معاہدے کی خلاف ورزی بھی کرتے ہو بلیک میل بھی کرتے ہو اپنے مدرسوں کے ذریعے سے! ہم تو پھر بھی کہتے ہیں اگر کوئی وہاں رجسٹرڈ ہونا چاہے تو جائے، تو یہ چیز اس حد تک انہوں نے پیچیدہ بنانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے ہمیں ہمت دی اور ہم نے الحمدللہ اس پر کام کیا اور اس میں ہم جیتے ہیں۔
میرے محترم دوستو یہ ایک پارلیمانی ایک جدوجہد ہے یہ جاری تھی جاری رہے گی ان شاءاللہ العزیز اور مدرسے بھی اسی طرح رہیں گے یہ پہلا مدرسہ 1866 میں بنا ہے، 1866 سے لے کر پورے برصغیر کے محلے محلے میں اس کی جال بچی ہوئی ہے، یہ ہماری سوسائٹی کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے مدرسے کا طالب علم کالج میں بھی پڑھتا ہے یونیورسٹی میں بھی پڑھتا ہے امتحان بھی دیتا ہے اور میرے مدرسے کے طالب علم نے آپ کی یونیورسٹی میں اور آپ کے بورڈ میں امتحان دیا ہے اور نمبر ون بھی وہ آیا ہے نمبر ٹو بھی وہ آیا ہے نمبر تھری بھی وہ آیا ہے، تینوں پوزیشنیں ہم نے لی ہیں، آپ بتائیں تمہارے کتنے بچے ہیں ہمارے مدرسوں کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ ہم نے تو جدید علوم پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں وہ کاشتکاری کرتے تھے اب کاشتکاری زراعت ایک علم ہے، نوح علیہ السلام جو ہیں وہ لکڑی کا کام جانتے تھے، داوٗد علیہ السلام لوہے کا کام جانتے تھے، یوسف علیہ السلام ریاضی کا فن جانتے تھے، سلیمان علیہ السلام بادشاہ گری کا فن جانتے تھے، اب یہ تمام انبیاء کے کام ہے قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ہم ان علوم کا کیسے انکار کریں گے کس بنیاد پر انکار کریں گے؟ تو میں تو علم کی تقسیم کا ہی خلاف ہوں کہ یہ عصری علوم اور دینی علوم اور دنیاوی علوم اور سب علم علم ہے، قرآن نے کہیں تقسیم نہیں کی وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَّهَا سب چیزوں کا علم انسان کو عطا کیا ہے اور سب کو علم کہا گیا یہ تو انگریز نے تقسیم کی ہے علی گڑھ مدرسے کا نصاب تبدیل کیا اس نے قرآن نکالا حدیث نکالا فقہ نکالی فارسی زبان نکالی عربی زبان نکال دی اور ان کو تحفظ دینے کے لیے دوسرے مدرسے پھر قائم کرنے پڑیں۔ پاکستان بن گیا تب بھی آپ نے ہماری درخواست نہیں مانی کہ اب تو نہ انگریز ہے نہ ہندو ہے آؤ نصاب ایک کرتے ہیں تاکہ سب بچے ہمارے یکساں پڑھتے رہیں، یہ بیوروکریسی نہیں مانی، یہ اسٹیبلشمنٹ نہیں مانی، آج کس کے کہنے پر تم یہ خوبصورت خوبصورت معصوم معصوم الفاظ سے ہمیں ورغلا رہے ہو؟ ہم تو مین سٹریم میں لانا چاہتے ہیں، کس مین سٹریم میں جی؟ اپنے جو تمہارے کالج یونیورسٹیوں کے اندر ڈگری ہولڈرز ہیں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اپنی ڈگریاں بغل میں لیے ہوئے کھڑے ہیں بے روزگار ان کو تو روزگار دے نہیں سکتے ہمیں روزگار کا لالچ دیتے ہو، ہم بتائیں گے آپ کو پشاور کا دارالعلوم الاسلامیہ جب آپ کے ہاتھ میں آیا تو اسلامیہ کالج بن گیا اور آج اس کی کوئی مذہبی شناخت نہیں ہے بس اسلامیہ کالج جو تمہارے ہاتھ میں آیا، جامعہ عباسیہ بہاولپور جس میں مولانا شمس الحق افغانی پڑھایا کرتے تھے جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث وہاں پڑھایا کرتے تھے آج وہ عباسیہ کالج ہے کسی قسم کے مذہبی دینی شناخت وہاں نہیں ہے، اوکاڑہ میں ایک سکول تھا سرکاری ہو گیا آج اس کا نام و نشان نہیں ہے، سندھ میں دو مدرسے ہمارے نوٹس میں ہیں جب وہ مدرسے سرکار کے ہاتھ میں آئے ایک ہائی سکول بن گیا ایک کالج بن گیا، تو اب تک جو آپ کے ہاتھ میں کوئی دینی مدرسہ آیا ہے اس کی تو شناخت ہی آپ نے ختم کر دی سارے مدرسے کیسے آپ کے حوالے کریں! اور میں ایک بات اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں ہم آج اس وقت 21ویں صدی اسی گزر رہے ہیں، اس اکیسویں صدی کے پیچھے ایک بیسویں صدی ہے اور بیسویں صدی کے پیچھے ایک انیسویں صدی ہے زیادہ آگے نہیں جاتے جی، اگر ہم 19 ویں صدی میں جاتے ہیں برصغیر کی آزادی کی تحریک اور سیاسی قیادت علمائے کرام کے ہاتھ میں تھی مجھے ایک فساد بتاؤ ایک فساد کی مثال بتا دوں یا شیعہ سنی کی یا دیوبندی بریلوی کی یا وہابی وغیرہ کی کوئی ایک جھگڑا پورے بر صغیر میں مذہبی حوالے سے نہیں ہوا، نہ قومیت کی بنیاد پر نہ لسانیت کی بنیاد پر کوئی مثال موجود ہے، بادشاہ اقتدار کی جنگ ضرور لڑتے تھے لیکن کوئی اس قسم کا سوسائٹی کے اندر جنگ نہیں تھی، جب سے پچھلی صدی میں آپ نے اقتدار سنبھالا آج تک فساد سے ہماری جان نہیں چھوٹ رہی، تباہی و بربادی کر دی ہے، ہماری خون ہے کہ تھم نہیں رہا، فرقہ واریت کی بنیاد پر لڑائی ہمارے اندر، لسانیت کی لڑائیاں ہمارے اندر، قومیتوں کی لڑائیاں ہمارے اندر، صوبائیت کی لڑائیاں ہمارے اندر، وسائل پر جھگڑے ہمارے اندر، تمام فسادات اس کے بعد شروع ہوئے ہیں جب علماء کی قیادت کو تم نے دیوار سے لگایا اور پیچھے دھکیلا جی، اگر مغرب کو مذہب سے شکوہ ہے تو اپنے مذہب سے کرے نا مجھ سے کیوں کرتا ہے! نئی ایجادات سائنسی ترقی نئے انکشافات ظہور پذیر ہوئے تو تمہارے کلیسا نے اور کلیسا کے اندر بیٹھے ہوئے تمہارے پوپو نے تم پر کفر کے فتوے لگائے ہیں، یہ کہنا نہیں باتیں آگئی یہ تو کفر ہے یہ تو کفر ہے یہ تنگ نظری تمہارے مذہبی قیادت نے دی ہے ہماری مذہبی قیادت نے کوئی ایسی تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا، آج اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مولوی صاحب نے 100 سال پہلے یہ فتویٰ دیا تھا آج یہ کہہ رہا ہے تو اس میں مولوی کا کیا گناہ ہے فتوے کا کیا گناہ ہے مولوی سائنسدان تو نہیں ہے آپ کی سائنسی تحقیق آئی آپ کی جدید تعلیم آئی نئے تجربات آئے وہ آپ نے قوم اور معاشرے کے سامنے رکھے مولوی صاحب نے قرآن و سنت کی نظر میں اس کو دیکھا تو جائز ناجائز کا فتوی دیا، آج آپ کی سائنس میں تبدیلی آئی آپ کی ایجادات میں ترقی آئی آپ کے نظریے میں ترقی آئی آپ نے نئی تھیوری پیش کی اس نئی تھیوری کو پھر علمائے کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا اس میں تبدیلی پائی تو اس کے رائے میں بھی تبدیلی آگئی، تو آپ کے نظریے اور تحقیق میں تبدیلی پہلے آئی ہے میں نے تو اس کی بنیاد پر پھر اپنا فتویٰ تبدیل کیا ہے علماء کرام تو جو چیز سامنے آتی ہے اس کی بیناد پہ رائے بناتے ہیں کہ قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں رکھتی جی لیکن مجھے طعنہ دے رہے ہو اور اپنی تحقیق نہیں رو رہے ہو! کبھی کہتے ہو زمین ساکن ہے، کبھی کہتے ہو آسمان ساکن ہے، کبھی کہتے ہو سورج متحرک ہے، کبھی کہتے ہو چاند متحرک ہے، کبھی کہتے ہو زمین متحرک ہے نہ تمہارا نظریہ ایک جگہ ٹھہرتا ہے تو اس زمانے میں آپ نے جو فلسفہ دیا ہمارے علماء نے اس طرح کی کتابیں لکھی آج اگر نئی صورتحال میں تمام ستارے متحرک ہیں اور وہ اپنے اپنے دائروں میں گھوم رہے ہیں اور دن رات کے فرق آرہے ہیں تو ہم نے اسی کو تسلیم کیا، میں اگر مہینے کا حساب لگاتا ہوں قمری حساب سے کہ میرا روزہ تب آئے گا میرا عید تب آئے گا میرا حج فلاں مہینے میں آئے گا لیکن میرا دن جو ہے وہ تو سارا سورج کی گرد گھوم رہا ہوتا ہے میرا فجر جو ہے وہ سورج کے ساتھ تابع ہے صبح کی نماز سورج کے ساتھ ہے ظہر کی نماز سورج کے ساتھ ہے عصر کی نماز سورج کے ساتھ ہے مغرب کی نماز ہے اور اسی طریقے سے دنیا جدھر جاتی ہے اسی کے مطابق اوقات بدلتے رہتے ہیں، تمہیں نے تو قمری کا بھی انکار نہیں کیا میں نے تو شمسی کا بھی انکار نہیں کیا میں تو دونوں کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں، میرا عرفات اگر 9 ذی الحج کو ہے تو میرا عرفات تو سورج کے غروب کے ساتھ ختم ہوتا ہے، تو ایک ہے دن میں میں شمسی کا بھی تابعدار ہوں اور میں قمری کا بھی تابعدار ہوں دونوں اللہ نے پیدا کیے ہوئے ہیں دونوں کا حساب شریعت میں موجود ہے، یہ بھی تو ہم نے نہیں طے کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود طے کیا ہمارے لیے شریعت کی حیثیت رکھتی ہے، تو یہ ساری چیزیں ہمیں اپنی اپنی جگہ پر مدنظر رکھنی چاہیے اور ہمیں اپنی جدوجہد تیز کرنی چاہیے لوگوں کے اندر جائز شعور پیدا کریں خدا کے لیے، ایسا شعور نہ پیدا کریں کہ اگر ڈی چوک پر وفاق کی حکومت تشدد کرتی ہے تو وہ تو تشدد ہے لیکن اگر یہاں پر بلدیاتی اداروں کے ملازمین مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کو مار اور ان پر شیلنگ کرو وہ جائز ہو جاتا ہے، ہم نے تو وہاں بھی احتجاج کیا ہم اس پہ بھی احتجاج کرتے ہیں دونوں کو ایک ترازو میں رکھو، دھاندلی میرے حق میں ہوئی اس پہ بھی احتجاج ہونا چاہیے کیوں مجھے غلط نتیجے دے دیے گئے! تو جمہوریت کو بھی ٹھیک کرنا ہے، اپنے جمہوریت کے راستے سے دین اسلام کے راستے بھی کھولنے ہیں، اعتماد بھی بحال کرنا ہے، دنیا کو سمجھنا ہے، آج یقین جانیے امریکہ کو اور مغربی دنیا کو سیاسی مولوی قبول نہیں، ان کا بھی یہ خیال ہے کہ بندوق والا مولوی اسلام کو تباہ کر رہا ہے وہ بہانہ بنتا ہے کہ وہ جس مدرسے میں جائے گا وہ مدرسہ بھی تباہ ہوگا جس مسجد میں جائے گا وہ مسجد بھی تباہ ہوگا لیکن سیاسی مولوی نے مدرسے کو بھی بچا لیا مسجد کو بھی بچا لیا مولوی کو بھی بچا لیا پگڑی بچایا داڑھی کو بھی بچا لیا ہے یہ برا لگتا ہے اس کو جی، تو ان شاءاللہ العزیز ہمارا منہج صحیح ہے، ہمارے ہاتھ میں جو امانت ہے اس کو قابو رکھنا ہے اور پرامن طریقے سے ان شاءاللہ آگے بڑھنا ہے اور فتوحات حاصل کرنی ہے، کب تک تم یہ راستے اختیار کرتے رہو گے، کب تک یہ طریقے چلتے رہیں گے، یہ طاقت کے زور پر نتیجے تبدیل کرنا، الیکشن تبدیل کرنا یہ چیزیں نہیں چلیں گی ایک دن آئے گا کہ پھر تمہارا انجام بھی حسینہ واجد والا ہو جائے گا۔ تو نہ اپنا انجام حسینہ واجد والا کرو اور نہ بشار الاسد والا کرو! ہم بڑے اچھے انداز کے ساتھ جا رہے ہیں آپ کے ساتھ جی۔ تو اللہ تعالی ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہم ایک سنجیدہ جماعت ہیں سنجیدہ اصول کو دیکھتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں، اللہ تعالی ہمیں خلوص نصیب فرمائے، ہمارے صفوں میں اللہ تعالی وحدت ہمیں نصیب فرمائے۔ اختتامی دعا۔
ضبط تحریر: #محمدریاض