ائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعۃ العلوم الاسلامیہ سوہان میں درس بخاری اور طلباء سے خطاب

قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کا جامعۃ العلوم الاسلامیہ سوہان میں درس بخاری اور طلباء سے خطاب

18 دسمبر 2024

الحمدلله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلی یوم الدین اما بعد فاعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم بسم الله الرحمٰن الرحیم
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا۔ صدق الله العظیم

بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَنَضَعُ المَوَازِينَ القِسْطَ لِيَوْمِ القِيَامَةِ [الأنبياء: 47]، وَأَنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ وَقَوْلَهُمْ يُوزَنُ

وقال مجاھد القسطاس العدل بالرومیة
ویقال القسط مصدر المقسط و ھو العادل
واما القاسط فھوالجائر
وبالسند المتصل قال الامام الھمام امیر المومنین فی الحدیث محمد بن اسمعیل بن ابراہیم بن المغیرة بن البرجزبة
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ

حضرات اساتذہ کرام، طلبہ عزیز،! یہاں آپ کی خدمت میں حاضری دینا میری بھی بہت پرانی خواہش تھی اور حضرت مولانا عبدالغفار صاحب دامت برکاتہم وہ بھی بار بار ملتے تو اصرار کرتے اور دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی کا مصداق رہے ہیں۔ تو اللہ تعالی نے آج توفیق دی، ہر چند کہ میں بروقت تو نہیں آسکا کچھ تاخیر ضرور ہوئی اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ اور مغرب میں وقت بھی کم رہ گیا ہے تو جو کام آپ نے میرے حوالے کیا ہے تو اس میں اس کی گنجائش بھی نہیں ہے کہ تفصیل سے کوئی بات کی جا سکے۔ دیکھیے نماز جنازہ جو ہے وہ فرض ہے لیکن چوں کہ کفایہ ہے۔ تو فرض عین کے بعد ہی ہوگا لیکن سنتوں سے پھر بھی پہلے ہوگا۔ یہاں ہم مستحبات کے لیے فرض کیسے موخر کریں گے۔ بہر حال یہ ہمارے دینی مدارس کی ایک خصوصیت ہے کہ ان مدارس نے امت کو قرآن و حدیث سے وابستہ رکھا ہے اور پھر فقہائے کرام نے قرآن و سنت سے جو استنباط کیا ہے جسے ہم علوم فقہ کہتے ہیں اس سے بھی انہی مدارس میں امت کو برابر کیا اور امت کی رہنمائی کی۔ تو اللّٰہ تعالیٰ ان خدمات کو جاری و ساری رکھے ہر چند کہ ہر طرف سے اس کے اوپر حملے ہو رہے ہیں لیکن اللّٰہ محافظ ہے۔ ان شاءاللہ اللہ حفاظت کرے گا۔

امام بخاری نے بھی کتاب کا آغاز کتاب الوحی سے کیا ہے۔ کتاب الوحی سے ابتدا میں کچھ باتوں کی طرف تنبیہات ہیں۔

سب سے پہلے تو وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تشکیل حیات انسانی کا دارو مدار وحی پر ہے۔ اور ہر چند کے انسان تمام حیوانات کے مقابلے میں ممتاز ہے، اس حوالے سے کہ اللہ نے اس کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے۔ اور عقل سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے ۔ لیکن ہر چند کہ یہ عظیم الشان نعمت ہے پر وہ رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے۔ تو عقل کو بھی وحی کی روشنی چاہیے۔ جس طرح ایک بینا آدمی اپنی بھرپور بینائی کے ساتھ اگر اس کو خارجی روشنی نہ دی جائے، رات کی تاریکی ہو، بجلی بند ہو جائے کوئی روشنی کا انتظام نہ ہو تو بینائی کی پوری قوت کے باوجود بھی انسان کو کچھ نظر نہیں آتا اور یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اگر چلے تو بھٹک جائے۔ تو اسی طریقے سے ہر چند کہ عقل بہت بڑی طاقت بھی ہے لیکن وہ خارجی اثرات سے متاثر ہوتی ہے۔
محبت کا غلبہ ہو جائے تو عقل مغلوب،
غصب کا غلبہ ہو جائے تو عقل مغلوب، آدمی وہ وہ حرکتیں کر جاتا ہے کہ بعد میں سوچتا ہے کہ یہ کیا ہوا؟

شہوانی خواہشات کا غلبہ ہو جائے تو عقل مغلوب، تو چونکہ عقل میں خطا و انحراف کا امکان موجود ہوتا ہے تو اللہ تعالی نے ہمیں وحی کے رہنمائی سے نوازا۔ جس میں خطا و انحراف کا کوئی امکان موجود نہیں۔
پھر اپنی کتاب کا آغاز جس حدیث باب کے ساتھ کیا
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا
کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ یعنی نیت کے بغیر عمل کی کوئی قیمت نہیں اور آخر میں فرما دیا کہ اعمال تولے جائیں گے تو پھر جب اعمال کا دارومدار نیت پر ہے تو پھر نیت بھی تولی جائے گی۔ جتنا خلوص نیت زیادہ ہوگا اتنا ہی عمل کا وزن زیادہ ہوگا۔ جتنا خلوص نیت میں کمی ہوگی اسی طرح اعمال کے وزن میں بھی کمی آئے گی۔

تو یہ ایک سبق ہم طلباء کے لیے بھی ہیں کہ ہم جب گھروں سے نکلے، دور کا سفر کیا، مدرسے میں آئے، استادوں کے سامنے زانوئے تلمذ بچھائے اور گھر کی روٹی، گھر کا کھانا، ماں باپ کی محبت، رشتہ داروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا وہ ساری لذتیں چھوڑ دی ہم نے، تو پھر ہمیں یہ علوم حاصل کرنے کے لیے بھی نیت جو ہے وہ بڑی صاف رکھنی چاہیے اور تقرب الی اللہ بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ اسی لیے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ صحیح بخاری میں کتاب الوحی بمنزلہ مقدمہ کے ہے اور اصل ابتداء کتاب الایمان سے ہے۔ سو کتاب کی ابتداء بھی عقیدے کے بیان سے اور کتاب کی انتہاء بھی عقیدے کے بیان سے کہ وہاں کتاب التوحید اور ابتداء میں عنوان کتاب الایمان رکھا اور آخر میں عنوان کتاب التوحید رکھا۔ فرق صرف ایجاب و سلب کا ہے کہ کتاب الایمان میں ایمان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ ایجابی پہلو ہے یعنی ایمان آئے گا تو آپ کے اندر یہ ہونا چاہیے، یہ ہونا چاہیے اور آخر میں جو کتاب التوحید ہے وہاں رد ہے کہ اگر آپ کے اندر یہ ہو تو ایمان کی نفی ہوگی، یہ ہوگا تو ایمان کے لیے نقصان ہوگا تو دونوں پہلوؤں کو انہوں نے اول اور آخر میں لا کر بتا دیا کہ تمام اعمال جو اس بخاری شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں وہ سب کے سب ایمان اس کا دارومدار ہے اگر ایمان ہے تو یہ اعمال قبول اور اگر ایمان نہیں ہے تو قبول نہیں۔ تو بالکل بھی ایمان نہیں تب بھی اعمال کا وزن کچھ بھی نہیں ہوگا اور ہم نے غلط عقائد اپنالیے اس خیال سے کہ ہم مسلمان بھی ہیں اور گمراہی و ضلالت پر مبنی ہم نے عقائد اپنالیے تو بھی نقصان کا باعث ہے۔
تو اس اعتبار سے آخر میں فرمایا کہ وَنَضَعُ المَوَازِينَ القِسْطَ لِيَوْمِ القِيَامَةِ
“ہم تولیں گے، یعنی وازن (وزن کرنے والا) اللہ ہے۔ اور پھر ہمارے حضرات نے تو اپنے مزے کے طور پر بہت چیزیں شمار کی ہیں رسول اللہ بھی ہوں گے اور جبرائیل بھی ہوں گے اور حضرت آدم بھی ہوں گے

و نضع سے جمع کرکے سارے۔ لیکن اصل نسبت اللہ کے اپنی ذات کی طرف ہے کہ اللہ حساب لے گا کیونکہ إنَّما الأعمالُ بالنِّيَّاتِ

میں خلوص نیت سے تقرب الی اللہ مقصود ہے اور پھر اس میں اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔

الموازین جمع ہے میزان کی، مصدر ہے وزن، مثال واوی ہے، تو میوزان تھا واو ساکن ما قبل او مکسور آں را بہ ی بدل کردن میزان شد،

تو موازین جمع ہے میزان کی جیسے کہ مواعید جمع ہے میعاد کی اور یا یہ جمع ہے موزون کی، جیسے مشاہیر جمع ہے مشہور کی،
وَ أَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازينُهُ
یہاں موازین جمع ہے موزون کی، موزونات تولے جائیں گے۔
تو جو موزونات ہلکے ہو گئے یا موزونات بھاری ہوگئے
فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ
تو دونوں کا اجر اللّٰہ رب العالمین نے فرما دیا ہے۔
القسط قسط صفت ہے موازین کی اور ہم نے تو نحو کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ صفت اور موصوف کے درمیان مناسبت ہوتی ہے اگر موصوف جمع ہے تو صفت بھی جمع اگر موصوف تثنیہ ہے تو صفت بھی تثنیہ ہے اگر موصوف مفرد ہے تو صفت بھی مفرد تو ہم یہاں پر مضاف مقدر لائیں گے ونضع الموازین ذوات القسط
اور اگر ہم مضاف مقدر نہ بھی لائے تب بھی قسط مصدر ہے اور مصدر میں مفرد اور تثنیہ جمع برابر ہوتے ہیں۔ میزان قسط، میزانان قسط، موازین قسط،
ليوم القيامة قیامت کے دن تولیں گے ہم، رکھیں گے ہم ترازو عدل کے قیامت کے دن، تو یا تو یہاں پر لیوم القیامة میں لام زائد ہے یعنی نضع الموازین القسط یوم القیامة
اور یا “ل” تعلیل کے لیے ہے نضع الموازین القسط لحساب یوم القیامة
اور یا توقیت کے لیے ہے نضع الموازین القسط لوقت یوم القیامة ای وقت یوم القیامة۔
وأن اعمال بنی ادم وقولھم توزن
اگر یوزن پڑھا جائے گا تو بااعتبار اقرب کے ہوگا کہ قولھم یوزن
اور اگر توزن پڑھا جائے گا تو پھر نسبت اعمال کی طرف ہوگی اور بہت سی روایات میں اعمال اور اقوال دونوں جمع سے آئے ہیں۔ تو انسان کے اعمال اور ان کے اقوال تولے جائیں گے یہ رد ہے معتزلہ پہ، کہ معتزلہ کہتے ہیں کہ اعمال و اقوال اعراض ہیں، والأعراض لاتوزن

لیکن اگر متقدمین کا جواب سنیں تو وہ تو یہی کہیں گے کہ آخرت میں یہ جو اعراض ہیں اجساد بن جائیں گے۔ تو سوال نہ رہا۔

اور آج کے زمانے میں تو بداہتا باطل ہو گیا یہ نظریہ کہ اب حرارت ایک عرض ہے لیکن بخار ہو جائے تو تھرما میٹر بتا دیتا ہے کہ اتنا بخار ہے۔ گرمی اور سردی میں موسمیات والے بتا دیتے ہیں آج درجہ حرارت اتنا ہے اور آج درجہ حرارت اتنا ہے۔ رفتار عرض ہے لیکن آپ کی گاڑیوں میں میٹر لگا ہوا ہے آپ کو بتاتا ہے کہ اس وقت اپ اس رفتار سے جا رہے ہیں۔

تو اس اعتبار سے اب تو یہ نظریہ اور عقیدہ بداہتا باطل ہو گیا ہے نئے ایجادات، انکشافات و تجربات کی بنیاد پر۔
وقال مجاھد: القسطاس العدل بالرومیة
قرآت میں دونوں روایتیں ہیں
القسطاس (بکسرالقاف) اور القسطاس (بضم القاف)
امام بخاری کی یہ عادت ہے کہ ترجمۃ الباب میں وہ جو لفظ لاتے ہیں اگر اس مادے سے قران کریم میں کوئی دوسرا لفظ بھی موجود ہو تو اس کو بھی ترجمہ الباب میں کہیں ذکر کر لیتے ہیں تو القسطاس العدل بالرومیة

بمعنی عدل کے ہیں رومی زبان میں، یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ بعد میں معرب ہو گیا ہے اور تعریب کی بعد پھر وہ عجمی لفظ نہیں کہلایا جاتا ورنہ سوال یہی پیدا ہوگا کہ اللہ تعالی نے تو قران کو عربی میں نازل کیا ہے تو عربی کلام میں پھر ایک لفظ کا عجمی ہونا تو اللہ قادر تھا کہ وہ بھی عربی میں لے اتا، تو ظاہر ہے کہ جب ایک دفعہ ایک لفظ عجمی ہو اور عربی میں منتقل ہو جائے تو پھر وہ عربی ہی ہو گیا یا یہ کہ مترادف ہوں اور توارد ہو اس میں کہ ایک ہی لفظ ہے وہ عربی میں بھی ہے اور ایک ہی لفظ ہے جو رومی زبان میں بھی ہے، جیسے صابن ہے ہم بھی صابن کہتے ہیں عربی میں بھی صابن کہتے ہیں، پشتو میں بھی صابن ہے اردو میں بھی صابن ہے فارسی میں بھی صابن ہے اور ہر ایک کہتا ہے ہمارے اپنی زبان کا لفظ ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم عربی زبان میں ہے اس سے مراد اسلوب کلام ہے اور جب اسلوب کلام عربی میں ہو تو ایک کلمہ دون کلمہ اگر عجمیہ بھی ہو تو وہ اسلوب کلام کو متاثر نہیں کرتی لہذا قران کریم کا جو مقام اعجاز ہے اس مقام اعجاز میں کوئی فرق نہیں آتا، اس کی فصاحت میں بھی، اس کی بلاغت میں بھی، قرآن کی فصاحت ہو یا بلاغت وہ مقام اعجاز پر فائز ہے اور اس کی عربیت وہ فصاحت و بلاغت کے بلند مقام پر ہے اس سے اعلیٰ اور بلند مقام اور نہیں ہے۔

سو ایک آدھا لفظ اگر عجمی کا بھی اللہ تعالی نے عربی بنا کر عربی میں شامل کر دیا تو چونکہ اسلوب متاثر نہیں ہوتا تو اس لیے اس کے فصاحت و بلاغت اور اس کے اعجاز میں بھی کوئی فرق نہیں آتا۔
ویقال القسط مصدر المقسط
قسط مصدر ہے مقسط کا اور قسط ثلاثی مجرد ہے اور مقسط یہ ثلاثی مزید فیہ ہے، اقساط سے ہے تو ہم کہیں گے مصدر مصدر المقسط
مادہ تو پھر بھی ق س ط ہے۔
وامالقاسط فھو الجائر
اور قاسط اگر ثلاثی مجرد سے ہو تو بمعنی جور کے بھی آتے ہیں قسط
وامالقاسطون فکانوا لجھنم حطبا
تو وہاں قسط جور کے معنی میں ہے۔

تو میرے خیال میں اتنا کافی ہے۔ سب تین دفعہ پڑھ لیں کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم
اللہم صلی علی سیدنا مولانا محمد وعلی آلہ وبارک وسلم اجازت ہے سب کو لیکن ہمارے اکابر کی تشریحات کے مطابق اگر اس سے آگے پیچھے ہوا تو پھر اجازت نہیں ہے کیونکہ مجھے بھی اجازت اسی شرط پہ ملی ہے۔

میرے محترم ساتھیو: حدیث سے متعلق تو کچھ باتیں جو مجھ جیسے ایک طالب علم تھوڑی بہت استادوں سے سمجھی سیکھی آپ کی خدمت میں عرض کر دی ہے باقی تو آپ کے اپنے اساتذہ تفصیل سے بتائیں گے اس پر بحث بھی کریں گے۔ تو میں صرف آپ کے ساتھ درس میں شریک ہو رہا تھا تاکہ میں بھی آپ کی طرح طالب علم نظر اؤں، جس طرح طالب علم تکرار نہیں کرتے تو یہ آپس میں ہمارا تکرار کے درجے میں ہے۔ استاد کے درجے میں نہیں ہے۔ اللہ تعالی قبول فرمائے۔

اب یہ وہ علوم ہے کہ جس سے امت کو آگاہ کرنا قرآن و سنت کی روشنی میں امت کی زندگی کو بنانا ہے۔

جب جمعیت علمائے ہند قائم ہوئی 1919 میں تو اس کی تاسیس کے جو وجوہ بیان کیے گئے ہیں اس میں یہی وجہ بیان کی گئی سب سے بڑی کہ شریعت رہنما ہے چاہے انفرادی زندگی میں ہو چاہے اجتماعی اور مملکتی زندگی میں ہو قومی زندگی، ملی زندگی۔ انفرادی زندگی میں تو ایک فرد عالم کی رائے بھی حجت ہو سکتی ہے کسی کو نماز میں کوئی مشکل درپیش اگئی، کسی کو روزے کا مسئلہ ہے، کسی کے نکاح طلاق کا مسئلہ ہے، کسی کی میراث کا مسئلہ ہے تو اپنے قریب کے مولوی کے پاس مسجد میں چلا گیا، مدرسے میں چلا گیا، مفتی صاحب کے پاس چلا گیا اس نے مسئلہ پوچھا انہوں نے مسئلے کا جواب دے دیا اس نے پھر عمل کر دیا کافی۔
لیکن جو امت کے معاملات ہیں، مملکت کے معاملات ہیں اجتماعی اور قومی معاملات ہیں اس میں ایک فرد عالم کی رائے حجت نہیں ہوتی تاوقتیکہ ان کی ایک اجتماعی رائے وجود میں نہ آجائے اور اس اجتماعی رائے سے پوری امت کی رہنمائی کی جائے۔ اسی کا نام شورائیت ہے۔ تو علماء کی ایک شوریٰ ہونی چاہیے، ایک جماعت ہونی چاہیے اور وحی کا دروازہ تو بند ہو چکا ہے لیکن شوریٰ جو ہے وہ تو قیامت تک رہے گا۔ تو اس لحاظ سے علماء کرام کی جماعت بنائی گئی اور اس میں دلیل یہ دی گئی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتا تو میں کتاب اللہ میں اس کا حل تلاش کرتا مجھے کامیابی نہ ہوتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کا حل تلاش کرتا وہاں بھی مجھے کامیابی نہ ہو پاتی تو میں عابدین زاہدین و اہل الرائے کو اکٹھا کرتا اور ان سے رائے لیتا اور ان کی رائے جہاں ٹھہر جاتی میں اس کے مطابق حکم صادر کرتا۔

یہی قول حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے اس اضافے کے ساتھ کہ میں ابوبکر صدیق کے دور میں اس کا حق تلاش کرتا اور کامیاب نہ ہو پاتا۔ یہی قول حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے صرف ایک اضافے کے ساتھ کہ میں حضرت عمر کے زمانے میں حل تلاش کرتا اور کامیاب نہ ہو پاتا۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست فرمایا کہ آپ نے انفرادی فیصلے سے امت کے فیصلے نہیں کرنا جس کا معنی یہ ہے کہ جماعت کی ضرورت ہے۔ اب ایسی با صلاحیت جماعت جو علماء کی ہو اور جو شریعت کے حوالے سے امت کو رہنمائی دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہ علماء کس نے پیدا کیے، اس مقام کے علماء کرام اس مدرسے نے پیدا کیے۔ ان کے اندر یہ استعداد اس مدرسے نے ڈالی وہ مدرسہ جس کا پہلا طالب علم محمود حسن تھا اور وہ جمعیت علماء جس کا مؤسس وہی محمود حسن بطور شیخ الہند کے سامنے ائے۔ تو مدرسے کے اساس میں بھی محمود حسن ہے اور جمیعت علماء کی اساس میں بھی محمود حسن ہے تو دونوں مل کر دیوبندی بنو گے نا، ایک کو چھوڑو گے تو دیوبندیت ناقص ہوجائے گی۔

اور پھر تعلیم ہم نے تقسیم نہیں کی سن 1857 سے پہلے اس مدرسے کا نظام نہیں تھا۔ برصغیر سے باہر بھی اس مدرسے کا نظام نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ تو صرف برصغیر میں اور 1857 کے بعد یہ مدرسہ کیوں وجود میں ایا۔ وجہ یہ تھی کہ لارڈ میکالے جو تعلیم کا ذمہ دار تھا انگریز حکومت کا اور سب سے پہلے علی گڑھ میں ایک مدرسہ قائم ہوا سکول قائم ہوا اس کا جو نصاب تعلیم بنایا گیا اس میں نہ قرآن کا ذکر اس میں نہ حدیث کا ذکر اس میں نہ فقہ کا ذکر نہ عربی زبان کا ذکر ہے نہ اس میں فارسی زبان جو یہاں کی سرکاری زبان ہوا کرتی تھی تو ظاہر ہے کہ ان علوم کو بچانے کے لیے پھر ہمیں مدرسہ بنانا پڑا اور دیوبند نے مدرسہ قائم کر دیا۔ انگریز نے سازش کر کے وہ چیز جو امت کے لیے بنی تھی وہ جمعیت علماء جو ہند وستان کے ہر مکتب فکر کے علماء کے اجتماع سے بنی تھی اس میں تفرقے ڈالے۔ فرقہ وارانہ تفرقے ڈال دیے۔ اگر مسائل پر اختلاف ہو گیا اتنا اچھالا اس کو کہ وہ علمی بحث سے آگے نکل گیا ضد اور ہٹ دھرمی تک چلا گیا وہ اور تفریق ہو گئی۔ تو ہمارے پاس اگر مدرسہ ہے تو بھی ہمارے اکابر کا میراث ہے، اس کی امانت ہے اور اگر جمیعت علماء ہے تو وہ بھی ہمارے پاس اپنے اکابر کی امانت ہے اور اس کی میراث ہے۔ اور دونوں کی حفاظت کرنی ہے۔

تو آج مدرسوں پر ضرور ایک مشکل ہے لیکن ان شاءاللہ اللہ ہمیں کامیابی دے گا ان شاءاللہ، اور وہ ناکام و خاسر و خائب ہوں گے اس لیے کہ ان کا مؤقف کمزور ہے اصولی لحاظ سے بھی کمزور ہے اور ابھی جو مسئلہ کھڑا ہوا ہے آئین اور قانونی اس میں بھی ان کا موقف کمزور ہے۔ اور پھر علماء کو لڑا رہے ہیں اپس میں، بھئی علماء آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم مختلف

مکاتب فکر کو اپنے ساتھ ملائے ہوئے ہیں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ میں تو پھر اپنے مسلک کے علماء سے ہم لڑیں۔ لیکن اصل دشمن کو تلاش کرنا ہے کہ ہمارے درمیان تفریق کون ڈال رہا ہے اور کس نے ڈالی ہے اور آج پھر کون اس کے لیے محرک بن رہا ہے۔ ظاہر ہے اس قسم کے لوگ ہمارے لباس میں ہوتے ہیں ہماری شکل میں ہوتے ہیں۔ اور جب حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان نے ورغلایا تو قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں وقاسمھما انی لکما لمن النصحین

تو ان ہی کی لباس میں انہی کا خیر خواہ بن کر قسم کھائی اپنی خیر خواہی پر اور کیا کر دیا۔ تو حضرت آدم کی اولاد بھی موجود ہے اور اس شیطان کی اولاد بھی موجود ہے۔ اس کی بھی اپنے آبا و اجداد ہے اور تاریخ رکھتا ہے اور اس کی بھی اپنے آباؤ اجداد ہے اور تاریخ رکھتے ہیں۔

تو ان شاءاللہ العزیز اپ کی دعائیں رہیں گی ان شاءاللہ، ہر نماز کے بعد دعا کریں، تہجد میں اٹھتے ہیں طلباء تو دعا کریں کہ اللہ تعالی ہمیں فتح نصیب فرمائے، ہمیں کامیابی نصیب فرمائے اور اس ماحول کی اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے حفاظت فرمائے۔ ہم یقیناً اس قابل لوگ نہیں ہیں ہزار تقصیرات سے بھرے ہوئے لیکن بہرحال تمام تر تقصیرات کے باوجود ہم اللہ تعالی کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس سے مدد مانگتے ہیں کہ الٰه العالمین ہماری مدد فرما اور ہمارے خطاؤں کو معاف کر دے۔

وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

 

Facebook Comments